ایک دوسرے کی پگڑیاں مت اچھالیں

محمد عامر فاروق ملک

ایک دوسرے کی پگڑیاں مت اچھالیں

محمد عامر فاروق ملک

ہم ایک مسلمان قوم ہیں۔ ہمارے عقائد دوسرے مذاہب سے مختلف ہیں۔ ہمارا رہن سہن ہر مذہب ہر قوم سے مختلف ہے۔ ہم ایک خدا کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں اور اس کے پیغمبرﷺ پر ایمان لاتے ہیں۔ بیشک، ہم مختلف انداز سے (ہاتھ باند کے یا ہاتھ چھوڑ کے) اپنے رب بزرگ و برتر کے سامنے جھکتے ہیں لیکن جھکتے تو سب اس کے سامنے ہی ہیں نا ں اور ہمارا رومانس تو اسی کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر بندے کا اپنے رب سے رومانس علیحدہ قسم کا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر بندہ خدا کے سامنے خود جواب دہ ہے اور کوئی کسی کی سفارش نہیں کر پائے گا سوائے محمدﷺ کے۔بس اس رب کو یا اس کے حبیبﷺکو یہ کوئی سروکار نہیں کہ آیا تم پنجابی ہو، سرائیکی ہو،پٹھان ہو، سندھی ہو یا بلوچی۔ تو اگر ہم ان جملوں کو ملحوظ خاطر رکھ لیں تو کم از کم ہم مذہبی اور لسانی منافرت پر قابو پا سکتے ہیں۔
اس پوری تمہید باندھنے کا مقصداس بات کی طرف آپ کو لانا ہے جو آجکل سرائیکی پنجابی تفریق کا باعث بن رہی ہے۔میں کافی عرصہ سے یہ جنگ(لڑائی) ،روزنامہ خبریں کے توسط سے پڑھ رہا ہوں، میرے لیے اسلم اکرم زئی اور ظہور دھریجہ دونوں بڑے سنئیر اور قابل احترام ہیں اور میں ان تمام لوگوں کی بھی عزت کرتا ہوں جنہوں نے اس ٹاپک پر قلم آزا مائی کی اور حقائق کی طرف قدم بڑھائے۔میں ایک سرائیکی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور زراعت کا طالب علم ہوں میرا سیاست اور ادب سے تعلق صرف ایک طالب علم جتنا ہی ہے اورجتنی کچھ معلومات تک رسائی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہمارے معاشرے(خطے) کے حق میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان کو معرض وجود میں آئے انہتر’ستر سال ہو چکے ہیں اور پھر بھی ہم لوکل اور مہاجر کا خیال لے کے گھوم رہے ہیں اس کا مطلب تو سیدھا سیدھا یہ نکلتا ہے کہ ہم نے کبھی پاکستان کو اپنا سمجھا ہی نہی اور نہ ہی اس کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ پاکستان بنانے کا مقصد ہی ہم آج تک نہیں سمجھ سکے اور ہم بجائے ایک دوسرے کو ساتھ لے کے چلنے کے ایک دوسرے کو حقیر سمجھنے لگ گئے ہیں اور ہم محمد عربیﷺ کے اس ارشاد پاک کو بھی بھول چکے جس پر انہوںﷺ نے مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنا دیا تھا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لاہور کے حکمران ہوں یا جنوبی پنجاب کے سیاستدان دونوں نے مل کے اس خطے کا استحصال کیا ہے کیونکہ ان کا مقصد صرف ووٹ مانگنا ، اقتدار کے مزے لوٹنے اور لوٹ مار کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور ان کے استحصال کی وجہ سے دونوں خطوں کے لو گوں میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اور نفرتیں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں۔جنوبی پنجاب میںِ، علیحدہ صوبے کی تحریک میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت نہ جانے کس خواب غفلت کا شکار ہے جو ابھی تک اس ٹاپک کو گول کر رہی ہے۔ کچھ لوگ بیرونی فنڈنگ کا طبلہ بجا کے لوگوں کے درمیان نفرت کا پرچار کرنے کی کوشش کر رہے یہ حکومت اس پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے بجائے اس معاملے کو سلجھانے کے اس کو مزید ہوا دی جا رہی ہے۔
اگر اصل حقائق کی طرف آئیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ اصل میں یہ ڈرامہ کیوں رچایا جا رہا ہے اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں، بات اصل یہ ہے کے تخت لاہور گورنمنٹ جب بھی کوئی حقوق کی آواز اٹھتی دیکھتی ہے تو لوگوں میں ایسی لابنگ کا سہارا لیتی ہے جس سے لوگوں کے درمیان نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور جس سے لوگ آپس میں لڑ کے سب کچھ برباد کر بیٹھتے ہیں یہاں کے وڈیرے بھی اس کام میں پیش پیش ہیں کیونکہ ان کی اولادیں بھی لاہور یا اسلام آباد میں پڑھتی یا بیرون ملک اور ان کے گھر بھی تو انھی علاقوں میں ہیں اس لیے ان کو اس خطے سے کوئی سروکار نہیں بس ان کو تو صرف ووٹ چاہیے اور صرف ووٹ۔ اور آ پس میں لڑتے یہاں کے قلم نگار ظہور دھریجہ اور اسلم اکرم زئی ۔یہ ہرگز نہیں ہے کہ اپر پنجاب میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں لیکن بنیادی سہولیات کا فرق ضرور ہے وہاں کے لوگوں کو بھی ہم نے روتے دیکھا ہے۔اگر یہی تمام سہولیات اگر گورنمنٹ ان علاقوں میں بہم پہنچا دے تو ساری لڑائی ہی ختم ہو جائے۔یہ کہاں کا اصول ہے کہ صادق آباد کے غرباء دس گھنٹے کا سفر کر کے اپنا چھوٹا سا ایشو لاہور جا کر حل کروائیں اور آج کے دور میں لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں وہ کہاں اتنا پیسہ لگائیں
آخر میں، میں صرف یہ کہنہ چاہتا ہوں کہ ہم سب کب ہوش کے ناخن لیں گے کب ہم پٹھان، پنجابی ،سرائیکی ،بلوچی، سندھی کے چکر سے نکل کے ٖ صرف پاکستانی بنیں گے اور پاکستانیت کا پرچار کر پائیں گے کیا ہم نہیں جانتے کہ اس وقت وطن عزیز کس دورا ہے پر کھڑا ہے کس طرح اس پاک سر زمیں کو ناپاک دشمنوں نے گھیر رکھا ہے ہمارا ازلی دشمن بھارت کس طرح ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کے طرح طرح کے جتن کر رہا ہے کس طرح امریکہ کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھ رہا ہے اور ہم یہاں تو گندا میں گندے والا کھیل کھیل رہے ہیں اور ایک دوسرے کی پگڑ یاں اچھالنے میں لگے ہیں ہم کب سدھریں گے کب تک ہم ایک دوسرے کو را کا ایجنٹ گردانتے پھریں گے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ان سب باتوں کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ایک بات کان کھول کے اچھی طرح پلے باندھ لیں پاکستان اگر ہے تو ہم ہیں پاکستان نہیں تو ہم کچھ بھی نہیں اور نہ ہی پھر ہماری کوئی شناخت ہے۔
۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد۔