تاریخ کیسے لکھی جاتی رہی (حصہ دوم)

(حسن جعفر زیدی)

 

اس مضمون کا پہلا حصہ یہاں پر کلک کرکے پڑھا جا سکتا ہے۔

20ویں صدی اور بالخصوص جنگ عظیم دوم کے بعد سرد جنگ کے دور سے دنیا میں تاریخ نویسی نظریات اور مفادات کے ساتھ نتھی ہو گئی ہے۔ایک جانب عالمی سامراج اور ان کے گماشتہ حکمران طبقوں کے مفادات اور ان کی ترویج کرنے والے نظریات کے تحت تاریخ نویسی کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ اس کے لیے تمام سرکاری وغیر سرکاری وسائل، میڈیا اور دانشوروں کی بہت بڑی کھیپ تیار رہتی ہے۔ دوسری جانب سامراج اور اس کے گماشتہ حکمران طبقوں سے نجات حاصل کرنے کے خواہاں عوام الناس ہیں جن کے مفاد اور نظرئیے کی ترویج کے حوالے سے تاریخ لکھی تو جاری ہے جو معروضیت اور سائنسی فکر پر مبنی ہے۔ لیکن اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی مانند ہے۔
1991 ء میں سوویت یونین کے زوال سے پہلے یہ دوسرا یا متبادل تاریخ نویسی کا ماڈل زیادہ رائج تھا۔ ماسکو اور پیکنگ کے اشاعت گھروں کے علاوہ تیسری دنیا سے بھی خاصا لٹریچر شائع ہوتا تھا۔ کمیونسٹ بلاک کے زوال کے بعد متبادل تاریخ نویسی انفرادی حیثیت میں رہ گئی ہے اور اس کے مختلف رجحانات ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ ان میں جو چند قابل ذکر نام ہیں ان میں کرس ہرمن( Chris Harman )، ایرک ہوبزبام (Eric Hobsbam)،ایڈورڈ سعید(Edward Saeed,)، اقبال احمد(Eqbal Ahmed) اور ھاورڈ زن ( Haword Zirn ) شامل ہیں۔ انہوں نے سامراجی مفادات کے فروغ کے لیے لکھی جانے والی تاریخ کو رد کرتے ہوئے سامراج مخالف عوام الناس کے حوالے سے تاریخ اور ثفافت کے موضوعات پر جرأت کے ساتھ لکھا ہے۔کرس ہرمن نے A people’s history of theworld میں اورھاورڈ زن نے A People’s History of Aermica میں حکمرانوں کے بجائے عوام کی تاریخ پیش کی ہے ا۔ انہوں نے تہذیبوں کی تاریخ میں طبقاتی کشمکش کو اجاگر کیا ہے۔
1991ء میں سرد جنگ کے خاتمے سوویت زوال اور چین کے مارکیٹ اکانومی میں داخل ہونے کے بعد جویک قطبی دنیا Uni-Polar World وجود میں آئی اس میں سامراجی مفادات کی تاریخ نویسی کے نت نئے ماڈل سامنے آئے۔ جاپانی نژاد امریکی مصنف اورسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیرفرانسس فوکویاما Farnics Fucuyama کی 1992ء میں کتاب شائع ہوئیThe End of History and the Last Man
اس نے لکھا کہ ’’ہم صرف سرد جنگ کا خاتمہ ہی نہیں دیکھ رہے اور نہ ھی یہ بعد از جنگ تاریخ کا کوئی دور ہے بلکہ یہاں تاریخ ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ یہ بنی نوع انسان کے نظریاتی ارتقاء کا نقطہء اختتام ہے۔ یہاں مغرب کی لبرل ڈیمو کریسی انسانی حکومت کی آخری شکل کے طور پر عالمگیر حقیقت کا درجہ حاصل کرلے گی۔‘‘
