اقبال، مذہبی قومیت اور شریعت: حصہ دوم

Asad Rehman aik Rozan
اسد رحمٰن،صاحبِ مضمون

اقبال، مذہبی  قومیت اور  شریعت: حصہ دوم

اسد رحمٰن

پچھلے حصے میں ہم نے تحریکِ پاکستان اسلام اور دو قومی نظریے کے تاریخی پہلوؤں اور ان کو سمجھنے میں در آنے والی مجوزہ علمی رکاوٹوں پہ نظر ڈالی۔ اس حصے میں ہم مسلم قومیت، اسلام اور اس کے سب سے بڑے شارح ڈاکٹر محمد اقبال کی فکر کے آپسی تعلقات کا  جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان میں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کو نظریہ پاکستان کا موجد سمجھا جاتا ہے اور آج بھی ریاستِ پاکستان کے نظریاتی ڈسکورس میں اقبال کی حیثیت ایک سرپرست پیر (پیٹرن سینٹ) کی ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں چونکہ سیاست کی مادی تشریحات کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور سیاسی بیانیے کو مرکزی و حتمی شکل تفویص ہو چکی ہے اس لیے اسلامی ریاست و سیاست کے ڈسکورس اور اقبال کی اس میں مرکزیت کا جائزہ لینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مواصلات میں آنے والے حالیہ انقلاب، پاکستان کے معاشی ڈھانچوں میں وقوع پذیر ہونے والی معیاری تبدیلیاں، طبقاتی ڈھانچہ میں آنے والا تنوع اور ثقافتی و مذہبی بدلاؤ نئی سیاسی حرکیات کا موجب ہے (فی الحال ہم اس بدلاؤ کے ساتھ جڑے عالمی و علاقائی دھاگوں کو تجزیے سے باہر رکھیں گے۔)

اسی پس منظر میں لبرل اور اسلامی پاکستان کی بحث اکثر پڑھنے کو ملتی ہے۔ جو کہ ہمارے نزدیک ایک ایسی بحث ہے جو کہ آئیڈیالوجی سے زیادہ جڑی ہے اور تاریخی حقائق سے اس کی نسبت ثانوی ہے۔ اگرچہ جناح صاحب ایک لائف سٹائل لبرل تھے، لیکن ان کا تصورِ قوم (عائشہ جلال کے موقف کو مانتے ہوئے بھی) اپنی بنیاد میں روایتی مذہبی تصور سے ہی مستعار تھا جس کے نزدیک کوئی ایک کمیونٹی جدید معنوں میں ایک قوم کہلانے کی حقدار ہے اور وہ نسلی لسانی و قومیتی اعتبار سے چاہے جتنی گروہوں میں منقسم ہو ایک مذہب کی بنیاد پہ وہ حقِ خود ارادی کی اتنی ہی حقدار ہے جتنا کوئی بھی دوسرا گروہ۔

اس خیال کے جدید معنوں میں پیش کرنے والے ڈاکٹر اقبال ہی تھے اس لحاظ سے اس بات پہ بحث کہ جناح کیسا پاکستان بنانا چاہتے تھے، ایک مہمل عمل ہے کیونکہ تحریکِ پاکستان کو عوامی سطح پہ پذیرائی دلوانے کے لیے جناح صاحب کو بھی اسلامی ڈکشن اور تصورات پہ ہی تکیہ کرنا پڑا (کسی بھی ڈسکورس کی مجبوری) اسی وجہ سے ہمیں اس اسلامی قانون یا شریعت کے سب سے بڑے شارحِ کی پاکستان کی تفیہم سے ہی آغاز کریں گے کیونکہ لبرل جناح کی سیاست سے زیادہ اس وقت اقبال کی اسلامی قومیت اور شریعت  کی جدید سیاسی تفسیر ہی عمومی طور پہ سماج (خاص کر مڈل کلاسز) اور ریاست کے آپسی سیاسی تعلق کی تشکیل کر رہی ہے۔

