شخصیات سے نظریات تک کا سفر

ایک روزن لکھاری
محمد عثمان، صاحب مضمون

شخصیات سے نظریات تک کا سفر

(محمد عثمان)

معروف امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کی اہلیہ ایلینور روزویلٹ کا درج ذیل قول ہم میں سے کم وبیش ہر ایک نے سن رکھا ہے:

“چھوٹے ذہن شخصیات پر گفتگو کرتے ہیں، اوسط درجے کے ذہن واقعات پر گفتگو کرتے ہیں جبکہ اعلی صلاحیت کے ذہن نظریات پر گفتگو کرتے ہیں”

پچھلی چند دہائیوں میں ذرائع ابلاغ میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں نے اس قول کو سمجھنا انتہائی ضروری کر دیا ہے۔ ہر طرف خبروں اور معلومات کا سیلاب ہے۔ پرنٹ میڈیا سے لیکر الیکٹرانک میڈیا تک اور خاص طور سے سوشل میڈیا پر ہر وقت کوئی نہ کوئی موضوع گرم رہتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخصیت یا واقعہ زیر بحث ہوتا ہے۔ جلد ہی دو مخالف گروہ بن جاتے ہیں اور دونوں طرف کے شریک گفتگو اپنی اپنی انتہا پسندانہ دلیلوں سے مخالف کو ہرانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ان تمام بحثوں کا آج تک کیا نتیجہ نکلا ہے اور کیا اس سے قوم کی اجتماعی دانش میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے یا نہیں ؟ یہ ایک دلچسپ اور قابل غور سوال ہے۔ آئیے مذکورہ بالا قول کے تناظر میں ہماری اجتماعی دانش کو درپیش اصل مسلئے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

کسی بھی معاشرے میں کام کرنے والی مختلف شخصیات اور وہاں وقوع پزیر ہونے والے واقعات کے پس منظر میں کچھ نظریات اور عوامل کا ر فرما ہوتے ہیں۔ عام طور پر ہم شخصیات اور واقعات کا انفرادی حیثیت میں تجزیہ کرتے ہیں۔ کسی ایک شخصیت کو تمام مسائل کی وجہ اور کسی دوسری شخصیت کو تمام مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی واقعے کو اس کے سیاق و سباق او ر اجتماعی صورت حال سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے تو نتیجتا” ہم حقائق تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔

مثلا کسی فرد کا خود کشی کرلینا محض ایک فرد کا وقتی فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے اس کی زندگی کے بہت سے واقعات اور اردگرد کے افراد کے افعال اور رويے شامل ہوتے ہیں ۔ واقعات اور شخصیات میں الجھا ہو ا ذہن کبھی بھی خودکشی کی حقیقی وجوہات کا ادراک نہیں کر سکتا۔ ایسے ہی ا گر کسی ویگن میں گیس سلنڈر پھٹنے سے چند انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں تو اس واقعے کو بھی محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس کے پیچھے ریاست کے تشکیل کردہ حفاظتی قوانین کے عملدرآمد میں کمزوری اور مسلسل غفلت شامل ہوتی ہے۔

اسی طرح کسی قوم کی اکثریت کا غربت و افلاس کا شکا ر ہونا اور ایک محدود ترین اقلیت کا تمام وسائل و اختیارات پر قابض ہونا بھی محض اتفاقی واقعہ یا قسمت کا لکھا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نہ ہی یہ کہنے سےتمام مسلئے حل ہوجاتے ہیں کہ وسائل اور اختیارات پر قابض اشرافیہ کی وہ محدود اقلیت بہت محنتی اور ذہین ہے جبکہ باقی لوگ کام چور اور کند ذہن ہیں۔ یا پھر جو تعبیر ہمارا روائتی مذہبی طبقہ دیتا ہے کہ یہ سب تو”مقدروں کا کھیل” ہے اس لئے اسے خدائی فیصلہ سمجھ کر قبول کرلیا جائے۔ کہیں نہ کہیں ایسے قوانین ضرور موجود ہیں جوکہ محنت کرنے والے کو اس کی محنت کے حقیقی اجر سے محروم کر کے وسائل کا رخ دوسری جانب موڑ رہے ہیں۔ اسی طرح مساوی بنیادوں پر صحت، تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع کی فراہمی کو یقینی بنائے بغیر محنت اور ذہانت کی بنیاد پر منصفانہ مقابلہ اور ترقی کیسے ممکن ہے؟

