غامدی صاحب کے ڈسکورس میں کلام کا موضوعی فہم

Dr Irfan Shahzad

غامدی صاحب کے ڈسکورس میں کلام کا موضوعی فہم

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

امام حمید الدین فراہی نے قرآن فہمی کی دنیا میں کلام  کے متن اور نظمِ کلام کے ذریعے سے استدلال کا جو راستہ دکھایا ہے وہ اپنی نہایت میں انسانی بساط کی حد تک کسی متن کے موضوعی حقیقی مفہوم تک رسائی کا محفوظ ترین طریقہ ہے۔ استادِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی نے اس طریقہ کے اطلاقات دکھا کر علوم دینیہ خصوصاً قرآن مجید پر جو کام کیا ہے، وہ ایک غیر معمولی علمی کارنامہ ہے اوراہل علم کی سنجیدہ توجہ کا ہنوز متقاضی ہے۔

اس طریقہ استدلال کو سجھنے کے لیے غامدی صاحب کے ڈسکورس سے دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ  یہاں داخلی اور خارجی، زمانی اور روایتی اثرات سے محفوظ رہ کر کس طرح خالص متن کی بنیاد پر کلام سے اخذ و استنباطِ معنی اور استدلال کیا جاتا ہے۔

غامدی صاحب سے  ایک مرتبہ یہ سوال کیا گیا کہ مرد کے ساتھ یا مرد کی بجائے اگر عورت کمانے اور مرد اور خاندان پر خرچ کرنے لگے تو کیا اس بنا پر وہ قوامیت میں حصہ دار بن جائے گی یا مکمل قوام قرار پا جائے گی؟ یہ اس لیے کہ قرآن مجید میں عورت پر مرد کی ایک درجہ فضیلت (خواہ یہ انتظامی فضیلت ہی کیوں نہ ہو) کا سبب اُس کا عورت پر اپنا مال خرچ کرنا بیان ہوا ہے۔ نیز، اس صورت میں مہر و طلاق کا حق بھی کیا عورت کو منتقل ہو جائے گا؟ یہ بھی واضح کیا گیا کہ دنیا کے متعدد سماجوں، خصوصاً مغربی سماج میں ایسی صورت حال عملاً وقوع پذیر ہو چکی ہے کہ عورت اور مرد خاندان کے خرچ چلانے میں تقریباً برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں اور وہاں مسلم حلقوں میں یہ سوال ایک زندہ مسئلے کی حیثیت سے زیرِ بحث بھی ہے۔

اس پر غامدی صاحب نے قرآن مجید میں سورہ نساء کی آیت 32 کے متن کی طرف توجہ دلائی کہ آیت میں مرد کی قوامیت یعنی سربراہی (قوام: سربراہ، غامدی صاحب کے ترجمہ البیان میں قوام کا یہی معنی اختیار کیا گیا ہے۔)کا سبب صرف یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ اپنا مال عورت اور خاندان پر خرچ کرتا ہے بَل کہ پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو یہ فضیلت خدا نے بخشی ہے۔

اس آیت کی بہتر تفہیم کے لیے اس سے پیشتر ایک آیت کے ساتھ اسے ملا کر دیکھتے ہیں:

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّـهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّـهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (سورہ النساء، 4:32)

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہے، اُس کی تمنا نہ کرو، (اِس لیے کہ) مردوں نے جوکچھ کمایا ہے، اُس کا حصہ اُنھیں مل جائے گا اور عورتوں نے جو کچھ کمایا ہے، اُس کا حصہ اُنھیں بھی لازماً مل جائے گا۔ (ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تمنا ہو تو اِس میدان میں آگے بڑھو) اور (اِس کے لیے) اللہ سے اُس کے فضل کا حصہ مانگو۔ یقیناًاللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ (ترجمہ البیان)

آیت کی تشریح میں غامدی صاحب البیان میں لکھتے ہیں:

“یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے جدوجہد اور مسابقت کا اصلی میدان اُس کی خلقی صفات نہیں ہیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ خلقی صفات کے لحاظ سے بعض کو بعض پر فی الواقع ترجیح حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ذہنی، کسی کو جسمانی، کسی کو معاشی اور کسی کو معاشرتی برتری کے ساتھ پیدا کیا اور دوسروں کو اُس کے مقابلے میں کم تر رکھا ہے۔ مرد و عورت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اِس میں زوجین کا تعلق ایک کو فاعل اور دوسرے کو منفعل بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ فعلیت جس طرح غلبہ، شدت اور تحکم چاہتی ہے، انفعالیت اُسی طرح نرمی، نزاکت اور اثر پذیری کا تقاضا کرتی ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو اِن میں سے ہر ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ اِن میں اگر مسابقت اور تنافس کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو یہ فطرت کے خلاف جنگ ہو گی جس کا نتیجہ اِس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ بالآخر دونوں اپنی بربادی کا ماتم کرنے کے لیے باقی رہ جائیں۔۔۔ (مسابقت کا اصل میدان) ” اکتسابی صفات، یعنی نیکی، تقویٰ، عبادت، ریاضت اور علم و اخلاق کا میدان ہے۔”

اب آیت زیر بحث دیکھیے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ (سورہ النساء 4:34)

(میاں اور بیوی کے تعلق میں بھی اِسی اصول کے مطابق) مرد عورتوں کے سربراہ بنائے گئے ہیں، اِس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پھر جو نیک عورتیں ہیں، وہ (اپنے شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں، اِس بنا پر کہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔ (ترجمہ البیان)

اس کی تشریح میں غامدی صاحب البیان میں لکھتے ہیں:

“یہ خاندان کی تنظیم کے لیے اللہ نے اپنا قانون بیان فرمایا ہے۔ خاندان کا ادارہ بھی، اگر غور کیجیے تو ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ جس طرح ہر ریاست اپنے قیام و بقا کے لیے ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے، اِسی طرح یہ ریاست بھی ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے۔ سربراہی کا مقام اِس ریاست میں مرد کو بھی دیا جا سکتا ہے اور عورت کو بھی۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہ مرد کو دیا گیا ہے۔ آیت میں اِس کے لیے ’قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ عربی زبان میں ’قام‘ کے بعد ’علٰی‘ آتا ہے تو اِس میں حفاظت، نگرانی، تولیت اور کفالت کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے۔ سربراہی کی حقیقت یہی ہے اور اِس میں یہ سب چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ اپنے اِس فیصلے کے حق میں قرآن نے دو دلیلیں دی ہیں۔۔۔”

یہ دو دلیلیں وہی ہیں کہ ایک تو یہ منصب اللہ تعالی نے مرد کو خود بخشا ہے اور اس کی وجہ اس کی خلقی صفات ہیں جو اس منصبِ سربراہی کا تقاضا کرتی ہیں، اور پھر یہ منصب اس سے ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ مردعورت اور گھر بار پر اپنا مال خرچ کرتا ہے جو عمومی ضابطہ ہے۔ غامدی صاحب کے مطابق اگر ایک سبب کسی وجہ سے ساکت ہو بھی جائے ،یعنی مرد کی بجائے یا مرد کے ساتھ عورت کمانے لگے اور مال گھر بار پر خرچ کرنے لگے)،تو دوسرا سبب،یعنی خدائی فیصلہ، مستقل ہے اس کو کوئی معطل نہیں کر سکتا۔ اسی سلسلہ کلام میں استاد گرامی نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس مسئلے پر اگر ساری دنیا ایک طرف کھڑی ہو جائے تو میں تنہا اسی تفہیم پر کھڑا رہوں گا۔

آیت کے الفاظ اس قدر قطعی ہیں کہ کسی دوسرے احتمال کو بھی اپنے اندر آنے کی ادنی گنجایش نہیں دیتے۔ آیت  میں دو بار “بما” (بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَ بِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ) لا کر ہر سبب کو الگ الگ بتایا گیا ہے۔


مزید دیکھیے: 