علامہ اقبال اپنے الہ آباد کے تاریخی خطبے کی ابتدا میں ہی ارشاد فرماتے ہیں اس بات پہ کسی کو اعتراز نہیں ہو سکتا کہ اسلام ، کو اگر ایک اخلاقی یا سیاسی تصورِ اعلی کے طور پہ دیکھا جائے۔ جس سے میری مراد ایک ایسا سماجی ڈھانچہ ہے جو کہ قانون سے ریگولیٹ کیا جائے۔۔۔ تو یہی تصورِ اسلام ہندوستان میں مسلمانوں کی لائف ہسٹری کی وضاحت کرتا ہے۔

علامہ کی اس وضاحت کا مرکزی نکتہ اسلام کا ایک ایسا سیاسی تصور ہے جو کہ اپنی بنیادوں میں قانونی ہے۔ اپنی اس وضاحت کی نسبت سے اقبال جدید ریاست کی قانونی حیثیت کو تاریخی طور پہ موجود اسلام کی شرعی روایت کے ساتھ جوڑتے ہوئے مسلمانوں کی ہندوستان میں موجودگی کو ایک الوہی مینڈیٹ دے دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی جدید ریاست میں قانون سازی کی حدود سازی بھی کرتے ہیں۔

لیاقت علی خان کی سربراہی میں پیش کی جانے والی قردادِ مقاصد، جس کو دائیں بازو کے صحافی آئین کا بنیادی سٹرکچر قرار دیتے ہیں، کا نسب نامہ بھی فکر اقبال سے نکلتا ہے اور مودودی صاحب کا اسلام کو ایک دین کے طور پہ پیش کرنے کرنے کی دلیل بھی اپنا نان و نفقہ علامہ صاحب کے اس ارشاد سے حاصل کرتی ہے۔

عیسائیت کی نسبت اسلام کوئی خانقاہی دین نہیں ہے بلکہ اپنے اندر سیاست اور ریاست کا ایک مکمل تصور رکھتا ہے۔ اور اسلام کے نزدیک مادے اور روح کی دوئی بے معنی ہے بلکہ مادہ  روح کا زمان و مکان میں کلی اظہار ہے علامہ اپنے دلائل کو پیش کرتے وقت اسلام کو نہ صرف عیسائیت سے جدا قرار دیتے ہیں بلکہ عیسائی دنیا یعنی یورپ کے تمام تر سیاسی تصورات کو ابھی اس بنیاد پہ غلط سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے اندر کسی قسم کا کوئی مذہبی عنصر موجود نہیں ہے۔ اس کی سیاسی نظریہ سازی کرتے ہوئے علامہ بنیادی طور پہ ایک ایسے ڈسکورس کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو کہ بعد میں آنے والے سیاسی اسلام کے شارحین اور مابعد نوآبادیاتی ریاست کے مینجرز کو عوام کے زمینی تشخص اور ضرورتوں کی بہ نسبت روحانی آئیڈیلز کی آڑ میں استحصالی ڈھانچوں کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

اس ڈسکورس کی عوامی سطح تک اتر آنی والی تاثیر  کسی بھی تعلیم یافتہ  پاکستانی مڈل کلاس نوجوان  کے اس ذہنی بحران میں دیکھی جا سکتی ہے  جو کہ معاشی سطح پہ تو یورپ سے شاید کسی سطح پہ متاثر ہے لیکن وجودی اور ثقافتی سطح پہ وہ ان معاشروں کو کمتر سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ ہی مغرب کی تعریف وہاں پہ موجود قانون کی حکمرانی کے کی بنیاد پہ کرتا ہے لیکن دوسرے  ہی لمحے ان تمام قوانین کو اصل اسلامی قوانین کا چربہ بھی قراد دیتا ہے۔

آج کے پاکستانی نوجوان کا تصورِ تاریخ بھی اقبال کے ہی اسی تصور سے کشید ہے جس میں تاریخ ایک اسلامی آئیڈیل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