کم وبیش ہر دوسرے تیسرے سال ہمارے ملک کو سیلاب جیسی آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد میڈیا پر مختلف طرح کے ناٹک شروع ہوجاتے ہیں۔ سیاست دان، مذہبی قائدین اور رفاہی اداروں کے افراد عوام کی امداد کرنے کے بہانے اپنے اپنے فوٹو سیشن اور خطابات کرتے ہیں اور سیلاب میں گھرے عوام کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ اسی طرح چند مشہور مذہبی شخصیات سیلاب کو خدا کا بھیجا ہوا عذاب قرار دیتی ہیں اور اس میں ہلاک ہونے والوں کو شہادت اور جنت کی خوشخبری بھی سناتے ہیں۔ یہ مذہبی راہنما اس سوال کا جواب دینے سے مکمل طور قاصر ہیں کہ خدا کا یہ عذاب کمزور اور مفلوک الحال لوگوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے۔ اگر کوئی وڈیرہ اپنے علاقے میں آنے والے سیلاب کا رخ موڑ کر کمزور کسانوں کی زمینوں کی طرف کردے تو کیا یہ پھر بھی خدا کا عذاب کہلائے گا؟ اسی طرح اگر سیلاب خدا کا عذاب ہے تو دنیا میں بہت سے ممالک اس عذاب سے چھٹکارا پانے میں کیسے کامیاب ہوگئے ہیں؟ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ خدائی عذاب میں ہلاک ہونے والے شہید کیسے ہو سکتے ہیں؟یا پھر یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ اصل عذاب سیلاب کی تباہ کاری ہے یا وہ سیاسی قیادت ہے جو کہ سیلاب سے بچاؤ کی تدابیر کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے؟ کیا عذاب سے توبہ کی یہ لازمی شرط نہیں کہ اپنی سیاسی اور مذہبی قیادت کا ایک دفعہ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور اگر وہ اس قیادت کی اہل نہیں ہے تو اس سے براءت کا اعلان کر کے متبادل قیادت کی فراہمی کی جدوجہد کی جائے؟

ایک اور مقبول عام بحث معاشرے میں نجی بنیادوں پر رفاہی اداروں کی افادیت اور عدم افادیت پر ہے۔ پاکستان میں ہر سال اربوں روپے صدقہ و خیرات کی مد میں مختلف رفاہی اداروں کو ديے جاتے ہیں۔ انسانی ترقی کو ظاہرکرنے والے ہربین الاقوامی اعشاريے میں پاکستان 130 سے 140 ویں نمبر پر کھڑاہوتا ہے۔ وہی پاکستان صدقات خیرات کرنے والے ممالک کی صف اول میں شامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود غربت وافلاس اور مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے دن بدن سبکدوش ہوتی جا رہی ہے اور تمام بوجھ غیر سرکاری اداروں پر ڈالتی جا رہی ہے۔ یہاں سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست نے اگر آئین میں طے کردہ سہولیات مہیا نہیں کرنی، عوام نے اپنی صحت، تعلیم، امن و امان، صاف پانی وغیرہ اگر بازارسے ہی خریدنا ہے تو دن بدن بڑھتے ٹیکسوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ یعنی ایک طرف تو عوام سے ٹیکسوں کی مد میں پیسہ نکلوایا جائے اور دوسری طرف انہیں کے چندے پر نجی رفاہی ادارے چلائے جائیں۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو عوام کی اکثریت کے مسائل حل ہوں اور نہ وہ اپنی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزار سکیں۔ بلکہ پوری سوسائیٹی میں بھیک اور خیرات پر پلنے کا ایک کلچر پیدا کر دیا جائے۔ اسی بنیاد پر استحصالی سیاسی اور معاشی نظام کو جواز بخشنے والے دانشور چند رفاہی اداروں کی مثالوں کے زریعے عوامی ذہن کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر اسی طرح کے چند نجی رفاہی ادارے اور قائم کرلئے جائیں تو پوری قوم کے جملہ مسائل حل ہوجائيں گے۔ یہ نیم دانشورانہ سوچ حقیقت سے کس قدر بعید ہے اس کا اندازہ اس سوال سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج جو ممالک ترقی یافتہ ہیں، وہاں کے افراد کو ترقی کرنے کے مساوی مواقع حاصل ہیں اور پاکستان کا ہر دوسرا شہری وہاں مہاجرت اختیار کرنا چاہتا ہے، کیا اس کی وجہ وہاں نجی رفاہی اداروں کی کثرت ہے یا پھر وہاں کی ریاست کا اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنا ہے؟

