باچا خان کی فکر روشن کو گہنانے کی کوشش، از خادم حسین

باچا خان کی فکر روشن کو گہنانے کی کوشش، از خادم حسین
خادم حسین، لکھاری

باچا خان کی فکر روشن کو گہنانے کی کوشش، از خادم حسین

(انگریزی سے ترجمہ: آعمش حسن عسکری برائے ایک روزن)

از خادم حسین

دنیا بھر میں اسکالر اور سیاسی تجزیہ کار جُدا قومیتوں کی دعویدار آوازوں کو دبائے جانے کے مظہر کو سمجھنے کے لیے اینٹونیو گرامچی کے “نظریہ تسلط” (hegemony) اور پالو فرئیر کے “نظریہُ خاموش ثقافت”  سے مدد لیتے ہیں۔ ایسے میں حیرانی نہیں ہوتی کہ جب ایک ایسی تحریک یا گروہ جو ہمیشہ سے ایک متبادل بیانیے کا پرچارک رہا ہو کو بذریعہ تحریر، شعوری یا غیر شعوری طور پر مطعون کیا جائے۔

ایسی تحریروں میں سب سے تازہ تحریر ضیغم خان کی ہے جو کہ 12 جون 2017 کے دی نیوز میں:

ANP and the ghosts of Mashal and Bacha Khan کے عنوان سے چھپی۔

باچا خان کی فکر روشن
ضیغم خان، دی نیوز 12 جون 2017 کو تحریر شدہ زیر تجزیہ مضمون کے مصنف

اس مضمون میں لکھاری نے مائیکل پریسکاٹ کے اُس تصور کو کہ جس کے تحت ایک سماجی عامل اپنے ہی دشمن کے عمل کو دہرانے لگ جاتاہے، کا سہارا لے کر قاری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اب ‘انتہاپسندی’، ‘تشدد پرستی’ اور ‘کرپشن’ عوامی نیشنل پارٹی کے اداراتی ڈھانچے میں سرایت کر چکی ہے، وگرنہ اپنی اصل میں یہ پاکستان کی سب سے لبرل اور ترقی پسند جماعت تھی۔

اس دعوے کی بنیاد مشعال خان کے بیہمانہ قتل کے ذمہ داروں کا کھوج لگانے کے لیے تیار کی گئی رپورٹ میں شامل ایک ملزم کا بیان ہے۔ اس رپورٹ کا پہلا حِصہ فورینزک شواہد پر مبنی ہے جو ہر لحاظ مشعال خان کی بے گناہی ثابت کرتاہے۔

اس رپورٹ کا دوسرا حصہ واقعاتی شواہد (circumstantial evidence) سے متعلق ہے اور بتاتا ہے کہ یہ ایک ایسا قتل تھا جس کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔

رپورٹ کا یہی حصہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس سانحہ میں مختلف سیاسی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی پولیس نے بھی کردار ادا کیا۔

اس رپورٹ کا تیسرا اور سب سے اہم حصہ چند مفروضوں پر مبنی ہے جو بجائے خود ایک ایسے واقعہ سے جُڑا ہوا ہے جس میں  دو لوگوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کا ذکر ہے۔ تعجب یہ ہے کہ رپورٹ کا یہ حصہ (مشعال خان کے) قتل کی منصوبہ بندی کی ساری ذمہ داری واحد ایک سیاسی گروہ کے سر ڈال دیتا ہے۔

سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر وہ افراد جن کو ویڈیوز کے اندر واضح طور پر قتل کی منصوبہ سازی کرتے ہوئے اور قتل پر اشتعال دیتے دکھایا گیا ہے، انہیں جماعتِ اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کا رسمی حصہ نہیں بتایا جا رہا، تو پھر کچھ ملزمان کو کیوں عوامی نیشنل پارٹی کے رسمی اراکین کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مشعال خان کے قتل ایک وجہ نام نہاد کرپشن بھی بتائی گئی۔ اس بھونڈی منطق کے مطابق چونکہ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں (پختونخواہ کی) یونیورسٹیوں کو کرپٹ لوگوں سے بھر دیا تھا، س لیے ہجومی نفسیات کا یہ واقعہ پیش آیا۔ جبکہ اس ضمن میں ‘جنگ کی اقتصادیات’ اور ‘انصاف اور جہاد کی نجکاری’ جیسے اہم عوامل جو اس سانحہ کی اصل وجہ رہے، سے صرفِ نظر کیا گیا۔