ان معنوں میں اقبال کو مسلم ہیگل بھی کہا جا سکتا ہے۔ تاہم اس ساری سیاسی نظریہ سازی جو کہ نہ تو کوئی تاریخ کا کوئی علاقائی اور عوامی تصور رکھتی ہے اور نہ ہی کوئی عدل کا معاشی تصور کی مرکزی دلیل اقبال کےاسلام ایک اخلاقی قانون میں ڈھونڈھی جا سکتی ہیں:

اقبال کے علمی اور وجود سیلف پہ جرمن ثقافت، علمی روایت اور افراد کا سایہ کافی گہرا ہے۔ اقبال پہ بعد میں کام کرنے والے قابلِ ذکر ریسرچرز کا تعلق بھی جرمنی سے ہی ہے جو کہ اقبال اور جرمنی کے تعلق پہ ایک سند ہے۔ اقبال کا تصور جمال، سیاست اور فلسفہِ وجود اپنے جوہر میں مختلف جرمن مفکروں اور پھر اقبال کے جرمنی میں رہنے کے تجربے سے کشید ہے۔ ایک با حریت کالونیل باشندے کی حیثیت سے اقبال اور انگلینڈ میں کسی قسم کے دائمی روحانی تعلق کا قائم ہونا بعید از قیاس  تھا لیکن جرمنی کے ساتھ اقبال کا بطورِ طالبِ علم اور بطورِ مبصر رشتہ ان کالونیل جہتوں سے آزاد تھا جس کا پرتو اقبال کے خطوط میں واضح نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کی فکر پہ جرمن آئیڈیلزم کے علاوہ جرمن تاریخ اور جرمن ثقافت کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینا اقبال کے قومیت کے ساتھ تعلق کو سمجھے میں مدد کر سکتا ہے۔

جرمنی انییسویں صدی میں سیاسی طور پہ ایک کٹھن دور سے گزرا جس سے وہاں پہ کلچرکو ایک قومی شعور کی اساس کے طور پہ ایک ڈسکورس کی صورت میں کھڑا کیا گیا اور اس سیاسی قومیت کے ڈسکورس کی تشکیل میں ریاست کی بجائے سول سوسائٹی کا کردار زیادہ اہم تھا  اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کو اسی کردار نے متاثر کیا۔

کچھ محققین کے نزدیک نپولین کے جرمنی کو شکست دینے کے بعد فرانسیسی تہذیبی کے تصور کے مقابلے میں جرمن کلچر کا تصور پیش کیا گیا تاکہ ایک جرمن قوم جو کہ متنوع ریاستوں میں موجود ہے اس کے لیے ایک قومی ریاست حاصل کی جائے جس میں جرمن کلچر کو پنپنے کا موقع مل سکے۔ یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ فختے جیسا فلسفی بھی خود کو اس سے دور نہ رکھ سکا اور یہ لکھنے پہ مجبور ہوا  کہ:

میرے ہم وطنو اٹھو تاکہ روح آزادی حاصل کر کے اپنی ترقی کے امکانات کو حقیقت بنا سکے

اقبال کی سیاسی نظریہ سازی میں جو مقام  جرمن کلچر کو  حاصل تھا وہ جگہ مذہب کو دے کر مسلمانوں کو ہندوستان میں ایک ثقافتی یونٹ قرار دے دیا گیا اور اسلام کو عیسائیت والی قسمت سے بچانے کے لیے جنوب مغربی ہندوستان میں ایک ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی جو کہ ہندوستان میں اسلام کو نئی سانس لینے کاموقع بھی دے اور اس کو اس کے عرب سامراجی کردار سے نجات بھی دلوائے۔ اس سارے ڈسکورس کی تعمیر و تشکیل میں جرمنی مثالیت پسندی اور رومانویت کی فکری تحریکوں کے اثرات غالب ہیں لیکن ایک اہم معیاری فرق ان تحریکوں کے سیکولر کردار کی بجائے ایک مذہبی اخلاقی قانون کا ایک  غیر تاریخی مفروضہ ہے جو کہ اقبال کے خیال میں اسلام کے تصور توحید میں پیوست ہے۔

اسی بابت فرزانہ شیخ کہ فکر اقبال کا مطالعہ خاصا اہمیت کا حامل ہےوہ لکھتی ہیں کہ:

