پنجابی زبان اور معاشرتی رویے

پنجابی زبان اور معاشرتی رویے

پنجابی زبان اور معاشرتی رویے

از، ڈاکٹر شاہد  صدیقی

کچھ عرصہ پیشتر صوبہ پنجاب میں ساہیوال کے ایک سکول نے طلباء کو ایک ہدایت نامہ جاری کیا جس میں ان سے یہ کہا گیا کہ وہ سکول میں اورسکول کے باہر خراب قسم کی زبان استعمال کرنے سے باز رہیں۔ اسی نوٹ میں مزید یہ وضاحت کی گئی کہ اس خراب زبان میں طعنے، گالم گلوچ، نفرت انگیز باتیں اور پنجابی شامل ہے۔

تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ واقعہ ساہیوال شہرمیں پیش آیا جہاں سے احمد خان کھرل نے برطانوی راج کے خلاف پنجابی مزاحمت کا پرچم بلند کیا تھا۔ پنجابی کے حوالے سے اس طعن آمیز رویے کے پیچھے کیاعوامل کارِ فرما ہیں اس کے لیے ایک سنجیدہ علمی تجزیے کی ضرورت ہے۔ جس میں کچھ بنیادی سوالات کی گِرہیں کھولنا ہوں گی مثلاً: زبان کا تصور کیا ہے؟ زبان اوراس کے بولنے والوں کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ کسی زبان کو برتر یا کم تر کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ زبان کی نمُو اورافزائش میں تعلیمی اداروں کا کیا کردار ہے؟ پنجاب کے شہروں کی اشرافیہ جان بوجھ کرپنجابی کو کیوں نظرانداز کررہی ہے؟

زبان کے متعلق ایک قدامت پسندانہ تصوریہ ہے کہ یہ محض ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے اوریہ ایک غیرفعال  (passive) ، غیرجانبدارانہ (neutral) اورحتیٰ کہ ایک  سیاست سے ماوراء (apolitical) چیز ہے۔ اس قدامت پسند نظریہ کا ایک اہم مفروضہ یہ ہے کہ کچھ زبانیں اعلیٰ و برترہیں اور کچھ زبانیں کم تر درجے کی ہوتی ہیں۔

زبان کے اس فرسودہ تصور کو کوسیپر (Sapir) اور وورف (Whorf) کی اہم تحقیق نے رد کر دیا۔ اس تحقیق کے مطابق زبان ہرگز غیرفعال (passive) اور غیر جانبدار (neutral) شے نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کام محض خیالات، محسوسات، اور جذبات کی ترسیل ہے بلکہ زبان حقیقتوں کی تشکیل (construction of realities) اوران کے تسلسل (perpetuation) میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح زبان ایک ایسے اظہاریے کے طور پر ابھرتی ہے جس کا براہِ راست تعلق طاقت اور سیاست سے ہے۔

اس بات کا ادراک بھی بہت ضروری ہے کہ زبان بولنے والے کے معاشی و معاشرتی مرتبے کا تعلق براہِ راست اس کی زبان کی قدرو منزلت سے منسلک ہے۔ اگر کسی مخصوص گروہ کا معاشی و معاشرتی رتبہ بلند ہے تو اس کی زبان بھی بہت اعلیٰ و ارفع اور طاقتور سمجھی جاتی ہے۔ اس سے یہ بات تو کلی طورپر واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی زبان کم تر یا بر ترنہیں ہوتی بلکہ زبان بولنے والے کا معاشی و معاشرتی مرتبہ ہی زبان کی معاشرتی حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ تمام زبانیں مساویانہ بنیادوں پر ایک جیسی ہیں اوران سب کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔

پنجابی زبان متحدہ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے بھی سماجی، سیاسی اور معاشرتی حالات کے ستم کا شکار رہی ہے۔ ہندوستان میں بادشاہوں کی سرپرستی کی وجہ سے فارسی طاقتوروں کی زبان بن گئی اور عدالتوں میں بھی یہی زبان استعمال ہوتی رہی۔ اردو اپنی ساخت اورذخیرۂ الفاظ کے باعث فارسی کے بہت قریب تھی اوراسی طرح معنویاتی سطح پرپنجابی کے ساتھ خاصی قربت رکھتی تھی اوراسی طرح اردوہندی کے لیے بھی قابلِ فہم تھی۔ اردو کی اس کثیرالجہتی خصوصیات نے اسے ہندوستان کے مخصوص حصوں اورخصوصاً مسلمانوں میں خاصا مقبول بنادیا۔

کوئی بھی زبان مافی الضمیر کی ترسیل کے علاوہ انفرادی اور قومی سطح پر شناخت (identity) کا ایک اہم حوالہ ہے۔ انسانی تاریخ میں سامراجی قوتوں نے جہاں جہاں قبضہ کیا وہاں کی مقامی زبان کودانستہ استعمار کا نشانہ بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی جو اس وقت علم و فن کی زبان سمجھی جاتی تھی، کو نشانہ بنایا گیا۔