اسی طرح ایک اور جاپانی نژاد ماہر معاشیات کینیچی اوہمائی Kenichi Ohmae کی کتاب 1990ء میں شائع ہوئی The Borderless World۔ اس میں امریکہ کے New World Order اور Global Village یا گلوبلائزیشن کے تصور کو پروان چڑھا دیا گیا تھا۔ ایک اور کتاب Anthony Gidden جسے ٹونی بلیئر کا گروسمجھا جاتا تھا،کی 1998ء میں شائع ہوئی The Third Way ۔ اس میں بظاہر سوشل ڈیموکریسی کی تجدید کی بات کی گئی ہے لیکن یہ کتاب Neo Labour کی بنیاد بنی جنہوں نے برطانوی عوام کو حاصل سوشل ویلفیئر کی سہولتیں بھی چھین لیں اور عراق کی غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی جنگ میں شمولیت اختیار کی۔
لیکن سرد جنگ کے بعد جو سب سے اہم کتاب سامنے آئی وہ Samuel Huntingtion کی The Clash of Civilization and the Making of World Order یہ بھی فو کو یاما کی طرح امریکی انتظامیہ کے ایک نظریہ ساز(Ideologue ) اور سابق قومی سلامتی کے مشیربرزنسکی کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں یکایک وہ مسلمان جن کو سرد جنگ کے دوران امریکہ نے کمیونسٹ بلاک کے گرد حصار قائم کرنے اور پھر افغان جہاد کے دوران مجاہدین کے خطابات دئیے تھے، مغربی تہذیب کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دے دئیے گئے۔ اور اس میں امریکہ اور مغرب کو دوسری تہذیبوں بالخصوص اسلام اور چین کے خلاف نبرد آزما ہونے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اس کے خیال میں معاشروں کی ایک تہذیب سے دوسری تہذیب میں ڈھل جانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ تہذیبیں اپنے اپنے مراکز کے گردمجتمع ہو جائیں گی اور ان کے مابین Local level fault line wars ہوں گی۔ بالخصوص مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان۔
ان سامراجی مفادات کی ترجمان نظریات کی کتابوں پر اس مختصر مضمون میں بحث نہیں ہو سکتی لیکن صرف یہ سوال اُٹھایا جا سکتا ہے۔ کہ وہ کونسی تہذیبی یگانگت ہے جس کے تحت امریکہ، سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کو تحفظ دے رہا ہے۔ اور اس کثیر مقدار میں فوج خلیج میں بالخصوص سعودی عرب میں مقیم ہے۔ اسی طرح سوال یہ ہے کہ وہ کونسا تہذیبی ٹکراؤ ہے جس کے ہوتے ہوئے عراق پر حملے کے خلاف یورپ اور امریکہ میں لاکھوں گورے مرد عورتیں احتجاج کرتے ہوئے Millions March کرنے سڑکوں پر نکل آتے تھے اور اب بھی نکل آتے ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں لبرل ازم کے حوالے سے تاریخ نویسی کا ایک اور رجحان بھی سامنے آیا ہے جو مارکسی یا جدلیاتی تو نہیں ہے مگر وہ بنیادی طور پر مذہبی دقیانوسیت اور اس سے پھوٹنے والے سماجی و معاشرتی رویوں کی نفی کرتا ہے اور جدید سائنسی تصورات پش کرتا ہے۔ اس رحجان کو مذکورہ سامراجی تاریخ نویسی سے علیحدہ رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ ان میں قابل ذکر نام کیرن آرم سٹرانگ ( Caren Arnstrong )کا ہے۔ جس کی تحریروں کو پاکستان میں بھی قبولیت حاصل ہوئی ہے ۔اس کے علاوہ فرانسیسی دانشورمائیکل فوکو( Michacl Faucault )کی انسانی نفسیات اور سماجی ارتقا کے حوالے سے کتابیں ہیں،ایک ھارٹ ٹول( Echhkart Tolle )کی جملہ کتابوں میں بالخصوص The New Earth قابل ذکر ہے۔ رچرڈ ڈاکنز(Richard Douchris )کی کتابیں The God Delusion اور The Selfish Gene اہم کتابیں ہیں۔ ان لبرل مصنفین کا صرف ایک مسئلہ ہے کہ وہ انسانی ارتقا کی تاریخ میں طبقاتی کشمکش کے پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو کہ کرس ہرمن اور ھاورڈ زن عوامی تاریخ لکھتے ہوئے نہیں کرتے بلکہ ان کی اساس ہی طبقاتی کشمکش ہے۔
