جمہوریت میں اک امید و آس تو ہے نا

جمہوریت میں اک امید و آس تو ہے نا
علامتی تصویر

جمہوریت میں اک امید و آس تو ہے نا

(نصیر احمد)

اگر انسانی احساسات کی کوئی شکل ہوتی تو امید دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہوتی۔ ویسے بھی پتر کاروں، چترکاروں اور شاعروں کے فن کا بہترین اظہار امید کی عکس بندی اور تصویر کاری کے ہی ذریعے ہی ہوتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، غزل الغزلات کی چرواہی میں بھی آپ اس شکل کو دیکھ سکتے ہیں، شاخ نبات میں بھی آپ کو یہ صورت نظر آتی ہے، بھاگ بھری میں بھی آپ اس کو دیکھ سکتے ہیں اور مونا لیزا کی مسکراہٹ میں بھی یہ موجود ہے۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے امید کا گہرا تعلق محبت سے وابستہ احساسات سے ہے اور محبت سے وابستہ احساسات کا گہرا تعلق خواتین کے مادرانہ و معشوقانہ حقائق اور امکانات سے ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ امید کی کوئی مردانہ شکل نہیں ہے، ادھر بھی مقدس باپوں اور دلاور معشوقوں اور ستم رسیدہ عشاق کرام کا ایک جہان آباد ہے اور محبت پر تو کوئی صنفی اجارہ داری تو ہوتی نہیں اور نہ ہی امید پر۔

یہ سب ہم انسانوں کا اجتماعی معاملہ ہے اور کرہ ارض پر امید کے فروغ اور تحفظ کے لیے صنفی برابری کا فروغ اور تحفظ نہایت ضروری ہے۔ ورنہ انسانوں کی امیدوں کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہے گا، جو ہو رہا تھا اور جو ہو رہا ہے۔ یعنی کتاب امید میں فریادی کے حوالہ جات بہت زیادہ ہوں گے اور تجربہ پسند تخیل کا ر کا ذکر کم کم ملے گا۔

بچے بھی انسانی امیدوں کی ایک نہایت شکل ہیں اور مسیحی دینیات میں فرشتوں کی تصویریں اصل میں بچوں کی تصویریں ہی ہوتی ہیں۔ باقی اگر زندگی سے آپ کو والہانہ لگاؤ ہے تو زندگی کا سارا حسن امید کا ایک سلسلہ بن جاتا ہے جس کی انسانی حالات مسلسل نفی کرتے رہتے ہیں؛ مگر عاشق و رند کو کب سمجھایا جا سکتا ہے۔ امید بنیادی طور پر انسانی زندگی کی احسن جہتوں سے رشتہ ہے، جس کی نشو و نما میں ہی انسانی مستقبل کا راز عیاں ہے۔ اور شاید یہ ہم سب کے تجربے میں ہے، امید کے ٹوٹنے کے حوالے سے دکھ درد بھی اس رشتے کے ٹوٹنے سے جڑے ہوئے ہیں۔

چونکہ آج کل تعریفوں کے بغیر کوئی ناتا نہیں نبھتا، اس لیے ہم بھی امید کی تعریف کرنے کے ایک کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں امید حال اور مستقبل میں ایک بہتر صورتحال سے وابستگی کا نام ہے۔ ماضی کا اس لیے نہیں کہتے کہ ایک شاندار ماضی کے ارد گرد ایک بہترین حال اور ایک روشن مستقبل بنانے کی امیدیں بہت ساروں سے نہ صرف امیدیں بلکہ زندگی تک چھین لیتے ہیں، جس کی پچھلی صدی میں بہت مثالیں ملتی ہیں۔

اس کے لیے آپ مرد مومن، مرد معاش، رفیق خاص، فو ق البشر اور شریف وحشی جیسے عقائد کے ہولناک نتائج کے واقعات سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں کہ کیسے ان ماضی پرست خیالی شخصیات کے اسیر مردوں نے زندگی کو رسوا کیا ہے۔ ویسے بھی معشوقانہ ملاقاتوں کی تاریخیں موجودہ اور اگلی دی جاتی ہیں نہ کہ پچھلی۔ اتنی بات تو عمران خان بھی سمجھتے تھے کہ انقلاب آئے گا تو شادی ہو گی، آپ تو ما شا اللہ لائق فائق ہیں۔

اس کے باوجود اگر آپ کو یہ تعریف پسند نہیں، تو اپنی مرضی کی گھڑ لیں، ہمیں تو اچھا ہی لگے گا۔ اس میں ایک بات دیکھنے کی ہے کہ انسانی امیدوں کے ان مثالیوں میں صنفی امتیازات برتے گئے ہیں اور اگر قوانین اور مثالیوں میں امتیازات ہوں گے تو حقیقی زندگی میں ان امتیازات کی بدصورتیوں سے ہی معاملات کرنے ہوں گے اور امیدیں بھی بدصورتیوں کی ستم رسیدہ ہو جائیں گی۔جس کے نتیجے میں زندگی ایک مردار بن جائے گی اور امیدوں کا محورو مرکز نوچنا کاٹنا بن جائے گا جبکہ امیدوں کا کام رفو گری اور مرہم سازی ہے۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: انسانی حقوق اور آزادئ اظہارکے جدید تصورات

