گلیلیو کی شہرت : سائنسی سوانح نگاری کے ساقی نے کچھ ملا بھی دیا ہے!

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

گلیلیو کی شہرت : سائنسی سوانح نگاری کے ساقی نے کچھ ملا بھی دیا ہے!

از، یاسر چٹھہ

گلیلیو کا نام لیں تو آپ کے ذہن میں ایک سخت گیر اور جابر سا کلیسا آ جاتا ہے؛ ساتھ ہی ایک ایسی شخصیت کی تصویر ذہن کے نہاں گوشوں میں سے ابھرتی ہے جس نے زمانے کے بہت بڑے سچ اور تقدس کے غلافوں میں لپٹی لغویات کو تہہ و بالا کر دیا تھا۔

آپ خود کو پڑھا لکھا اور با مطالعہ کہہ کر اس موضوع کے متعلق شاید ہی مزید سوچنے کے لیے خود کو روا دار محسوس کرتے ہوں۔ ایسا معاملہ اکیلے آپ کے ساتھ ہی نہیں۔

گلیلیو کی شہرت : سائنسی سوانح نگاری کے ساقی نے کچھ ملا بھی دیا ہے!
گلیلیو

بل کہ اگر آپ کہیں بیٹھے لوگوں سے ایک سوال کریں کہ آج تک کا سب سے عظیم سائنس دان کون ہے، تو جواب بڑا مانوس سا لگے گا۔ سائنس کے علم کی تاریخوں میں گلیلیو کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس ایک شخص میں گویا پورے ایک انقلاب کو سمیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔

ان کی پہچان کسی طور پر بھی آج کی معروف سینما ثقافت میں ایک سپر ہیرو سے کم نہیں ہوتی۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ گلیلیو دانش وری کے سپر ہیرو یا فوق بشر کے درجے پر فائز نظر آتے ہیں۔

یہ طریقۂِ فکر اور اس کی پیش کاری صرف عوامی سطح پر ہی رائج نہیں، بل کہ اہم علمی حلقوں میں بھی یہی چلن سکّۂِ رائج الوقت ہے۔ اس سلسلے میں دورِ حاضر کے اہم سائنس دان سٹیفن ہاکنگ کا یہ بیان بھی اوپری ذکر کردہ باتوں کے عین موافق کسی توانا حوالے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ سٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں:

گلیلیو کے مثل شاید ہی کوئی اور انسان ہو جس نے تنِ تنہا آج کی جدید سائنس کے جنم کی بنیاد رکھی ہو۔

                                    بَہ حوالہ اے بریف ہسٹری آف ٹائم

مشہور و معروف ویب سائٹوں اور کتابوں میں گلیلیو کو با قاعدگی کے ساتھ اور بالاتفاق سائنسی طریقۂِ کار کا بھی موجد سمجھا جاتا ہے اور اسی طور پر انہیں پیش بھی کیا جاتا ہے۔ گلیلیو کے بابت ہی یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلے سائنس دان تھے جو سائنسی میدان میں ریاضیات کا استعمال بَہ رُوئے کار لائے۔ انہی کو سائنس کے اندر ریاضیاتی قانون کے دریافت کنندہ کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے؛ اور اس طرح کی دیگر بہت ساری باتیں گلیلیو سے منسوب کی جاتی ہیں۔ واللہ العالم بالصواب

یہ بیانات اور حوالے جتنے خوش نما لگتے ہیں اتنی ہی ان کی صحت کا معیار قابل سوال و تشکیک ہے؛ اور فی الحققیت اتنے بے دریغ بیانات پر شک کے اچھے خاصے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ گلیلیو کی اس قدر بڑے پیمانے پر شہرت اور اس شہرت کے ساتھ حد سے بڑھے منسلکہ مبالغے تاریخی حقیقت کے طور پر البتہ ثبوت دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

اب آپ اگر کچھ تحقیق کر لیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کے سامنے بَہ دیہی طور پر دو بڑے بڑے اور بنیادی نوعیت کے سوال سر اٹھائے کھڑے ہوجائیں:

