ایک غدار وطن اور محب وطن کا مکالمہ

غدار وطن

ایک غدار وطن اور محب وطن کا مکالمہ

از، ذوالفقار علی

نوٹ: غ سے مراد غدار وطن اور م سے مُراد محب وطن لیا جائے۔

غ: میاں اتنا غُصہ کس بات پے؟
م: بھڑوے تُجھ سے بات کرنا بھی گُناہ ہے۔ میرا تو دل کر رہا ہے تُجھے یہیں پے زندہ گاڑ دوں۔
غ: حضور کیا قصور کیا ہے میں نے؟
م: اُلو کے پٹھے کوئی ایک قصور ہو تو بتاؤں تُجھے
غ: موٹے موٹے الزام ہی بتا دو؟
م: انڈیا کے ایجنٹ سالے
غ: تو کیسے کہہ سکتا ہے؟
م: مُجھے پتا ہے تو کس کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے اور کیا کیا بکتا رہتا ہے
غ: اوہ ۔۔کس کے ساتھ اور کیا بکتا ہوں؟
م: وہی تیرے بابو جو تُجھے انسانی حقوق کا سبق پڑھاتے ہیں۔۔بات کرنے کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور اسلام کے بارے میں اول فول بکتے ہیں
غ: آزادی،اول فول، حقوق تُمہارا مطلب کیا ہے؟
م: ویسے تو تمہیں دنیا جہان کا پتا ہوتا ہے مگر یہاں لگ ایسے رہے ہو جیسے دودھ پیتے بچے ہو
غ: میں تمہاری بات سمجھنا چاہتا ہوں اس لئے بار بار آپ کو زحمت دے رہا ہوں
م: کمینے ہو تُم سب۔۔تُمہیں دریا بُرد کر دینا چاہیے۔۔۔سالو اپنے ہیرو تو دیکھو۔۔عبدالسلام، ملالہ، فیض، عاصمہ، بُھٹو، باچا، بزنجو۔ پتا نہیں اور کس کس کی چوسنی چوستے ہو۔۔
غ: تو تُم انہیں غدار سمجھتے ہو ؟
م: جی الحمدللہ
غ: اور تُمہارے ہیرو کون سے ہیں؟
م: عافیہ صدیقی، اوریا مقبول، ڈاکٹر قدیر، ضیا الحق، عمران خان اور قادری۔۔
غ: قادری کون سے والا؟
م: اوئے احمق مُجھے سارے قادری پسند ہیں ۔۔تیرا اشارہ میں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں تو کیا پوچھنا چاہ رہا ہے۔۔اُس کی قبر پر جا کے دیکھ کتنی رونق لگی ہے۔۔
غ: ہم آپس میں بیٹھ کے تیرے اور میرے ہیروز کے کردار اور اثرات پر کھل کے بات چیت کر سکتے ہیں؟
م: میں تیری لغو باتیں سُننا ہی نہیں چاہتا مُجھے خود پتا ہے کون کیا ہے۔۔اور تو جس کی فنڈنگ پر پلتا ہے تو اُنہی کا ایجنڈا اُگلے گا ۔۔ایجنٹ سالے۔
غ: میری بات کا یقین کرو ہم کسی کے ایجنٹ نہیں ہیں ۔۔ہم اپنی سوچ کو محدود نہیں کر سکتے اسلئے مختلف کرداروں کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔۔ہم غلط کیسے ہیں تُم ہی سمجھا دو۔
م: شراب پیتےہو، چرس پیتے ہو ، لڑکیوں کے ساتھ گھومتے ہو اُن کے ساتھ باتیں کرتے ہو تُم غلط نہیں ہو تو پھر کیا ہو مجھے بتاؤ
غ: سارے تو ایسے نہیں ہیں ویسے یہ ہر کسی کا ذاتی فعل ہو سکتا ہے جس کا جواب ہر کسی نے خود دینا ہے۔
م: ذاتی فعل کے نام پر تُم کیا کیا کرنا چاہتے ہو مُجھے اچھی طرح سے پتا ہے
غ: کیا پتا ہے؟
م: بس میں نے کہا مُجھے پتا ہے
غ: کچھ مُجھے بھی تو پتا چلے تمہیں کیا پتا ہے؟
م: میرا دماغ خراب نہ کرو ورنہ ۔۔۔
غ: ورنہ کیا؟
م: وہی کرونگا جو تُجھ جیسے ٹٹووں سے ہوتا آیا ہے یہاں۔۔
غ: اوہ تو تُم مُجھے دھمکی دے رہے ہو؟
م: اسے خالی دھمکی نہ سمجھو۔۔تیرا تیا پانچہ کروانے میں مُجھے دیر نہیں لگے گی۔۔پوری بھیڑ چڑھ دوڑے گی تُجھ پر گیدڑ کی اولاد
غ: اتنا گالیاں کیوں دے رہے ہو؟ میں نے تو کوئی گالی نہیں دی۔۔
م: اوئے کُتے تیری اتنی اوقات ہے کہ تو مُجھے گالی دے۔۔
غ: ہاں تُم ٹھیک کہتے ہو مگر گالیاں دینا اچھی بات نہیں۔۔
م: تُم جیسوں کو گالیاں دینا بھی ثواب ہے۔۔
غ: کیوں ہم نے تُمہارا کیا بگاڑا ہے آخر؟
م: بکاو مال ہو تُم ۔۔مُلک کا نام بدنام کرتے ہو، لبرلزم کے نام پر فحاشی پھیلاتے ہو، مادر پدر آزاد لوگ۔
غ: ایسا نہیں ہے ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اچھی اور مقامی اقدار کی عزت کرتے ہیں۔۔
م: پتا ہے پتا ہے کتنی عزت کرتے ہو۔۔تمہاری شکل و شباہت سے لگ رہا ہے۔۔بدیسی نسل کی اولاد۔
غ: یار تُم اتنا بد گُمان کیوں ہو؟
م: بدگُمان میں نہیں ہوں مُجھے پکا یقین ہے تُم اس مُلک کو دل سے چاہتے ہی نہیں۔۔اگر اتنے ہی اس مُلک سے تنگ ہو تو باہر جا کے مرو اپنے اپنے پسند کے مُلکوں میں۔۔
غ: دیکھو تُم ساری باتیں بغیر ثبوت اور دلیل کے کر رہے ۔۔میرے جیسے لوگ تو مرتے بھی یہاں پے ہیں اور دفن بھی اسی مٹی میں ہوتے ہیں۔

