فاٹا کے مسائل: زندگی تو وہاں بھی آ سکتی ہے

(نور شاہد خان)

فاٹایعنی(Federally Administered Tribal Areas) انگریزوں کے دور کی انتظامی new-year-s-resolution-a-new-approach-for-fata-1451546473-8570تقسیم تھی جو ابھی تک جوں کی توں چلی آ رہی ہے۔ فاٹا کے انتظامی امور پر توجہ نہ دینے سے ہم بہت سی مشکلات کا سامنا تو کر رہے ہیں مگر اسی کے ساتھ سب سے قابل توجہ مسئلہ وہاں کے عوام ہیں جنھیں ہم مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے پشاور میں Peace and Development in KP and FATAکے نام سے ایک ’’ایک روزہ سیمینار‘‘ منعقد ہُوا ۔ جس میں گورنر ، وزیر اعلیٰ اور دوسرے اہم صحافی، وکلا اور بیوروکریٹ شریک ہوئے۔ مسئلہ وہی کہ سیمینار منعقد ہوتے ہیں اور لمبی چوڑی تقریریں بھی کی جاتی ہیں مگر حل کی طرف ایک قدم بھی بڑھنا محال ہی رہتا ہے۔
لیفٹیننٹ محمد طارق خان نے ایک اہم تجویز دی ہے کہ فاٹا کے عوام سے ریفرنڈم کروا لیا جائے اور فیصلہ وہی ہونا چاہیے جو فاٹا کے عوام چاہتے ہیں۔
میرا تعلق فاٹا کی ایجنسی اورگزئی ، بلند خٰل سے ہے۔ ہمارے علاقوں کے بالکل ملحقہ کرم اور وزیرستان ایجنسیوں کا حال بھی وہی ہے جو ہماری ایجنسی کا ہے۔ وہاں نہ صاف پانی کی سہولت ہے، اور نہ تعلیم کا کوئی معیار۔ہم لوگ ابھی اٹھارہویں صدی میں ہی زندہ ہیں۔ہمارے منتخب نمائندے اسلام آباد اور دبئی کی اعلیٰ رہائش گاہوں میں مقیم ہیں اس لیے وہ صرف ان علاقوں میں اتنا سا تعلق رکھتے ہیں جتنی انھیں سیاست کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ایجنسیوں کے نوجوان اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے پنجاب، صوبہ خیبر اور کراچی کا رُخ کرتے ہیں۔ مگر سب کو معلوم ہیں کہ غربت اور عدم فراہمی کی وجہ سے نقل مکانی بہت مشکل امر بن اجاتا ہے۔ اس لیے نوجوانوں کی اسی فیصد تعداد وہیں رہ جاتی ہے۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ وہاں کیا کچھ ہے؟ وہاں تو کچھ بھی نہیں، نہ روزگار ،نہ تعلیم، نہ انڈسٹری، نہ انتظامیہ، نہ قانون۔اب نوجوان جائیں تو جائیں کہاں۔فیڈرل ایریا کہنے والوں سے اتنا سوال ہے کہ کیا وہاں وفاق کی کوئی پالیسی کام کرتی ہے؟کیا وفاق نے اپنی ترقیاتی سکیموں کا وہاں اعلان کیا؟
انگریزوں نے اس قبائلی بیلٹ کو اپنی جنگی سرگرمیوں کے لیے خوب استعمال کیا۔انگریزوں کے جانے کے بعد پاکستان کی فوجی انتظامیہ بھی اسے ایک جنگی علاقہ ہی ڈکلئیر کرتی آئی ہے۔(اب تو یہ سارا علاقہ میدانِ جنگ بناہُوا ہے) یہیں سے افغان بارڈر کو دیکھا جاتا ہے۔بلکہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ قبائل پاکستان کے (بغیر تنخواہ کے)مغربی سرحدوں کے محافظ ہیں۔طارق خان صاحب نے ایک اور اہم نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ ہمیں ان ایجنسیوں پر کوئی فیصلہ دینے سے پہلے مالاکنڈ کے فیصلوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ دوستوں کی یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ’’ مالاکنڈ‘‘ پہلے فاٹا کا ایریا تھا اب پاٹا یعنی Provincialایریا میں شامل کر لیا گیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے اپنے مسئلے اتنے ہیں کہ وہ ان علاقوں پر توجہ نہیں دی پاتی۔پاٹا کے حوالے کر دینا ان علاقوں کے مسائل کا حل نہیں۔
فاٹا کے مسئلے کو جلد از جلدحل کیا جانا چاہیے۔اس سلسلے میں کچھ تجاویزکا خیال رکھا جائے تو فاٹا کے عوام کی بہتری ممکن ہے۔:
۱۔ سب سے پہلے فاٹا کے عوام کو سٹیک ہولڈر بنایا جائے، انتظامی امور اور انتظامی فیصلوں میں فاٹا کے حقیقی عوامی نمائندوں کو شامل کیا جائے جو گراس روٹ سطح کے ہوں۔
۲۔ فاٹا کو صوبائی حکومت کے ماتحت کر دینے سے زیادہ مسائل جنم لیں گے، وہاں کی بد انتظامی اور جنگ جوئی فضا ایک دم صوبے پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
۳۔ فاٹا کو پاٹا کر دینے سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ ایجنسیوں کو ملا کر ایک الگ صوبہ بنایا جائے جس کو فاٹا کے اندرونی مزاج کے مطابق چلایا جائے۔وہاں کے بجٹ اور فنڈ صوبہ خیبر پختون خواہ سے لانے کی بجائے اس کے اپنے فنڈز دیے جائیں۔ اس طرح اس پر بھر پور توجہ ممکن ہے ورنہ صوبہ کے پی کے اسے نظر انداز بھی کر سکتا ہے۔
۴۔ وفاق کو ترقیاتی حوالے سے ایجنسیوں کو ہنگامی علاقہ ڈکلئیر کرے ان ترقیاتی کاموں میں انڈسٹری، صحت، انفراسٹریکچر (سڑکیں، انتظامی امور) وغیرہ فوری بنیادوں پر شروع کئے جانے چاہیے۔
پاکستان میں اس وقت جو مسائل کی ایک وجہ فاٹا میں موجود Insurgencyکو قرار دیا جا رہا ہے یہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک فاٹا کو خود مختار صوبہ نہ بنایا جائے۔ فاٹا کے عوام کو خوش حالی دی جائے اور مرکزی دھارے میں شامل کرنے سے ہی ان علاقوں کی بد حالی ختم کی جا سکتی ہے۔ فاٹا کی حب الوطنی کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت کے ماتحت نہیں۔ یہی فاٹا ہے جو صدیوں سے پاکستانی علاقوں کے وسائل میں بھر پور شریک ہے ، جو پاکستان کی ترقی کو اپنی ترقی کہتے ہیں۔مگریہاں کے عوام پاکستانی ترقی یافتہ شہروں میں آ کر اپنے پسماندہ شہروں کی بہتری کا خواب دیکھتے بوڑھے ہو رہے ہیں۔