1۔ گلیلیو نے فی الحقیقت کیا کارنامے سر انجام دیے؟

2۔ سائنس کے اس فوق بشر ہیرو کی جو شبیہ سازی ہوئی ہے اس شبیہ سازی کی تشکیل کس نے کی ہے؟

گلیلیو کی عمر سنہ 1609 میں 45 برس تھی۔ اس وقت تک زیادہ تر لوگوں کے لیے گلیلیو ایک نا مانوس و نو وراد سے ریاضیات کے شمالی اٹلی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر تھے۔ یہ ایک ایسا پیشہ تھا جس کی سماجی حیثیت و مرتبہ کچھ خاص بلند تر نہیں سمجھا جاتا تھا۔

گلیلیو کی شہرت : سائنسی سوانح نگاری کے ساقی نے کچھ ملا بھی دیا ہے!
گلیلیو مذہبی عدالت کے سامنے

آپ نے کئی برس پہلے گرتے ہوئے اجسام کے متعلق اپنے انتہائی عمدہ تجربات کا مظاہرہ کر لیا تھا، لیکن ابھی ان قوانین کو اچھی طرح سے نکھارا اور تراشا نہیں تھا۔ آپ کی اپنی حلقۂِ احباب میں وجہِ شہرت بہت نفیس قسم کے وائن مشروبات بنانے کے ماہر، ذہین و فطین، فہیم و بذلہ سنج انسان کی تھی۔

انہیں دنوں دوربین کی ایجاد ہوئی تھی۔ گلیلیو کے ہاتھوں کسی طرح ایک دوربین آ گئی۔ آپ نے فلکیاتی مشاہدات کرنے شروع کر دیے۔ یہی مشاہدات آپ کی شہرت کی کا حوالہ بنے۔ گلیلیو کو فوری طور پر احساس ہو گیا تھا کہ خوش قسمتی سے ان کی جیسے کوئی سائنسی لاٹری نکل آئی تھی۔ آپ فی الفور یعنی سِنہ 1610 کے اوائل میں طباعت کی طرف بھاگم بھاگ گئے۔

راتوں رات گلیلیو یورپ کے سب سے معروف ماہر فلکیات کا رتبہ حاصل کر گئے۔ تاہم اس بات کو ذہن میں رکھنا انتہائی اہم ہے کہ اس وقت پورے یورپ میں آپ یک و تنہا دوربینی ماہر فلکیات اور مشاہدۂِ کار نہیں تھے؛ اور جتنی دریافتیں گلیلیو نے سر انجام دیں تھی، وہی دریافتیں آزادانہ طور پر، الگ تھلگ رہتے ہوئے، اور انہیں برسوں میں برطانیہ، جرمنی، حتیٰ کہ خود اٹلی میں بھی باقی کے سائنس دانوں نے بھی کی ہوئی تھیں۔

اس نکتہ کو موجودہ وقت کی غلط العامیت فضا میں پیش کرنے میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوں کہ اگر گلیلیو نے کسی طور پر دوربین کا استعمال بالکل بھی نا کیا ہوتا تو اس سے فلکیات سائنس کی پیش رفتوں کی تاریخ میں کچھ بھی خاص اثر نا پڑا ہوتا۔

اپنی دریافتوں کے طفیل گلیلیو نے میڈیچی فلورنس میں دربار کے نئے فلسفی و ماہر ریاضیات کا درجہ حاصل کر لیا۔ اس وقت کے بعد کی دوربینی دریافتوں اور اپنے سائنسی و علمی مخالفین کو اپنے عوامی مناظروں اور تحریروں کے ذریعے تہہ و بالا کرنے پر ہی ان کی شہرت ک دار و مدار تھا۔

گلیلیو کی شہرت
گلیلیو اپنی دوربین سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے

گلیلیو کی جانب سے کاپرنیکس کے نظریات کا دفاع گلیلیو نے اپنی کتاب Dialogue Concerning the Two Chief World Systems (1632) میں پیش کیا۔

