ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اور پاکستان

(حُر ثقلین )
دو نومبر دو ہزار گیارہ کو ترکی کے شہر استنبول میں ایک بین الحکومتی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔اس تنظیم کوہارٹ آف ایشیا ۔۔۔استنبول پراسس کا نام دیا گیا۔اس تنظیم کا بنیادی مقصد افغانستان میں دیر پا امن قائم کرنے کے لیے اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان تعاون اور علاقے کے دیگر ممالک کے درمیان رابطہ قائم کر کے ایک مربوط حکمتِ عملی ترتیب دینا ہے۔اس خطے میں پر امن افغانستان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس تنظیم کامرکزی دفتر کابل میں ہی قائم کیا گیا ۔اس تنظیم کے چودہ ممبر ملکوں میں افغانستان،پاکستان،بھارت،ایران،چین،ترکی،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،روس،آذربئجان،کاذکستان،کرگزستان،تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔اس تنظیم کے مزید سترہ معاون ممالک بھی ہیں جن امریکہ ،برطانیہ،جرمنی اورکنیڈا بھی شامل ہیں۔اس تنظیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ،یورپین یونین، نیٹو،سارک اور او آئی سی سمیت مزید آٹھ عالمی تنظیمیں اس کی معاون اور حمایت کنندہ ہیں۔اس لحاظ سے یہ اس خطے کا سب سے بڑا عالمی حمایت یافتہ فورم ہے۔ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مقصد محض افغانستان میں امن قائم کرنا نہیں بلکہ اس خطے میں غربت،انتہا پسندی اور جہالت کا خاتمہ بھی ہے ۔اس مقصد کے لیے عام لوگوں کا خوشحال ہونا لازمی ہے اور ان کی معاشی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے بھی یہ فورم کام کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ فورم اپنے ممبر ممالک کو تجارتی سرگرمیوں کے لیے بھی متحرک کرتا ہے اور آپس میں باہمی تعاون کے لیے بھی اپنی خدمات مہیا کرتا ہے۔دو ہزار تیرہ میں شروع کیا گیا تاپی گیس پائپ لائن اور ہزار میگا واٹ بجلی کی ترسیل کا منصوبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔گویا اس تنظیم کی اقتصادی اہمیت کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔
اب تک اس تنظیم کی چھ کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں۔چار دسمبر دو ہزار سولہ کو بھارت کے شہر امرتسر میں ہونے والی چھٹی کانفرنس کافی ہنگامہ خیز رہی۔اس کانفرنس میں افغانستان نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو خوب آڑے ہاتھوں لیااور افغانستان کے بارے میں پاکستانی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔بھارت کی جانب سے سرتاج عزیز اور پاکستانی سفارتی عملے کے ساتھ غیر سفارتی برتاؤ کیا گیا اور ان کے لیے پریشانیاں اور مشکلات بھی پیدا کی گئی۔
اس امر کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ اس خطے میں پاکستان کو اب اہمیت کیوں نہیں دی جا رہی اور اسے سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا جا رہا ۔اس کانفرنس میں افغان صدر اور بھارتی وزیر اعظم کے خطاب کے بعد پاکستان پر عالمی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ان دونوں رہنماؤں نے پاکستان پر کچھ کھلے اور کچھ دبے الفاظ میں دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔اتنے بڑے فورم پر پاکستان موثر انداز میں ان الزامات کا جواب نہیں دے پایا ۔یہ صورتِ حال مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے مشکلات کا سبب بنے گی۔دنیا اب پاکستان کے بارے میں مختلف انداز میں سوچ رہی ہے۔ایک طرف تو پاکستانی ریاست دہشت گردی کے خلاف بڑی جنگ لڑ رہی ہے اور دوسری طرف کچھ عسکری اور دہشت گرد تنظیموں کے معاملے میں آنکھیں چُرا رہی ہے۔جھنگ کے حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت نے ایک کمزور امیدوار میدان میں اتار کر جس طرح ایک کالعدم جماعت کے رہنماء کو اسمبلی تک پہنچنے کا راستہ فراہم کیا اسے اب عالمی برادری نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔پاکستان کی اس طرح کی پالیسی پر سوال اٹھنے لازمی امر ہے۔پاکستان کی حکمران جماعت کو اس طرح کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا۔عالمی فورمز پر مشیران کی اہمیت کم ہوا کرتی ہے ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ وزیر خارجہ تعینات کرے جو اعتماد کے ساتھ عالمی فورمز اور میڈیا کو پاکستانی موقف دے سکے۔نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے ۔ملک میں ایک بھر پور بحث اور مقالمے کا آغاز کروایا جائے جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ایک بھر پور جدوجہد کے باوجود اب تک ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو کیوں نہ پاسکے اور اب عالمی سطح پر ہم تنہا کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور اپنے اوپر بڑھتے ہوءئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔سب سے بھاری ذمہ داری پارلیمان پر عائد ہوتی ہے وہاں اس امر پر بحث بھی ہونی چاہیے اور قیادت کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفادات کے عین مطابق خارجہ پالیسی ترتیب دینے کے لیے سفارشات مرتب کرنا ہو گی۔