ایک لکھاری کی گفتگو

ایک لکھاری کی گفتگو

ایک لکھاری کی گفتگو

از، نصیر احمد

(گفتگو بھی فرضی ہے، کردار بھی فرضی ہیں۔ واقعات بھی فرضی ہیں)

ناہید:  تو تم لکھتے ہو۔

ندیم:  ہاں

ناہید:  کیا لکھتے ہو

ندیم:  بہت کچھ، گنوانے بیٹھ جاؤں، تو بات لمبی ہو جائے گی

ناہید: کیسا لکھتے ہو

ندیم: اردو نثر میں سب سے اچھا، جو پہلے لکھتے تھے اور جو اب لکھتے ہیں ،ان سب سے اچھا۔

ناہید: مغرور ہو

ندیم: نہیں، مسخری کر رہا ہوں۔ ذرا ملکی چڑ جاتے ہیں، اچھا لگتا ہے۔

ناہید: پھرٹھیک ہے، ہم لوگوں کے بارے میں بھی کچھ لکھو۔

ندیم: کیا لکھوں؟

ناہید: جو ہم پر بیتتی ہے۔

ندیم: بتائیں؟

ناہید: یہ دیکھو یہ غزل ہے۔ اس کے گھر رات کو گاڑیاں بہت آتی ہیں۔ اس کے کوئی انکل ہیں۔ محلے والے سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے انکل نہیں ہیں۔ کسی نے کچھ دیکھا سنا نہیں لیکن کسی کے بارے میں کوئی بات چل نکلے،وہ سچ بن جاتی ہے۔ یہ غزل بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ اس نے کسی اہم آدمی کو کچھ نا مناسب کرتے دیکھ لیا تھا۔ اسے خاموش رہنا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے بات کا وہ بتنگڑ بنایا کہ اس آدمی کی شہرت خطرے میں پڑ گئی۔ وہ شہرت جس کی حقیقت ہم سب جانتے ہیں لیکن وہ حقیقت برملا ہوجائے تو پیسوں کا نقصان ہو گا۔ اب اس زمانے میں یہ نقصان اٹھانا ہمت نہیں حماقت ہے۔ تم ہنس پڑے شاید ہمیں چڑانے کے لیے۔

ندیم: نہیں بات کی بر جستگی کی داد دے رہا ہوں۔

ناہید: اتنے مشکل لفظ مت کہو، مشکل لفظوں سے مساوات ٹوٹتی ہے اور جب مساوات ٹوٹ جائے تو سمجھ بوجھ فارغ ہو جاتی ہے اور جب سمجھ بوجھ غارت ہو، تو سچی بات کہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔

ندیم: سوری، یہی لفظ ذہن میں آیا تھا، مساوات کا خاتمہ مقصد نہیں تھا لیکن آپ اس غزل کے بارے میں کچھ کہہ رہی تھیں؟

ناہید: ہاں یہ غزل۔ اس غزل نے اس آدمی کے بارے میں مزے لے لے کر قصے کہے۔ اور وہ قصے محلے میں پھیل گئے اور اس آدمی نے اس غزل کو محلے سے نکالنے کی ٹھان لی۔ پہلے اس کے مکان کا کرایہ بڑھا۔ پھر بڑھتی ہوئی فحاشی کے خلاف مجلسیں برپا ہوئیں۔ اس غزل نے عدالت کا رخ کیا۔ ابھی مقدمہ چل ہی رہا تھا کہ پولیس والے اس غزل کو گرفتار کر کے حوالات لے گئے۔ اب ہماری یہ دوست ہے، اس لیے ہم لوگ اسے چھڑا لائے۔ لیکن رہائی کی شرط یہ ٹھہری کہ یہ غزل محلہ چھوڑ دے گی۔ اب اس نے کسی اور جگہ مکان کرائے پر لے لیا ہے۔ ایک اور بات بھی تھی، یہ غزل بہت پیاری ہے، یہاں پر سب سے زیادہ خوب صورت، خود ہی دیکھ لو، تمھاری نظریں بھی اس کے چہرے سے نہیں ہٹ رہیں۔

ندیم: نہیں یہ بات نہیں، غزل بہت حسین ہے لیکن اس وقت میں اپنی ہی سوچوں میں گم ہوں۔ بس آپ خواہ نخواہ بہت سیانی بننے کی کوشش کررہی ہیں، جو دانائی آدمی کی اچھائی نہ دیکھ سکے، وہ دانائی اچھائی سے محروم ہو جاتی ہے۔

ناہید: کیا بات ہے؟ تم شاید اپنی تعریفوں کے مرض میں مبتلا ہو۔

ندیم: میں نے کہا ناں، بس آپ کو چڑا رہا ہوں،

ناہید: تو تم غزل کو تاڑ رہے تھے،

ندیم: نہیں، میں نے کہا ناں میں اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔

ناہید: ھاھاھا، ٹھیک کہتے ہو گے، لیکن حسن سے بھی نقصان وابستہ ہیں۔

ندیم: اور بہت سے فائدے بھی۔

ناہید: جیسے اس غزل کو سلائی مشینوں کی اتنی پیشکشیں ہوئیں کہ اگر یہ غزل قبول کر لیتی، تو شہر میں سلائی مشینوں کا کال پڑجانا تھا۔ لیکن اس نے حسن سے وابستہ نقصانات کو ترجیح دی اور اب یہ محلہ چھوڑ کر جارہی ہے۔ اور اس کا یہ حسن اس کے لیے مصیبت کا باعث بن گیا۔

ندیم: آپ لوگ اس کے لیے کچھ زیادہ بھی کر سکتے تھے۔

ناہید: ہم جہاں پر ہیں، جتنا اس غزل کے لیے کیا ہے، وہ بھی بہت زیادہ ہے۔ دو تین کی تو اتنا بھی کرنے پر پٹائی ہوئی۔ لیکن دوست ہے، اسے تھانے میں خوار ہوتے دیکھ کر برا لگا۔ پلے سے کچھ پیسے بھی گئے لیکن یہ غزل وہ پیسے لوٹا دے گی۔ لیکن تم کوئی بہت بڑے بدھو ہو۔

ندیم: وہ تو میں ہوں لیکن کچھ بہتر کرنے کی ہمیشہ کچھ گنجائش موجود رہتی ہے۔

ناہید: کبھی کچھ بہتر کیا بھی ہے، اب سچ بولنا ہمیں چڑانا نہیں۔

ندیم: ھاھاھا، اب جتنا بھی کیا ہو گا، کم پڑ جائے گا، لیکن سچی بات ہے کچھ زیادہ نہیں، اپنے حصے سے بہت ہی کم۔

ناہید: چلو بادشاہ سلامت نے سچ بول دیا۔ ہم غریبوں کے لیے یہ بھی بڑی بات ہے۔

ندیم: آپ تو طعنوں پر اتر آئیں، اس غزل کی درگت میں میرا کوئی حصہ نہیں

ناہید: سب سے اچھا لکھتے ہو اور اتنی سی بات کا علم نہیں۔ جہاں چیزیں اس قدر بگڑی ہوں، وہاں حصہ سب کا ہوتا ہے۔