اس دفاع کے نتیجے کے طور پر آپ کو مقدس مذہبی عدالت Inquisition کا سامنا کرنا پڑا جن کی جانب سے آپ کو اپنے گھر پر نظر بند کیا گیا۔ لیکن فہم عامہ کے بالکل بر عکس، اس سب کچھ سے کائنات کے شمس مرکزیت نظریہ کی فتح ممکن نہیں ہوئی تھی۔

ہماری موجودہ معلوم کائنات کو شمس مرکزیت کے ثابت کرنے کا سہرا کسی اور نسبتاً کم معروف جان کیپلر کے سر بندھتا ہے۔ یہ جان کیپلر ایسے تھے جن کے کام کو گلیلیو نے البتہ خود اپنی تصنیف میں بالکل نظر انداز کیا تھا۔

اپنی ساری سائنسی کار گزاریوں میں گلیلیو اکیلے نہیں تھے۔ البتہ ان کی پیش کاری اکثر اس انداز سے کی جاتی ہے کہ جیسے آپ اکیلے تھی؛ بل کہ حق تو یہ ہے کہ بَہ عینہٖ ان کی دوربین کے واسطے سے کی گئی دریافتوں کی طرح آپ کے دیگر بہت سے اور ہم عصر بھی تھے جو انہی امور پر انہیں وقتوں میں مصروفِ کار تھے۔

گلیلیو اس سائنسی سماج اور  گروہ کے اندر محض ایک فرد تھے۔ حتیٰ کہ آپ کا اہم ترین کام یعنی  Discourses and Mathematical Demonstrations Relating to Two New Sciences (1638) بھی اسی وقت میں دوسرے اسی موضوع پر آزادانہ اور غیر وابستہ طور پر کام کرنے والے سائنس دانوں سے گہناتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سلسلے میں فلیمش ریاضی دان سائمن سٹیون اور اور ہالینڈ کے سائنسی فلسفی آئزک بیکمین کا نام بَہ طورِ خاص لیا جا سکتا ہے۔

گلیلیو کو اپنی زندگی ہی میں کافی شہرت حاصل ہو گئی تھی۔ لیکن سترہویں صدی عیسوی میں آپ کی شہرت کا سارا دار و مدار آپ کی فلکیاتی اور دوربینی دریافتوں کے ساتھ مضبوطی سے منسلک ہو گیا۔

آپ کا ہمارے نظامِ شمسی کی شمس مرکزیت کے ثابت کرنے کے سلسلے میں کام و کردار کافی کم تھا۔ با وجود یہ کہ اس صدی کی ایک سرکردہ ماہر سائنسی ابلاغیات، مارین مرسیئن کی جانب سے آپ کے Discourses کی بڑی سطح پر تشہیر کے گلیلیو کے Discourses کا کچھ خاص اثر و نفوذ سامنے نہیں آ پایا۔

آج کل کے زمانے میں اکثر یہ دعویٰ سامنے آتا ہے کہ گلیلیو ایک ایسے دیوہیکل سائنس دان تھے جن کے کندھوں پر نیوٹن سوار ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلیلیو کا نیوٹن کے شاہ کار Principia Mathematica (1687) پر بہت ہی معمولی نوعیت کا اثر ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ گیلیلیو اٹھارہویں صدی عیسوی تک اٹلی سے باہر گم نامیوں کے اندھیروں کی جانب جانا سرکنا شروع ہوچکے تھے۔ لیکن پھر کچھ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ آپ کی جیسی ایک انتہائی اہم حیات نو کا آغاز ہو گیا۔

گلیلیو کی امرتا کا سلسلہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخر سے شروع ہوا۔ اس دورانیے میں سائنسی سوانح عمریاں معروف و مشہور ہوتی گئیں۔ گلیلیو کے لیے یہ دورانیہ بڑا مبارک ثابت ہوا۔ گلیلیو ان سائنسی سوانح عمریاں لکھنے والوں کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ اس کی بڑی اور اہم وجہ یہ تھی کہ آپ کلیسا کے قہر و جبر کا نشانہ جو بنے تھے۔

گلیلیو پر کلیسا کے اس قہر و جبر کے مقہور و مجبور والے پہلو کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ اس کی اہم وجہ شاید انیسویں صدی عیسوی کی مذہب و سائنس کی وہ اساطیری جنگ تھی جس کے نمایاں کرداروں میں امریکی سائنسی تاریخ دان جان ولیم ڈریپر اور اینڈریو ڈکسن وائٹ شامل تھے۔