آعمش حسن عسکری کی یہ تحریریں بھی ملاحظہ کیجیے: ایک برس میں ایک روزن نے کوئی انقلاب برپا نہیں کیا مگر

مزید: عامر ذکی : تو اتنی جلدی کیوں روٹھا

مشعال خان کے قتل کے پیچھے جو وجہ بھی رہی ہو یہ بات تو طے ہے کہ گستاخی کے اسلحہ بردار نظریہ کو اس انسانیت سوز واقعے میں  بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ مضمون  کے مصنف یہ بھول گئے ہوں کہ یونیورسٹیاں صوبائی حکومت کی زیرِ نگرانی کام کرتی ہیں اور پچھلے چار سالوں سے پختونخواہ کی حکومت پی ٹی آئی کی قیادت میں بننے والے اتحاد کے پاس ہے۔

کیا اس بات میں کوئی وزن ہے کہ ایک واحد سیاسی جماعت حکومت کاحصہ نہ ہوتے ہوئے بھی اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ ریاستی مشینری میں شامل تمام شراکت داروں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکے۔ مذکورہ مضمون کے مصنف نے (مشعال خان) کے قتل کے بعد کے اقدام میں عمران خان کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ایک ٹویٹ کرنے اور مشعال خان کے خاندان سے ایک ملاقات کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

لکھاری نے اپنی مرضی سے معلومات کا انتخاب کر کے منطقی استدلال کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ مثلاََ اس مضمون میں مشعال خان کے بارے میں عوامی نیشنل پارٹی کی قائدین کی طرف سے اختیار کیے گئے دلیرانہ موقف کو بوجوہ نظرانداز کر دیا گیا ہے.۔ حالانکہ انھوں نے نہ صرف مشعال خان کو اپنایا ہے بلکہ اُس سارے متشدد بیانیے کی بھی پر زور مخالفت کی ہے۔

ضیغم خان نے ‘ایتھنو نیشلزم’ کی مطعون اصطلاح استعمال کر کے خُدائی خدمتگاروں کی تحریک کے اہداف و اقدار کو من چاہا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ مزید یہ کہ لکھاری نے اپنی تشریح و تعبیر کے لیے ایک کمزور تحقیقی کام کو مآخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مصنف کو یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ باچا خان اور خدائی خدمتگار تحریک کو سمجھنے کے لیے کریم خان، وقار علی شاہ اور مکولیکہ بینرجی کے پی ایچ ڈی کے مقالہ جات پر ہلکی سی نظر دوڑا لیں۔

ایک روزن لکھاری
آعمش حسن عسکری

خدائی خدمتگارتحریک انسانی وقار، سماجی انصاف اور عقیدوں، قوموں، صنفوں اور نسلوں کی تکثیریت (plurality) پر یقین رکھتی تھی۔ باچا خان نے ‘پشتون ولی’ کی ایک نئی تعبیر پیش کی اور پشتونوں کو ایک نسلی اور اخلاقی قوت سے کہیں بڑھ کر ایک سیاسی قوت کے طور پر پیش کیا۔

خدائی خدمت گاروں نے پشتونوں کی مجموعی فلاح کی جدوجہد کی۔ یہی اقدار خدائی خدمتگاروں کے فلسفہُ عدمِ تشدد کی بنیاد ہے۔ اور یہ ایک روشن فکر قومی تحریک تھی نا کہ ‘نسل پرست قومیت’ کی تحریک۔

مضمون کے لکھاری نے خدائی خدمت گار تحریک کو معتوب کرنے کے لیے ‘شناختوں کی سیاست’ (identity politics) کو ایک آسان اور ‘منفعت بخش’ پیشہ قرار دیا ہے۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ‘منفعت بخش پیشہ’ باچا خان اور نیلسن منڈیلا کی زندگیوں کی تین، جب  کہ موہن داس کرم چند گاندھی کی زندگی کی چار دہائیاں لے اڑا تھا۔


خادم حسین کے اصل مضمون کا ڈیلی ٹائمز پر لنک