فطری زاویہِ اصول بقائے مادہ : حصہ دوئم

ایک روزن لکھاری
ایچ بی بلوچ، صاحب نگارش

فطری زاویہِ اصول بقائے مادہ : حصہ دوئم

(ایچ بی بلوچ)

اس مضمون کے حصہ اول کا لنک یہاں کلک کرنے پر دستیاب ہے۔
یہاں پر ہمیں ان نکات پر بھی سوچنا پڑیگا:
1. ارتقا بذریعہ فطری انتخاب کا پہلے سے کوئی مقرر کردہ مقصد نہیں ہوتا
2. اس کا بنیادی نکتہ بقا اور افزائش نسل ہے ترقی یا کمال حاصل کرنا نہیں.  بحوالہ کتاب نظریہ ارتقا. مصنف ایلیمینٹری
مصنوعی طور افزائش نسل اور فطری طور افزائش نسل کا ایک طئے شدہ مقصد اور اصول ہوتا ہے. فطری طور افزائش نسل میں وہی انواع بہتر طور پر اپنے ماحول سے مزاحمت و مطابقت کی بنیاد پر اپنی بقا کی ضامن بن جاتی ہیں. بہتر جسمانی اسطاعت اور طاقت کے جاندار بھی کسی ماحولیاتی حادثے یا خوراک کی کمی کے باعث معدوم ہو سکتی ہیں. وہاں پر حفاظت  حوالے سے کمزور انواع بھی اپنے نسل کی بقا کر سکتی ہیں. دراصل ارتقا بہ ذریعہ فطری انتخاب تجرباتی ہوتی ہے. فطری طور پر نسلی ارتقائی تبدیلیاں ایک ایسے اصول اور مقصد کو جنم دیتی ہیں. جس کا درحقیقت ہم صرف ادراک حاصل کرسکتے ہیں. جب ہم ارتقا سے کمال کا مفہوم اخذ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے مفہوم کے زاویہ میں تھوڑی ترمیم کرنا ہوگی. تاکہ ہم ارتقا کے حوالے سے کمال کی معنی سمجھ سکیں۔
افزائش نسل خود بقا کی ارتقا یافتہ شکل ہے. بقا ارتقا میں باکمال ہوگئی ہے. سائنسی حوالے سے مطلق اور مستقل کمال جیسا کوئی تصور اپنی حیثیت نہیں رکھتا. ہر چیز میں اپنے جسم اور اپنی جسمانی ساخت کے مطابق اپنے دفاع اور اپنے دفاعی بقا کے مناسبت سے جسمانی تشکیل ہوتی ہے. بقا کے طور پر ارتقا بقا کے طریقے میں حیات کو کمال کی طرف لے جاتی ہے. جسے صرف بقا کا کمال کہا جا سکتا ہے. بہ حیثیت مادے کی بنیادی محرکِ بقا.. کمال کی تعریف ہے. کمال کی رواجی تعریفیں… جزوی طور پر سماجی طور معمولاتِ زندگی کی عام تعریفیں ہیں. البت ایسے کہا جا سکتا ہے کہ ارتقا حیاتیاتی تبدیلی کا ایسا کمال ہے جس کا بقائے ذات کے علاوہ کوئی اور مطلق مقصد نہیں ہوتا. میں یہاں پر چند سطروں پر بھی تبصرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
