کیا واقعی بیٹیاں ایک ناگوار بوجھ ہوتی ہیں؟

Writer's name
Farina Almas

کیا واقعی بیٹیاں ایک ناگوار بوجھ ہوتی ہیں؟

(فارینہ الماس)

وہ تین عدد بیٹیوں کے ٰتعلیم یافتہ لیکن معاشی طور پر متوسط حال والدین تھے ۔ شاید ان کے دل میں ایک بیٹے کی خواہش گھر کئے ہوئے تھی ۔بیٹے کی خواہش تو ہمارے روایتی معاشرے کے ہر طبقے کے شادی شدہ افراد کے دل میں موجود ہوتی ہے ، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ یہ خواہش ان کے تمام تر خاندان والوں کے دل میں بھی ہر دم مچلتی رہتی ہے۔بہت قریبی رشتے دار تو ایک عدد منے کے دادا ،دادی ،نانا،نانی یا پھوپھو ،خالہ بننے کے خواب میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن دور پال کے رشتے دار اس حسرت میں کہ ان کی اس خواہش کے پورا نہ ہو پانے پر انہیں بہانے بہانے سے ان کی محرومی کا احساس دلا کر اپنی خاص فطرت انسانی کی سیرابی کر سکیں۔ شاید چھ ایسا ہی ان میاں بیوی کے ساتھ بھی تھا۔لیکن وہ اس خواہش اور امید کی دستیابی میں پہلے بھی دو بار ناکامی کا منہ دیکھ چکے تھے ، سوان کے لئے مذید اولاد کے معنی تھے اولاد نرینہ۔

اس کے سوا مذید اولاد کی طلب بھی ان کے لئے بے کار تھی ۔شاید دوران حمل، الٹرا ساﺅنڈ کے بعد ڈاکٹر نے انہیں حقیقت حال سے روشناس نہ کرایا تھا ،عموماً ڈاکٹر کچھ بتانے سے پہلے موجود اولاد کے بارے دریافت کر لیا کرتے ہیں ۔پھر اگر تو پہلے سے بیٹا ہو اور اب بھی بیٹے ہی کا امکان تو یہ نوید بے دھڑک ماں کو سنا دیا کرتے ہیں لیکن اگر پہلے سے بیٹیاں ہوں اور اب مذید بیٹی کی ولادت کا امکان تو پھر عموماً خاموش ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں ماں کو کھٹکا تو ہو جاتا ہے لیکن ایک امید دل میں جاگزیں رہتی ہے۔ یہ خدا کی رضا اور تقدیر کی عنایت تھی کہ اس بار بھی بیٹی ہی کی پیدائش ہوئی لیکن والدین خدا کی رضا پر رضامند نہ تھے۔ ماں ۔۔۔۔ماں تو شاید پہلے سے ہی دل کو سمجھا بجھا چکی تھی ۔ اور چند دنوں تک وہ صبر شکر کر کے اسی کو خدا کی رضا سمجھ کر اپنی بیٹی کی دیکھ بھال میں اس کی محبت اور انسیت کو کرید لیتی لیکن باپ کو کسی طور قرار نہ تھا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ معصوم بچی پیدائش کے فوراً بعد سانس لینے میں دقت محسوس کرنے لگی ۔مسئلہ کچھ ایسا گھمبیر ہو گیا کہ ڈاکٹروں نے اسے وینٹیلیٹر پر رکھنے کا عندیہ دے دیا ۔ ایسے میں باپ کی رضا مندی اشد ضروری اور عین قانونی و اخلاقی جواز کی حامل تھی۔ باپ نے ایک نظر اپنی چوتھی بچی کی طرف ڈالی ،اس کی آنکھیں کچھ بھیگی ہوئی تھیں ۔اور اس کے دل میں اٹھتا ،اپنی تشنہ کام حسرتوں کا ایک بے قرار اور اودھم مچاتا شور اسے بے چین اور بے سکوں کئے ہوئے تھا۔ اسے چند منٹوں میں اپنا فیصلہ بصورت تحریر ڈاکٹرو ں کو لکھ کے دینا تھا ۔ وہ شدید الجھن میں مبتلا ہو گیا۔دل کچھ اور کہتا تھا اور دماغ کچھ اور لیکن کچھ ہی لمحوں میں دل و دماغ دونوں ہی پر شیطانی نیت اور فیصلے کا غلبہ چھا گیا ۔ اس نے اپنی محرومی اور بے بسی کا مقابلہ اپنی بے حسی اور بے مروتی سے کرتے ہوئے انتہائی غیر انسانی فیصلہ سنا دیا ۔اس نے دستخط نہ کرتے ہوئے اس بچی کو بچانے کی تمام تر کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔ اور وہ بچی کچھ ساعتوں بعد دم توڑ گئی۔