ندیم: یہ تو میں بھی کہتا رہتا ہوں۔

ناہید: لیکن کرتے نہیں۔

ندیم: کرتا بھی ہوں، لیکن جیسے میں نے خود کہا، جتنا کرنا چاہیے، اس سے بہت کم۔

ناہید: چلو کوئی وجہ ہو گی تمھاری، کوئی اور ہوتا تو انکسار کہتی، یہ خامی خدا کے فضل و کرم سے تم میں تو پائی ہی نہیں جاتی۔ لیکن ہماری بات ضرور پہنچا دینا۔ اور لوٹ کے آنا، یہ عفت بھی ہے، اس کی بات بھی لوگوں تک پہنچانی ہے۔

ندیم: تو میں آپکا قاصد،

ناہید: یہی تو لکھنے والوں کا کام ہوتا ہے، لیکن ہم سے معاوضے کی توقع نہ کرنا۔

ندیم: ایسی کوئی توقع نہیں ہے، وہ تو آپ کی شکل دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا۔

ناہید: اب تم بد تہذیبی پر اتر آئے ہو،شاید چڑانے کے لیے لیکن تمھارا چڑانا اچھا لگا۔

ندیم: یہ تو اچھی بات ہے، اور اس اچھی بات کے صلے میں آپ کی باتیں لوگوں تک پہنچ جائیں گی۔

ایک اور گفتگو

ناھید: تم تو سنگدل سے ہنسوڑ نکلے

ندیم:  وہ کیسے؟

ناہید: اس غزل کی  بات جو تم نے لکھی ہے، وہ تو خبروں سے بھی زیادہ پھیکی ہے۔ اب تو خبریں بھی ناچتی گاتی، بین کرتی، کوسنے دیتی اور گالیاں دیتی پائی جاتی ہیں، تم نے تو یہ بات ایسے بتائی جیسے کوئی کلرک اپنے افسر کو رسید کے مندرجات بتاتا ہے۔ اور پھر ہنسی مذاق کرنے لگے۔ ایسے تو کچھ خاص فرق نہیں پڑنے والا۔

ندیم: تو کیا کرتا، ساتھ میں بناکا گیت مالا والی سسکیاں بھی منسلک کر دیتا۔

ناہید: ھاھا ھا، لیکن ایک انسان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اور زیادتیوں سے دکھ جنم لیتے ہیں، اور اگر تم دکھوں کی کہانی نہیں بتاؤ گے تو ہمدردی کیسے اجاگر ہو گی۔ لگتا ہے، زندگی میں کبھی دکھ سہے ہی نہیں، ساری ہنستے ہنساتے مزے میں ہی گزر گئی ہے۔

ندیم: ہاں کچھ ایسا ہی ہے، لیکن دکھوں کی کہانی تب لکھوں ناں، جب اس غزل سے کچھ بات ہو۔ جب یہ بات کہنے کے لیے غزل موجود ہے، میں کیوں اندازے لگاتا پھروں۔ وہ ایک ضرب المثل ہے ہمارے علاقے کی جس میں کچھ گدھیوں اور کمھاروں کاذکر آتا ہے۔

ناہید: ھاھاھا، ٹھیک طرح سے وہ مثال بھی تم نے نہیں سمجھی، اس میں بھی ہمدردی کا  سماجی حقائق سے ایک تعلق ہے اور اس طرح کی ہمدردی تو بے ساختہ ہے، تمھارے علاقے کے لوگوں کی طرح  لیکن تمھیں غزل سے بات نہیں کرنے دوں گی۔

ندیم: اس کا فیصلہ اسے خود کرنے دیں ناں،

ناہید: جو دوست بہت پیارے ہوں، ان کے تحفظ کی خاطر کبھی ان کے لیے فیصلے خود کرنے پڑتے ہیں

ندیم: میرے نزدیک یہ پیار کی انتہائی مسخ شدہ صورت ہے، ایک چیز آزادی بھی تو ہوتی ہے۔

ناہید: مناسب تربیت کے بغیر آزادی خطرناک ہوتی ہے۔

ندیم: اور آزادی کے تجربے کے بغیر آزادی کا حصول بھی ممکن نہیں ہوتا۔

ناہید: تمھاری اسی آزادی پسندی سے میں خوفزدہ ہوں۔

ندیم: ویسے تو آپ بہت بڑی افلاطون ہیں لیکن ابھی تک آپ کے خوف پر مبنی اندازوں کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے میں کہوں گا کہ جیسے میں لکھ رہا ہوں، اس میں مداخلت نہ کریں، ہر بات کی ایک جگہ ہے، جب وقت آئے گا، آپ کو درست جگہ پر آپ کو اپنی پسندیدہ باتیں مل جائیں گی۔

ناہید: چلو دیکھتے ہیں، پیاز کی کون سی پرت سونا بنتی ہے۔

ندیم: یہی تو مسئلہ ہے، پیاز کی پرتوں سے سونے کا کوئی تعلق نہیں، سونا کانوں میں ہوتا ہے، پیاز میں ڈھونڈیں گی نہیں ملے گا۔

ناہید: ہم نے تو سونا دکانوں میں  ہی دیکھا ہے۔

ندیم: ہاں ناں، اسی لیے کان کنوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔

ناہید: اچھا جی، تو کان کن اپنے بارے میں کچھ بتائیں ناں

ندیم: میں اپنی بات نہیں کر رہا، اپنی بات میں بہت کم کرتا ہوں، یہ سب کچھ دیکھا ہوا، سنا ہوا اور سمجھا ہوا  ہے۔ یہ باتیں ہوتی رہیں گی، آپ اس عفت کی بات بتائیں۔

ناہید: تم بات ٹال گئے چلو پھر کبھی سہی۔ یہ عفت بڑی زبان دراز، بد تمیز اور بے ہودہ گو ہے، لوگ کہتے ہیں، خدا نے اسے اس کی بدکلامی کی سزا دی ہے۔ ہو سکتا ہے ایسے ہی ہو، ہم سب میں کچھ نہ کچھ خامیاں ہوتی ہیں، اور جب زندگی میں کچھ خراب ہو جائے، لوگ یہی کہتے ہیں اور جب کوئی بہت اچھا ہو جائے، تب خوبیوں کا بھی تزکرہ نہیں کرتے۔ خدا کی مرضی جانے کیا ہے، لیکن کہیں کچھ اور بھی بہت خراب ہے، جس کی طرف یہ تقدیر پرستی نہیں دیکھنے نہیں دیتی۔ اوہ تم پھر مجھے افلاطون ہو نے کے طعنے  دو گے، پتا نہیں ان مردوں کی ہشیار عورتوں سے پھٹتی کیوں ہے؟

ندیم: ایک اور غلط اندازہ، لیکن ٹھیک بات کہہ رہی ہیں، یہ دانشمندی بھی تو  تخت و تاج ہوتی ہے ، اب عورتیں دانشمند ہو گئیں تو راج سنگھاسن پہ یا تو ساتھ بٹھانا پڑے گا، یا اترنا پڑ جائے گا ، عزت، شہرت اور پیسے کا نقصان  کون آسانی سے سہتا ہے؟

