شاید ملیریا نے میرے پاپا کو مار دیا تھا

Ruskin Bond
Base illustration via Wordpress

شاید ملیریا نے میرے پاپا کو مار دیا تھا

مصنف (انگریزی)، رسکن بونڈ

مترجم ، جُنید جاذِب

خاکروب لڑکے نے ڈیوڑھی میں لٹکے چٹائی نما پردے پر پانی چھڑکا، اور ہوا میں تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، ٹھنڈک پھیل گئی۔

چارپائی کے سرے پر بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دھول میں اٹی سڑک کو دیکھنے لگا جو دو پہر کی گرمی میں گویا ٹمٹما رہی تھی۔ ایک کار گزری اور دھول کے بادل لہروں کے مانند اچھالا کھا کر ہوا میں بلند ہو گئے۔

سڑک کے دوسری جانب وہ لوگ رہتے تھے جن کی ذمے داریوں میں ان دنوں میری دیکھ بھال بھی شامل تھی۔ اور جب تک میرے والد، جو ملیریا کی وجہ سے ہسپتال میں پڑے تھے، واپس نہیں آ جاتے مجھے ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا تھا۔ لیکن میں نے ان کے ساتھ، سوائے کھانا کھانے کے، کوئی خاص ربط نہیں رکھا۔ در اصل نہ میں انھیں زیادہ پسند کرتا تھا نہ وہ مجھے۔

 لگ بھگ ہفتے بھر، یا اس سے کچھ زیادہ عرصےکے لیے، مجھے سرخ اینٹوں سے بنے اس بنگلے میں، جو قصبے کے باہر جنگل کے کنارے واقع ہے، اکیلے رہنا تھا۔ رات کی چوکی داری کے لیے بھنگی لڑکا تھا جس کے سونے کی جگہ کچن میں مختص تھی۔ اس کے علاوہ کوئی ساتھی یہاں موجود نہیں تھا۔ پڑوسی گھروں کے بچے تھے لیکن انھیں میں چاہتا نہیں تھا اور نہ وہ مجھے چاہتے تھے۔

“دیکھو اس بھنگی لڑکے کے ساتھ مت کھیلنا… ،” پڑوسی بچوں کی ماں مجھے سمجھاتی۔ “… وہ گندہ ہے۔ اس کے پاس بھی نہیں پھٹکنا، وہ نوکر ہے سمجھے … ؟ تم میرے بچوں کے ساتھ کھیلا کرو۔”

خیر مجھے بھنگی لڑکے کے ساتھ کھیلنے میں کوئی دل چسپی تھی نہ اس خاتون کے بچوں کے ساتھ۔ جب تک میرے پاپا ہسپتال سے واپس نہیں آ جاتے میں اپنے کمرے میں بیٹھے رہنے اور ان کا انتظار کرنے کا من بنا چکا تھا۔

خاکروب لڑکا سارا دن پانی ڈھونے میں لگا رہا۔ وہ پانی کی ٹینکی سے بالٹی بھر کر اٹھاتا اور گھٹنوں پر بدلتا ہوا اوپر لے آتا۔ آتے جاتے جب بھی وہ میرےسامنے سے گزرتا، مسکرا دیتا۔ اور میں … میں ہر بار تیوری چڑھا لیتا۔

وہ تقریباً میرا ہم عمر تھا، یعنی یہی کوئی دس سال کا۔ ترشے ہوئے بالکل چھوٹے چھوٹے بال، سفید دانت اور مٹیالے مٹیالے ہاتھ پاؤں اور چہرہ۔ خاکی رنگ کی بوسیدہ سی نِکر وہ واحد کپڑا تھا جو اس نے لباس کے نام پر زیبِ تن کر رکھا تھا۔ باقی جسم بالکل ننگا، جو دھوپ سے گہرا بھورا ہو گیا تھا۔ وہ جتنی مرتبہ ٹینکی پر جاتا، نہا لیتا اور جب گھر کے اندر داخل ہوتا تو اس کے سارے جسم سےپانی ٹپک رہا ہوتا۔

میں پسینے میں شرابُور تھا۔


مزید دیکھیے:

دیولی سٹیشن اور رات کی ٹرین مصنف (انگریزی)، رسکن بونڈ مترجم، جنید جاذب

فرمودات نیٹشا: کِن کے ہاتھ آن لگے  انتخاب و ترجمہ از،  نصیر احمد

بیا داد بونیت (Piedad Bonnett): کولمبیا کی شاعرہ کی دو نظمیں  ترجمہ و تعارف از، یاسر چٹھہ