غامدی صاحب کا ترجمہ قرآن، ‘البیان’: مختصر تعارف، چیدہ چیدہ خصوصیات

اہل مشرق نے نظریہ دان کیوں پیدا نہیں کیے؟


مرد کی قوامیت کی تشریح میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ تاہم بنیادی بات یہی ہے۔ Male کی سربراہی ایک فطری اصول ہے، قرآن مجید نے جس کی تائید و تصویب کی ہے لیکن اس کے لیے اس نے لفظ قوام کا انتخاب کیا ہے جو سربراہی کی ذمہ داری کا بیان ہے نہ کہ محض قوتِ اختیار کا، جیسا کہ غامدی صاحب کے نوٹ میں اوپر بیان ہوا۔

اب یہ الگ بات ہے کہ قوامیت کے ان اختیارات میں سے مرد جو اختیار چاہے عورت کے حوالے کر سکتا ہے کیوں کہ یہ خدا کا کوئی شرعی حکم نہیں کہ مرد کوقوام بننا ہوگا، بَل کہ یہ خاندان سے متعلق خدا کے متوازن انتظام کا بیان ہے کہ مرد سربراہ تو فطری اصول پر ہیں ہی، خدا نے انھیں ایسا ہی بنایا ہے، اس کے ساتھ خدا کا شرعی فیصلہ بھی اسی حقیقت کے حق میں ہے۔ اس کے باوجود کوئی مرد اسے اختیار نہیں کرنا چاہتا اور عورت کے حوالے کرنا چاہتا ہے تو اس پر کوئی پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔

انسان کو چونکہ عقل و ارادہ کی امتیازی خصوصیات دی گئی ہیں، اس بنا پر وہ اپنی فطرت سے انحراف کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ مستقل اور ابدی نوعیت کے ایسے معاملات جہاں فطری رہنمائی کے باوجود انسانی عقل ٹھوکر کھا سکتی ہے، ایسے مخمصوں میں وحی اس کی رہنمائی کرنے آتی ہے۔ خاندان کی سربراہی کے کے اس معاملے میں کہ مرد و عورت میں سے خاندان کا سربراہ کون ہو، اس جھگڑے یامخمصے میں قرآن مجید نے فطرت کی تقسیم کی تصویب کرتے ہوئے مرد کو یہ منصب دینے کا اعلان کیا ہے۔ مستثنیات کا معاملہ الگ ہے۔ قانون عام معاملات کو مد نظر رکھ کر بنایا جاتا ہے۔

مغربی سماج جہاں عورت کو بڑی حد تک خود مختاری حاصل ہو گئی ہے، وہاں بھی خاندان کے ادارے کی سربراہی مرد کے پاس ہونے کا تصور جدیدیت اور فیمینزم کی تحاریک کے علی الرغم عملاً آج بھی موجود ہے۔ وہ آج بھی مسٹر اور مسز سمتھ ہی کہلاتے ہیں۔ بَل کہ فطری طور پر خاندان کی سربراہی کا سوال آتے ہی مرد کی طرف ہی نگاہ اٹھتی ہے۔ فیمیزم  خاندان کے ادارے کی مردانہ سربراہی کو بدلنے میں کامیاب ہو بھی گئی تو یہ خاندان کے ادارے کو انار کی سے دوچار کر دے گا۔

دیکھا جا سکتا ہے کہ غامدی صاحب کا یہ موقف دور حاضر میں مرد و عورت کی برابری کے اس جدید تصور کے خلاف کھڑا ہے جس کا غوغہ ہے؛ اور جس کے قائل ہمارے ہاں کے لبرل طبقے کے علاوہ بہت سے اہل علم بھی ہوتے جاتے ہیں۔ مگر قرآن کے متن سے یہ تمسک ہی ہے جو غامدی صاحب کے اصول فکر کے ہاں کسی ایسی راے کو قبول کرنے سے مانع ہے جسے قرآن کے الفاظ قبول نہیں کرتے۔ یہ مغربیت اور جدیدیت کے خلاف غامدی صاحب کا موقف ہے۔