ناہید: اور تم سب سے مختلف ہو

ندیم: آپ کے ذہن میں ایک تعصب ہے، اور آپ کچھ ثابت کرنا چاہتی ہیں، اس لیے میں اپنی اچھائی پرجتنا بھی اصرار کروں گا، آپ کے شکوک اور گہرے ہوتے جائیں اس لیے اس بات کو ملتوی رکھیں اور عفت کا گلہ بتائیں۔

ناھید: یہ تم اپنے بارے میں باتوں کو التوا میں کیوں ڈال دیتے ہو؟

ندیم: کیوں کہ ابھی میں آپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔

ناہید: یعنی تھوڑی بہت عقل ہے۔ چلو جیسے تم کہتے ہو، یہ عفت بھلے طریقے سے ہنس بس رہی تھی۔ اپنے شوہر سے اس کے جھگڑے تو چلتے تھے ،لیکن بہت ساری خوشیاں بھی اس کی زندگی میں موجود تھیں۔ اور پھر یہ کام بھی کرتی تھی، کپڑوں کی اس کی ایک دکان تھی۔ اور گھر بھی اس نے اپنے پیسوں سے بنایا تھا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ لیکن ایک دفعہ یہ بیمار پڑ گئی۔ اس نے اپنی بہن کو تیمار داری کے لیے بلایا۔ چند ہفتوں میں نہ شوہر شوہر رہا، بچے بھی چھن گئے، دکان بھی چھن گئی، مکان بھی چھن گیا، طلاق ہو گئی، حق مہر، نان نفقہ، کوئی آسرا ٹھکانہ  کچھ بھی تو نہ رہا۔ میں بڑی حقیقت پسند ہوں، دل کی اجڑی نگری تو بس جاتی ہے لیکن پیسوں کا نقصان مشکل سے ہی سہا جاتا ہے اور اس کی حالت زار کے حوالے سے یہی ایک جرم سامنے آیا ہے کہ یہ تند گفتار ہے، اب تند گفتاری کی اتنی سزا نہیں بنتی مگر انصاف سے تہی معاشرے میں یہی ہوتا ہے کہ کچھ نقصان ہو گیا، تو پھر آپ مجرم۔ تم جو نہیں کہتے وہ میں خود کہوں گی، یہ صرف شب ہجر کی آہوں کی بات نہیں، اس کی زندگی چھن گئی ہے۔ ہماری یہ دوست ہے اور ہم اس کی کچھ مدد بھی کرتے ہیں لیکن مدد کنبے کے لوگوں سے آنی چاہیے تھی، مدد عدالت سے آنی چاہیے تھی، مدد حکومت کی طرف سے آنی چاہیے تھی اور تم لوگوں نے یہ جو فلاحی ادارے چلا رکھے ہیں، وہاں جو مرد موجود ہیں ، وہ ہر آسائش کی ایک ہی قیمت مانگتے ہیں،یا خود کو پیش کرو یا کوئی اور لا دو۔ یہ ہے تمھاری دنیا؟ اب یہ عفت کیا کرے؟

ندیم: معاشرے کے گھناؤنے حالات میں آپ میرا چہرہ دیکھ کر پتا نہیں کیا لذت حاصل کررہی ہیں۔ کرتی رہیں۔ لیکن اس عفت کے پاس اک ہنر تو ہے، اس نے بس ہمت کرنی ہے، کہیں سے شروع کرنا ہے، وہ سب صلاحیتیں واپس آ جائیں گی اور دھیرے دھیرے اس کے لیے چیزیں کچھ بہتر ہو جائیں گی۔

ناہید: واہ جی واہ، یہ تو ایسے ہے کسی ایڑیاں رگڑتے کو کہو کہ وہ نانگا پربت سر کر لے۔ کبھی خود بھی کچھ شروع کیا ہے؟

ندیم: ایک مشورہ ہے ، اس پر اتنی جذباتی کیوں ہو رہی ہیں؟ آپ اچھی ہیں ان کی مدد کرتی ہیں، لیکن  آہ و فغان سے کچھ آگے بھی تو ہوتا ہے، ایک ہنر ہے اور اگر اس ہنر کی ترقی ہو گی تو زندگی اچھی ہو گی۔ عفت اور ان سب کو اپنا مجلسی نہ بنائیں بلکہ کام کاج کی کچھ راہ دکھائیں۔ یہ بھی تو کیا جا سکتا ہے؟

ناہید: بکواس نہ کرو اور چلتے بنو،میرا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا، تو واپس آ جانا، تمھیں اس سائرہ کا مسئلہ بھی بتانا ہے۔ غصے کے لیے معذرت۔

ندیم: کوئی بات نہیں، غصہ کرنا جانتی ہیں، تو سہنا بھی سیکھیں۔

ناہید: کبھی خود بھی غصہ سہا ہے؟

ندیم: ھاھاھا، کہتی ہیں تو تصدیق نامہ لکھ دیتا ہوں کہ مجھ میں کسی قسم کی کوئی خوبی نہیں پائی جاتی۔

پھر گفتگو

ناہید: تم آئے ہو؟ پتا ہی نہیں چلا۔

ندیم: آپ نے دیکھا ہی نہیں یا پھر مستغرق شدی عشق خر۔

ناہید: ترجمہ کرو۔

ندیم: رہنے دیں۔

ناہید: کچھ فحش ہی بکا ہو گا۔

ندیم: نہیں تصوف ہے۔

ناہید: چلو جانے دو، میں سمجھی تھی کہ تم روٹھ گئے ہو گے۔

ندیم: روٹھنا کیسا، جو آپ نے کہا ہے، وہ تو کرنا ہی ہے۔

ناہید: میری بات کا اتنا دھیان؟

ندیم: اپنی دلچسپی بھی ہے۔

ناہید: ایک بات کہوں؟

ندیم: کہہ ڈالیے۔

ناہید: تمھیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے کوئی کھیلتا لڑکا سنجیدگی کے حصو ل میں مگن ہے مگر سنجیدگی اس کے پاس سے نہیں گزری۔

ندیم: ایک اور فیصلہ، مگر بات سنی ہوئی لگتی ہے۔

ناہید: تو پھر؟ زیادہ تر تو سنی سنائی ہوتی ہیں۔

ندیم: میں اعتراض نہیں کر رہا، بس ایک بات کہہ رہا ہوں۔ ویسے آج آپ بہت حسین لگ رہی ہیں؟

ناہید: لگتا ہے غزل سے مایوسی کے بعد تم نے قفل کھولنے کا کوئی نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔

ندیم: نہیں ایسی کوئی بات نہیں، آپ نے ایک چشمہ پہن لیا ہے، کوئی اور رنگ آپ دیکھ ہی نہیں سکتیں۔ چلیں یہ سب جانے دیں، سائرہ کا مسئلہ بتائیں۔

ناہید: وہ تو میں تمھیں بتاؤں گی ،لیکن تم اس بات سے کیوں خوفزدہ ہو کہ تمھیں میں جان لوں۔