امید کے دلبری و دلداری سے تعلق کے بارے میں تو ہم بات کر ہی چکے ہیں۔ امید کا سب سے گہرا سمبدھ سچ کے ساتھ ہے۔ اب سچ کے بہت سارے چہرے ہیں بلکہ جانیں کہ حقائق کی ایک ریاست ہائے متحدہ یا ریاست ہائے مشترک ہے جس میں دماغ کی نشو ونما یا الہام کی ابتدا سے ہی رنگ برنگے حقائق مکو مک یعنی باہم دست و گریبان ہیں اور حقائق کی اس آویزش کے نتیجے میں ہم آپ بھی انوا ع و قسا م کی کشتیوں میں مصروف ہیں، جن میں بعض کے نتائج ہمارے لیے بہت ہی خطرناک ہیں۔

روحانی اور نظریاتی حقائق بھی ہیں جن کے مطابق لوگوں کی اکثریت جاہل ہوتی ہے اور ایک محدود سی اقلیت دیدہ ور ہوتی ہے اور زندگی کی تنظیم ان دیدہ وروں کے احساسات، تجربات اور خیالات پر کی جاتی ہے جو کہ دیدہ وروں کے مفادات کی نگہبان ہوتی ہے اور جاہلین کے لیے مزدوری، غربت اور ہلاکت ہی بچتی ہے۔

اس طرح کے حقائق سے جنم لینے والی امیدیں دیدہ وروں کے گروہ میں شمولیت اور جاہلین سے نجات متعلق ہوتی ہیں۔ اس منشی کی امیدیں جس کی ذمہ داری لہرا لہرا کے جاہلین کو کوڑے مارنا بھی ہے، شہر جلا کر بانسری بجاتی رہتی ہیں۔

ان امیدوں کا سفر کامریڈ بیریا کی گاڑی کا ماسکو کی سڑکوں پر ہوس کی آگ بجھانے کا سفر ہے۔ اور سفر کا اختتام زندگی کے لیے کامریڈ بیریا کا گڑگڑانا ہے اور بیچ میں ان گنت لاشیں جن کے بارے میں ابھی تک اندازے اور تخمینے ہیں۔ دیدہ وروں کی یہ اشرافیائی زندگی کے لیے سخت مضر ہے۔

آپ کی اپنی مرضی لیکن ہم مشورہ دیتے ہیں کہ روحانی حقائق کو جس حد تک ممکن ہے ذاتی رکھیں اور اپنے نظریات پر بالکل ہی عمل نہ کریں۔ پھر منطقی و ریاضیاتی حقائق ہیں جو کہ امید کی پرورش کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔ جمع تفریق، اعداد و شمار، حساب کتاب، گنتی گڑھنت بے مہار امیدوں کو راہ پر لانے کے لیے بہت مدد کر تے ہیں مگر ان حقائق کا ایک مسئلہ ہے کہ یہ روحانیات اور نظریات کی دوستی اور دوستی کے بعد غلامی کی ترغیبات کا شکار ہو جاتے ہیں اور زندگی امیدوں کی قتل گاہ بن جاتی ہے۔

پھر سائنسی حقائق ہیں جو کہ امید پروری کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ ادھر کائنات پیمائی ہو رہی ہے، ادھر خورد بینی، ادھر فاصلے مختصر ہو رہے ہیں، ادھر بیماریوں کا علاج دریافت ہو رہا ہے۔ یہاں کلیں بن رہی ہیں تو وہاں کیمیکل لوچا بوجھا جا رہا ہے۔ تخلیق و ترتیب کا ایک لامتناہی سلسلہ، تصور و تخیل کا مسلسل سفر۔ یہ سب بھی بہت قیمتی ہے اور اس کو بھی نظریات (آئیڈیالوجی) و روحانیات سے محفوظ رکھنے کی انتہائی شدید ضرورت ہے۔

ورنہ سہولتیں زحمت بن جاتی ہیں اور ڈاکٹر ہتیارے۔ اور امیدیں پھر قریب المرگ ہو جاتی ہیں۔ منحصر ہو مرنے پر جس کی امید نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے امید کا ایک رشتہ انسانی حقوق سے ہے۔ جاننے کا حق، کہنے کا حق، سننے کا حق، چننے کا حق، پیسہ کمانے کا حق، چیزیں بنانے کا حق، برابری کا حق، لکھنے کا حق، سوچنے کا حق، لطف و لذت کا حق، آرام و سکون کا حق، ذاتی زندگی کا حق، اجتماعی فیصلوں میں شرکت کا حق، شہری کا حق، صارف کا حق، مزدور کا حق۔

جتنے زیادہ حقوق ملیں گے، اتنی ہی امید افزا شخصیت بنے گی۔ جتنی زیادہ امید افزا شخصیات ہوں گی، اتنی ہی اعلی معاشرت ہو گی، جتنی اعلی معاشرت ہو گی، اتنی ہی بہترین حکومت ہو گی۔ ان سارے حقوق تک رسائی جمہوریت سے جڑی ہوئی ہے اور جمہوری عمل جتنا مسلسل ہو گا، اتنے زیادہ حقوق ملیں گے۔

ان سب حقوق کا تعلق شہری ذمہ داریوں سے بھی ہے۔ کیونکہ یہ حقوق اجتماعی ہیں۔ جتنے آپ کے حقوق ہیں ،اتنے ہمارے بھی ہیں۔اور یہ حقوق و فرائض امید کے سلسلے قوانین سے جوڑ دیتے ہیں۔ اور قوانین بنانے میں جتنی شمولیت ہو گی، اتنا ہی زیادہ زندگی سے تعلقات بنیں گے اور جتنے زیادہ زندگی سے تعلقات بنیں گے، اتنے ہی زیادہ زندگی کی بہتر شکلوں سے امیدوں سے وابستگی و پیوستگی بڑھے گی۔

1 Trackback / Pingback

  1. نوزائیدہ بچوں کا قتل - aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.