انگریزوں نے سندھ میں فارسی کو سندھی سے بدل کر اس سے چھٹکارا حاصل کرلیا لیکن پنجاب میں حیران کن طورپرفارسی کو پنجابی سے نہیں بدلا گیا بلکہ یہاں پرفارسی کی جگہ اردو نے لے لی۔ ایک توجیہ جو ایک انگریز افسر نے اپنے خط میں دی یہ تھی کہ اردو پنجابی ہی کی ایک بہتر شکل ہے۔ اس طرح اردو کو زبان (language) اور پنجابی کوایک بولی (dialect) کا درجہ دیا گیا جس سے اس کا معاشرتی رتبہ زبان کے مقابلے میں کم ہوگیا۔ اس بات کا فہم بھی بہت ضروری ہے کہ عصر حاضرمیں زبانوں کاجائزہ ان کی لسانی خوبیوں یا خامیوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں معاشرتی، سیاسی اورمعاشی پہلوؤں کی بنیاد پر پَرکھا جاتا ہے۔

تحریک پاکستان کے دوران زبانیں سیاسی شناخت کے طورپراستعمال کی گئیں۔ ہندی، اردو اور پنجابی کو ہندوستان کی تین بڑی آبادیوں یعنی ہندوؤں، مسلمانوں اورسکھوں سے جوڑا گیا۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد جن کی مادری زبان پنجابی تھی انہوں نے سیاسی، سماجی اور سیاسی عوام کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا۔

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انفرادی اور قومی سطح پر زبان ایک اہم شناختی اظہاریہ ہے۔1947ء کو آزادی کے بعد قومی زبان کا اہم سوال اٹھایا گیا اورتحریک پاکستان میں جذباتی تعلق کی بنیاد پر اردو کو قومی زبان کے درجے پرفائز کیا گیا۔ دوبہت بڑی زبانیں بنگالی اور پنجابی قومی زبان کے اس اہم مرتبے پرفائز نہ ہوسکیں۔ بنگالیوں کایہ پُرزور مطالبہ تھا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو بھی یہ درجہ دیا جائے۔ تاہم پنجابی آبادی نے اردو سے والہانہ وابستگی کی بنا پرپنجابی زبان کی حمایت میں کوئی آواز نہیں اٹھائی۔

اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ پنجاب کی ایک بڑی تعداد فوج میں تھی اور یوں یہ طاقت کے مرکز کے قریب تھی۔ پنجابی اشرفیہ کی ایک بڑی تعداد طاقت کے مرکزی دھارے کے گروہوں میں شامل رہنا چاہتی تھی اوراسی وجہ سے انہوں نے پنجابی کو تیاگ دیا۔

یہ بات حیران کن ہے کہ سندھی سکولوں میں ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اسی طرح خیبرپختونخواہ کے کچھ سکولوں میں پشتو بھی پڑھائی جاتی ہے لیکن پنجابی پاکستان میں سکول کی تعلیم کا حصہ کبھی نہیں رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

کیا اندرونی طور پر اس زبان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے؟ یا یہ لوگوں کے معاشرتی رویوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے غیررسمی طورپر زندگی میں پنجابی کے لسانی وظیفے کوغیراہم سمجھا ہے۔ پنجابی زبان سے دُوری کا معاملہ پنجاب کے شہریوں میں بہت نمایاں ہے جہاں والدین گھروں میں اپنے بچوں سے اردو میں گفتگو کرتے ہیں اوراسے باعث امتیاز سمجھتے ہیں۔ یوں اس بات کا اندیشہ ہے کہ بہت سے پنجابی خاندانوں کی آنے والی نسلیں پنجابی زبان کھو بیٹھیں گی۔

ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کے کردار کے متعلق اچھی خاصی تحقیق موجود ہے۔ جس کے مطابق بچے کے ذہن میں چیزوں کے تصورات مادری زبان کے استعمال سے زیادہ واضح ہوتے ہیں۔ اگرہم پنجابی زبان کی بحالی چاہتے ہیں تواسے پنجاب کے سکولوں میں ایک مضمون کے طورپرشامل کرناہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ طلبہ کویہ بتایا جائے کہ کوئی زبان بھی کم تریاادنیٰ نہیں ہوتی۔ تمام زبانیں برابر ہیں اورسب کاہی احترام کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح صوبائی سطح پر اس بات کوسمجھنا بھی بہت اہم ہے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل251 بہت واضح الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ صوبائی زبان کی تدریس اورفروغ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔

اس آرٹیکل کے مطابق ”قومی زبان کاتشخص متاثرکیے بغیر (متعلقہ) صوبائی اسمبلی قانون کے مطابق ایسے اقدامات کی تشخیص کرے گی جن سے قومی زبان کے علاوہ صوبائی زبان کی تدریس، فروغ اوراستعمال کوجلا ملے گی۔‘‘

اب یہ صوبائی اسمبلیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبوں میں زبان کی تدریس اورفروغ کے لیے قوانین پاس کریں۔ پاکستان مختلف زبانوں کا گلدستہ ہے جس میں ہرزبان کا اپنا رنگ اپنی خوشبواوراپنا ذائقہ ہے اگراس گلدستے کے رنگوں کو شاداب رکھنا ہے تو ہمیں قومی زبان کے علاوہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی زبانوں کی افزائش کا بھی اہتمام کرنا ہوگا۔

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