یہ بات میرے رتبے سے میل نہیں کھاتی تھی کہ میں بھی ٹینکی پر جا کر نہاؤں جہاں مالی، آب دار، باورچی، نوکرانیاں، صفائی والے اور ان کے بچے سب یک جا ہوتےتھے۔ میں ایک “صاحب” کا بیٹا تھا اور یہ خلافِ دستور تھا کہ میں نوکروں کے بچوں کے ساتھ کھیلوں یا گھل مل جاؤں۔ لیکن میں تو دوسرے “صاحبوں” کے بچوں کے ساتھ بھی نہ کھیلنے کا تہیہ کیے ہوئے تھا کیوں کہ وہ مجھے اچھے لگتے تھے نہ میں انھیں۔

کھڑکی کے شیشوں پر بھنبھناتی مکھیاں، چھت کے شہتیروں پر بھاگتی ناچتی چھپکلیاں اور مرجھائے ہوئے پھولوں کی پتیوں کو اچھالتی ہوا میری تفریح کے لیے کافی تھے۔ میں ان سب سے محظوظ ہوتا رہا۔

خاکروب لڑکا میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کھیلنے کے سے انداز میں مجھے سیلیوٹ کیا۔ میں نے نظریں موڑ لیں۔ “جاؤ جاؤ، بھاگو یہاں سے،” میں نے اسے جھاڑا تووہ رسوئی میں گھس گیا۔ میں اٹھا، کمرے سے باہر لابی میں آیا اور کھونٹی سے اپنا ہیٹ اٹھا لیا۔

ایک کَن کھجُورا دیوار سے رینگتا ہوا نیچے اترا اور فرش پر دوڑنے لگا۔ میں چیخ کر پلنگ پر چڑھ گیا۔ لڑکا میری چیخ سن کر بھاگتا ہوا اندر آ گیا۔ اس نے مجھے دیکھا، فرش پر موجود حشرے کو دیکھا اور پھر الماری سے ایک بھاری بَھرکم کتاب اٹھا کر اس مکروہ مخلوق پر دے ماری۔

میں پلنگ پر کھڑا تھا اور خوف سے کانپ رہا تھا۔ وہ مجھ پر ہنس دیا۔ میں نےکچھ خجالت سی محسوس کی لیکن اس پر برسا، “دفع ہو جاؤ!”

ڈر کے مارے میں ہیٹ یا ہیٹ سٹینڈ تک نہ جا سکا اور پلنگ پر بیٹھا بیٹھا سوچوں میں ڈوب گیا۔ اپنے والد کو واپس گھر میں دیکھنے کی شدید حسرت نے پھر مجھے گھیر لیا۔

ایک مچھر میرے قریب سے گزرا اور پھر گھوم کر کان میں گنگنانے لگا۔ میں نے بے دلی سے اس پر پنجہ مارا لیکن وہ بچ نکلا اور ڈریسنگ ٹیبل کے عقب میں کہیں غائب ہو گیا۔ “اس کم بخت نے پہلے میرے پاپا کو ملیریا کر کے ہسپتال پہنچایا اور اب میرے پیچھے پڑا ہے” میں نے اندازہ لگایا۔

ساتھ والے گھر کی خاتون صحن سے گزری اور کھڑکی کے باہر سے جاتے ہوئے ہلکے سے مسکرا دی۔ میں بھی جواباً مسکرایا، لیکن بس واجبی سا۔

لڑکا بالٹی اٹھائے ایک بار پھر پاس سے گزرا اور مسکرایا۔ میں نے رخ دوسری جانب موڑ لیا۔

رات کو بستر میں لیٹے ہوئے، میں نے پڑھنے کی کوشش کی لیکن کتابیں میری بے چینی کو مات نہ دے پائیں۔

لڑکا گھر میں ادھر ادھر گھومتا رہا۔ اس نے دروازوں کی چٹخنیاں لگائیں، کھڑکیاں بند کیں اور پھر مجھ سے پوچھا کہ مزید کوئی کام ہو تو بتاؤں۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا تووہ بجلی کے سوئچ بورڈ تک گیا، بلب بجھائے اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اندر، باہر ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ روشنی کی ایک ہلکی سی لکیر لڑکے کے کمرے کی ایک دراڑ سے باہر آ رہی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد وہ بھی بجھ گئی۔

میں نے سوچا کاش میں پڑوسیوں کے ساتھ رہ لیتا۔ اندھیرے اور اکیلے پن نے میری حالت غیر کر دی۔ ایسی خاموشی اور ٹھہراؤ جیسے اس میں کوئی شئے پوشیدہ ہو، کوئی مشکوک اور بہت ڈراؤنا سا کچھ۔

یکا یک ایک چمگادڑ کھڑکی سے آن ٹکرایا اور زمین پر جا لگا۔ بیچ بیچ میں ایک کتے کے بھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔ جب ایک گیدڑ بنگلے کے پیچھے جنگل میں کہیں چنگھاڑا تو میں سہم کر رہ گیا۔ لیکن رات کی گہری خاموشی اور جمود نہ ٹوٹا۔