ندیم: میرا اندازہ ہے یہ خوف دو طرفہ ہے۔ آپ جارحانہ طریقے سے کچھ جاننا چاہتی ہیں۔

ناہید: اور تم مقابلہ کرنے سے بھاگ ر ہےہو، فرار میں کوئی دفاع نہیں ہوتا۔

ندیم: میرا آپ سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

ناہید: یعنی میں مقابلے کے قابل نہیں ہوں۔

ندیم: یہ میں نہیں کہہ سکتا ،

ناہید: کیونکہ تم بہت کچھ چھپا رہے ہو، اور سچ کے سامنے آنے سے ڈرتے ہو۔

ندیم: اور اگر آپ سچ جانتی ہیں تو فاش ظاہر اور برملا کہہ کیوں نہیں دیتیں۔

ناہید: میں تو مسلسل سچ کہہ رہی ہوں۔

ندیم: یہ تو آپ کے اندازے اور خدشے ہیں۔

ناہید: تو مجھے غلط ثابت کر دو۔

ندیم: لیکن اس سے پہلے آپ نے بھی تو اپنے آپ کو غلط ثابت کرنا ہے۔

ناہید: تم بہت چالاک آدمی ہو اور اپنی چالاکی پر نازاں بھی، اور یہی تمھاری خامی ہے۔

ندیم: ایک اور اندازہ، میں ایک سادہ لوح آدمی ہوں  اور سچ ہی میرا سہارا ہے اور آپ ایک ایسے پولیس افسر کی طرح ہیں، جو اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہے، اس لیے آپ کے ہاں میں  مجرم ہی رہوں گا۔

ناہید: ابھی تو تم مشتبہ ہو۔

ندیم: ایک ایسا مشتبہ جس کا جرم ثابت ہو گیا ہے، بس رسمی کاروائی کی دیر ہے۔ اس رسمی کارروائی سے پہلے کچھ کام کرنا ہے اور آپ کام کی بات کریں۔

ناہید: اوہ اچھا، تو یہ سائرہ ہے، یہ مطلقہ ہے، اور اس کے دو بچے ہیں، شوہر زندگی کی شاہراہ میں اسے اکیلے چھوڑ کر کہیں آگے بڑھ گیا ہے، حق مہر، نان نفقے میں بے حیائی کے طعنے ہیں، لیکن ان طعنوں کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ بے حیا یہ نہیں ہے، لیکن انسانی ضرورتوں نے اسے با حیا بھی نہیں رہنے دیا ہے۔ اس بات کا کچھ غلط مطلب نہ لے لینا، کوئی اور بات ہے۔ جس کا ذکر میں کروں گی۔ اس کا ذریعہ روزگار حکومت  اور حکومت سے وابستہ اداروں کی شہریوں سے دوری ہے۔ ہسپتال میں بہتر سہولت کے لیے کسی جاننے والے کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ لوگوں میں اتنا اعتماد بھی نہیں کہ رشوت کی پیش کسش بھی کر سکیں، اس میں اعتما د ہے اور اپنے اس اعمتاد کو اس نے روزگار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ہسپتال، پولیس، پانی، بجلی، تعلیمی ادارے، عدالت، جائیداد، خریداری کے مرکز، ہر جگہ یہ اپنے اعتماد کا فائدہ اٹھاتی ہے، جان پہچان کر لیتی ہے، کبھی رشوت کا وسیلہ بن جاتی  اور کبھی رشوت کے بغیر ہی کام ہو جاتا ہے۔ اس سب کے دوران بہت سارے مردوں سے اس کا رابطہ رہتا ہے اور ان رابطوں کے دوران لالچ کے زیر اثر یہ ایک غلطی کر بیٹھی ہے ،جس کے نتیجے میں اس کی زیادہ تر آمدنی ایک بلیک میلر کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کے پاس غربت کے سوا کچھ نہیں ہے، اب ہم لوگ اس کی مدد کرتی ہیں۔ اس کا کچھ گزارا ہو جاتا ہے۔

ندیم: کیا اس بلیک میلر کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا؟

ناہید: ھاھاھا، اس کی ساری آمدنی اچھی شہرت سے جڑی ہے، جب وہ شہرت نہیں رہے گی، اس میں وہ اعتماد بھی نہیں رہے گا، اعتماد نہیں رہے گا، تو گراہک بھی نہیں رہیں گے

ندیم: لیکن بلیک میلر بھی تو کافی بزدل ہوتے ہیں

ناہید: لیکن وہ بلیک میلر ایک مرد ہے اور جو معاشرہ بزدل ہو، وہ بزدلوں کا ساتھ دیتا ہے، یا  تمھاری طرح بہادری کا کھیل کرنے والوں کا،

ندیم: میں نے تو کبھی بھی نہیں کہا کہ میں بہادر ہوں، لیکن میں نے دیکھا ہے، کہ جب بھی کسی حل کی بات آتی ہے، آپ غصے میں آ جاتی ہیں یا تمسخر اڑانے لگتی ہیں۔

ناہید: اس لیے کہ تمھارے حل احمقانہ ہیں۔

ندیم: آزمائے بغیر ہی۔

ناہید: اتنے احمقانہ ہیں کوئی ذی شعور اپنے حالات کے ارد گرد انھیں نہیں آزمائے گا۔ اور ہر صورتِ حال کے لیے ایک ہی نسخہ کام نہیں کرتا۔

ندیم: ہر صورتِ حال؟

ناہید: اب تم شک کر رہے ہو، کوئی راز نہیں ہے، بس ایک بات ہی کی ہے۔

ندیم: مجھے لگتا ہے کہ آپ میرے بارے میں کچھ جانتی ہیں۔

ناہید: مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ تم میرے بارے میں کچھ جانتے ہو۔ لیکن کسی نہ کسی جگہ پر ہم نے ایک دوسرے کو سب کچھ بتانا ہے۔

ندیم: شاید جب ہماری گفتگو اپنے اختتام پر ہو گی۔

ناہید: چلو دیکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ تم حل کی بات کرتے ہو، اگلی دفعہ میں کوئی مسئلہ نہیں بتاؤں گی، بلکہ مسائل کے حل پر بات ہو گی۔

ندیم: ٹھیک ہے، جو میری سمجھ  آیا، وہ میں آپ کو بتا دوں گا۔

ناہید: ٹھیک ہے پھر ملتے ہیں۔

ناہید: یہ تم مجھے ہمیشہ آپ کیوں کہتے ہو؟ مجھے تم کہنے سے تمھارے لعل تو نہیں کھو جائیں گے؟ یہ فاصلہ کیوں رکھنا چاہتے ہو؟ کسی بڑائی یا برتری کا غرور تو نہیں؟

ندیم: نہیں یہ بات نہیں، کیسی بڑائی؟ کسی دن تم بھی کہنا شروع کر دوں گا۔ لیکن ایک فاصلہ تو ہے، فی الحال اسے میں قائم رکھنا چاہتا ہوں۔

ناہید: اور اس فاصلے کی نوعیت کیا ہے؟

ندیم: ابھی تک سمجھ نہیں پایا لیکن یہ صرف آپ سے نہیں، سب کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ ان سے بھی جنھیں میں تم کہہ کر مخاطب بھی ہوتا ہوں۔

ناہید: لگتا ہے، کوئی ویرانی سی ویرانی ہے، کوئی تنہائی سی تنہائی ہے، جسے ابھی تک کوئی ختم نہیں کر سکا۔ کیا دوست نہیں ہیں؟