فطری انتخاب ایک طاقت ور ڈھالنے والی غیر شعوری قوت جو جانداروں کو اپنے ماحول سے مطابقت کا باعث بنتی ہے. اور یہی فطری انتخاب ارتقا کا بنیادی محرکِ ہے. یہ ایک غیر شعوری اور غیر اتفاقی عمل ہے جس میں جاندار کے ارادے یا کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا .  کتاب نظریہ ارتقا
سچ تو یہ ہے کہ جاندار کا شعور یا ارادہ خود اسی قوتِ بقائے حیات کے طفیل ہے. وہ بھی انسان کے وجود کی حد تک… دوسرے جانداروں میں شعور اور ارادے کا تصور کرنا ہی بے معنی ہے. ان سے ہم ارتقا یافتہ مفہوم و مقاصد نہیں رکھ سکتے. مگر یہ جانداروں میں مشترکہ اور ایک ایسی فطری حقیقت ہے کہ فطری انتخاب اپنی ضد کے حوالے سے متجسس ہوتا ہے. اور اسے باعث کشش بنا دیتا ہے۔
انسان کے فطری مظاہر میں سے مادے کی مختلف صورتوں سے نتائج اخذ کرنے سے شاید کچھ غیر معمولی نتائج برآمد ہو سکیں. کیونکہ انسان حیاتیاتی مادے میں اپنے حفاظتی نظام کی ترقی یافتہ شکل ہے. جو اپنی ذات میں کسی حد تک مادے کی سادی اور سمجھ میں نہ آنے والے اصولوں کا اعلی اور ارتقا یافتہ منزل پر اظہار کرتا ہے. مگر انسان کے جسمانی عوامل کے حوالے سے دوسری چیزوں میں سے مطابقت رکھنے والے نتائج پر یقین اور اعتماد کرنا نفسیاتی طور مشکل ہوتا ہے۔
ہم ایک ایسی چیز کے عمل کے بارے میں سوچیں جسے عام طور پر ہم ایک مخصوص مشاہداتی طرز عمل سے دیکھتے آئے ہوتے ہیں تو ہم دلائل کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں. ہمیں اپنے حاصل شعور پر بنائے ہوئے نفسیاتی خاکے اور اس میں تخیل پانے والی عقلی اسطاعت کا قتل ہوتا محسوس ہوتا ہے. یہ حقیقت ہے کہ سچ برداشت کرنے سے ہی کڑوا لگتا ہے۔
اگر ہم انسان کے سلسلہ نسب اور عملِ ارتباط جنسی سے غیر نامیاتی چیزوں میں مساوی مفہوم کی امید رکھیں تو ایک مضحکہ خیز بات ہوگی. مگر غیر نامیاتی مادے میں  اس عمل کے تعلق کے اثرات مکمل طور پر اپنے مفہوم کو صرف بقا کی سادی وضاحت کے علاوہ کسی اور مقصد کو بیان نہیں کرتے. اسے ہم قطعی طور پر غیر اخلاقی غیر عقلی یا غیر سائنسی سمجھنے کی حماقت نہیں کر سکتے. یہ اپنی اضداد میں سبقت کا وہ سادہ اظہار ہے. جو جانداروں میں ارتقا کا واضح اور مکمل تصور ہے. اور ہمارے لیئے اس سادے  عمل نسبتی وضاحت ایک ترقی یافتہ عمل کے ادراک کے بعد تھوڑا مشکل ہے. کیونکہ ہم اس عمل ارتباط جنسی سے وہ سارے مفہوم اخذ کر لیتے ہیں.  جن ترقی یافتہ احساسوں کے ساتھ ہم اس عمل سے گذرتے ہیں۔