ہوا کا ایک خشک جھونکا اور بس … ہوا پیڑوں کے درمیان سرسراتی رہی اور میرے ذہن میں ایک سانپ کو پالتی رہی جو خشک پتوں اور ٹہنیوں پر پھسلتا جا رہا تھا۔ ایک کہانی، جسے سنے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا، بار بار میرے دماغ پر دستک دیتی رہی۔ اس کہانی میں ایک سوئے ہوئے لڑکے کو ایک کوبرا سانپ نے ڈس لیا تھا۔

میں سویا نہیں، میرا مطلب سو نہیں سکا۔ مجھے رہ رہ کر پاپا کی یاد ستا رہی تھی۔

کواڑ بجنے لگے، دروازے چیخ رہے تھے … یہ ایک بھوت پریتوں بھری رات تھی۔

بھوتوں بھری رات!

بھوت!

یا اللہ مجھے بھوتوں کا خیال کیوں آ رہا ہے؟

ارے وہ دروازے کے پاس کھڑا بھوت!

پاپا! … شاید ملیریا نے میرے پاپا کو مار دیا تھا … اور اب وہ بھوت کی شکل میں مجھے میں ملنے آئے تھے!

میں نے اپنا آپ سوئچ بورڈ تک دھکیلا اور کمرہ روشن ہو گیا۔ میں بستر میں ڈوب گیا، ساکت اور بے جان سا! پسینہ میرے نائٹ سوٹ کو بھگو چکا تھا۔ میرے والد یا ان کا بھوت نہیں آئے تھے۔ وہ، در اصل، ان کا ڈریسنگ گاؤن تھا جو واش روم کے دروازے پر لٹک رہا تھا۔

میں نے لائٹ آف کر دی۔

باہر گہری خاموشی تھی جو لمحہ بَہ لمحہ میرے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ میرے ذہن میں کن کھجُورا، چمگادڑ، کوبرا اور اس کا شکار لڑکا گھومنے لگے۔ میں نے چادر کھینچ کر یہ سوچتے ہوئے سر پر تان لی کہ اگر مجھے کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی تو میں بھی کسی کو دکھائی نہیں دوں گا۔

بجلی کی گڑگڑاہٹ نے مسلسل گہراتی خاموشی کو توڑ دیا۔

بجلی کی ایک لکیر آسمان میں دو حصوں میں بٹ کر اتنی نزدیک تک لپکی کہ چادر کے بیچ میں سے بھی مجھے سامنے کا پیڑ اور اس کے عین مقابل کا مکان صاف دکھائی دیا۔ میں بستر میں دھنس گیا اور اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش میں تکیے کو کانوں کے گرد لپیٹ لیا۔

لیکن اگلی گرج کے ساتھ، جو پہلی سے بھی زیادہ خوف ناک تھی، میں بیڈ سے کود گیا۔ میں یہ نہیں سہہ سکتا تھا۔ بے ارادہ بھاگتا ہوا میں، سیدھا، خاکروب لڑکے کے کمرے میں جا گھسا۔

وہ ننگے فرش پر بیٹھا تھا۔

“کیا ہو رہا ہے؟” اس نے پوچھا۔

روشنی چمکی اور اس میں اس کے دانت اور آنکھیں بھی چمک اٹھے۔ اس کے بعد وہ پھر گہرے اندھیرے میں ایک دھندلاہٹ سا بن کر رہ گیا۔

“مجھے ڈر لگ رہا ہے،” میں اس کے نزدیک ہو گیا۔ ایک ٹھنڈا سا کندھا میرے ہاتھ سے ٹکرایا۔

“یہیں رک جاؤ۔ ویسے مجھے بھی ڈر لگ رہا ہے۔”

میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر وہیں بیٹھ گیا، خاکروب، اچھوت لڑکے کے بالکل ساتھ۔ بجلی کی گرج چمک تھم گئی تھی۔ تھوڑی دیر میں بارش شروع ہو گئی جس نے نالی دار چھت پر ایک دھما چوکڑی مچا دی۔

“برسات کا موسم شروع ہو چکا ہے،” لڑکے نے میری جانب مڑتے ہوئے کہا۔ اس کی مسکراہٹ اندھیرے میں معدوم ہو گئی۔ اس نے قہقہہ مارا۔ میں بھی ہنس دیا، لیکن قدرے دھیرے۔

لیکن اب میں خوش تھا اور محفوظ بھی۔ گیلی مٹی کی خوش بُو اندر تک آ رہی تھی اور بارش مزید تیز ہو گئی تھی۔