لیکن ایک بے حس باپ کے اس اقدام کو کسی نے بھی اقدام قتل قرار نہ دیا ۔ جبکہ ایک باپ خود اپنی اولاد کو محض اس کی صنف کی وجہ سے قبول کرنے سے انکاری ہو ا تھا ۔لیکن اس فیصلے میں اس انکار پر قانوناً کسی تعزیر کا لگایا جانا ممکن نہ تھا۔ یہ سچی کہانی انسانیت کا منہ چڑا کر کچھ ہی دنوں میں فراموشی کی اتھاہ گہرائیوں میں کہیں کھو چکی تھی ۔لیکن جاتے جاتے انسان کی جہالت اور وحشت سے اٹی داستان میں ایک نئی کہانی کا اضافہ کر گئی۔
مجھے کچھ دن پہلے میری ایک سہیلی رمیشہ نے بتایا کہ اس نے کنسیو کیا ہے ۔یہ ایک خوشی کی خبر تھی۔اس کی پہلی بیٹی چار سال کی ہو چکی تھی ۔اور اب وقت آگیا تھا کہ وہ مذید اولاد کی خواہش کرتی۔وہ بہت پر جوش اور بے انتہا خوش تھی۔پھر جب تقریباً چار ماہ کے بعد پہلا الٹراساﺅنڈ کروایا تو اس نے مجھے فون کیا ۔اس وقت اس کی آواز بہت بوجھل سی محسوس ہو رہی تھی، جیسے صدیوں سے درپیش کسی دکھ کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہو۔ مجھے اندازا نہ ہو رہا تھا کہ اس کی کچھ ہی عرصہ پہلے والی وہ خوشی ،وہ پر جوش لہجہ کیوں پلٹا کھا گیا تھا ۔۔۔۔وہ کچھ ہمت جتا کر بولی۔ ”ڈاکٹر نے جڑواں بتائے ہیں“۔۔۔ ”جڑواں۔۔ارے یہ تو بہت خوشی کی خبر ہے ۔“ میں حیران تھی کہ اس خبر سے وہ اس قدر اداس اور غمگین کیسے ہو سکتی ہے۔

”دراصل ڈاکٹر نے دونوں بیٹیاں بتائی ہیں“۔ اف میرے خدا یا! کیا وہ اس بات سے پریشان تھی کہ دونوں لڑکیاں ہیں۔؟ ”تو کیا لڑکیاں ایک بوجھ یا ناقابل قبول جنس ہوتی ہیں “ وہ میری بات پر خاموش تھی لیکن بدستور اداس اور غمناک۔۔۔۔۔مجھے ذرا برابر بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ اتنی تعلیم یافتہ ہو کر بھی ایسا سوچے گی ۔اس نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیا اور یہ بھی نا بتایا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔لیکن کچھ دن بعد اس نے اپنی جس حرکت کی خبر دی اس نے میرے قدموں تلے سے زمیں نکال دی۔ اس نے اسقاط حمل سے ان ننھی جانوں کو خود اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیا تھا۔کاش اسے کوئی سزا دینے کا اختیار میرے ہاتھوں میں ہوتا تو میں اس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کوئی ایسی سزا تجویز کرتی کہ وہ ہمیشہ اپنے اس فیصلے کی پشیمانی کے بوجھ تلے دبی رہتی ۔ میں کئی دن سوچتی رہی کہ ایک ماں اس قدر ظالم اور سنگدل و بے حس کیسے ہو سکتی ہے۔

مجھے قبل از اسلام کے عرب کی وہ ظالمانہ روایت یاد آنے لگی جب بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔مجھے ماضی اور حال کے بھارت میں اس گھٹیا رسم کی بھینٹ چڑھنے والی سبھی لڑکیوں سے بھی ہمدردی محسوس ہونے لگی جنہیں پیدا ہونے سے بھی پہلے مار دیا جاتا تھا اور شاید اب بھی اس وحشیانہ روایت کا وہاں رواج پایا جاتا ہے۔ اسقاط حمل ایک ایسا عمل ہے جس میں رحم مادر میں موجود بچے کو رحم سے خارج کر دیا جاتا ہے ۔ عموماً دنیا میں اس عمل کو اس صورت برا نہیں سمجھا جاتا جب یہ عمل مختاری اسقاط کے طور پر وقوع پزیر ہو ۔ مطلب یہ کہ یہ عمل کسی وجہ سے خود بخود انجام پا جائے۔ اس کی ایک قابل قبول صورت وہ بھی ہے جب اس کو انجام دینے کا مقصد ماں کی جان بچانا ہو۔ لیکن مائلی اسقاط اس وقت وقوع پزیر ہوتا ہے جب خود انسان کی مداخلت سے یہ جراحی یا کیمیائی طریقوں سے کیا جائے۔عین اس وقت جب کہ قدرت گوشت پوست کے اک ننھے وجود میں روح پھونک چکی ہو۔ اسے مہذب معاشروں میں عموماً قابل نفرت تصور کیا جاتا ہے ۔اور کئی معاشروں نے اس عمل کی سزا بھی تجویز کر رکھی ہے ۔ بھارت میں ایسا رواج بہت قدامت کا حامل ہے جو کہ ان کی مکروہ معاشرت کا بین ثبوت ہے۔

