ٹھمری، غزل اور گیت کا دشتِ تنہائی اور’’اقبال بانو‘‘

(پروفیسر شہباز علی)

اقبال بانو پاکستان کی ایک ایسی مغنیہ ہیں جنھوں نے بیک وقت ریڈیو ، ٹیلی وژن اور فلم میں گا کر مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے تعلیم یافتہ اور سنجیدہ موسیقی سننے والے سامعین کو اپنی خوب صورت آواز کے ذریعے بے حد متاثر کیا اور اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ ٹھمری، غزل، نظم، سرائیکی کافی اور پنجابی گیت یکساں مہارت سے گاتی ہیں۔
اقبال بانو ۱۶؍اگست ۱۹۳۸ء کو رہتک میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم دلی والے اُستادچاند خاں اور اُستادکریم خاں پسر اُستادحبیب خاں بین کار سے حاصل کی۔
اقبال بانو کے اپنے بیان کے مطابق دہلی میں ان کے پڑوس میں ایک ہندو خاندان کی لڑکیاں گانا سیکھتی تھیں۔ وہ اکثر ان لڑکیوں کا گانا سننے ان کے گھر جایا کرتی تھیں، وہیں سے انھیں گانے کا شوق ہوا۔ گانے کی ابتداء سکول میں علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری‘‘ گا کے کی۔ سکول کی اُستانیوں کو ان کی آوا ز پسند آگئی اور انھوں نے اقبال بانو کو سب لڑکیوں سے آگے کھڑا کر دیا اور کہا کہ آج کے بعد تم ان لڑکیوں کے کورس کو لیڈ کیا کرو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی دنوں میں ان کے والد کی طرف سے انھیں گانے کی اجازت نہ تھی لیکن بعد ازاں اپنی بیٹی کا شوق دیکھ کر وہ اسے گانے کی اجازت دینے پر مجبور ہو گئے۔
اقبال بانو کی ابتدائی تعلیم اور ان کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے اُستادِمحترم قاضی ظہور الحق صاحب لکھتے ہیں:
ہلکی پھلکی اور کلاسیکل گائکی میں اقبال بانو کا اپنا ایک اچھوتا انداز ہے اور انھوں نے موسیقی کی دنیا میں ایک مقام حاصل کیا ہے۔ بہت سی فلموں میں پلے بیک دیا ہے جو بہت مقبول ہوا ہے۔ وہ زہرہ بائی رہتک والی کی بیٹی ہیں۔ ان کی موسیقی کی تعلیم کے متعلق ذاتی طور پر میری معلومات یہ ہیں کہ حشمت پٹودی والی کے بیٹے محمد صدیق ان کے ہارمونیم ماسٹر تھے اور غالباً انھی سے اکتساب فن کیا ہے۔ میں اقبال بانو کو بچپن سے جانتا ہوں۔ ان کی آواز بہت سریلی اور جادو کا اثر رکھنے والی ہے اور اس وقت پاکستان کی مشہور ترین مغنیہ ہیں۔ ۱؂
اقبال بانو نے ذاتی طور پر کبھی بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ وہ زہربائی رہتک والی کی بیٹی ہیں بلکہ پی ۔ٹی۔ وی ورلڈ کے پروگرام ’’ٹاپ ٹین‘‘ میں انھوں نے کہا ہے کہ ان کے خاندان میں ان کے علاوہ کسی اور کو گانے کا شوق نہ تھا۔
اقبال بانو کی شہرت کا آغاز انور کمال پاشا کی فلم ’’گمنام ۱۹۵۵ء ‘‘ کے ایک گیت سے ہوا۔ گیت کے بول تھے:

تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے

پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے

 

’’گمنام‘‘ کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے مرتب کی تھی۔ اس گیت نے ماسٹر عنایت حسین کو پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اول کے موسیقاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اقبال بانو کو فلم میں متعارف کروانے کا سہرا بھی ماسٹر عنایت حسین کے سر ہے۔ اس گیت کو پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کا ریکارڈ بہت زیادہ تعداد میں فروخت ہوا۔
’’گمنام‘‘کے بعد انور کمال پاشا ہی کی فلم ’’قاتل‘‘ میں ماسٹر عنایت حسین نے اقبال بانو سے ایک غزل گوائی جو بے حد مقبول ہوئی، غزل کے بول تھے:
الفت کی نئی منزل کو چلا تو بانہیں ڈال کے بانہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں

اپنے دور کی ایک اور کام یاب فلم ’’عشق لیلی‘‘ میں اقبال بانو کی گائی ہوئی یہ غزل بھی بے حد مقبول ہوئی:
پریشاں رات ساری ہے ستارو تُم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو تُم تو سو جاؤ
فلم ’’عشق لیلیٰ‘‘ہی کا یہ گیت بھی بہت مقبول ہوا:
اک ہلکی ہلکی آہٹ ہے
اک مہکا مہکا سایہ ہے
فلم ’’عشق لیلی‘‘ کی موسیقی موسیقار صفدر حسین نے مرتب کی تھی۔
عشق لیلی کے بعد موسیقار صفدر حسین کی ایک اور مشہور فلم ’’ناگن‘‘ کے ٹھمری انگ کے اس گیت نے اقبال بانو کو بہت عروج بخشا:
امبوا کی ڈاریوں پہ جھولنا جھولا جا
اب کے ساون تو سجن گھر آ جا
فلمی گیتوں کے علاوہ اقبال بانو کی گائی ہوئی یہ غزلیں بھی بہت مشہور ہوئیں۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شاعر : مرزا غالب
موسیقی: خلیل احمد