جنس محض بقا کی جبلت

عام طور پر علم نفسیات میں ایک تاثر جس کے دور رس تشہیر کے نتائج صرف اخلاقی موضوع کے حوالے سے برآمد ہوئے ہیں. دراصل جنس کی حیثیت محض ایک بقا کی جبلت یا عوامل کی سی ہے. کئی ایسے جانداروں کی موجودگی سے ثابت ہے کہ یہ بغیر جنسی عمل کے اپنے نسلی تسلسل کو آگے بڑھانے کے لائق ہوتے ہیں. بقا کے حوالے سے ذاتی بقا ہی نسلی بقا کو جنم دیتی ہے. کوئی جاندار اپنے مکمل جسمانی تشکیل کے بعد ہی نسلی بقا کے اہل بن پاتا ہے.
ہم مانتے ہیں کہ رشتوں کا احساسِ تقدس اور اس کے اخلاقی دائرہ کار کا احاطہ عمر کے مخصوص حصے میں ہوتا ہے. مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عمر کے ساتھ ایک فطری میلان کا دورانیہ یا موسم ہوتا ہے. لیکن اس رجحان کو صرف دوسرے حیاتیاتی جانداروں میں ہی محسوس کیا جا سکتا ہے. کیونکہ انسان کے سماجی رسم و رواج کی مخصوص معمولاتِ زندگی کے اثرات کی وجہ سے اسے محسوس کرنے میں بے ترتیبی پائی جاتی ہے. یہ کیسے ممکن ہے کہ مصنوعی طور پر پرورش پاتا بچا بلوغت میں جنسی کشش و پہچان نہ رکھ پائے. بلکہ جنس کی بلوغت کا ادراک کی ایک مخصوص عمر ہوتی ہے. ایک مخصوص عمر کے بعد یہ ادراک افعال کے قابل نہیں رہتا۔