اب دوسری مثال لیجیے۔

سورہ نور کی آیت خمار کی تفہیم کی بنا پر غامدی صاحب کے نزدیک خاتون کے لیے  کسی ایسی محفل یا صورت حال میں جہاں مرد اور خواتین کا آمنا سامنا ہونا ہے،انھیں اپنی زینت کی چیزیں چھپانے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ان کا سر ڈھانپنا آیت کے مفہوم میں شامل نہیں۔ ذیل میں متعلقہ آیت اور غامدی صاحب کی وضاحت ملاحظہ کیجیے۔ ترجمہ کے خط کشیدہ الفاظ پر غور کیجیے:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورہ نور، 24:31)

اور ماننے والی عورتوں کو ہدایت کرو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی چیزیں نہ کھولیں، سواے اُن کے جو اُن میں سے کھلی ہوتی ہیں اور (اِس کے لیے) اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ اور اپنی زینت کی چیزیں نہ کھولیں، مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپ، اپنے شوہروں کے باپ، اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھائیوں کے بیٹوں، اپنی بہنوں کے بیٹوں، اپنے میل جول کی عورتوں اور اپنے غلاموں کے سامنے یا اُن زیردست مردوں کے سامنے جو عورتوں کی خواہش نہیں رکھتے یا اُن بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پردے کی چیزوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اُن کی چھپی ہوئی زینت معلوم ہو جائے۔ ایمان والو، (اب تک کی غلطیوں پر) سب مل کر اللہ سے رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (ترجمہ البیان)

تشریح میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:

“یہ مقصد اگر دوپٹے کے سوا کسی اور طریقے سے حاصل ہو جائے تو اِس میں بھی مضایقہ نہیں ہے۔ مدعا یہی ہے کہ عورتوں نے زینت کی ہو تو اُنھیں اپنا سینہ اور گریبان مردوں کے سامنے کھولنا نہیں چاہیے، بَل کہ اِس طرح ڈھانپ کر رکھنا چاہیے کہ اُس کی زینت کسی پہلو سے نمایاں نہ ہونے پائے۔”

آیت مذکورہ کے متن کی اس تفہیم کی بنیاد پر غامدی صاحب یہ قرار دیتے ہیں کہ  حکم گریبان اور سینے کو ڈھاپنبے کا دیا گیا ہے، سر کو اس میں شامل کرنا اس حکم پر اضافہ شمار ہوگا۔ محض خمار (سر کی اوڑھنی) کے لفظ سے سر ڈھانپنے کا مفہوم اس میں شامل نہیں ہو سکتا۔ لفظ کے مادہ یا اس کی etymology ایک الگ چیز ہے اور حکم لگانا یا اخذ کرنا الگ سے ہوتا ہے۔

اس بات کو ہم کو ایک مثال سے  سمجھتے ہیں۔ (یہ مثال ہم نے اپنے دوست جناب فرحان سید سے مستعار لی ہے۔)

مثلاً اگریہ حکم دیا جائے کہ کھانے کے بعد رومال سے ہاتھ پونچھ لیا کرو تو اس بنا پر رومال سے منہ پونچھنا بھی فرض نہیں ہو جائے گا کہ رومال کا لفظی مطلب  منہ کا کپڑا/چیز (رو: چہرہ، مال: چیز یا کپڑا) ہے،بَل کہ منہ پوچھنے کے لیے الگ سے حکم دکھانا پڑے گا۔

یہ الگ بات ہے کہ مسلم تھذیب میں خواتین کا سر ڈھانپنے کا رواج ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور اسے معروف دستور کی بنا پر مستحسن سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا یہ دین کا مطالبہ بھی ہے؟ اس کی دلیل قرآن کے متن سے حاصل نہیں ہوتی۔ حکم وہیں تک ہو گا جہاں تک قران مجید کے الفاظ اجازت دیتے ہیں۔

ہر چیز کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ کسی چیز کے مستحسن ہونے کی بنا پر اس کے اپنانے اور قائم رکھنے کی ترغیب تو دی جا سکتی ہے لیکن اسے دین کے حکم کے طور پر پیش کرنے کا جواز اسی صورت میں دیا جا سکتا ہے جب دین میں اس کا حکم یا بنائے حکم موجود ہو۔

