ہم کیسی قوم ہیں ؟

Raza Ali aik Rozan
رضا علی، صاحب تحریر

ہم کیسی قوم ہیں ؟

رضا علی

انڈیا کے ایک مشہور وکیل ہیں جو اپنے بڑے مقدّمات کے لیے جانے جاتے ہیں- انڈیا کی سپریم کورٹ میں بھی اکثر پائے جاتے ہیں اور انڈیا کے وزیر قانون بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی عمر اب نوے سے اوپر ہے، وہ شکارپور سندھ میں پیدا ہوئے اور پارٹیشن کے وقت انڈیا چلے گئے۔

نام ان کا رام جیٹھ ملانی ہے۔ اتفاق سے میں نے ان کا 2003 کا انٹرویو دیکھا جو ZEE TV کے ایک مشہور پروگرام ‘آپ کی عدالت’ میں دیا گیا تھا۔ اس وقت مودی گجرات کا تو چیف منسٹر تھا لیکن ابھی انڈیا کا پرائم منسٹرنہیں بنا تھا۔ رام جیٹھ ملانی BJP سے تعلّق رکھتے ہیں اور انٹرویو میں مودی کے بہت حامی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مودی کو انڈیا کا وزیراعظم بننا چاہیے اور جو وقت نے بتایا کہ کو وہ بعد میں بنا۔ وہ اس پروگرام میں فخریہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے انڈیا کی سپریم کورٹ سے یہ منوایا کہ ‘ہندوتوا’ ہندوستان کی اساس اور نچوڑ ہے۔

ان ساری باتوں سے شاید آپ کو یہ لگتا ہو کہ وہ کوئی مسلمان دشمن مذہب پرست ہیں لیکن ان کی دوسری باتوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ مذہبی منافرت پر یقین نہیں رکھتے اور انڈیا اور پاکستان میں دوستی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی پروگرام میں وہ کہتے ہیں کہ انڈیا میں پندرہ سو عرب ڈالر کی کرپشن ہوئی اور اس کا پیسا لے جا کے سوئس بنکوں چھپا دیا گیا۔ وہ چاہتے ہیں کے یہ پیسا واپس لایا جائے اور اگر یہ پیسا انڈیا کے لوگوں میں بانٹا جائے تو فی بندہ تین لاکھ بنتا ہے۔

اس کرپشن کا بڑا ذمہ دار وہ کانگریس کی گورنمنٹ کو سمجھتے ہیں اور کانگریس ہی کی حکومت کو ہندو مسلمان کے بیچ میں پھوٹ ڈالنے کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کے انڈیا کے پولیٹیشن کرپٹ ہیں اور وہ جان بوجھ کے سوئس حکومت سے نہیں پوچھتے کہ وہاں انڈیا کا کتنا پیسا چھپا ہے۔

وہ یہ نہیں سمجھتے کہ BJP کے سیاستدان کوئی پاک صاف ہیں لیکن یہی ان کے لیے ایک اخلاقی الجھن ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے کانگریس کی کرپشن کے خلاف ان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ مودی کے خلاف ہو گئے اور اسے اپنی زندگی کی ایک بڑی غلطی قرار دیا۔ مودی نے بھی آخر اس کرپشن کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔

اتنی لمبی کہانی سنا کے تبصرہ انڈیا پر کرنا مقصد نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان کے لیے ایک سبق ہے۔ اس سال انڈیا اور پاکستان دونوں اپنے ستر سالہ جشن آزادی منائیں گے لیکن اس ستر سال میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو چکے ہیں اور تین دفعہ فوجی حکومت آ چکی ہے۔ جہاں پاکستان کی معیشت تباہ اور برباد ہو رہی ہے اور قرضوں کے نیچے دبی چلی جا رہی ہے وہاں انڈیا میں غربت کے ساتھ معاشی ترقی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں صوبے کا نام تبدیل کرنے پر جھگڑا ہو جاتا ہے اور اگر صوبہ تقسیم کرنے کی بات کرو تو خون کی ندیاں بہنے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ انڈیا میں جبکہ کئی صوبے تقسیم ہو چکے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔

مذہبی منافرت اور گروہی فساد انڈیا میں بھی ہے لیکن مودی کی حکومت کو شامل کر کے بھی اتنا نہیں ہے جتنا پچھلی کچھ دہایوں میں پاکستان میں ہوا ہے۔ٍ جہاں پاکستان میں امن اور امان کی خرابی کی وجہ سے دنیا میں وہ بدنام ہو گیا ہے انڈیا نے میں اب بھی ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں اور سرمایا کاری کرتے ہیں۔

آپ پاکستان کا جتنا چاہیں ‘سوفٹ امیج’ دکھا دیں یہ نہیں ہونے والا۔ اس میں انڈیا کا کوئی بنیادی کمال نہیں ہے اور نہ ہی سرحد کے اس پار کوئی مختلف مخلوق بستی ہے۔ انڈیا پاکستان کے لوگ بھی ایک ہی کلچر اور سوچ رکھتے ہیں اور ستر سال پہلے تک وہ ایک ہی تھے۔

جہاں دونوں کی سوچ میں فرق آیا وہ یہ تھا کہ انڈیا نے شروع سے ہی اپنے ملک میں جمہوریت رکھی۔ اگر اندرا گاندھی کے دور میں ایمرجنسی نافذ ہوئی تو اسے بھی کوئی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ اور اتنے سالوں کے سفر کے بعد انڈیا میں جمہوریت اتنی میچور ہو گئی ہے کہ خون کی ندیاں بہاۓ اور فوجی ڈکٹیٹر لاۓ بغیر مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔

آپ کو رام جیٹھ ملانی کے خیالات سنانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ دیکھ لیں کہ انڈیا میں وہی مسئلے ہیں جیسے آپ کو پاکستان میں نظر آتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کے PPP اور یوسف رضا گیلانی کی یاد تازہ ہوتی ہے جہاں سپریم کورٹ وزیر اعظم کو کہتی ہے کہ سوئس حکّام کو خط لکھو لیکن وہ نہیں لکھتا اور آخر میں چھٹی ہو جاتی ہے۔

جتنی گالیاں جمہوریت کو دی جاتی ہیں کہ اس میں کوئی صادق امین نہیں ہے، سب کرپٹ اور جھوٹے ہیں اور انہوں نے اپنی دولت باہر چھپا کے رکھا ہے یہ سب الزام آپ کو رام جیٹھ ملانی کی باتوں میں بھی سنائی دیں گے۔ پاکستان میں لوگ فورا ہی چاہتے ہیں کہ کوئی مرد مجاہد آ جائے اور سب کی صفائی تیزاب سے کر دے۔

پاکستان اور انڈیا دونوں کو وکیلوں نے بنایا لیکن قانون پسندی اور جمہوریت کے متعلق اتنے مختلف رویے؟ ہم ایک طرف صادق اور امین کا رونا  لے کے بیٹھے ہیں وہاں انڈیا میں انہی غیر صادق اور امین کے ذریعے گاڑی استحکام کے ساتھ آگے بڑھائی جا رہی ہے۔ آپ صادق اور امین کہاں سے لائیں گے جب ریڑھی والے سے لے کر فیکٹری والے تک اور چپراسی سے لے کر وزیر اعظم تک کوئی صادق اور امین نہیں ہے؟

سپریم کورٹ کس کس کو نکالے گی؟ پاکستانی قوم نے اب تک سیاسی استحکام کا مطلب اور اس کی اہمیت ہی نہیں سمجھی۔ جب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کے کوئی ڈکٹیٹر آئے تو بھی خوش ہوتے ہیں اور مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور پھر جب ڈکٹیٹر جائے تو بھی خوش ہوتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی وجہ سے سیاسی استحکام کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔

اگر استحکام ہو، چاہے وہ استحکام آئیڈیل نہ بھی ہو، تب بھی دنیا کا اعتماد ملک پر بڑھتا ہے اور ملک کے اندر بھی سرمایا کاری ہوتی ہے اور باہر سے بھی۔ ورنہ ملک میں ایک بے چینی کی حالت رہتی ہے، ملک ہنگامی حالت اور اہم موڑ پر ہی کھڑا رہتا ہے۔ کیونکہ ہم موڑ ہی مڑتے رہتے ہیں تو گھوم کے وہیں واپس آ جاتے ہیں۔ ہم بار بار جمہوریت کی ٹانگ کھینچتے ہیں اور فوج کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں، پھر سوچتے ہیں کہ ملک میں فوجی آمریت کیوں آ جاتی ہے؟ ہماری اس قوم کو کون سمجھائے۔