جبلتِ حیات

بقا …جبلت مرگ کے حوالے سے فطری رجحان میں کسی ایسے نکتہ نظر کی ترویج نہیں کرتی.  ایسے تاریخی عوامل جن میں زندہ رہنے کی ایک تاریخی مزاحمت موجود ہو. جبکہ  بڑی حد تک مادے کی تاریخ کا احاطہ اور تک و دو.. جو وجود پر بلکل واضح مثبت اثر اندازی کو جنم دینے کا سبب ہو. اسے جبلت مرگ نہیں بلکہ بقائے حیات سمجھنا چاہئے۔
جبلت مرگ کے تصور نے بقا کی اتنی منظم مزاحمت کے باوجود.. فنا کے تصور جنم لیا ہے.  ہم کسی جاندار کے خوف مرگ سے جینے کا تصور ہر گز نہیں لے سکتے. یہ زندہ رہنے کی تگ و دو ہے جو بالا آخر موت جیسے المیے سے دوچار ہو جاتی ہے. تصور جبلت مرگ کوئی ایسا اصولی رجحان نہیں جس کے لیئے جینا پڑے.

فطری ترتیب

ترتیب سے بے ترتیبی ایک نئی ترتیب کو جنم دیتی ہے. اگر مادے میں اپنی فطری ترتیب سے بے ترتیبی میں بدلنے کا کوئی رجحان نہ پایا جاتا تو نامیاتی مادے میں خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کے عوامل کیوں ہوتے. حیات میں اپنے بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق ڈھالنے کی ایک مضبوط استقامت موجود ہوتی ہے. جو ماضی کی ترتیب میں لوٹنے کے بجائے آئیندہ مزید ترتیب وار حرکت کے لیئے خود کو بقا کے قابل بنانا ضرورت بن جاتا ہے. مادے میں فطری طور پر بے  ترتیبی  سے ترتیب میں لانے کے فطری عوامل موجود ہوتے ہیں. ترتیب میں بے ترتیبی اور بے ترتیبی میں ترتیب ارتقا میں ایک فطری مظہر ہے. ہم بے ترتیب کو سمجھنے کے لیئے ٹوٹا ہوا گلاس کمرے میں خوشبو کا بکھرنا اور تاش کے پتوں کی مثال نہیں لیتے. یہ ترتیب کے حوالے سے نامناسب مثال ہیں. کیونکہ ثابت گلاس.. عطر کی شیشی خود کسی بے ترتیبی کا ترتیبی نتیجہ ہیں. ہر نتیجہ ایک نیا منظر پیش کرتا ہے. مگر یہ اس میں زیادہ واقعات میں ہمارے معمولات کا عنصر شامل ہوتا ہے. ہمیں مادے کی فطری ترتیب اور بے ترتیبی کو بہتر طور سمجھنے کے لیئے کچھ اور مفہوم مطلوب ہیں.
ہم مادے کی اس بے ترتیبی پر سوچ رہے ہیں جو ایک ارتقائی ترتیب کی ممکن وضاحت کر سکے. جس پر ارتقا اپنے بقا کے کمال کے ساتھ  ایک وقت میں دوسرے وقت کے لائق مادی خواص کی تشکیل ہو. یقیناً ہم فطری طور ان تبدیلیوں کی بات کر رہے ہیں جہاں entropy صرف مناسب اور معتدل تبدیلیوں کو بیان کرتی ہے. پانی کو بھاپ… بھاپ کو بارش… بیجوں میں پودہ… اور پودے میں سے بیج.  آبادی کے تناسب سے وسائل کی افزائش….  اور وسائل کے تناسب سے آبادی کی حدود.  اور عمر کے تناسب سے نسل کی افزائش۔
سبقتِ باہم یا باہمی انحصار  ایک جدلیاتی نظام کو ترتیب دیتا ہے. یہ بے ترتیبی ہوتی ہی ترتیب دینے کے لیئے ہے. اس بے ترتیبی میں مادہ ماضی میں جانے کے قابل اور مستقبل میں جانے کے لائق نہیں رہتا. ایک چیز بے ترتیبی کے ارتقائی تجرباتی لمحات کے بعد واپس اپنی سابقہ حالت میں چلی جائے تو اسے ایسی ترتیب کہا جاتا ہے جو وقت کو ترتیب دیتی ہے۔

