علامہ اقبال نے کہا، جو مجھے کشمیری ہونے پر ووٹ دینا ہو، تو نا دینا ووٹ

کشمیری ہونے پر ووٹ دینا

علامہ اقبال نے کہا، جو مجھے کشمیری ہونے پر ووٹ دینا ہو، تو نا دینا ووٹ

از، ملک تنویر احمد

برادری ازم کے بخار سے پاکستانی سیاست کا وجود ہمیشہ سے پھنکتا رہا ہے۔ قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں تو برادری ازم کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ ہم نے جس طرح اس ملک کے خواب دیکھنے والوں اور اس کی تعبیر پانے والوں کے نظریات و اصولوں کو زندگی کے ہر شعبے میں پس پشت ڈال رکھا ہے کچھ ایسے ہی انتخابات میں برادری ازم کے ناسور کو بھی آج تک حرز جاں بنایا ہوا ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے برادری ازم کے بت کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے سب سے پہلے اس وقت پاش پا ش کر ڈالا جب وہ پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے بطور امیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال مرحوم ’’زندہ رُود‘‘ نامی تصنیف میں رقم طراز ہیں:

1926 میں صوبائی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے جب مسلم مخصوص نشست پر علامہ اقبال نے کاغذات جمع کرائے تو ان کے مقابل سوائے دو افراد کے کسی مسلمان نے بھی کاغذات جمع نہ کرائے۔ بعد ازاں ایک صاحب ڈاکٹر اقبال کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ اب ایک صاحب بچ گئے جن کا نام ملک محمد دین تھا اور وہ آرائیں برداری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان صاحب کو ڈاکٹر علامہ اقبال کے خلا ف بطور امیدوار کھڑا ہونے کی شہ کانگریسی رہنما سر شادی لعل نے دی تھی۔ ملک محمد دین علامہ اقبال پر مختلف سمتوں سے حملہ آور ہوئے، ان صاحب نے علامہ اقبال پر الزام لگایا کہ وہ وہابی العقیدہ ہیں جب کہ ملک محمد دین اہلِ سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اہلِ سنت کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا انہوں نے آرائیں برادری سے اپیل کی کہ اقبال کشمیری النسل ہیں اس لیے آرائیں برادری کے افراد علامہ قبال کی بجائے اپنی برادری کے حق میں ووٹ ڈالیں۔ دوسری جانب علامہ اقبال نے برادری اور فرقہ پرستی جیسے ناسوروں کے قلع قمع کا بیٹرا اٹھایا ہوا تھا۔ علامہ اقبال نے بار ہا اپنے جلسوں میں اعلان کیا کہ جو مجھے کشمیری ہونے کے ناطے ووٹ ڈالنا چاہتا ہے وہ مجھے ایسے ووٹ سے معاف رکھے۔ انہوں نے بار بار کہا کہ برادریوں اور فرقوں کے بت کو پاش پا ش کرنا ان کا مقصد ہے۔ جب انتخابی نتائج کا اعلان ہوا تو علامہ اقبال نے با آسانی اپنے حریف کو چِت کر ڈالا۔ اس انتخابی نتیجے کے نتائج بڑے دل چسپ تھے۔ ملک محمد دین کے عزیز جنہوں نے علامہ اقبال کے حق میں ووٹ ڈالا ان کے مطابق برادری کے تعلیم یافتہ افراد نے علامہ اقبال کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا اور نا خواندہ افراد ملک محمد دین کے برادری اور فرقہ پرستی کے دام میں الجھ کر اس کے حق میں ووٹ ڈال آئے۔

علامہ اقبال نا صرف انتخابی معرکہ جیت گئے بلکہ ان کا خواب بھی پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد ا س قوم نے اپنے بانیان کے سنہری اصولوں کو جس طرح پس پشت ڈالا وہ ہماری تاریخ کا ایک کریہہ اور سیاہ باب ہے۔ برادری ازم او ر فرقہ پرستی جیسے عوامل  اس قوم کی رگ و پے میں جس طرح سرایت کر چکے ہیں وہ ہمارے قائدین کی تعلیمات اور طرز زندگی سے یکسر مختلف ہیں۔


مزید دیکھیے: علامہ اقبال کے کلام میں پنجابی کرداروں کا سوال


برادری ازم کو ہی لے لیں۔ ہر انتخاب میں برادری ازم کے نام پر سنہرے جال بچھائے جاتے ہیں کہ جس میں ووٹروں کو قید کر کے من پسند کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ ملک کے ہر کونے اور قریے میں برادری ازم کا ناسور اپنے پنجے گاڑ  چکا ہے۔ نسلی تفریق سے لے کر صوبائی شناخت کے جالوں میں اس قوم کو الجھایا جاتا ہے اور نادان قوم بھی ہر بار اسی کھائی میں گر پڑتی ہے۔