اس مثال میں غامدی صاحب کے طرزِ استدلال اور اس کے اطلاق کے نتیجے کے معاملے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ غامدی صاحب خود جس سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اورجو ثقافتی روایات وہ خود اپنائے ہوئے ہیں، ان کی یہ راے اس کے برعکس تشکیل پائی ہے اور یہ اسی بنا پر قائم کی گئی ہے کہ قرآن کا متن یہی باور کرتا ہے۔

ان دونوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ غامدی صاحب نے اپنے استدلال کے اصولوں کے تتبع  میں مغربیب کا اثر قبول کیا ہے اور نہ مشرقی تھذیب کا؛ ان کی ذاتی پسند ان کی راے کو متاثر کر سکی ہے اور نہ کوئی بیرونی دباؤ؛ یہاں تک کہ ان کے اپنے اساتذہ کی راے بھی اس بارے میں  انھوں نےقبول نہیں کی۔

یہ ممکن ہے متن کی اس تفہیم پر متن فہمی کے انھیں اصولوں کی روشنی میں سوال اٹھا دیا جائے۔اس صورت میں بھی فیصلہ متن کی روشنی میں ہی ہوگا، نہ کہ فہم اور نتائج پر کسی بیرونی دباؤ یا شخصی میلان کے مفروضات کی بنا پر۔ اس معاملے میں ذاتی یا خارجی محرکات کی سراغ رسانی بے کار کا مشغلہ سمجھا جائے گا۔

رہا معاملہ آیت جلباب کا کہ وہاں عورتوں کو اپنی اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے جس سے سر بَل کہ چہرے کا پردہ بھی باور کیا جاتا ہے اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾ مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلً (سورہ الاحزاب، 33:59-61)

(اِن منافقین کی شرارتوں سے اپنی حفاظت کے لیے)، اے نبی، تم اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور سب مسلمانوں کی عورتوں کو ہدایت کر دو کہ (اندیشے کی جگہوں پر جائیں تو)اپنی چادروں میں سے کوئی بڑی چادر اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ اِس سے امکان ہے کہ الگ پہچانی جائیں گی تو ستائی نہ جائیں گی۔ اِس کے باوجود (کوئی خطا ہوئی تو) اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ یہ منافقین اگر (اِس کے بعد بھی) اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور وہ بھی جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں لوگوں کو بھڑکانے کے لیے جھوٹ اڑانے والے ہیں تو ہم اُن پر تمھیں اکسا دیں گے، پھر وہ تمھارے ساتھ اِس شہر میں کم ہی رہنے پائیں گے۔ اُن پر پھٹکار ہو گی، جہاں ملیں گے، پکڑے جائیں گے اور بے دریغ قتل کر دیے جائیں گے۔

جلباب کیا ہے اس پرمولانا امین احسن اصلاحی تدبر قرآن میں لکھتے ہیں:

“جلباب‘ اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اوپر لی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بڑی چادر کے لینے کی ضرورت گھروں کے اندر نہیں پیش آتی تھی بَل کہ شرفائے عرب کی خواتین اس وقت اس کو لیتی تھیں جب انھیں گھروں سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آتی۔ شعرائے جاہلیت کے کلام سے یہ بات ثابت ہے کہ شرفائے عرب میں ’جلباب‘ کا رواج تھا۔”