ندیم:  اتنی کوئی ویرانی نہیں ہے، دوست بھی ہیں۔

ناہید: کیسے دوست؟

ندیم: سب اچھے ہیں۔

ناہید: مجھے کیوں نہیں دوست بنا لیتے؟

ندیم: دوست بنا لیا تو آپ سے توقعات بندھ جائیں گی۔ ا

ناہید: اور میں توقعات پر پورا نہیں اتر پاؤں گی۔

ندیم: شاید، بس جانیے، ایک مشکل سی راہ گزار ہے، میں نہیں چاہتا کسی کو تکلیف میں ڈالوں، لیکن جس نے انتخاب کر لیا، اس کو تو تکلیف سہنی ہی پڑے گی۔

ناہید: اور میں آرام و سکون کی شیدائی دکھائی دیتی ہوں۔

ندیم: ابھی میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

ناہید: سچی پوچھو تو تمھارے فیصلے سے میں خوفزدہ ہوں۔ اگر تم سے دوستی کر لی، انجام اچھا نظر نہیں آرہا اور نہیں کی تو ساری زندگی اپنے آپ کو ملامت کرتے گزرے گی کہ کسی معیار کے سامنے کم کیوں پڑ گئی۔ تم نے کہا تو کچھ نہیں، لیکن جب سے تم سے بات چیت شروع ہوئی ہے، ایسے لگتا ہے، جیسے کوئی حشر کی گھڑی ہے اور میرے پاس اپنے دفاع کے لیے دلائل کم ہیں۔ اتنی پر پیچ، پیچیدہ اور گنجلک سی زندگی کیوں؟ ہنس بول کر سیدھے سبھاؤ سے بھی گزر سکتی تھی۔

ندیم: یہ تو آپ کا دیکھنے کا انداز ہے ورنہ میں تو ہنس بول کر سیدھے سبھاؤ ہی جی رہا ہوں۔

ناہید: یعنی میں جواہر خانے میں قابل قبول نہیں۔

ندیم: کیسا جواہر خانہ، بس اک دیہاتی کی گٹھڑی ہے، جس میں سہاگہ ہی ہے۔

ناہید: اب یہ انکسار کیوں؟

ندیم: سچی بات کی ہے، انکسار کیسا۔

ناہید: کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟

ندیم: چلیں بات بڑھاتے ہیں، بات بڑھے گی تو برقع بھی اتر جائے گا، پچھلی دفعہ آپ کچھ پوچھنا چاہ رہی تھیں۔

ناہید: ہاں ہم عورتوں کی صورتِ حال؟ کیا حل ہے تمھارے ذہن میں۔

ندیم: دونوں صنفوں کی، بلکہ سب صنفوں کی آئینی اور قانونی برابری ہونی چاہیے اور آئین اور قانون کے بارے میں کسی بھی مذہب سے رہنمائی نہیں لینی چاہیے۔

ناہید: یعنی ایک نا ممکن بات۔

ندیم: بہت ساری جگہوں پر ایسے ہو چکا ہے۔

ناہید: جگہ جگہ کی بات ہے۔

ندیم: پہلے تو ایک ہی جگہ تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس آئینی اور قانونی صنفی برابری میں اضافہ ہوتا گیا۔

ناہید: لگتا ہے، اپنے سندر سپنوں کے نشے میں خبریں ہی نہیں دیکھتے۔ جو تم چاہتے ہو، وہ سب کچھ تو لوٹ پلٹ رہا ہے، تمھاری ان جگہوں پر بھی جن کے تم اسیر ہو۔

ندیم: یہ لوٹ پلٹ ہوتی رہتی ہے لیکن اچھی اور سچی بات تو زندہ ہی رہتی ہے۔ اور میں کسی بھی جگہ کا اسیر نہیں، جو بھی کہا ہے، ایسے ہی سوچا اور سمجھا ہے۔

ناہید: لیکن یہ ہو نہیں پائے گا۔

ندیم: ہاں، لیکن شمع جلتی رہے، یہ بھی تو ایک ذمہ داری ہے۔ اور معاشی صورتِ حال۔ جائیداد میں برابر کا حصہ، ملازمت میں برابر کے مواقع اور عوامی نمانئندگی میں تعداد میں اضافے کی کو ششیں۔

ناہید: سب اچھی باتیں، لیکن قابل عمل نہیں۔

ندیم: قابل عمل ہو بھی سکتی ہیں، بس ایک دو نسلوں کی تربیت کی بات ہے۔ ہم سے اچھی اور مختلف تربیت۔

ناہید: یعنی جو ہورہا ہے، وہ ایک جادو کی چھڑی سے دور ہو جائے گا۔

ندیم: یہ میں نے کب کہا، سب کچھ کوشش اور ہمت سے ہو گا، عقلمندانہ فیصلوں سے ہو گا۔

ناہید: اور عقل کیسے آئی گی؟

ندیم: تعلیم کے ذریعے، تربیت کے ذریعے، ہم دردی کے ذریعے، محبت کے ذریعے، حکومت کی کوششوں کے ذریعے، خواتین کے برابری پر اصرار کے ذریعے۔

ناہید: : یہ تو ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔

ندیم: لیکن کچھ بڑا سوچنے اور کرنے سے دھرتی تو نہیں پھٹتی۔

ناہید: دھرتی تو نہیں، لیکن کچھ نہ کچھ تو پھٹتا ہی ہے۔ تم عیش و آرام میں اونچی اونچی باتیں کرنے والے پڑھے لکھے امیر کبیر لوگوں میں سے ہو۔

ندیم: اب ایسا بھی نہیں ہے لیکن امیر ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ اب پر اچھی بات بھی حرام ہو گئی ہے۔

ناہید: پھر طرح دے گئے، لیکن تمھیں انسانوں اور ان کے ترتیب معاشروں کی کچھ بھی سمجھ نہیں ہے۔ یہاں تو نگاہیں بھی زنجیریں ہیں اور چہرے پر آتے جاتے رنگ بھی قیدی بنا لیتے ہیں۔ پھر پردیس کبھی بھی دیس نہیں بن پاتا۔

ندیم: دیس بھی تو پردیس ہی ہے، جب سپنوں کی بھی آزادی نہیں۔ میرے سماجی شعور میں ہزار خامیاں سہی، لیکن بات تو میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔

ناہید: ہاں ایک ٹھیک بات جس پر عمل نہیں ہو سکتا۔ یہ تو بے فائدہ ہے۔ آدمی تو نفع نقصان کے اسیر ہیں۔

ندیم: نفع نقصان بھی تو ہمیشہ سے طے نہیں ہوتے۔ وقت کے ساتھ بدلے جا سکتے ہیں۔

ناہید: سب وقت پر منحصر ہوتا ہے، اگر وقت تشدد کو کاروبار سمجھتا ہے اور اس کاروبار کے نتیجے میں لوگ امیر ہو رہے ہوں، تو کوئی بھی اچھی بات رکاوٹ نہیں بنتی۔ بلکہ اچھی بات کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔

ندیم: اب اتنا بھی اندھیر نہیں ہے، بہت کچھ تو ہمارے سامنے بھی اچھا ہوا۔ تشدد کے خلاف قانون بھی بنے ہیں، ایک سطح پر آئین میں برابری بھی موجود ہے، پہلے کی نسبت احساس بھی زیادہ ہے۔