لڑکیوں کی پیدائش کو آج بھی وہاں ایک ناگوار بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں چھ سال کی عمر کے لڑکوں کی کل تعداد کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 7.1ملین کم ہے۔ اگر پہلا بچہ لڑکی ہو تو دوسری دفعہ الٹراساﺅنڈ کے بعد جنس کا تعین ہو جانے پر اگر لڑکی ہی متوقع ہو تو عموماً اسے رحم سے خارج کر دینے کا رواج عام ہے ۔ 1980ءسے 2010ءکے درمیان 12ملین لڑکیوں کو ان کی جنس کا تعین ہو جانے کے بعد اسقاط حمل کے عمل سے مار دیا گیا۔گذشتہ کچھ دہائیوں سے باوجود اس کے کہ وہاں الٹراساﺅنڈ پر قانوناً پابندی ہے ،اس عمل میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے ۔جس کی وجہ سے لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح میں شدید قسم کا عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔ دنیا میں مغربی معاشروں میں اسقاط حمل کی شرح بھی کچھ کم نہیں محض امریکہ میں ہی سالانہ تین لاکھ ستر ہزار عورتیں اس عمل سے گزرتی ہیں ۔ لیکن وہاں اس عمل کی وجہ بیٹی کی پیدائش سے بچنا نہیں بلکہ غیر قانونی اور غیر متوقع بچوں سے چھٹکارہ پانا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کی پیدائش کو کم کرنے کے لئے اسقاط حمل کے ذیادہ تر واقعات چین،کوریا،تائیوان،سنگاپور ، ملائیشیا،بھارت اور پاکستان کے علاوہ ایشیاءاور شمالی افریقہ کے بہت سے ممالک میں ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے سات کروڑ نوے لاکھ کم ہے ۔جس کی وجہ اسقاط حمل ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ عمل غیر قانونی ہے اور اس کی سزا کم سے کم دس سال قید کی ہے۔ مغرب میں لڑکیوں کی پیدائش سے بچنے کے لئے کرائے جانے والے اسقاط حمل کا رحجان عموماً ایشیائی خاندانوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے ملک کے اکثر باشندے مغربی معاشروں میں بھی اپنی فرسودہ روایات کو دل سے لگائے ہوئے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں اکثر پاکستانی اور بھارتی خاندان ہی اس عمل میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ پچاس ہزار سے زائد خواتین اسقاط حمل کرواتی ہیں۔ ان میں سے 76 فیصد کے قریب شادی شدہ اور 24فیصد کے قریب غیر شادی شدہ ہوتی ہیں۔ جب کہ ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق پاکستان میں تقریباً پندرہ لاکھ حمل ضائع کروائے جاتے ہیں ۔ جن میں ایک بڑھتا رحجان لڑکیوں کی پیدائش سے منہ موڑنے کا بھی ہے۔ ان میں سے تقریباً تیس ہزار کے لگھ بھگ مائیں اسقاط حمل کی پیچیدگیوں سے اپنی جان گنوا بیٹھتی ہیں۔ عموماً لڑکی کی پیدائش سے مفر اختیار کرنے کی وجہ پہلے سے ہی دو یا تین سے زائد بیٹیوں کی موجودگی بنتی ہے اور معاشی طور پر برے حالات بھی اسے روکنے کا باعث بنتے ہیں۔ دوسرا ایک ماں اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنے تمام تر سسرال کے نا مناسب رویے سے بھی بچنے کے لئے اس اقدام پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ اس کی ایک اور سنگین وجہ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