ان دونوں نے مذہب اور سائنس کی اساطیری جنگ میں مذہب کو جدت و ترقی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ کے طور جذبات سے بھر پُور انداز میں اجاگر کیا۔ انہوں اس خود ساختہ اور خود مرکزیت کے حامل نظریہ کے ذریعے یہ نقطۂِ نظر اجاگر کرنے کی روش آگے بڑھائی کہ مغربی تہذیب اگر آگے بڑھی تھی تو وہ ارتقائی طور پر ازمنہ وسطٰی کی اندھیروں کو ٹھکرا کر اور جدید تنویریت کی تحریک کو اپنا کر ہی آگے بڑھی تھی۔

یہ نقطۂِ نظر مذہبی نظریات کے غلبے کو نظر انداز اور اس کا انکار کرنے کی وسیع تر دانشی فضا کی ہی ایک ضمنی افزائش اور شاخسانہ تھا؛ بالکل اسی نقطۂِ نظر کی دین، جو تحریکِ تنویریت کے دوران یورپ میں پیدا ہوا۔ اسی نقطۂ نظر کو بَہ شمول ٹامس جیفرسن اور بینجیمن فرینکلن بہت سے دیگر با اثر امریکی دانش وروں نے اختیار کر لیا تھا۔

 اس بیانیے میں گلیلیو کے لیے پوری طرح جگہ بنانے کے لیے انہیں ایک ایسے یک و تنہا ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا جو تنِ تنہا کلیسا کے تعصب و جہل کے سامنے کاپرنیکس کے خیالات کا دفاع و مدعا پیش کرتے رہے۔

جان ولیم ڈریپر اور اینڈریو ڈکسن وائٹ نے اس خیالیے کی بھی ترویج و بڑھوتری کی کہ ازمنۂِ وُسطیٰ کے عُلَماء، مذہبی علوم کے زیرِ اثر، دنیا کو چپٹی سمجھے تھے۔ یہ ایک اور جھوٹ ہے جسے آج کل تقریباً ایک بالائے شک و شبہ سچ جتنا مرتبہ حاصل ہو چکا ہے۔

گلیلیو کو کسی ولایتِ سائنس کے مرتبے پر فائز کرنے کی استعانت میں آپ کی نوکیلے اور تیز طرار لفظوں کی تصنیفات آئیں۔ بَہ طورِ سائنس دان آپ کی ذہانت و فطانت عمدہ پایے کی تھی، گو کہ انہیں ان کی واجب و اصل قدر سے بَہ درجہ ہا زیادہ قدر و عزت ملی۔

لیکن آپ  کی سب سے بڑی ہنر مندی لکھنے میں طاق ہونے کی ہنر مندی تھی۔ بَہ طور لکھاری گلیلیو کی ہنر مندی اور چابک دستی پر کوئی سوال اٹھانا محال ہے۔

آپ کی سائنسی تصنیفات فصاحتِ کلام اور فن مباحثہ و مناظرہ کا شاہ کار ہیں؛ پڑھنے میں بہت پُر لطف، معلومات سے بھر پُور اور احساساتِ فرحت سے لب ریز۔

آپ کی سب سے اہم تصنیف Discourses and Mathematical Demonstrations Relating to Two New Sciences (1638) گلیلیو کے اپنے ہاتھوں سے تزئین و آرائش کے مناظر پیش کرتی ہے۔ ان آرائشوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گلیلیو ایک قابل فن کار بھی تھے۔

ان کے مقابلے میان کیپلر اور سٹیون کی تصنیفات بھاری لفظوں کے بوجھ نیچے کراہتی محسوس ہوتی ہیں اور انہیں پڑھنا ذوقِ نفیس پر کثیف محسوس ہوتا ہے؛ انہیں سمجھنا کسی طور بھی آسان نہیں۔