آخر میں ھاورڈ زن کے چند ایک اقتباسات پیش کروں گا جس سے تاریخ نویسی کے عوامی نظرئیے کی عکاسی ہوتی ہے۔ زن لکھتا ہے
’’اختلاف رائے حب الوطنی کی معراج ہے‘‘
’’امریکوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ وہ ایک مہذب اور انسان دوست قوم ہیں لیکن اکثر اوقات امریکہ کی کارروائیاں غیر مہذب اور غیرانسانی ہوتی ہیں۔‘‘
’’آج کے امریکہ میں میثاق آزادی محض سکول کے کمروں کی دیواروں پر آویزاں ہے جبکہ اس کی خارجہ پالیسی میکیاولی کے تابع ہے۔‘‘
’’چیلنج موجود ہے۔ دوسری جانب مضبوط قوتیں یعنی دولت، سیاسی طاقت اور میڈیا کا بڑا حصہ ہے تو ہماری جانب دنیا بھر کے عوام الناس اور سچائی ہے جو دولت اور ہتھیاروں سے زیادہ طاقتور ہے۔ سچائی میں خود ایک بڑی طاقت ہوتی ہے۔ فن کی ایک اپنی طاقت ہوتی ہے۔ پرانا سبق ہے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اہم ہوتا ہے۔ اس کی تعبیر دراصل امریکہ اور دنیا بھر کے عوام کی جدوجہد میں مضمر ہے۔ ایک نظم ایک تحریک کو جنم دے سکتی ہے۔ ایک پمفلٹ انقلاب کے لیے چنگاری کا کام دے سکتا ہے۔ سول نافرمانی عوام کو ابھار سکتی ہے۔ اور ہمیں سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں اور اس عمل میں شامل ہو جائیں اور ہم آواز ہو کر کھڑے ہو جائیں تو ہم ایک ایسی طاقت بن سکتے ہیں جسے کوئی حکومت نہیں دبا سکتی ۔ہم ایک خوبصورت ملک میں رہتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو انسانی زندگی آزادی اور انصاف کا احترام نہیں کرتے، اس ملک پر قابض ہو گئے ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس پر قبضہ کریں۔‘‘
’’برے وقت میں مایوس ہو جانا محض ایک رومانوی احمق پن نہیں ہے ۔یہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ انسانی تاریخ نہ صرف ظلم و جبر کی تاریخ ہے بلکہ ہمدردی، ایثار، جرأت اور عنایت کی بھی تاریخ ہے۔ ہماری زندگی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اس پیچیدہ تاریخ میں کس چیز کی اہمیت کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر ہم صرف بدترین کی طرف دیکھتے رہیں گے تو اس سے ہماری کچھ کر گزرنے کی صلاحیت تباہ ہو جائے گی۔ اگر ہم ایسے زمان و مکان کو یاد کریں۔ اور ایسے بہت ہیں کہ جب عوام نے شاندار کردار ادا کیا ، تو اس سے ہمیں عمل کے لیے توانائی ملتی ہے۔ اور کم از کم یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ عالمی گردش کا رخ مختلف سمت میں موڑ سکیں۔
’’اور اگر ہم واقعی عمل کریں، خواہ چھوٹی سطح پر ہی کریں، تو ہمیں کسی یوٹو پیائی عظیم مستقبل کا انتظارنہیں کرنا پڑے گا۔ مستقبل دراصل حال کے لمحوں کا لامتناہی تسلسل ہے۔ اور آج کے دور میں اس طرح زندہ رہنا کہ جس طرح انسانوں کو زندہ رہنا چاہیے یعنی جو بہت برا ہمارے گردو نواح میں ہو رہا ہے اسے رد کرتے رہیں، تو یہ بجائے خود ایک عظیم کامیابی ہے۔‘‘