اقبال اور آزاد کے مسلم کمیونٹی کے سیاسی کردار پہ بہت بنیادی فرق موجود تھے۔ آزاد کے نزدیک مسلم کمیونٹی ایک  ایسی وحدت ہے جو کہ اپنے اندر کثرتِ رائے کو بھی قبول کر سکتی ہے۔ جبکہ اقبال کے نزدیک میں کثرت کا تصور ایرانی صوفی روایت سے آلودہ ہےاس لیے ان کے نزدیک اسلام اور مسلم کمیونٹی کا جوہر اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے مقالے مذہب اور ملت میں وہ اقبال پہ کی جانے والی روایتی تحقیق کی کچھ اشکالات کو سامنے لاتی ہیں۔

روایتی طور پہ پاکستانی ریاستی اداروں اور دائیں بازو کے تاریخ نویسوں کی تحقیق اقبال کی ابتدائی شاعری کو نوجوان ذہن کے طلاطم کے طور پہ اور پھر بعد از یورپ کی شاعری کو ایک میچور فلسفی کی شاعری کے طور پہ پیش کرتی ہے۔ جبکہ زیادہ تر روشن خیال حلقے اقبال کی شاعری کے پہلے دور کو ایک انڈین نیشنل ازم کے خوبصورت نمونے کے طور پہ سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ تاہم شیخ کے نزدیک اقبال کی شاعری اسلام کے ساتھ جڑا ایک مسلسل حسنِ ظن ہے پہلے ایک یونیورسل ایمان کی شکل میں اور پھر ایک سیاسی آئیڈیالوجی کی صورت اسی موضوع پہ بات کرتے ہوئے قبلہ جوہر صاحب لکھتے ہیں:

مذہب اپنے منبع میں ماورائی ہے جبکہ نظریہ انسان کی بنائی ہوئی ضرورت ہے۔۔۔ نظریہ پاکستان براہ راست سیاسی شناخت کے مسائل کا حل سامنے لاتا ہے اور سیاسی طاقت کی مطلق خود مختاری کے تصور کو رد کر دیتا ہے اگرچہ اس کی فکری تشکیلیات سامنے نہیں لائی جا سکیں۔

اگر ایک ریاست کے مل جانے کے بعد کسی نظریے کی فکری تشکیلات سامنے نہیں لائی جا سکیں تو پھر وہ کون سامنے لائے گا؟ اس سوال کو نظر انداز کر کے اگر ہم جوہر صاحب کے بنیادی تھیسیز کو دیکھیں (جو کہ اسلامسٹ بیانیہ کا ایک ہم عصر نمائندہ ہے) تو نظریہ اور مذہب میں بظاہر فرق کو مان لیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی سیاسی حاکمیت کے عوامی حق کو ماننے سے بھی انکار کیا گیا ہے۔ اس اقرار اور انکار کے بیچ رابطہ اخلاقی قانون کا وہ تصور پیش کرتا ہے جو کہ اقبال اور  مودوی سے لے کر اسامہ بن لادن اور ابوبکر بغدادی کو ایک ہی صٖف میں لا کھڑا کرتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے اوپر بھی بیان کیا ہے کہ اقبال کے اخلاقی آئیڈیل کو اسلامی قانون سے ہی ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے اسی طرح سے مودودی صاحب کے صالح حکمران ہوں یا ابوبکر بغدادی کے سپاہی سب اسلامی شریعت کی کسی ایک تشریح کی پابندی کرتے ہیں کہ جس میں فیصلہ کرنے کا حق کسی سیاسی نظام میں رہتے ہوئے جمہور کو نہیں بلکہ چنیدہ احباب کو حاصل ہو گا اور ایسی جماعت کا حقِ حاکمیت ووٹ جیسی غیر اسلامی چیز کی بجائے بندوق کی نال سے نکلے گا۔ بقول جوہر صاحب موجود مغربی سیاسی نظام کا آقا اگر افلاطون ہے تو پھر موجودہ سیاسی اسلام کی ساری تحریکوں کا سب سے بڑا جدید مبلغ اقبال ہے۔