بہ ہر کیف، بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک جب گلیلیو کو دنیا سے پردہ کیے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا، آپ اپنے وکٹورین سوانح نویسوں کی تخلیقات کے کندھوں پر اس معلوم کائنات کے کسی اہم کردار جیسا مقام حاصل کر چکے تھے۔

سو آج ہمیں گلیلیو کو کس نظر سے پرکھنا اور دیکھنا چاہیے؟

آپ یقینی طور پر ایک عمدہ پایے کے تجربی سائنس دان اور فلکیاتی مشاہدۂِ کار تھے؛ ذہین آلات بنانے والے فرد کی قابلیت رکھتے تھے، اور ایک جدت کار نظریہ ساز تھے۔

آپ سترہویں صدی کے صفِ اول کے ایسے تحقیق کاروں اور جدت طرازوں میں سے تھے جنہوں نے جدید سائنس کی افزائش و ترقی میں بھر پُور حصہ لیا۔ لیکن پھر سے کہیں گے، گلیلیو اس اہم کام میں یک و تنہا نہیں تھے۔ آپ ایک ایسے بڑے نفیس و ذہین گروہ میں سے محض ایک فرد کے درجے پر فائز تھے؛ ان افراد میں سے جنہوں نے سائنس کے میدان کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کیا۔

آپ بس گلیلیو کی اساطیری شخصیت کے اوپر سے فوق بشر کی خلعت کو اتاریے جو ان کے گرد بعد کے زمانوں کے سوانح نگاروں نے چُن دی ہوئی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہو آئے گی کہ گلیلیو بابائے کُل اور ہر فن مولا ہر گز نہیں تھے۔ آپ نے سائنسی طریقۂِ کار کی وضعگی اور دریافت نہیں کی۔

آپ ہر گز وہ نہیں تھے جنہوں نے سب سے پہلے ریاضیات کو سائنسی علوم میں برتا، اور نا ہی آپ نے سائنسی علوم کے لیے  ریاضیات کا پہلا قانون دریافت کیا۔ بے شک آپ کے دوربینی مشاہدات بہت شان دار اور عمدہ تھے، پر وہ کسی طور بھی بے مثل نہیں تھے۔

گلیلیو نے بلا شک و شبہ سائنس اور ٹیکنالوجی، ہر دو کی ترویج و ترقی کے لیے اہم خدمات سر انجام دیں۔ مزید یہ کہ اپنے مطالَعے اور تصنیفات کو بہترین اور مثالی انداز و اسلوب میں پیش کیا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ گلیلیو اپنے عہد کے ہم پلہ سائنس دانوں میں سے کسی طور نمایاں ہو سکتے تھے، اگر انہی وقتوں میں جان کیپلر نا ہوتے تو۔

یہ کیپلر ہی تھے، جو ریاضیاتی علوم کے روشن فکر تخیل پرور تھے، اور جنہوں نے مِحوری اشکال اور قوانین حرکت کا استخراج کیا۔ کیپلر کی انہی دریافتوں اور وضعگیوں کی بَہ دولت سیاروں کی حرکت کی تشریحات میں مدد ملتی ہے۔

اگرچہ کیپلر کی عوام الناس میں بَہ قدرے کم شہرت ہے، لیکن آپ نے گلیلیو کی نسبت جدید سائنس کی ترقی میں کہیں زیادہ  حصہ ڈالا۔ ہمیں اگر واقعتاً کسی کو ہیرو کہنا ہو تو کیپلر ہی ہیں جو کسی قدر اس لفظ کے حق دار ہو سکتے ہیں۔

زیادہ محتاط ہو کر اگر بات کرنا ہو تو ہمیں سائنس کو وہی ماننا ہو گا جو یہ اپنی فی الذّات ہوتی ہے، یعنی کہ سائنس ایک ایسی گروہی اور شراکتی سرگرمی ہوتی ہے جس میں اعلیٰ و ارفع اذہان ایک دوسرے کے حاصلات و معلومات پر سوال و نقد کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو نا معلوم کی وادی میں روشنی کے چراغ لے جانے کے لیے مہمیز کرتے ہیں۔


Excerpted and adapted from Galileo’s reputation is more hyperbole than truth – by Thony Christie | Aeon Ideas

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