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے عام طور پر یہ اسلوب اختیار فرمایاہے کہ اس طرح کاحکم دیے جانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ان باتوں پر عمل کرو، تو تقوی اور پرہیزگارحاصل ہوگی وغیرہ لیکن یہاں  یہ نہیں کہا جارہا ہے، بَل کہ کہا جا رہا ہے کہ تم یہ کرو تاکہ تمھیں پہچان لیا جائےاور تمھیں ستایا نہ جائے، یہی اس حکم کا سبب اور علت ہونا واضح طور پر قرار دیتاہے ۔آیت کے الفاظ نیز سورہ کا نظم کلام واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ اس حکم پر عمل کی وجہ اوباشوں کی شرارتوں سے خواتین کو بچاناہے۔ چناں چہ یہ کوئی مستقل حکم قرار نہیں پاتا۔ بَل کہ دفع ضرر کے یے سدِّ ذریعہ کا حکم قرار پاتا ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب بھی جہاں ایسا مسئلہ درپیش ہوگا یا ہونے کا اندیشہ ہوگا، ایسے ہی اقدامات کی طرف توجہ دلائی جائے گی۔

اس مقصد کے لیے آیت میں چادریں اوپر ڈال لینے کا حکم ہے۔یہ حکم اُس دور کی خواتین کواپنے دور کے رواج اور میسر اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئےدیا گیا۔ اس کی لیکن کیا صورت اختیار کی جائے، یہ خدانے طے کر کے نہیں دیا۔  چناں چہ انھوں نے روایات کے مطابق سر اور چہرہ بھی ڈھانپ کر ایک آنکھ کھولنے کا ایک طریقہ اختیار کیا تھا۔ یہ طریقہ اس آیت کا ایک اطلاق ہے، اس کی تشریح یا مصداق نہیں۔ یہ مقصد اب کسی اور قسم کے لباس یا ذریعہ سے حاصل ہو جائےتو آیت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ہر دور اور ہر سماج کی خواتین اور ان کا سماج اپنے دور کی تھذیب کے  لحاظ سے خود طے کر سکتے ہیں اگر ایسے ہی حالات پیش آ جائیں تو وہ لباس میں ایسا کون سا امتیاز اختیار کریں جس سےان کی شرافت کا اظہار ہو اور اوباشوں کی شرارت سے مانع ہو۔

عملاً ہماری خواتین کر بھی ایسے ہی رہی ہیں، بَل کہ پہلے دور کی خواتین سے بھی زیادہ پردہ کرنے کے ذرائع انھیں میسر آ گئے ہیں۔ مثلا ایک آنکھ تو کیا وہ کالے چشمے لگا کر دونوں آنکھیں چھپا سکتی ہیں۔ دونوں  ہاتھ بھی دستانوں میں چھپا سکتی ہیں۔ ان کے اس زیادہ پردے کو دور اول کی خواتین کے پردے کو مد نظر رکھتے ہوئے پردے میں غیر ضروری اضافہ نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ مقصد حاصل ہو رہا ہے۔

چناں چہ یہ خاتون اور اس سماج کی ثقافت طے کرے گی کہ کون سے لباس ایسا ہے جس سے عورت کی شرافت کا اظہار ہو۔ اور یہ ہر سماج اور تھذیب کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے، کسی دوسری ثقافتی روایت کے حامل کو اس پر معترض ہونے کی ضرورت نہیں، سوائے یہ کہ پردہ کی کوئی ایسی صورت اختیار کر لی جائے جو کسی لحاظ سے صحت کے مضر ثابت ہو۔ اس بحث سے یہ بھی طے ہو جاتا ہے کہ یہ آیت چہرے  کے پردے کا کوئی محل قرار نہیں پاتی۔ مرد و خواتین کے ایسے اجتماع گھر میں یا کسی اور محفل میں، جہاں مردو خواتین کا آمنا سامنا ہو اس میں خواتین کے لیےآداب و احکام کا تعین سورہ نور کی 31 کرتی ہے۔ جس پر بحث اوپر گزری۔

رہا معاملہ خاتون کے چہرہ یا سر کھلا رہنے سے بد نظری کا، تو یہ اخلاقی معاملہ کسی قانونی دائرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ اس کے لیے تو تربیت اورنصیحت ہی کی جا سکتی ہے۔بد نظری کا یہ معاملہ مردوں ہی کو درپیش نہیں، عورتیں کو پیش آتاہے۔ یسی صورت میں کیا مردوں کیا مردوں کو یہ حکم دیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اپنا چہرہ چھپا کر نکلا کریں؟ یقیناً نہیں۔یہ دنیا آزمایش گاہ ہے اور آزمایش کا امکان ہی ختم کرنے کی کوشش غیر عقلی اور غیر فطری ہوگی۔