جنگ و جدل بقا کا آخری معرکہ

بقا کی جنگ میں کسی چیز کے مرکزی صفاتی محرکات کو ہر گز پس پردہ نہیں رکھا جا سکتا. اور یہ بھی کہ بقا کے آخری مراحل و معرکہ میں تحفظ کے عوامل حملے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ذاتی طور پر فطری بچاؤ کی تدابیر نے حیوانی سطح پہ طاقت کے حامل معاشرے کو تخلیق کردیا ہے. جس میں ایک انسان کی بقا دوسرے انسانوں کی شکست و دریخت سے مشروط ہو جاتی ہے. جب کسی نوع کا ذاتی تحفظ اپنی نسل سے مشروط ہو جاتا ہے تو نتائج اس نوع کے اجتماعی بقا کے حق میں بہتر نہیں ہوتے.  ایک فرد کے ذاتی مفادات کے آگے نو افراد کا نقصان ذاتی نوعیت کے معاشرے کا مہذب خیر کہلاتا ہے. شعور جس نے اپنے بقا کے خواص کے بنیاد پر فطری طور انسانی عادلانہ معاشرے کے قیام اور بقا کا مناسب بندوبست کر دیا تھا. اپنے ذاتی نوعیت کے معاشرے کی بنیادی اور ذاتیاتی حوس  کو بدلنے کا سبب نہیں بن سکا. سائنس محض اس طبقاتی عدل کے بنیاد پر اجتماعی بے انصافی کا حصہ بنتی جا رہی ہے. فطرت ایک مخصوص طاقت کو فروغ دینے باعث ہے. جس میں ایک سپر مین کی تصورانہ تشہیر سے فلاسفہ نے استفادہ بھی حاصل کیا۔
جیسے نسل انسانی بڑھتی ہے. ایک دوسرے سے بقا کے تحفظات بڑھتے ہیں. ہتھیار معاشی تسلط پر تحفظ کی علامت ہیں. اور آخری تجزیہ میں ان کا دفاع ذاتی ملکیت کے تحفظ سے مشروط ہوتا ہے. ہتھیار اور جنگ کے الفاظ کو قومی نظریاتی یا مذہبی جنگ جیسی معنی میں الجھا کر رکھ دینا مناسب نہیں ہوگا. جنگ کا لفظ فطری ترتیب کے حوالے سے معاشی احوال کا احاطہ کرتا ہے. ہمیشہ سے قومی نسلی اور مذہبی محاذوں  پر معاشی جنگ کو ترتیب دیا گیا ہے. یہ منافقانہ جنگی تصور کوئی نئی بات بھی نہیں ہے. نسلی قومی اور مذہبی امتیاز نے محض معاشی جنگ کے جواز فراہم کیئے ہیں.  ان جنگی عوامل کو نفسیاتی طور ان عوامل میں الجھی غلامانہ نفسیات کی تائید حاصل ہو جاتی ہے. جو ایک طبقاتی تسلط کے وسیع تجربے کا نتیجہ ہوتی ہے. یہ اس تجربے سے کچھ مختلف نہیں ہوتا جس میں پالتو جانور سارا دن باہر چرنے کے بعد شام کو خود بہ خود اپنی باڑوں کونٹیوں اور زنجیروں کے پاس آکر رک جاتے ہیں  موجودہ دور میں جنگ کا لفظ انتہائ حد تک مہلک ہو گیا ہے. اس کو قدیم طریقوں جیسے تیر تلوار توپ گولہ سے منسوب کرنا انتہائ مشکل ہے. اب یہ کیمیائی ہتھیاروں.. ایٹم اور ھائڈروجن بم کی تباہی کی اندیشگی ظاہر کرتی ہے. ایسے کہنا چاہئے کہ اس نے وسائل کے حوالے سے طبقاتی بنیادوں پر آبادی کے تصرف نے جنگ کے ناگزیر تناسب کو جنم دیا ہے. اس بات سے بلکل بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آبادی کے حوالے سے وسائل محدود ہوگئے ہیں بلکہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وسائل کے ناجائز تصرف نے آبادی کی بہ نسبت وسائل کو محدود کر دیا ہے. یہ بات واضح طور پر عسکری ترتیب کو فطری جواز فراہم کردیتی ہے۔
ہمیں بہتر طور پر نطشے اور اقبال کے سپر مین یا مردِ مومن کو سمجھنے کا مناسب موقع ملا ہے. یہ ایک ایسی پیچیدگی ہے جس کو سمجھنے کے لیئے شاید میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں. یا ایسا سمجھیں کہ اس موضوع پر کچھ مزید لکھنے کے مواقع پیدا کر رہا ہوں۔
اس رجحان کے بظاہر غیر معمولی عوامل نہیں . یہ بس ماضی اور حال کے سیاسی پس منظر کا صحافتی منظر کشی کے علاوہ اور کچھ نہیں. اگر انہوں نے اس تصور کی تائید نہیں کی ہے تو ان لوگوں نے اپنے ادوار کے طاقت کے رجحان کی نشاندہی ضرور کی ہے. یہ معاشرتی رجحان انسان کے ذاتی بقا کے اس اصول کی وضاحت کرتا ہے. جو اپنے پیدا کردہ حالات میں اپنے شعور کے اضافے کا سبب اور شعور کا اضافہ اپنے معاشی حالات کو مزید ترقی دینے کا سبب بھی رہا. مگر ان حالات کی.. اس شعور نے ذاتی ترقی کی عمومی اور طبقاتی عملی تشریح کی ہے. جس میں ایک مخصوص طاقتور طبقے نے اپنے حیوانی حوس زدہ بقا کے وہ معاشی حالات پیدا کیئے ہیں. جس کی قیمت بہرحال ایک اکثریتی طبقے کو ادا کرنی پڑی ہے۔
ان حالات میں سائنسی خدمات کو انسانی عقل کی جیب کتری ہی کہنا چاہئے  جب تک یہ  شعوری حوالے سے معاشی عدل کی کوئی مناسب معاشرتی تشریح پیش نہیں کرتی. اس سے پہلے کہ فطری ترتیب جنگ کی صورت میں اس ہری بھری دھرتی کو صرف  ایک اجاڑ اور حیات سے بنجر گولا نہ بنا دے. یہ تصورانہ خدشات بلکل بھی قبل از وقت نہیں. بلکہ اس اندیشگی کو جواز اس وقت مل گیا تھا جب انسانی شعور عقل کے بنیاد پر اجتماعی معاشی بنیادوں پر معاشرتی تکمیل کے لائق بن چکا تھا۔
شاید ہم انسان ایک دوسرے کے مقابل نہیں بلکہ اس ہم فطرتی بقا کے مد مقابل ہیں جس نے انسان کی مادی بقا کے لیئے شعور کو بقا کی منظم صورت عطا کی تھی۔