شامی ادب کی انتہائی اہم نشترانہ صنف کے نمائندہ فکشن نگار اسامہ العمر

Osama Alomar Introduction اسامہ العمر
Base photo by Nina Subin via New Directions

اسامہ العمر دمشق (شام) کے فکشن نگار

از، یاسر چٹھہ

اسامہ العمر 1968 میں شام کے شہر دمشق میں پیدا ہوئے اور اب امریکی ریاست پینسیل۔وانیہ کے شہر پِٹس۔برگ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسامہ العمر مختصر کہانیوں کے تین اور نظموں کے ایک مجموعوں کے مصنف ہیں۔ وہ عرب دنیا کے مختلف اخبارات اور جرائد میں با قاعدگی سے لکھتے رہے ہیں۔

ورجینیا یونی ورسٹی میں جدید عربی ادب کی پروفیسر حنادی الثمان کے مطابق مختصر کہانی شامی ادب کی انتہائی اہم  نشترانہ صنف ہے۔ […] شام کی ادبی روایت (اہنے ملک کے) سیاسی پسِ منظر میں گُندھی ہے۔ (بعث پارٹی کے عروج کے بعد، 1963 میں، اخبارات،کتابیں، میڈیا اور فلمیں بہت زیادہ سنسرشپ کا شکار ہو گئے۔) […] ظلم و ستم یا قید و بند کی دھمکیوں کے با وُجود، شامی مصنفین کو جلا وطنی میں فنی آزادی کی زندگی بسر کرنے کا انتخاب کرنا تھا، … یا پھر اظہار کے تخریبی اور اختراعی طریقوں کا سہارا لینا تھا جو بَہ ظاہر تو آمرانہ پولیسی ریاست کی تعمیل و عمل داری مانتے ہیں، تاہم وہ لطیف ادبی تکنیکوں کے ذریعے اس کے حکم رانی کے جواز کو مجروح کرتے ہیں۔”

 میتھلی جی راؤ،(Mythili G Rao) کے دی نیو یارکر میگزین میں لکھے مضمون سے اخذ کردہ جزو۔

اسامہ العمر کے متعلق مختلف تنقیدی آراء کے اقتباسات:

عرب دنیا میں، شامی مصنف اسامہ العمر مختصر اور ذہانت سے بھر پُور قسم کی تمثیلوں کے مصنف کی حیثیت سے بڑھتی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ سیاسی اور معاشرتی امور پر تہہ داری اور خمیدگی سے پُر تبصرہ کرتے ہیں۔ لیکن شکاگو میں، جہاں وہ 2008 سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنا زیادہ تر وقت ہورائزن کیب کمپنی میں کار-45 کے ڈرائیور کے طور پر صرف کرتے ہے۔

لیری روہٹر، نیو یارک ٹائمز

اسامہ العمر کا کام  طاقت کے مرکزوں سے اس انداز سے کلام کرتا ہے جیسے الفاظ کے مُنھ پر مجبوریوں اور زبان بندیوں کے پھندے ہوں، چاہے یہ بات اُسلوب کی تقاضا ہو، بھلے یہ حالات اور وقت کی اشد ضرورت کی پیداوار ہو… اسامہ العمر ہیئت پر استادانہ دست رَس رکھتے ہیں۔

بریڈلی بابینڈیر، نیو ری پبلک جریدہ

اسامہ العمر کی کہانیوں میں … فنتاسی کسی وقت بھی محض تَلوُّن مزاجی کا شاخسانہ نہیں بنتی۔ اس کے فسُوں خیز تخیلات کا ثمر اِن تخلیقات، (بَل کہ) اِن کی ساری کی ساری تخلیقات، ان کے گہرائیوں سے محسوس کیے فلسفیانہ، اخلاقی، اور سیاسی اعتقادات سے ضُو فشاں ہیں، اور یہی (تخیلاتی، تخلیقی، اور گہرے فکری اعتقادات ان کے وہ اثاثے بنتے ہیں جو) ان کی کہانیوں کو دل موہ لینے والی صفت عطا کرتی ہیں۔

لِڈیا ڈیوس، نیو یارکر میگزین

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