دیکھا جا سکتا ہے کہ اوباشوں کی حرکتوں کے مقابل خواتین کو گھر بیٹھا لینے کی پابندی نہیں لگائی جا رہی، بَل کہ پہلےانفرادی سطح پر ایک حفاظتی اقدام اختیار کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔  اگلے مرحلے میں ریاستی قوت سے ایسے لوگوں کے خلاف نمٹنے کا عندیہ دیا گیا ہے:

یہ کسی ایسے سماجی جرم کے خلاف سماج کا ایک مثبت جوابی ردعمل ہے یہاں وہ پالیسی اختیار نہیں کی گئی کہ متاثرین کو ہی اپنے گھروں میں محصور کر دیا جاتا اور یوں مفسدین کی حوصلہ افزائی  ہوتی۔

فکر فراہی میں اس  کلام سےاس طرز استدلال کے اصول کیا ہیں اور یہ کیسے کیا جاتا ہے۔ اس کو بھی دیکھ لینا چاہیے:

اس طریقہ استدلال میں کلام فہمی کے لیے پہلے لفظ کو لے لیا جاتا ہے۔ لفظ کا اس کے لغوی معنی میں نہیں بَل کہ مستعمل معنی پیش نظر رکھا جاتا ہے جو اہل زبان کے ہاں معروف اور رائج ہوتا یا کلام کے صدور کے وقت رائج اور معروف ہوتا ہے۔ اس میں لفظ کی لغوی تحقیق کی غرض اس کے مستعمل معنی تک کے سفر کی تحقیق کے لیے ہوتی ہے۔ پھر لفظ کو جملے میں رکھ کر اس کے متعدد معانی میں سے ایک معروف معنی متعین کیا جاتا ہے، یہ اس لیے کہ لفظ  جب جملے میں استعمال ہو جائے اور کلام بھی ابلاغ معنی کے لیے وجود میں آ ہو نہ کہ ایہام یا احتمال معنی کے لیے (جیسے شاعرانہ کلام) تو وہ اپنے متعدد معانی میں نہیں بَل کہ جملے کی رعایت سے کوئی ایک ہی معنی دینے کے لیے لایا گیا ہوتا ہے۔

ایسے ہی جیسے ہمارے اس مضمون میں استعمال ہونے والے الفاظ کے متعدد لغوی معانی میں سے ہر لفظ کا کوئی ایک متعین معنی ہی راقم کے پیش نظر ہے جسے اس توقع پر لکھا گیا ہے کہ اس کا قاری اس سے وہی مفہوم اخذ کرے گا جو متکلم کا منشا ہے۔ لفظ کے جملے میں معنی کے متعین ہو جانے کے بعد پورے جملے کا مفہوم، نظم کلام یعنی ا س جملے کے سیاق و سباق کی روشنی میں طے کیا جاتا ہے۔ اس طرح کلام اپنی حقیقی مفہوم تک رسائی دے دیتا ہے۔ زندہ زبان ایسے ہی بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہے۔

قرآن مجیدکا معاملہ چونکہ یہ ہے کہ اس کے نازل کرنے والے نے اسے ابلاغ معنی کے لیے ہی اتارا ہے اور اس سے مقصود انسانوں کو اعتقادی، فکری اور عملی گمراہیوں اور کوتاہیوں سے بچانا اور ان دائروں میں ان کے درمیان اختلافات کے لیے فیصلہ کن اتھارٹی قائم کرنا تھا, جہاں ان کا علم و عقل کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا۔

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ  (سورہ الحدید، 57:25)

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف اور واضح دلائل کے ساتھ بھیجاہے اور اُن کے ساتھ اپنی کتاب، یعنی میزان نازل کی ہے تاکہ لوگ (حق و باطل کے معاملے میں) ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔

اس لیے اس میں خداوند تعالی نے یہ مزید سہولت مہیا  کر دی کہ اس کلام کو ایک طرف تو معروف اور واضح زبان میں بیان کیا ہے اور دوسرے اپنے معروف اور مبین الفاظ اور جملوں کی مزید توضیح بھی یہ خود کر دیتا ہے اور یوں اس کی زبان سے واقف کسی قاری کے لیے کسی غلط مفہوم کا راستہ پوری قطعیت سے بند کر دیتا ہے۔ اس طریقہ استدلال میں پہلے سے کوئی نظریہ قائم کر کے متن کو اس کے مطابق نہیں بنانے کی کوئی گنجایش نہیں ہے، بَل کہ خالی الذہن ہوکر متن کی حکومت میں داخل ہوا جاتا ہے۔ جتنا ہم متن پر غور کرتے ہیں، درست مفاہیم کے قریب تر ہوتے جاتے ہیں۔

یہ طریقہ استدلال اپنے آپ میں کسی متن کے موضوعی مطالعہ کا حتمی ذریعہ ہے، البتہ اس کے برتنے میں انسانی فہم کی خطا کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایسی غلطی کی اصلاح  پھر اسی طریقہ استدلال سے ہی درست کی جا سکتی ہے۔ یعنی متن ہی کی طرف متوجہ کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ اس کے مطالعہ میں کہاں کوئی چوک ہوئی ہے۔

عجمی علوم میں فلسفہ و منطق کے در آنے سے لے کر اب تک قرآن مجید کے ساتھ یہ حادثہ بار بار پیش آیا کہ مختلف بیرونی فکری، شخصی اور زمانی عوامل، اور رجحانات کے تحت قرآن کو ایک تائیدی بَل کہ تابع کلام کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور اسے افکار پریشاں کا ایک طلسم ہوش رُبا بنا دیا گیا۔ زبان کو ہی ظنی قرار دے کر کلام فہمی کی راہ ہی مسدود کر دی گئی، جب کہ خود اسی زبان میں مسلسل کلام کر کے یہ باور بھی کیا جاتا رہا کہ ان کا مدعا وہی سمجھا جائے گا جو وہ لکھ رہے ہیں۔

فلسفہ و منطق کی زبان عام زبان نہیں ہوتی۔ ان کے ذریعے سے ایسے کسی کلام کو سمجھنا غیر معقول بات ہے جس کلام نے اس اسلوب میں بات کرنے کا کوئی دعوی ہی نہیں کیا۔ نیز اس کی زبان لغت میں موجود اس کے الفاظ کے متعدد معانی کی متحمل نہیں، بَل کہ زبان کے عام اسلوب کے مطابق کسی ایک معنی کی تعیین کا تقاضا کرتی ہے جو اس کلام کا خاصہ ہوتا ہے جسے ابلاغ معنی کے لیے صادر کیا گیا ہو۔ نیز زبان ظنی نہیں ہوتی بَل کہ قطعی ہوتی ہے جسے ہم روز مرہ، علم اور قانون کی دنیا میں اسی بھروسے پر برتتے اور لکھتے ہیں کہ اس سے وہی مدعا سمجھا جائے گا جو متکلم کا منشا ہے، سوائے یہ کہ متکلم کا منشا کلام سے ظنیت ہی پیدا کرنا ہو۔

کلام فہمی کا درست طریقہ یہی تھا کہ بساط پر تمام اثرات سے پاک ہو کر خود کلام سے معلوم کیا جائے کہ وہ کیا کہتا ہے۔ فکر فراہی اسی سادہ اصول کی تجدید نو کا نام ہے کہ زبان کو ایک زندہ زبان کی حیثیت سے دیکھا اور سمجھا جائے۔

ہمیں اس وقت کا انتظار ہے جب ایک علمی ڈسکورس کو اس کے پیش کرنے والے شخص کے محرکات کی بجائے اس کے اصولِ استدلال سے سمجھنے کی بالغ نظری کا دور ہمارے ہاں بھی شروع ہوگا۔ تب ہی علمی مباحث ثمر آور ہو سکیں گے۔