دانش ور کی اصل کمائی ذہنوں میں انقلاب لانا ہے

لکھاری کا نام
منزہ احتشام گوندل

دانش ور کی اصل کمائی ذہنوں میں انقلاب لانا ہے

از، منزہ احتشام گوندل

کچھ عرصہ ہوا ہے ایک مخصوص طبقے میں ایک خاص قسم کی تشویش پیدا ہو چکی ہے۔ یہ مخصوص طبقہ ادیبوں اور دانش وروں کا ہے اور تشویش یہ ہے کہ فی زمانہ ادب کی قرات نہیں رہی۔ سماجی روابط کی برقی سہولیات منظرِ عام پہ آنے کے بعد جہاں ایک شخص کے پاس مواقع کی بہتات ہے، وہیں تشویش بهی زیادہ ہے۔

آج سے ایک یا چند دھائیاں قبل کسی اخبار میں کالم لکهنا بهی بڑے معرکے کا کام تھا۔ اور اخبار کے کالم نگاروں کا بڑا بلند سماجی منصب ہوا کرتا تها۔ خال لوگ کالموں پہ تبصرے لکھتے تھے اور ان کی اشاعت پہ خوشی سے پهولے نہ سماتے۔ یہ بالکل ایسی ہی صورت حال تهی جیسی عید کا جوڑا سلوانے پہ بچپن میں ہوا کرتی تهی۔ رات کو چین سے نیند بهی نہ آتی صبح اٹھ کے نئے کپڑے پہننے ہیں۔

مگر اب صورت حال یک سر بدل رہی ہے یا بدل چکی ہے۔ آج رنگ “رنگ” نہیں رہے، ذائقہ “ذائقہ” نہیں رہا؛ خوش بو “خوش بو” نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ یہ بے برکتی کیوں ہے؟ اور سماجی روابط کی مختلف ایپلی کیشن کی موجودگی اور آسان دست یابی کے با وجود ادیب اور دانش ور کے اندر شناختی بحران کا خوف کیوں ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ دانش وروں کی بہتات ہے اور ادیبوں کے جمگھٹے ہیں۔ اور لکھنے والوں کا یہ ہجوم اصیل اور خالص لکھاریوں کی ذہنی نا آسودگی کی وجہ بن رہا ہے۔ اور سوال اٹھائے جانے ضروری ہیں؛ اور صرف سوال اٹھانا ضروری نہیں، کہیں نہ کہیں ان کے جواب بھی تلاشنے ہوں گے۔ در اصل ہم میں سے ہر لکھنے والا راتوں رات گارشیا مارکیز اور پاولو کوئیلو بننا چاہتا ہے۔

دولت اور شہرت دونوں کا حصول بہت کم وقت میں بہت زیادہ چاہنا اور وہ بھی راست مناہج سے، یہ بہت مشکل امر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بهی ادیب، دانش ور یا مفکر کئی دھائیوں میں صرف گنتی کے قاری پیدا کر سکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی ادیب کی ادبی زندگی چار دھائیاں ہے تو اس کے چالیس قاری ہوں گے۔

اگر کسی کی پچاس سال ہے تو اس کے پچاس؛ اور یہ وہ قاری ہیں جو صحیح معنوں میں کسی ایک لکهنے والے کے قارئین کہے جا سکتے ہیں۔ ان میں بهی جو اس ادیب یا دانش ور کی اصل پہچان بنتے ہیں وہ ایک یا دو ہوتے ہیں۔

یہ وہ حقائق ہیں جو ہمارے دماغوں میں رہنے چاہییں۔ جہاں تک بات ہے کتابیں نہ بکنے کی تشویش کی تو اس کا حل بهی موجود ہے۔ ہم ہش پپیز کا جوتا جب خرید کے لاتے ہیں تو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے پانچ ہزار کا جوتا خریدا ہے اور ہم بڑی برانڈڈ مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔

میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ لوگ گهروں کی تعمیر اور سجاوٹ پہ کروڑوں روپیہ لگاتے ہیں۔ کئی کمرے بنائے جاتے ہیں جن میں سے اکثر کبهی استعمال نہیں ہوتے، جو بالکل غیر ضروری ہوتے ہیں۔ مگر ایسا کبهی نہیں ہوا کہ لمبے چوڑے گهر کے نقشے میں کوئی کمرہ کتابوں کے لیے بهی مخصوص ہوا ہو۔ اس قسم کی حماقتیں صرف یونی ورسٹی پروفیسرز اور سنکی ادباء کے حصے میں ہی آتی ہیں۔ گویا انہوں نے اپنے گهر میں ایک مختصر لائبریری بنا کے پورے معاشرے کا فرضِ کفایہ ادا کر دیا ہے۔

حالاں کہ ایسا نہیں ہے؛ کم از کم کتاب کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ کتاب کو پڑهنے اور پڑھ کے اس سے حَظ اٹهانے کی تربیت بهی ہمارے ہاں عنقا ہے۔ ایک اچهی کتاب کا مطالعہ انسان کو اسی طرح لطف و بہجت سے آشنا کرتا ہے جس طرح حسِ ذائقہ اچهے کهانے سے متمتع ہوتی ہے۔

جس طرح اچهی دهن اور اچهی آواز سماعت کو لذت آشنا کرتی ہے۔ جس طرح اچهی خوش بو شامہ کو راحت دیتی ہے۔ اسی طرح اچهی کتاب سے بهی حظ کشید کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ایسی راحت ہے جو کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ مگر ہمارے ہاں اس کی تربیت نہیں اور اس کی وجہ والدین اور استاد دونوں ہیں۔

جہاں ہم سماجی اور تمدنی سطح پہ کتاب کو ثانوی جگہ دیتے ہیں۔ کتاب کے لیے کمرہ یا الماری بهی اپنے گهر میں رکهنا ضروری نہیں سمجهتے وہیں استاد کا مطمع نظر بهی فقط اچهے نتائج اور نمبر ہیں، تا کہ اس کی ترقیاں نہ رکیں۔ ہم میں سے کتنے فی صد استاد ہیں جو شاگرد کو کتاب سے آشنا کرواتے ہیں۔ اداروں میں موجود لائبریریوں کو تالے لگے ہیں۔

کتابوں کو دیمک چاٹ جاتی ہے مگر انہیں طلباء کے لیے نہیں کهولا جاتا۔ وجہ یہی ہے کہ کتاب کی حیثیت ہمارے دماغوں میں ثانوی ہے۔ بنیادی سطح پر تو ہم لباس، جوتے اور ہسپتال رکهتے ہیں۔ مہنگے ڈاکٹر کے پاس جانا بهی فیشن کا حصہ ہے۔ روز ہوٹل اور بوتیک اور کئی کئی منزلہ ہسپتال بن رہے ہیں اور چل رہے ہیں۔ مگر لاکهوں کے شہر میں چند ہزار کتابوں کی ایک لائبریری بهی ویران پڑی ہوتی ہے۔ مگر وہ جو بڑے بڑے شاپنگ پلازہ اور ہسپتال ہیں، پارلر اور بوتیک ہیں وہاں دن رات تل دهرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔

یہ عوامی بہاؤ ہے جو ہمیشہ ایک طرف بہتا ہے۔ اب دانش ور کو اس بہاؤ سے الگ ہو کے سوچنا ہے۔ اس اپنی قلمی، فکری اور دماغی محنت کو کسی ہسپتال، کالج، بوتیک یا ہوٹل کے ساتھ تقابل میں نہیں دیکهنا؛ بل کہ اس فکری بہاؤ سے ہٹ کر دوسری طرح سے دیکهنا ہے۔ دانش ور کی اصل کمائی یہ ہے کہ اس نے اذہان میں کتنے انقلاب برپا کیے۔ جب آپ یہ سوچنے لگیں گے تو پهر کوئی خدشہ اور وہم نہیں رہے گا۔