شاعر: حکیم مومن خان مومن
موسیقی: عبدالحق قریشی
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
شاعر: داغ دہلوی
موسیقی: عبدالحق قریشی
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے بجھانے لگے
شاعر: باقی صدیقی
موسیقی: ماسٹر منظور حسین
ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
شاعر: ناصر کاظمی
موسیقی : اعجاز حسین حضروی
فیض احمد فیض کی نظم ’’یاد‘‘ کو اقبال بانو نے بہت خوب صورتی سے گایا ہے۔ نظم کے بول ملاحظہ ہوں:

دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھِل رہے ہیں، ترے پہلو کے سمن اورگلاب

مذکورہ نظم گاتے ہوئے اقبال بانو نے تلفظ کا خاص خیال رکھا ہے۔ اس نظم کے حوالے سے انھوں نے پی۔ ٹی۔وی ورلڈ کے پروگرام ’’ٹاپ ٹین‘‘ میں بتایاکہ اسے ریڈیو پاکستان کراچی کے کسی کمپوزر کو کمپوز کرنے کے لیے دیا گیا تو وہ اس نظم کے مزاج کو نہ سمجھ سکے اور اس کے معنوی اور صوتی حُسن سے مطابقت نہ رکھنے والی دُھن بنا کے لے آئے۔ ریڈیو پروڈیوسر اس دھن سے مطمئن نہ ہوئے اور سوچنے لگے کہ اس کی دھن کس سے بنوائی جائے۔ اقبال بانو نے انھیں مشورہ دیا کہ اس نظم کی دھن بنانے کے لیے کسی تعلیم یافتہ کمپوزر کا انتخاب کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے ردھم اور اس کی معنوی گہرائی کو سمجھنے والا ہی اس کی صحیح دھن بنا سکتاہے۔ پروڈیوسر نے اقبال بانو کی رائے تسلیم کرتے ہوئے یہ نظم مہدی ظہیر کو دے دی۔ بلا شبہ مہدی ظہیر نے اس نظم کی دھن بنا کر ثابت کر دیا کہ ایک موسیقار کے لیے صرف سروں کی زبان جاننا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اسے شاعری سے بھی کما حقہ واقفیت ہونا چاہیئے۔
فیض صاحب کی یہ نظم اتنی مشہور ہوئی ہے کہ ہر محفل میں حاضرین اقبال بانو سے فرمائش کر کے یہ نظم ضرور سنتے ہیں۔ اس نظم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ فیض صاحب سے جب لوگ یہ نظم سننے کی فرمائش کرتے تو کہتے کہ فیض صاحب اقبال بانو کی ’’دشتِ تنہائی‘‘ سنائیے۔ اس نظم کے علاوہ فیض صاحب کا لکھا ہوا یہ ’’ترانہ‘‘ بھی بہت مقبول ہوا:
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے

فیض صاحب کی یہ دو مشہور
غزلیں بھی اقبال بانو نے خوب گائیں ہیں:
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
اقبال بانو افغانستان کے ’’جشن کابل‘‘ میں باقاعدگی سے شرکت کرتی رہی ہیں۔ افغانستان کے فارسی بولنے والے شائقینِ موسیقی ان کے انداز کو بہت پسند کرتے تھے۔ اقبال بانو کا کہنا ہے کہ انھیں تقریباً ۷۱ فارسی غزلیں یاد ہیں جنھیں وہ وقتاً فوقتاً افغانستان اور پاکستان میں گایا کرتی تھیں۔
سراج نظامی اقبال بانو کے متعلق کچھ یوں رقم طراز ہیں:
’’آپ در اصل رہتک کی رہنے والی ہیں لیکن پاکستان بنتے ہی آپ لاہور تشریف لے آئیں اور گنپت روڈ لاہور پر رہنے لگیں۔ آپ میٹریکولیٹ ہیں اور اردو، فارسی اور انگریزی میں دست گاہ رکھتی ہیں۔ آپ کو استادی موسیقی اور ہلکی پھلکی موسیقی پر یکساں قدرت حاصل ہے اور نہایت اچھا گاتی ہیں۔ ریڈیو اسٹیشن لاہور، دہلی وغیرہ سے نغمات نشر کر چکی ہیں اور اب بھی کرتی ہیں کئی کانفرنسوں میں اپنے فن کا کام یاب مظاہرہ کر چکی ہیں‘‘ ۔ ۲؂
محمد اسلام شاہ اقبال بانو کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال بانو اگرچہ پیدا رہتک میں ہوئیں ، پرورش دہلی میں پائی اور گانے کی ابتدائی تعلیم بھی اُستادچاند خاں دلی والے سے حاصل کی مگر ان کے گانے کی اصل شکل و صورت لاہور والوں کی سر براہی میں نکھری اس لیے جہاں ان کی ٹھمری لکھنؤ سکول سے متعلق ہے وہاں بقول اُستادصادق علی مانڈو پنجابی ٹھیکے میں ٹھمری گانا بھی ان ہی کا حصہ ہے۔ سر زمین لاہور میں اقبال بانو کا گانا، ان کی غزل، ان کے فلمی نغمے اور نیم کلاسیکی انداز پر وان چڑھا اور اب وہ ملتان میں رونق افروز ہیں اور وہاں کی کافی کا مزا چکھ رہی ہیں۔ ان کے گانے کا آغاز دہلی ریڈیو اسٹیشن کی محفل سے ہوا‘‘۔ ۳؂
اقبال بانو مڈل ایسٹ، افغانستان اور بھارت کے کام یاب دورے کر چکی ہیں۔
طاہر اصغر اقبال بانو کے دورۂ بھارت کے متعلق لکھتے ہیں:
’’انڈیا میں اقبال بانو کے کلچر ٹور کو بہت اہمیت ملی اور وہاں موسیقی کے قدر دانوں نے انھیں زبردست خراجِ تحسیں پیش کیا۔ ابتداء میں سارک پیکٹ کے تحت ان کے انڈیا کے دس شہروں میں کنسرٹ تھے مگر اقبال بانو نے پانچ شہروں میں ہی جانے کی ہامی بھری۔ انھیں وہاں کی شہریت دینے کی پیش کش کی گئی جو انھوں نے قبول نہیں کی۔ میڈیا اور سرکاری سطح پر بھی ان کی بے حد پذیرائی کی گئی۔ جے پور کے بعد ان کا دوسرا کنسرٹ دہلی میں شری فورٹ آڈیٹوریم میں ہوا۔ جہاں اڑھائی ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی مگر اقبال بانوکو سننے کے لیے چھے ہزار افراد ہال میں اور لگ بھگ اتنے ہی افراد ہال کے باہر موجود تھے۔ انتظامیہ نے دعوت نامے کم پڑنے پر ان کے فوٹو سٹیٹ تقسیم کیے۔ لوگوں کا رش اس قدر تھا کہ وہ اقبال بانو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہال کے دروازے توڑنے پر آمادہ تھے جس پر انتظامیہ نے ایک بڑی اسکرین ہال کے باہر نصب کر دی۔ اسی فنکشن میں اس وقت کے ایک منسٹر تیواڑی نے اقبال بانو سے کہا کہ ہمارے ہاں غزل اور ٹھمری نہیں ہے اگر آپ اپنی فیملی سمیت انڈیا منتقل ہو جائیں تو میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ پاکستان سے کئی گنا زیادہ یہاں اپنے فن کا معاوضہ پائیں گی مگر اقبال بانو نے صاف انکار کر دیا‘‘۔ ۴؂
بھارت میں اقبال بانو کو نوشاد ایوارڈ، سُر منی ایوارڈ اور نٹ راج ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ حکومت پاکستان نے ۱۹۶۷ء میں اقبال بانوکو حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ اور بعد ازاں ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل پی۔ٹی ۔وی ورلڈ نے اقبال بانو کی فنی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں پی۔ ٹی۔ وی ورلڈ میلینیم ایوارڈ دیا ہے۔

اقبال بانو کا فن پاکستان کے لیے یقیناً قابل فخر ہے۔ انھوں نے موسیقی کی ہر صنف میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ وہ ٹھمری، غزل اور گیت گانے کے سلیقے سے مکمل آگاہی رکھتی ہیں، بالخصوص غزل گاتے ہوئے انھوں نے صحتِ لفظی کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔
اقبال بانو نے ۲۱؍اپریل ۲۰۰۹ء کو وفات پائی۔

حوالہ جات:۔
۱؂ قاضی ظہور الحق،معلم النغمات، حوالہ مذکور، ص ۱۰۶، ۱۰۵
۲؂ سراج نظامی، نقوش، حوالہ مذکور، ص ۷۲۸
۳؂ محمد اسلام شاہ، نام ور فن کار، حوالہ مذکور، ص ۱۰۴
۴؂ طاہر اصغر، اقبال بانو دشتِ تنہائی کی آواز، جنگ، روزنامہ، راول پنڈی( سنڈے میگزین) ۱۰ ؍ستمبر ۲۰۰۰ء، ص ۱۱

About پروفیسر شہباز علی 12 Articles
پروفیسر شہباز علی گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں اردو زبان و ادب کے مدرس ہیں۔ ان کا شمار نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے۔ وہ PNCA اور ہنر کدہ سمیت بہت سے اداروں میں موسیقی کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے قاضی ظہور الحق اور ماسٹر محمد صادق پنڈی والے سے کسب فیض کیا اور بعد ازاں مہدی حسن خان صاحب کی شاگردی بھی اختیار کی۔ ٹی وی سے موسیقی کے تین سو سے زائد لائیو پروگراموں بطور ماہر۔موسیقی شرکت کر چکے ہیں۔