کچھ دن پہلے رمیشہ نے مجھ سے دوبارہ رابطہ کیا دراصل وہ مجھے اپنے اس اقدام کی بنیادی وجہ بتانا چاہتی تھی ۔باوجود اس کے کہ مجھے اس کی کوئی بھی وجہ میں دلچسپی نہ تھی ۔کیونکہ کوئی بھی وجہ اس کے اس اقدام کو جائز نا ٹھہرا سکتی تھی لیکن اپنا دل بڑا کر کے میں نے اس کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کیا ۔ وہ اپنی کہانی میرے گوش گزار کرنے لگی” جب علیزہ نے جنم لیا تو میں بہت خوش اور پر جوش تھی ۔ کیونکہ مجھے بیٹے سے ذیادہ بیٹی کی خواہش تھی میرا دل کرتا تھا کہ میری بھی ننھی سی گڑیا ہو جسے میں تمام دن سجاتی سنوارتی رہوں۔میں اس کے لئے ڈھیروں فراک خریدوں۔خوبصورت گڑیاں خریدوں ۔۔۔اس کے لمبے بالوں کی دو پیاری پیاری چٹیا بناﺅں ۔ وہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکوں ہو ۔ وہ میرے گھر کی رونق اور میرے آنگن کی چہچہاتی چڑیا ہو ۔۔۔مجھے میری گڑیا سے بہت پیار ہے ۔میں اس کی ہنسی اور مسکراہٹ میں ہی اپنی خوشی و شادابی تلاش کرتی ہوں ۔لیکن اس کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی میں ایک انجانے خوف میں مبتلا ہو گئی ۔۔۔وہ خوف جو مجھے اندر ہی اندر ہر وقت کاٹتا اور جھنجھوڑتا رہتا ہے۔جیسے جیسے کم سن بچیوں کے ساتھ غیر انسانی اور انتہائی وحشیانہ جنسی درندگی کے واقعات سننے اور اور ٹی ۔وی رپورٹوں میں دیکھنے کو ملے ، میرا دل اک شدید خوف کا شکار ہوتا چلا گیا۔

ایسے واقعات سن کر میں پاگلوں کی طرح اپنی ہی بغل میں بیٹھی اپنی علیزہ کو ڈھونڈنے لگتی ہوں ۔میں اسے اس کے چچا تک کے کمرے میں جانے نہیں دیتی۔میں اسے باہر دروازے تک میں بھی کھڑا ہوتا دیکھ لوں تو میری جان نکل جاتی ہے ۔ میں پہلے ملازمت کرتی تھی لیکن اب اسی کی وجہ سے ملازمت ترک کر چکی ہوں ۔ کیونکہ دفتر میں بیٹھی ہر وقت لاکھوں وسوسوں اور ان دیکھے انہونے واقعات کے دلگداز محسوسات میں گھری رہتی تھی۔ میں اسے کسی آیا کے سپرد نہیں کر سکتی تھی۔میں اس کے اسکول کی وین کے ڈرائیور پر بھی اعتبار نہیں کر سکتی تھی۔ جب سے علیزہ نے جنم لیا ہے مجھے دنیا کا ہر مرد وحشی درندہ لگنے لگا ہے۔ کوئی اسے پیار کرنے کو اس کے گال بھی چومتا ہے تو مجھے اس کی نیت پر شک ہونے لگتا ہے۔“اس نے کچھ دیر رک کر سانس لیا اور آنسوﺅں کی جھڑی یکدم اس کے رخساروں کو بھگو گئی۔۔۔۔”سچ پوچھو تو مجھے اس کے سگے باپ پر بھی اعتبار نہیں رہا ۔۔میں کیا کروں ۔ مجھے ہر دم ایسے برے خیالات اور واہمے گھیرے رکھتے ہیں۔ جو بڑی بے دردی سے میرے سکوں کی دھجیاں اڑاتے رہتے ہیں ۔اور یہ وہ واہمے ہیں جو میں کسی کو بتا کر یا سنا کر اپنا بوجھ ہلکا بھی نہیں کر سکتی کہ سب کو میری دماغی و ذہنی حالت پر شک گزرے گا۔ میں واقعی پاگل ہو چکی ہوں ۔مجھے ایک اور علیزہ نہیں چاہئے۔۔۔مجھے ایک اور گڑیا نہیں چاہئے۔۔“ وہ سسک سسک کر رونے لگی۔۔۔۔ اور مجھے سمجھ میں آنے لگا کہ بیٹیاں بوجھ کیوں بننے لگی ہیں ۔۔۔اور یہ کہ بیٹیاں دور جہل میں بھی بوجھ کیوں سمجھی جاتی تھیں۔

1 Comment

  1. Mam asalm o alikum ap k actical para bht acha laga mam ap ki frnd na jo explanition di wo un k as kam ya guna ko phr v justify nae krti kun k beti rehmat hae ar Allah jb beti data hae tu sabab v kud hy banta hae un ko Allah sa madad ar yakeen mangna chaia ta Allah zaror madad krta hae Izat risk hifazate zindgi moat sab us Allah ki hy hath ma hae jo betian data hae us sa madad mango wo madad krta hae .meny hamesha apney iead gird sa ya hy suna hae log betion sa nae darta un k naseeb sa darta hn

Comments are closed.