آخر میں وہ تمام سوشلسٹ اور ترقی پسند دوست جو کہ اقبال کو ایک ترقی پسند خورد بین کے نیچے رکھ کر اس میں سے ترقی کے شائبے ڈھونڈھ کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں ان کے لیے نہایت دکھ سے عرض ہے کہ اقبال اپنے گاہے گاہے سیاسی بیانات کے برعکس ایک کٹر تقیدی روایت کا بیسویں صدی کا ایک اہم نظریہ ساز ہیں۔

 اقبال کی فکر کو ہم برصغیر میں مسلم روایت کی کٹر تقلید پسند روایت میں ڈال سکتے ہیں  جو کہ سولہویں صدی میں اکبر کی پالیسوں کے خلاف سامنے آئی  اٹھارہویں صدی میں اس روایت کے سب سے بڑے شارح شاہ ولی اللہ تھے۔ شاہ ولی اللہ اور اقبال کے مابین سیاسی طاقت کے انسٹرومینٹل استعمال پہ اتفاق رائے موجود ہے اگر شاہ صاحب اس وفور میں احمد شاہ ابدالی کو خطوط لکھتے ہیں تو اقبال ایک الگ قومی ریاست کی تشکیل کی بات کرتے ہیں ہیں جبکہ دوسری جانب سرہندی اور اقبال کے بیچ کمیونٹی کی ممبرشپ کی ریگولیشن پہ اتفاق دیکھتے ہیں۔ مجدد صاحب کے نزدیک مسلم کمیونٹی سے شیعہ باہر تھے اور علامہ صاحب کے خیالات احمدیوں کے متعلق بھی کافی متنازعہ نوعیت کے ہیں۔ اسی طرح سے اقبال 1917 میں یہ دعوی ارشاد کرتے ہیں کہ

ہمارے معاشرے کی پیدائش اپنے آپ کو قانون (شریعت) کی غلامی میں دینے سے ہی ہوئی ہے۔ کوئی بھی مسلم  قانون کا طالب علم یہ جانتا ہے کہ شرعی قانون کو نظر انداز کرنے کی روایت  جھوٹی صوفی تحریک  کا نتیجہ ہے جو کہ ایران کے قلب میں پیدا ہوئی۔

کیا اس اوپر والے بیان سے ابوبکر بغدادی، ملا فضل اللہ سے لے کر ہماری زیادہ تر پڑھی لکھی ہم عصر مڈل کلاس کے نوجوان اتفاق نہیں کریں گے؟ ایسے میں ہم یہ سوال اٹھانے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ موجودہ اسلامی شرعی بیانیہ (جو کہ اسلامسٹوں کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے)  جو ریاست، معیشت، ثقافت اور علم سب کو شرعی حدود میں لانے کی بات کرے تو کیا ایسا بیانیہ اپنے سب سے جدید اور بڑے شارح علامہ اقبال کے ریاستی آئیڈیالوجی کے افق پہ موجود ہوتے ہوئے کیسے بدلا جا سکتا ہے؟


حوالہ جات

[1] French  Civilization VS German Kultur

[2] فختے کی روح اقبال کی خودی ہے

[3] جو کہ زبان رہن سہن کے رومانوی تصورات پہ مبنی تھا

[4] Shaikh, F. (2009). Making sense of Pakistan. Columbia University Press.

[5]اقبال کے کچھ ہمدرد اقبال کے ترکی کے سیاسی ماڈل کو درست تسلیم کرنے اور ایران میں علما کی شوری کو پارلیمنٹ پہ برتر حیثیت دینے کی مخالفت کو انکی جدید جمہوریت کی حمایت میں سامنے لے کر آتے ہیں۔ لیکن کسی مفکر کی فکر اس کے دئیے گئے بیانات سے زیادہ اس کی فکر کی اندرانی بنتوں سے سامنے لائی جانے چاہیے۔

[6] Shaikh, F. (2005). Millat and mazhab: re-thinking Iqbal’s political vision’. Living Separately. Cultural India in History and Politics, New Delhi, 366-388.