محمدی بیگم:اردو کی پہلی خاتون مدیرہ

محمدی بیگم : اردو کی پہلی خاتون مدیرہ

از، ڈاکٹر تہمینہ عباس
خواتین کے اردو رسائل کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس بات کا ادراک ہوگا کہ خواتین کا پہلا رسالہ ’’رفیق نسواں‘‘ تھا جو 5مارچ 1884ء میں لکھنؤ سے جاری ہوا۔ یہ رسالہ عیسائی مشنری کے تحت شائع ہوا کرتا تھا۔ خواتین کا دوسرا رسالہ ’’اخبار النساء‘‘ تھا جو مشہور لغت نویس اور فرہنگِ آصفیہ کے مصنف سید احمد دہلوی نے یکم اگست 1884ء کو دہلی سے جاری کیا۔
’’اخبار النساء‘‘ تین سو پچاس کی معمولی تعداد میں، ایک ماہ میں تین بار شائع ہوتا تھا۔ ’’اخبار النساء‘‘ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکا۔ پیسہ اخبار لاہور کے مشہور ادیب اور صحافی منشی محبوب عالم نے بھی یکم ستمبر 1893ء کو ’’شریف بیبیاں‘‘ کے نام سے خواتین کا ایک رسالہ جاری کیا۔ مگر معاشرے کی عام ناراضگی کی وجہ سے جلد ہی یہ رسالہ بھی بند ہوگیا۔
ایسا معاشرہ اور ایسے حالات کہ جہاں خواتین کے رسائل کو سخت مزاحمت کا سامنا ہو وہاں ایک خاتون کی زیر ادارت، خواتین کے رسالے کا اجراء کرنا اور اسے جاری رکھنا (ایک دیوانے کا خواب) ہوسکتا تھا۔ مگر سید ممتاز علی (1860 ء تا 1835ء) اس خواب کو سچ کر دکھایا۔ وہ ایک مصنف، پبلشر، مدیر اور سرسید تحریک سے متاثر تھے۔ انھوں نے لاہور سے خواتین کا ایک رسالہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور اس رسالے کا نام ’’تہذیب نسواں‘‘ رکھا۔ اس رسالے کی نوعیت سرسید کے مشہور رسالے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جیسی تھی۔ سید ممتاز علی نے اس رسالے کی ایڈیٹر اپنی دوسری بیوی محمدی بیگم کو بنایا۔ ممتاز علی اور محمدی بیگم خواتین میں علم حاصل کرنے کا شعور پیدا کرنا چاہتے تھے۔
ساتھ ہی دونوں میاں بیوی کی یہ خواہش بھی تھی کہ اس رسالے (تہذیب نسواں) کے ذریعے خواتین کی اصلاح اور ذہنی تربیت بھی ہوجائے۔
’تہذیب نسواں‘‘ خواتین کا پہلا ہفتہ وار میگزین ضرور تھا مگر پہلا رسالہ نہیں تھا یہ رسالہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ اس رسالے کا پہلا شمارہ آٹھ صفحات پر مشتمل تھا۔ جو یکم جولائی 1898ء کو منظر عام پر آیا۔ شروع میں اس رسالے کو معاشرے کی طرف سے سخت قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ممتاز علی نے اس رسالے کی اعزازی کاپیاں مختلف لوگوں کو بھیجیں تو وہ اعزازی کاپیاں کھولے بغیر ،جوابی خطوط کے ساتھ موصول ہوتیں جن میں ممتاز علی اور ان کی اہلیہ کو ’’تہذیب نسواں‘‘ کی اشاعت پر سخت برا بھلا کہا جاتا تھا۔
محمدی بیگم ایک نیک با پردہ مشرقی اور اسلامی ثقافت کے عین مطابق خاتون تھیں اور ان کی تعلیم و تربیت بھی گھر پر ہوئی تھی جبکہ ممتاز علی دیوبند سے فارغ التحصیل تھے جنھوں نے بعد میں سرسید احمد خان کی جدیدیت کو اپنالیا تھاپر عوام کو اس رسالے کے محرکات و مقاصد پر شک تھا ۔ اس رسالے کے خریدنے والوں کی تعداد بہت حوصلہ شکن محض چھیاسٹھ یا ستر تھی حتیٰ کہ تین ماہ بعد یہ رسالہ باقاعدگی سے شائع ہونے لگا۔
’’تہذیب نسواں‘‘ کو جاری کرنے کے ارادے میں ممتاز علی مستحکم رہے اور برصغیر کے متوسط تعلیم یافتہ گھرانوں میں ’’تہذیب نسواں‘‘ نے اپنی جگہ بنانی شروع کردی۔ 1901ء میں ’’تہذیب نسواں‘‘ کو خریدنے والوں کی تعداد 345 تھی، 1902ء میں 417 اور 1903ء میں 428 ہوگئی۔