ذوالفقار علی

م: تُم جہاں بھی مرو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔ویسے بھی تُمہارا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔۔

غ: اتنی نفرت اچھی نہیں ہوتی ہم مل کے ایک دوسرے کی بات سُن کے حالات ٹھیک کر سکتے ہیں۔۔مرنا مارنا، فتوے، الزام اور کردارکُشی سے مسائل بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے ۔۔ماضی سے کچھ سیکھو۔

م: کون سے ماضی سے سیکھیں۔۔تمہارے ڈانڈے جس ماضی سے ملتے ہیں مُجھے پتا ہے تیری آئیڈیالوجی کی جڑیں کہیں اور ہیں اور میری کہیں اور ہیں ۔۔تُم گرگٹ کی طرح حالات کے ساتھ بدل جاتے ہو۔۔میں نہیں بدلتاہم جانتے ہیں ہمارے لئے کیا احکامات ہیں اور اُن پر کس طرح عمل کرنا ہے۔بہتر ہے تُم اپنا راستہ لو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ ورنہ میرا میٹر گھوم گیا تو۔۔۔

غدار وطن نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنا راستہ لیا اور اداس دل کے ساتھ جائے پناہ ڈھونڈنے کیلئے چل پڑا۔ مُحب وطن کی باتوں کا بوجھ اُٹھا کر جب وہ گھر پہنچا تو اُس کی ماں نے اُسے دعائیں دیں اور گھر والے اُس کے گھر لوٹ آنے پر بے حد خوش دکھائی دے رہے تھے۔

اُس نے اپنا ٹی وی آن کیا تو اُس پہ کوئی سرکاری تقریب دکھائی جا رہی تھی اور کانوں میں قومی ترانہ بجنے لگا پاک سر زمین شاد باد۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