ناہید: ایک جلسہ اور سب کچھ ختم۔

ندیم: بہت جلسے ہوئے پھر بھی کچھ اچھا ابھی تک موجود ہے۔ آپ تو ہمت ہارے بیٹھی ہیں۔

ناہید: کہاں ہمت ہارے بیٹھی ہوں، ان سب کے لیے تھوڑا بہت کرتی بھی رہتی ہوں لیکن اس تھوڑے بہت کی بہت قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، تم تو بس اچھی باتیں کرنا جانتے ہو،اچھی بات کے لیے تمھارا کبھی کچھ نقصان نہیں ہوا۔ اور پتا نہیں تمھاری ان اچھی باتوں کے پیچھے کتنی بدی چھپی بیٹھی ہے، وہ بدی جس کی گہرائی ماپنے نکلو تو راتیں کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہیں۔

ندیم: پتا نہیں، تو معلوم کر لیں، آپ کے لیے معلوم کرنا اتنا مشکل نہیں ہے اور شاید کچھ معلوم کر لیا ہے جس کی وجہ سے رمز و اشارہ میں اتنی دردناک باتیں کر رہی ہیں۔

ناہید: یعنی بدی موجود ہے؟

ندیم: وہ کہتے ہیں ناں، کہ ہر انسان میں یسوع مسیح اور عزازیل موجود ہوتے ہیں لیکن یسوع مسیح کو عزازیل نہیں سمجھ پاتا اور عزازیل کو یسوع مسیح نہیں جان پاتے۔

ناہید: کتنی خوب صورت بات ہے، یعنی تم اپنی بدی سے بے خبر ہو۔

ندیم: میں مذہبی نہیں ہوں۔

ناہید: : یعنی اپنی بدی سے آگاہ ہو؟ پھر تو تم بہت خوف ناک اور خطرناک آدمی ہو۔ تم سے ڈرنا چاہیے۔

ندیم : بدی سے آگاہی مجرم تو نہیں بنا دیتی؟ یہ آگاہی ایک اچھا انسان بھی تو بنا سکتی ہے۔

ناہید: اور تم ایک اچھے انسان ہو۔

ندیم: سمجھتا تو میں یہی ہوں، اور کچھ دیر پہلے آپ نے بھی ایسی ہی کوئی بات کی تھی۔

ناہید: ھاھاھا، اچھا میں ہی اپنے کارڈز شو کردیتی ہوں لیکن میں ایک جھکا سر نہیں دیکھ رہی، ایک بگڑا ہوا بچہ دیکھ رہی ہوں، جو اپنی ضد پر قائم رہتا ہے، ایڑیاں پٹختا ہے، مٹھیاں بھینچتا ہے اور کھلونے توڑتا ہے۔

ندیم: اور اگر اس سے بات مختلف ہو تو؟

ناہید: یہ تو سچ کی رونمائی کے بعد پتا چلے گا۔

ندیم: تو پھر سچ کہہ دیں-

ناہید: جیسے تم نے کہا، جب یہ گفتگو ختم ہو گی۔

ندیم: ٹھیک ہے، پھر ملتے ہیں۔

آخری گفتگو

ندیم: بڑے دنوں بعد یاد کیا۔ میں تو دیدار کی امید ہی کھو بیٹھا تھا۔

ناہید: اب اونچی اونچی باتیں کرنے والوں کو جاننے میں دیر لگ ہی جاتی ہے۔ دراصل جاننے میں نہیں، جانے ہوئے کی تصدیق میں۔

ندیم:  لگتا ہے میرا روز حساب آ گیا؟

ناہید:  تم جیسے کا کہاں روز حساب آتا ہے؟تمھارے علاقے کی ہی ضرب المثل ہے،جس میں بدی چھاؤں بن جاتی ہے۔ جن کے لیے بدی چھاؤں بن جائے ،ان کا کیسا حساب؟

ندیم:  اوہ تو پھر آپ نے کیا جانا؟ ہاں آپ تو پہلے ہی سب کچھ جان گئی تھیں۔ لیکن تصدیق کے عمل کی تفصیل جاننے کا تو شاید مجھے حق بھی ہے؟

ناہید:  بتا دیتے ہیں۔ جو آئینہ دیکھنا چاہتا ہے، اسے دکھا دیتے ہیں۔ اونچی اونچی باتوں سے تو ہمیں لگا تھا ،گلی گلی چرچے ہوں گے لیکن جاننے والوں کو ڈھونڈنے میں ہی بہت وقت لگ گیا۔

ندیم: تو ان جاننے والوں نے کیا کہا۔

ناہید:  بہت کچھ، لیکن کسی کے پاس تمھارے بارے میں کہنے کے لیے کچھ اچھا نہ تھا۔

ندیم:  جیسے آپ کہتی ہیں بدی میرے جیسے لوگوں کے لیے چھاؤں ہے تو برا سننے میں مجھے کیا دشواری ہو گی؟

ناہید: وہ مجھے علم ہے۔ بس نفرت، ناراضی، دشمنی، حقارت، ترک تعلق کی خوشی، تعلق کی ندامت،ستم رسیدوں کے آنسو، بہترین لوگوں کا تمھارے بارے میں گفتگو سے گریز، بس ایسے لگ رہا تھا کسی بہت ہی بری جگہ سے گزر رہی ہوں۔

ندیم:  سب نے ایسے کہا؟

ناہید:  مجھے حیرانی ہے کہ تمھیں کچھ مختلف سننے کی اب بھی توقع ہے۔

ندیم: اتنی ناجائز بھی نہیں۔ آپ کا ایک تعصب تھا۔ لگتا ہے آپ نے وہی سنا جو اس تعصب کو توانا کرتا تھا یا آپ ملیں ہی صرف ان لوگوں سے جنھوں نے آپ کو آپ کا تعصب توانا کرنے میں مدد کی۔

ناہید:  نہیں، ایسا نہیں، میں دور قریب میں سے ہر قسم کے لوگوں سے ملی ہوں۔ آواز خلق نقارہ خدا۔

ندیم:  ہمارے ہاں کی خلق ایسی نہیں  ہے جس کی آواز میں کہیں خدا ملے۔

ناہید:  یعنی تم میں کوئی خرابی نہیں ہے، لوگ برے ہیں۔

ندیم:  جنھوں نے آپ کو میرے بارے میں اتنا برا بتایا، ان کو میں کیسے اچھا کہوں؟

ناہید:  یہ گھسی پٹی بات ہے۔ میں دنیا میں رہتی ہوں، مجھے سمجھ آ جاتی ہے ،کون اچھا ہے کون برا۔

ندیم:  آپ نے تو فیصلہ ہی کر دیا ہے۔

ناہید:  یہی سچی بات ہے۔

ندیم:  ہو سکتا ہے لیکن کوئی تو ہو گا جس نے کچھ اچھا بھی کہا ہو۔ اپنے حساب سے تو بہت کچھ اچھا کرتا رہتا ہوں۔

ناہید:  ھاھا۔ جو تم اچھا کر سکتے ہو، وہ یہی ہے کہ لوگوں سے دور رہو۔ کہیں بھی کوئی بھی نہیں ہے۔ تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ کیوں نہیں ہے؟