سیاسی جماعتیں بھی اس میں شریکِ جرم ہیں وہ بھی نظریات اور منشور کی بجائے ان افراد کو ٹکٹ سے نوازتی ہیں جو کسی خاص برادری کی اکثریت سے تعلق رکھتا ہو۔ آرائیں، جاٹ، اعوان، نیازی، پٹھان، سندھی، پنجابی، مہاجر، بلوچ کی بنیادوں پر جب ٹکٹوں کی تقسیم ہو اور ووٹ پڑیں تو پھر اس ملک میں یک جہتی اور یگانگت خاک آئے گی۔ جب برادری ازم کا عِفریت کردار و خدمات کو ہڑپ کر جائے تو پھر ایسے افراد اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں جن کا نظارہ ہم عرصۂِ دراز سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔

برادری ازم کے نام پر ووٹ کے حصول کے لیے چکنی چپڑی باتیں گھڑی جاتی ہیں مثلاً اپنا تو اپنا ہوتا ہے اگر مار بھی ڈالے تو چھاؤں میں ڈال دے گا۔ فلاں غیر برادری سے تعلق رکھتا ہے، جب وہ غیر ہی ٹھہرا تو پھر اس سے کیسی اپنائیت۔ برادری ازم کے بخار نے جس طرح اس قوم کو ہلکان کر رکھا ہے وہ تشویش ناک ہے۔ تاہم اس قوم نے ابھی تک فرقہ پرستی کے عِفریت کو بے قابو نہیں ہونے دیا کہ وہ فرقوں کی بنیاد پر اس قوم کے ووٹ لے اڑیں۔

اگرچہ ملک کے ایک محدود طبقے اور ایک خاص علاقے میں فرقے کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن وہ پوری معاشرے کا عکاس نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں فرقہ پرستی کے نئے رجحانات نے جنم لیا ہے جس میں تشدد کا عنصر بی شامل ہے۔ مذہب کے لبادے میں کچھ فرقہ پرست جماعتیں ووٹ کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہی ہیں اور انہیں ووٹ کے بدلے دنیا و عاقبت کے سنور جانے کی نوید سنا رہے ہیں لیکن اس قوم کا عمومی مزاج فرقہ پرست جماعتوں کی انتخابی عمل میں کامیابی کے یکسر مخالف رہا ہے۔

اس مملکت کا خواب دیکھنے والے اور اس کے قیام کو ممکن بنانے والے علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح برادری ازم اور فرقہ پرستی کی آلائشوں سے پاک وجود تھے۔ ان کی سیاسی زندگی جد و جہد معاشی مساوات، سماجی انصاف اور قانون کی سر بلندی کے سنہری آدرشوں کے حصول کے لیے جد و جہد سے عبارت تھی۔ یہ ان کا اخلاص ہی تھا کہ جس نے مسلمانان ہند کو ان کی قیادت پر آنکھیں بند کر کے یقین دلانے پر مجبور کر دیا۔

اس ملک کو بد قسمتی سے ابھی تک وہ راہ نہ مل سکی کہ جس پر چل کر اس منزل کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے کہ جس میں معاشرے میں سماجی انصاف، معاشی مساوات، آئین و قانون کی سر بلندی، جان و مال کا تحفظ، عقیدے و نسل کی بنیاد پر تفریق سے پاک معاشرہ اور سب سے بڑھ کر پاکستانیت کا وہ تصور کہ جو پوری قوم کو زبان، نسل اور عقیدے سے بالا تر ہو کر ایک مضبوط لڑی میں پِرو دے۔

انتخابات کا دور دورہ ہے، پرانے شکاری نئے جال بچھا رہے ہیں لیکن یہ جال برادری ازم، نسل اور فرقہ پرستی کے انہی پرانے دھاگوں سے بنے ہوئے ہیں کہ جس میں الجھ کر یہ قوم ستر برس سے پھڑپھڑاتی ہی رہی ہے۔ اگلے انتخابات فقط امیدواروں کا امتحان نہیں بلکہ یہ آپ کا بھی امتحان ہے کہ اقبال و جناح کے شیدائی ہو یا پھر ملک محمد دین جیسوں کے جن کی روحیں آج نئے اجسام میں حلول کر کے آپ کے ووٹ کی طلب گار ہیں۔