حالیہ دور، اسٹیبلشمنٹ کا آخری دور

Farooq Ahmed aik Rozan writer
فاروق احمد، صاحبِ تحریر

حالیہ دور، اسٹیبلشمنٹ کا آخری دور

فاروق احمد

فوج کی خفیہ ایجنسیاں سیاست کے میدان میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے وہی غلطیاں دہرا رہی ہیں جو زرداری نے اپنے دور میں حکومت بچانے کے لیے اپنائیں۔

بادی النظر میں زرداری کا پانچ سال پورے کرنا بڑی کامیابی معلوم ہوتا رہا۔ کوئی شک نہیں کہ زرداری کی یہ کوشش اس ضمن میں قابلِ تحسین رہی کہ ان پانچ برسوں کے دوران جمہوری نظام کا مُنحنی سا یہ بیج جڑ پکڑ گیا۔ یہ ایک ایسا احسان ہے جس کا بدلہ آنے والے دور کا جمہوری پاکستان کبھی نہ اتار پائے گا۔

بہت سوں کو یہ بات ابھی سمجھ میں نہیں آئے گی بلکہ شاید کبھی نہ سمجھ آئے۔ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ جمہوری نظام کو پانچ سال ہتھیلی کے چھالے کی مانند سنبھالے رکھنے کی جدوجہد میں پیپلز پارٹی نے اپنی عوامی مقبولیت کی قربانی دے ڈالی۔ اگر پانچ سال اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے زرداری کی جوابی چالوں پر نگاہ ڈالی جائے (چالیں تو اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ ایجنسیاں چل رہی تھیں) تو ایسے لاتعداد اقدامات نظر آتے ہیں جو پیپلز پارٹی کے سابقہ انقلابی (درست یا غلط سے بحث نہیں) امیج سے مطابقت نہیں رکھتے تھے جن میں سے ایک ’’قاتل لیگ‘‘ کے پرویز الیٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنانا اور دوسرا بحیثیت صدر پاکستان اپنے خلاف عدالتی کارروائی سے استثنا کی آڑ لینا سرفہرست تھا۔

پیپلز پارٹی نے اپنی جان دے کر جمہوری نظام کو بچا لیا۔ جس طرح زرداری نے نظام بچایا اسی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا پسِ (ململ) پردہ نظام بچانے کے لیے ہر حربہ آزمانے اور اپنے ترکش کا آخری تیر بھی چلانے کی زرداری جیسی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے شاید زرداری سے ہی یہ حکمت سیکھی۔

لیکن ایک فرق ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے یہ تو دیکھ لیا کہ پیپلز پارٹی نے نظام بچا لیا لیکن یہ نہ دیکھ پائے کہ اس کوشش کے صلے میں جو مقبولیت کھوئی تو اب خود شاید آئندہ بیس برس بھی الیکشن نہ جیت پائے۔ نواز شریف کو ہٹانے کی سازشوں میں فوجی انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ کامیاب تو ہو گئی لیکن جوش جنوں میں اپنا ہر ماضی حال و مستقبل کا حربہ استعمال کر بیٹھی اور اس طرح اپنے چیلے چانٹوں مہروں سمیت غیرمقبولیت اور ناپسندیدگی کی وہ معراج حاصل کر بیٹھی کہ اب ترکش خالی ہے، بندوق میں گولی نہیں، جوتے پھٹ چکے ہیں اور وردی تو بالکل ہی غائب ہے کہ عریانی چھپائے نہ چھپے۔ زرداری کی پارٹی تو شاید پھر سے جیسے تیسےجی اٹھے لیکن آپ کا کیا ہو گا جناب عالی۔

زرداری کو ہٹانےکی ناکام سازشوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے اور نواز کو ہٹانے میں دانتوں پسینہ آ جانے کے بعد تھکی ہاری دم توڑتی اسٹیبلشمنٹ کے پاس وہ دم خم ہی ختم ہے کہ جو تیسرے جمہوری دور میں اس کو نئے سرے سے اپنا ڈرٹی گیم جاری رکھنے کی اجازت دے گا۔

تیسرے دور کی سیاست سابقہ و حالیہ دور کی سپہ سالاری، اسپانسرڈ سازشوں اور خفیاؤں و ہمنواؤں کی عیارانہ ریشہ دوانیوں سے بڑی حد تک آزاد رہ پائے گی۔ پیپلز پارٹی نے تو جمہوری نظام کو بچانے کی کوشش میں جو کچھ کھویا، کیا فوج اپنے لیے وہ سب کچھ کھونا سہہ پائے گی۔ شاید نہیں

لیکن اب وقت نکل چکا ہے۔ سابقہ دور پی پی پی کا آخری دور ثابت ہوا اور حالیہ دور اسٹیبلشمنٹ کا آخری دور۔ جو کچھ پی پی پی نے کھویا، کچھ اس جیسا ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے۔ لیکن پی پی پی نے جو کچھ بدلے میں پایا وہ جمہوری نظام کا تسلسل ہے۔ فوج نے ایسا کچھ نہیں پایا۔

کوئی ایسا نظام نہیں جو اس کے بڑھاپے کا سہارا بنے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاس آنے والے وقتوں میں اولڈ ہاؤس منتقل ہونے اور اس کے کسی ویران کمرے کی ادھیڑ عمر کھڑکیوں سے پھلتے پھولتے جمہوری نظام کو جلتے کُڑھتے دیکھنے کے سوا دیگر کسی مستقبل کا کوئی خاکہ نہیں۔ نقل کو بھی عقل چاہیے۔