ندیم:  آپ ایک اہم شخصیت ہیں، شاید آپ نے لوگوں کی رائے کو اپنی اہمیت کے سہارے دیے ہیں۔ یا اپنی اہمیت کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی رائے کو رستے دکھائے ہیں۔ اور لوگ آپ کی پیروی کرتے رہے۔

ناہید: اس طرح کی چالاکیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ لوگ بس تم سے نفرت کرتے ہیں۔

ندیم:  کوئی شاعر خوش خواں؟ کوئی حسینہ رعنا؟

ناہید:  شاعروں کے تمھاری ہجو کہتے کہتے گلے بیٹھ گئے اور حسیناؤں کے چہرے سے تمھارا ذکر آتے ہی رعنائی ہی غائب ہو گئی۔

ندیم:  ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

ناہید:  خود غرضی اؤر خود پرستی میں تم نے کبھی دیکھا ہی نہیں کتنے کچل گئے۔ شاید تمھیں احساس ہی نہیں ہوا۔

ندیم:  پھر تو آپ میری دوست نہیں بنیں گی۔

ناہید:  کیسی دوستی؟ اب یہی آرزو ہے کہ تم یہ گفتگو ختم کرو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔

ندیم:  سچی پوچھیں تو میرا بھی یہاں ٹھہرنے کا دل نہیں کر رہا۔

ناہید:  اتنا ہی اعتراف میرے لیے کافی ہے۔

ندیم: ایک بات تو بتائیں؟

ناہید:  پوچھو لیکن آخری بات۔

ندیم:  آخری تو نہیں۔ آپ نے ایک کائناتی نفرت کاذکر کیا ہے۔ مجھے یقین نہیں لیکن شاید آپ ٹھیک ہی کہتی ہوں۔ لوگوں کا کیا پتا، کیا کیا دل میں چھپائے رکھتے ہیں۔ اس کا کوئی کارن تو ہو گا؟

ناہید:  وہ تو تمھیں معلوم ہو گا۔

ندیم:  کسی جرم کا ذکر؟ کسی جرم کا کوئی ثبوت؟

ناہید:  جرم ہوں گے ناں، اسی لیے تو اتنے سارے لوگ کہہ رہے ہیں۔

ندیم:  یعنی آپ نے پوچھا ہی نہیں۔ جاننے گئی تھیں، متکلمین کی طرح اپنے تصورات کے بارے میں ہمدردانہ باتیں چن  چن کر لوٹ آئی ہیں۔

ناہید:  متکلمین؟

ندیم:  علم کلام کے ماہرین ، جو سائنسی طریقہ کار کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ وجدان، کشف، کرامت جن کے لیے ٹھوس ثبوتوں سے اہم ہیں۔خوابوں میں جو جنات دیکھتے ہیں، اندھیرے میں بے ضرر سے شجر کو بھی کوہ قاف کا کوئی جن  سمجھ بیٹھتے ہیں کہ خوابوں کا پس منظر حقائق سے بے گانہ کر دیتا ہے۔

ناہید: اب فلسفوں میں مجھے مت الجھاؤ۔

ندیم:  لیکن آپ نے صرف نفرت جاننے کی کوشش ہے اور نفرت کو ہی کافی ثبوت سمجھا ہے۔

ناہید: لوگ ثبوت مٹا بھی تو دیتے ہیں۔

ندیم:  فرد جرم کی عدم موجودی میں لوگ کیسے ثبوت مٹائیں گے؟

ناہید: ہاں، سوچنے کی تو بات ہے۔

ندیم :  ایک اور بات بھی سوچنے کی ہے۔

ناہید:  وہ کیا؟

ندیم:  جس نفرت اور ناپسندیگی کی لائق آپ ہیں، وہ اتنے سارے لوگوں نے ہمارے لیے کیوں مخصوص کر دی ہے؟

ناہید:  کیا مطلب؟

ندیم:  مطلب میں بھی جاننے کی کوشش کرتا رہا ہوں اور جاننے کے نتیجے بدی کے ایک اور مرکز تک رسائی ہو گئی ہے۔ بہت ہی گھناؤنی بدی، روز مرہ ہے ، عام ہونے سے لیکن بدی کی گھن کم نہیں ہوتی۔

ناہید:  یہ کیا بکواس ہے؟

ندیم:  میں متکلم نہیں ہوں(ایک فائل نکالتے ہوئے) اس میں سب کچھ موجود ہے، سفر کا آغاز، واقعات، رسیدیں، مقدموں کی تفصیل، مقدموں کے بند ہونے کی تفصیلات، یاسمین، عفت، سائرہ اور بہت سے دوسروں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا۔ اس میں بس وہ آنسو اور آہیں نہیں موجود ہیں، جو برباد زندگیوں کا نوحہ ہیں۔ یہاں کوئی فلاح نہیں ہو رہی، کوئی سہارا نہیں دیا جارہا، لوگوں کا صرف استحصال کیا جارہا ہے اور آپ کر رہی ہیں۔ پڑھ لیجیے ،پھر بات کرتے ہیں۔

ناہید: (پڑھنے کے بعد) تم تو واقعی بہت چالا ک نکلے۔ ضرور کسی گھر کے بھیدی نے تمھیں یہاں تک پہنچایا ہے۔

ندیم:  میرے بارے میں شاید کوئی اندازہ ٹھیک نہیں ہے۔ بس جاننے کی جستجو اور محنت، اس کے سوا کچھ نہیں۔

ناہید:  تو اور بہت ساری محنت کے ساتھ یہ محنت بھی ضائع ہو جائے گی۔

ندیم:  تو سب نے برا نہیں بتایا؟

ناہید: اس سے اب کیا فرق پڑتا ہے۔ اپنی قیمت بتاؤ؟

ندیم: احتساب اور کوئی تلافی کی صورت۔ آپ لوگ تو شاید کفارہ کہتے ہیں۔

ناہید:  اب تمھاری قیمت جاننے کے لیے کچھ محنت کرنی پڑے گی۔

ندیم:  احتساب اور تلافی کے سوا کچھ نہیں۔

ناہید: تم نے کبھی سوچا کوئی کہیں کیوں ہوتا ہے اور کبھی یہ بھی سوچا یہاں مظلوم صرف مظلوم نہیں ہے؟

ندیم:  سب سوچا ہے اور مجبوری سے ہمدردی بھی ہے لیکن وہ سارے بھی موجود ہیں جو اس سب سے مختلف بھی ہیں؟

ناہید:  میرے جیسے حالات میں بھی؟ جو تم نے خود لکھے ہوئے ہیں۔ کوئی آپشن تھا میرے پاس؟ کوئی آپشن ہے میرے پاس؟

ندیم:  آپ جیسے حالات میں بھی لوگ مختلف کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی آپشن نہیں بھی ہوتے، لیکن آپ کے پاس تھے اور ہیں۔

ناہید:  شاید جنھیں تم جانتے ہو ان جیسی باہمت نہیں۔

ندیم: لوگوں کی زندگی ضائع ہو رہی ہیں۔

ناہید:  اور میری زندگی؟ اس کی تو تمھیں بھی پرواہ نہیں ہے۔ جنگل میں اپنا تحفظ کیا ہے میں نے؟ سب ایسے کرتے ہیں۔ جو نہیں کرتے وہ تم جیسے احمق ہیں یا ان کے پاس بہت دولت ہوتی ہے۔