مندرجہ بالا قائم کئے گئے سوالات کی طرح بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن پر آج نظریاتی گفت و شنید اور تبادلہء خیال کی ضروت ہے۔ اگر ہم ایک بار سیاست، معیشت اور سماج سے متعلق ان نظریات کو تفصیل سے سمجھ لیں تو روز مرہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی حقیقت اور زیر بحث شخصیات کے مثبت یا منفی کردار کا شعوری جائزہ لے سکیں گے۔

دور حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے گھر، سکول اور مدرسہ سے لے کرالیکٹرانک اور سوشل میڈیا تک کم وبیش ہر جگہ صرف شخصیات اور واقعات پر ہی گفتگو ہورہی ہے اور ان کے پردے میں سیاسی، سماجی اور معاشی اصول و نظریات پس پشت ڈال د‏‏ئے گئے ہیں۔ تاریخ جیسے حساس اور اہم موضوع کو بھی اجتماعی حالات اور تاریخی انسانی میں جاری تسلسل و ارتقاء بیان کرنے بجائے محض چند شخصیات کی سوانح نگاری یا چند من پسند واقعات کی بناء پر تاریخ کی تشریح تک محدود کردیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا خطوط پر ذہن سازی کا نتیجہ انفرادیت، شخصیت پرستی، تاریخی تسلسل سے لاتعلقی اور مستقبل کی بہتری کے حوالے سے مایوسی کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے اور پوری قوم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کسی مسیحا کے انتظار میں بیٹھی ہے۔
سماج سے متعلق مختلف نظریات انسان کو وہ پیمانہ فراہم کرتے ہیں جس کی اساس پر مختلف شخصیات اور واقعات کا معتدل تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ سماجی علوم اور نظریات سے لاعلمی کی وجہ سے ہم مختلف شخصیات اور واقعات کا محض ذاتی یا گروہی جذبات، خواہشات اور تعصبات کی بنیاد پر جائزہ لینے پر مجبور ہیں۔ اسی غیر حقیقت پسندانہ رويے کا نتیجہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم ایک بار پھر دھوکہ کھاچکے ہیں اور پھر اگلے سراب کاپیچھا کرنے لگتے ہیں۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شخصیات اور واقعات سے متعلق سطحی بحثوں سے بالاتر ہوکر دلیل اور عقل کی بنیاد پر نظریاتی گفت و شنید اور مکالمے کا آغاز کریں، دنیا میں موجود مختلف افکار، قوانین اور سماجی نظاموں کا تقابلی جائزہ لیں اور پھر اپنے قومی مزاج اور حالات کو سامنے رکھ کر ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں جس کے زریعے ہم دنیا کے ترقی یافتہ اور باعزت معاشروں میں اپنی جگہ بنا سکیں۔

11 Comments

  1. بہت عمدہ شاندار جامعیت سے بھرپور ۔۔ !
    ہم آپکی مزید تحریروں کے منتظر رہیں گے

  2. بہت عمدگی سے جائزہ لیا ہے تمام صورتحال کا۔۔۔ ماشاءاللہ
    خدا کرے زور بازو اور زیادہ

  3. فرد اور اجتماعیت کے دائرہ کار اور نظریات کی اہمیت پر مدلل گفتگو کی ہے۔

  4. معاشی اور سیاسی مسائل پر ھماری سوچ کی جانب سے دے جانے والےجزباتی اور فوری حل ھمیشہ سے ناکامی اور پھر مایوسی کی طرف لے جارہے ھیں

  5. شاباش عثمان۔ بہت عمدہ تحریر ہے۔ ہمارے معاشرے کے اندرونی تضادات کو اجاگر کرتی ہے۔ اور انکا حل ایک نظریاتی مکالمے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

  6. My Friend this is great. Please keep up the good work. And write more so we can learn from capable minds like you.

  7. محترم عثمان صاحب آپ کی تحریر بہت عمدہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ جن تصورات و نظریات کو معیار بنا کر ہم سیاسی و سماجی زندگی کے مختلف عوامل کو پرکھیں وہ ہمیں کون بتائے؟ ہم سے تو جناب ہمیشہ سے لکیریں پٹواءی جا رہی ہیں

  8. Thought provoking article. Very true. In our society we are infact taught at every stage NOT to think and we are following predefined preferences

Comments are closed.