ممتاز علی اور محمدی بیگم کے انتقال کے بعد اس رسالے کی مدیرہ ممتاز علی کی بیٹی وحیدہ بیگم رہیں۔ پھر ممتاز علی اور محمدی بیگم کے بیٹے امتیاز علی تاج 1935ء میں تہذیب نسواں کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہ رسالہ تقریباً پچاس برس جاری رہا۔ ’’تہذیب نسواں‘‘ کا آخری شمارہ 1949ء میں شائع ہوا۔ ’’تہذیب نسواں‘‘ نے خواتین کو ان کی تعلیم اور حقوق کے بارے میں شعور دینے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ محمدی بیگم اور ان کے رسالے نے اردو ادب میں عطیہ بیگم فیضی، زہرہ بیگم، نذر سجاد حیدر یلدرم جیسی مایہ ناز شخصیات کا اضافہ کیا۔

محمدی بیگم 22 مئی 1878ء کو شاہ پور، پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد احمد شفیع وزیر آبادی، ہائی اسکول وزیر آباد کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ 1897ء میں محمدی بیگم کی شادی سید ممتازعلی سے ہوگئی۔ ان کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہوچکا تھا۔وہ خواتین کے حقوق اور تعلیم کے قائل تھے اور خواتین کے لیے ایک رسالہ نکالنا چاہتے۔ وہ پنجاب کے مشہور دارالاشاعت، رفاع عام پریس اور ایک پرنٹنگ پریس کے مالک تھے۔ بحیثیت مصنف اور ناشر، انھوں نے جلد ہی اس بات کا اندازہ لگالیا کہ محمدی بیگم ایک ماہر مدیرہ بن سکتی ہیں۔

انھوں نے محمدی بیگم کو انگریزی، ہندی، فارسی، عربی، پروف پڑھنے اور حساب کتاب اور ایڈیٹنگ کی تربیت دینا شروع کردی۔ ان تمام امور کے ساتھ ساتھ محمدی بیگم ممتاز علی کی پہلی بیوی کے دو بچوں کی دیکھ بھال بھی کیا کرتی تھیں۔ چند سالوں بعد ’’تہذیب نسواں‘‘ جاری ہوگیا۔

اسی دوران محمدی بیگم کے یہاں، امتیاز علی تاج کی ولادت بھی ہوئی۔ محمدی بیگم امتیاز علی تاج کو تاج پکارا کرتی تھیں اور ان کی تربیت کے لیے اکثر ہاتھ سے کہانیاں اور کتابیں لکھیں۔ انھوں نے امتیاز علی تاج کے لیے لوریاں بھی بڑی تعداد میں لکھیں۔ جو بعد میں ’’خواب راحت‘‘ نامی لوریوں کے مجموعے میں شامل ہوئیں۔ امتیاز علی تاج بعد میں معروف ڈرامہ نگار، محقق، مدیر اور مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر بنے۔

محمدی بیگم کا دوسرا کام، امتیاز پچیسی، امتیاز پھلواری (مضامین اور کہانیاں، ہاتھ سے لکھی ہوئی جو شائع نہ ہوسکیں) آج کل، ادبی ملاقات، پان کی گلوری، تاج پھول، تاج گیت، چندن ہار، حیات اشرف، خانہ داری، رفیق عروس، ریاض پھول، سچے موتی، سگھڑ بیٹی، شریف بیٹی، صفیہ بیگم، علی بابا چالیس چور، نعمت خانہ اور کچھ دوسری کتابیں شامل ہیں۔ محمدی بیگم نے لڑکیوں کے لیے اسکول اور لاہور میں خواتین کے لیے دکان بھی کھولی جہاں خواتین ہی دکاندار اور خواتین ہی خریدار تھیں۔

1905ء میں محمدی بیگم نے رسالہ ’’مشیر مادر‘‘ ماؤں کے لیے جاری کیا۔ جوان کے انتقال کے بعد بند ہوگیا۔ اتنی سخت محنت نے محمدی بیگم کو شدید بیمار کردیا اور ۲ نومبر 1908ء کو صرف تیس سال کی عمر میں محمدی بیگم کا شملہ میں انتقال ہوگیا اور لاہور میں تدفین ہوئی۔