ندیم:  میرے پاس تو نہیں ہے۔

ناہید:  وہی تو کہہ رہی ہوں۔ تمھیں مل سکتی ہے۔ اس بات کو نظر انداز کرو، میری ساری صلاحیتیں تمھاری۔ یہاں بدی کی ہر شکل ایک کاروبار بھی ہے اور کاروبار کا تحفظ ہوتا ہے۔ تمھارے بہت بازو  بن جائیں گے اور تمھاری سماجی قوت بے پناہ ہو جائے گی۔

ندیم:  لیکن پھر جنگل تو جنگل ہی رہے گا۔

ناہید: ہاں جنگل تو جنگل ہی رہے گا۔ تم جنگلی  بنو یا مہذب، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔

ندیم:  کیوں نہیں پڑتا۔ میں اس سب کا حصہ تو نہیں ہوں گا۔ شاید شمع جلتی رہے۔

ناہید:  احمق ہو ناں۔

ندیم:  نہیں، ایک اچھا آدمی۔

ناہید:  جو اتنے ثبوتوں کے باوجود بھی کچھ کر نہ پائے گا۔ اس لڑکی ملالہ کو جو برا بھلا کہتے ہیں، کبھی ان کی بات میں ثبوت دیکھا ہے؟ پھر بھی ان کی بات چل رہی ہے۔ اسی طرح میرا یہ بدی کا مرکز چلتا رہے گا۔ اور اگر تمھاری باتوں میں آکر میں اس سب سے ہٹ بھی جاؤں، اپنے جرائم کی سزا سہہ بھی لوں اور کچھ تلافی بھی کردوں، کچھ بھی نہیں رکے گا۔

ندیم: بہت کچھ اچھا بھی ہوا ہے۔

ناہید:  وہ کسی کے انتخاب سے نہیں ہوا ہے۔ وہ بس حالات کی لہریں ہیں جنھوں نے ساحل پر صدف پھینکے ہیں۔ جو پہلے پہنچ گئے انھوں نے وہ سب سمیٹ لیے ہیں، اب کسی اور کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔

ندیم: نہیں ایسا نہیں ہے، ہر جگہ فیصلے بھی موجود ہیں۔ آپ فیصلے سے اس لیے انکاری ہیں کہ آپ نے ایک مشکل فیصلہ کرنا ہے۔

ناہید:  میں اپنے مفاد کے خلاف کیسے جاؤں؟

ندیم:  یہ آپ کا مفاد نہیں ہے، دوسروں کا بھی نقصان ہے۔

ناہید:  چلو تم مجھے کائنات میں سب سے برا سمجھ لو۔ اور جو کچھ کرنا ہے کر لو۔ تم اونچی اونچی باتوں کے زعم میں اپنی اوقات نہیں جانتے۔ تم کچھ بھی نہیں کر پاؤ گے۔

ندیم: میں انتخاب، فیصلے اور کوشش بھی یقین رکھتا ہوں۔ مجھ سے جو بھی بن پڑا کرتا رہوں گا۔ آپ کو احتساب اور تلافی کی لے جانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ باقی اپنی اوقات بھی جانتا ہوں اور بدی کی بے پناہ طاقت بھی مگر میں جو کر سکتا ہوں، وہ نہ کروں، تو پھر میرے وجود کی وجہ نہیں رہتی؟

ناہید:  چلو کر لو، تمھاری میں جان بخش دیتی ہوں کہ تم مجھے اچھے لگے ہو لیکن تم اپنی کاوشوں میں ویران اور سر بہ زانو ہی رہو گے۔

ندیم:  آپ بدی میں لتھڑی ہوئی خدائی کے دعوے کر رہی ہیں۔

ناہید:  یہاں زندگی ایسے ہی ہے۔ کون نیک ہے اور کون بد، یہ بات اتنی اہم نہیں ہے۔ زندہ رہنا اور آسائشوں کا حصول ہی سب سے اہم چیز ہے۔ بدی اگر زندہ رکھتی ہے اور آسائشوں تک رسا کرتی ہے، تو بدی سے اچھی چیز کوئی نہیں۔

ندیم:  بدی کے نتائج بھی ہیں اور اچھائی کے امکانات بھی ہیں۔ میں بدی کے نتائج دکھاتا رہوں گا اور اچھائی کے امکانات روشن کرتا رہوں گا۔

ناہید:  صرف بدی اور اچھائی نہیں ہے، معاملات کافی پیچیدہ ہیں۔

ندیم:  جانتا ہوں، لیکن آپ کے معاملے میں بات بدی اور اچھائی کے بارے میں ہی ہے۔ جہاں پیچیدگی نہیں ہے ،وہاں پیچیدگی کا سہارا لینا ضروری نہیں ہے۔

ناہید:  اب میں تم سے اور بحث نہیں کرنا چاہتی۔ تم نے جو کرنا ہے کر لو۔

ندیم: آپ کی طرف سے گفتگو ختم لیکن میں احتساب اور تلافی کے حوالے جیسے میں نے کہا وہ کرتا رہوں گا۔ میری اتنی ضرورت بھی نہیں، میں اتنا اہم بھی نہیں لیکن کیا یہ مکالمہ اپنے آپ سے کر سکتی ہیں؟

ناہید: یہ مکالمہ میں اپنے آپ سے بہت پہلے کر چکی ہوں۔ دہراؤں گی تو وہی نتیجہ نکلے گا، جو مجھے اس راستے پہ لے آیا۔

ندیم: ایک اور کوشش ضرور کرنا۔ اب  آپ اپنی بات پر قائم اور میں اپنی بات پر۔ لیکن بہر حال گفتگو تو ضروری ہے کہ ہر چیز کی بنیاد گفتگو پر ہے۔ اب نہیں پھر کبھی سہی۔ اس فائل میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی بھی ہے جسے اس کے ماں باپ کو ایک پنچائت میں درندوں کی بھینٹ چڑھانا پڑا تھا کہ پنچوں کو یہی انصاف محسوس ہوا تھا۔ اور اس لڑکی نے اس درندگی کے  دوران اور درندگی کے بعد بہت دکھ سہے۔ وہ دکھ کہ بیان بھی نہیں کیے جا سکتے۔ اب وہ لڑکی درندوں کی ساتھی ہے۔ دروندوں کو کمزوروں اور بے بسوں کی بھینٹ دیتی ہے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ شاید میں اس لڑکی کو سمجھا پاؤں کہ درندوں کا ساتھ دیتی وہ اچھی نہیں لگتی۔ اپنے ساتھ کیے گئے ظلم و ستم کو عزت بخشتی اور اپنے ساتھ کیے گئے ظلم و ستم کو معاشرے میں پھیلاتی اچھی نہیں لگتی۔

(اور ان کی بات چیت ختم ہوجاتی ہے، ندیم چلا جاتا ہے اور ناہید زارو قطار رونے لگتی ہے)

نوٹ: مکالمے کا اختتام ایک دوست کے مشورے پر مبنی ہے۔ اور مشورے کے لیے ان دوست کا شکریہ۔