ماضی سے وابستگی یا انحراف، فکر اقبال کے تناظر میں 

Tayyab Usmani
طیب عثمانی

ماضی سے وابستگی یا انحراف، فکر اقبال کے تناظر میں 

از، طیب عثمانی

لیکچرر اسلامیات گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ

مجھے وہ دن یاد ہے، جب استادِ محترم ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے المورد، لاہور میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں ایک اہم پہلو بیان کیا کہ ماضی میں تشکیل شدہ روایت کے حوالے سے تین طرح کے رویے ہیں:

1۔ ماضی کی روایت سے مکمل وابستگی

2۔ ماضی کے روایتی تسلسل سے مکمل انحراف

3۔ ماضی کی روایت میں تسلسل کا مزاج

جاوید احمد غامدی صاحب کے حوالے سے ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ ماضی کی تشکیل شدہ روایت سے بِالعکس نئی روایت کی تخلیق کے قائل ہیں۔ روایت اور ماضی سے وابستگی کے حوالے سے استادِ محترم نے قطر ورکشاپ میں کھانے کے دورانیے میں یہ بات ہمیں یوں سمجھائی کہ ہم روایت سے بالکل انحراف کے قائل نہیں، بل کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل میں روایت ایک زنجیر کی طرح ہے اور اس کی کڑی سے کڑی جڑی ہے، لہٰذا روایت اور اپنے ماضی کے انحراف اور عدم ارتقاء سے روایت متزلزل ہو کر اپنے اختتام کو پہنچ کر انسانی زندگی سے غیر متعلق ہو جاتی ہے اور ارتقاء و تشکیلِ نو روایت کے ماضی کے بناء ممکن نہیں___ اس لیے اپنی روایت اور ماضی کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہو گا۔


مزید دیکھیے:

غامدی صاحب کے ڈسکورس میں کلام کا موضوعی فہم  از، ڈاکٹر عرفان شہزاد


اسی طرح کا مضمون علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خطبات میں بھی ملتا ہے، بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ اقبالی فکریات کی اساس ہی یہی ہے۔ ان کے نزدیک زندگی کی نئی تعبیر اور اس کے ارتقاء کی بنیاد ہی ماضی کے فکری سرمائے سے وابستگی اور اسے سمیٹنے پر ہے، کہتے ہیں:

 “Life moves with the weight of its own past on its back” (1)

علامہ اپنے ذاتی رجحان کو بھی ماضی کے ساتھ وابستہ و پیوستہ رکھنے اور قدیم کو ترجیح دینے کے بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں:

“میرے نزدیک اقوام کی زندگی میں قدیم ایک ایسا ہی اہم عُنصر ہے جیسا کہ جدید، بل کہ میرا میلان قدیم کی طرف ہے” (2)

جب تنوع اور ارتقاء جب زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں تو اس وقت ضروری امر یہ ہے کہ حیات کے سابقہ سفر کے مراحل بھی سامنے ہونے چاہییں اور اس کے سامنے کی افادیت اس لیے ہے کہ یہی سابقہ مراحل یعنی ماضی اور ماضی کی روایات و اقدار اور فکریات ہی اس کی بڑھتی زندگی کی شناخت ہیں۔ اس بارے میں آپ کا سمجھنا ہے کہ شناخت کے تناظر میں تسلسل و ارتقاء کا مشکل و حساس کام ہے:

“No people can afford to reject their past entirely;  for it is their past that has made their personal identity. And in a society like Islam the problem of a revision of old institutions becomes still more delicate, and the responsibility of the reformer assumes a far more serious aspect.” (3)

اس ارتقاء میں افکارِ نو ایسی صورت میں ہونے چاہییں کہ وہ ایک طرف زندگی سے ہم آہنگ ہوں اور دوسری طرف ان کا تعلق اپنی تاریخ، روایات و قدار سے بھی نہ ٹوٹ پائے، بَہ قول علامہ اقبال:

“The task before the modern Muslim is, therefore immense. He has to rethink the whole system of Islam without completely breaking with the past.”(4)

اس افکارِ نو کے کام کے لیے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت وہ شخصیت ہے، جسے اس حساس کام کی ضرورت محسوس ہوئی اور جدید و قدیم کے تعلق کی بناء پر افکارِ نو کا کام جمال الدین افغانی نے کیا، لکھتے ہیں:

” Perhaps the first Muslim who felt the urge of a new spirit in him was Shah Wall Allah of Delhi. The man, however, who fully realized the importance and immensity of the task, and whose deep insight into the inner meaning of the history of Muslim thought and life, combined with a broad vision engendered by his wide experience of men and manners, would have made him a living link between the past and the future, was Jamaluddm Afghani.”(5)

اس حساس کام کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے pattern کو سامنے رکھ کر ابتداء کرنا ہو گی اور جمال الدین افغانی کے جدید و قدیم کے اشتراکی paragign shifting کے طرز سے قدیم کی روشنی میں آگے بڑھنا ہو گا۔

الغرض اس گفتگو کا نتیجہ یہ نکل سکتا یے:

1۔ اقبالی فکر میں تنقید کے طے شدہ اصول ہیں

2۔ عمومی تنقید نہیں کرتے

3۔ تنقید کی وجوہات بیان کرتے ہیں

4۔ پیراڈائم شفٹنگ کی تجویز بھی دیتے ہیں اور اس کے معیار افراد کا تذکرہ بھی کرتے ہیں

5۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ماضی کی اساس سے منحرف نہیں بل کہ قدامت پسندی پر ہی افکار کی تشکیل نو کی بات سے وابستہ و پیوستہ ہیں

6۔ ان کی تنقیدات کو عموماً بیان کرنا فکر اقبال سے نا انصافی ہو گی

7۔ ماضی کی روایات و اقدار سے انحراف کی صورت میں زندگی کا تسلسل و ارتقاء نا ممکن بھی ہے اور نا قابلِ قبول بھی

8۔ قابلِ عمل اور قابل قبول وہ ارتقاء و افکار نو ہوں گے جو اپنی قدیم جڑوں سے وابستہ اور پیوستہ ہوں گے۔


حوالہ جات

  1. Muhammad Iqbal, Reconstruction of Religious Thoughts in Islam, Stanford University Press, Stanford, California, 2012, P. 167

2.اقبال نامہ، حصۂِ اول، ص 148

  1. Reconstruction, P. 132
  2. Ibid, P. 78
  3. Ibid