مغربی ناول کا ہیرو ، حصہ اول

ڈاکٹر رفیق سندیلوی
ڈاکٹر رفیق سندیلوی

مغربی ناول کا ہیرو ، حصہ اول

از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی

یہ فکشن کا مابعد جدید عہد ہے مگر صدی بہ صدی پیچھے ہٹتے جائیں تو نظریاتی سطح پر جدیدیت کے ابتدائی بیج سروانٹیز کے ’’ڈان کیہوٹے‘‘ (۱۶۱۵۔۱۶۰۵ء) میں نمو پاتے دکھائی دیں گے۔ مغربی ناول کی بنیاد میں ہیروانہ تصور کی خشتِ اوّل اسی ناول نے رکھی۔ بظاہر اس میں ہیرو کو قدم بہ قدم شکست سے دوچار کیا گیا اور اس کی سورمائیت کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا مگر درپردہ اس سے سورمائیت ہی کے تناظر کو تقویت ملی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح اوڈیسس نے بطلیت کی ارفع سطح پر جہاں گردی کی اور اپنے نائب فی الارض ہونے کے منصب کا اثبات کیا۔ ڈان کیہوٹے نے اسی تناظر میں حادثات و مشکلات سے دوچار ہونے کے تخیل کو تسلیم کیا اور ایک الوہی احمق کے خبط کی سطح پر اپنے مہم جویانہ کردار کی تصدیق کی۔ لہٰذا اس کردار کو سراہا گیا اور آگے چل کر اس کردار کے بطن سے کئی ہیرو، اینٹی ہیرو اور ولن ہیرو پیدا ہوئے۔ آئیے ڈان کیہوٹے سے لے کر بیسویں صدی کے منتخب ناولوں کے مختلف الاقسا م ہیروؤں کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ یہ کس قماش کے ہیں اور ان کے عقب میں مستور تصوّ رات کا نظام کیا ہے جن سے ہیرو ازم اور ہیرو ازم سے جڑے ہوئے فرد کے ذہنی ابعاد کا نقشہ مرتب ہوتا ہے۔

ڈان کیہوٹے (Don Quixote)ایسا المیہ طربیہ ہیرو ہے جو دلبرانہ ذوق و ترغیب اور شجاعانہ اقدار سے تہی دنیا میں ایک مہم جو سورمایا نائٹ کی سی خطرپسندی کو ازسر نو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ فیلوز گورڈن کا کہنا ہے کہ ڈان کیہوٹے ایسا ہیرو ہے جو مہم کو بطورِ مہم لیتا ہے اور ہمیشہ شکست کھاتا ہے مگر زیادہ تر شکست کے احساس سے آگاہ نہیں ہو پاتا۔ ڈان کیہوٹے خاموشی کے ساتھ کارہائے شجاعانہ انجام دینے سے زیادہ اپنا وقت سوچنے اور باتیں کرنے میں صرف کرتا ہے۔ مہم جویانہ سفر میں اس کی رسائی کسی سرپھرے آدمی سے بڑھ کر ایک اداکار کی سی ہے جو اپنے کردار کو ذہن نشین کرتا ہے اور پھر اس کی ادائیگی کے لئے مشق کرتا ہے۔ شیکسپیئر کے ہیملٹ کے سلسلے میں میڈمین تھیوری (Madman Theory) کا جواز بنتا ہے یا ایکٹر تھیوری (Actor Theory) کا، بالکل یہی سوال ڈان کیہوٹے کے سلسلے میں بھی اٹھایا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو ڈان کیہوٹے پر دونوں تھیوریوں کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ سچائی کی کُنہ تک پہنچنے کے لئے میڈ مین ہیرو ہو یا ایکٹر ہیرو، دونوں اپنے اظہار و عمل سے عادلانہ تطابق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ڈان کیہوٹے ایک ایڈیٹ ہے جو ہیرو بننے کی کوشش کر رہا ہے یا ایک ہیرو ہے جو ایڈیٹ بننے کے لئے کوشاں ہے۔

ڈان کیہوٹے ایسا ہیرو ہے جو انتہائی مذموم اور اہانت آمیز وقوعات کی زد میں رہ کر بھی اپنی وقارانہ سطح سے نیچے نہیں اترتا۔ اس کی حماقتیں جہاں خندہ زنی کا سبب بنتی ہیں وہاں دل پر ایک بوجھ بھی چھوڑ جاتی ہیں اور ہم تمنا کرتے ہیں کہ وہ اپنے وضع کردہ فریب کا ہالہ توڑ ڈالے اور توازن پانے میں کامیاب ہو جائے۔

سورمائیت کا خبط گو کہ اس کے کردار کو ہمیشہ مثالیت کے درجے پر فائز رکھتا ہے مگر اس سے قطع نظر وہ خاصا منکسرالمزاج، خوش گفتار، مہربان و مددگار، شعر فہم، باذوق اور نصیحت کوش و اخلاق پسند دکھائی دیتا ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ موت اس کو مخبوط حالت میں نہیں آتی۔ اسے رنج ہوتا ہے کہ بے معنی شجاعت اور جھوٹی مہمات میں اس کی عزت نفس کا کباڑہ ہو گیا۔ بستر مرگ پر اس کی پشیمانی سے مترشح ہوتا ہے کہ اب وہ ازالۂ سراب چاہتا ہے اور اپنی اصل شناخت کے ساتھ مرنا چاہتا ہے۔ دراصل ڈان کیہوٹے کا المیہ یہ تھا کہ وہ خواب اور حقیقت کے درمیانی فرق کو جاننے کی اہلیت سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ یہی چیز اسے عدل و انصاف اور صداقت کی ارفع و اکمل جہتوں کی تلاش میں بُری طرح متعاقب رکھتی تھی اور ہر مقام پر مفاہمت سے روکتی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ ڈینیل ڈیفو نے اپنے قصے ’’رابنسن کروسو‘‘ Robinson Crusoe(۱۷۱۹ء) کے ہیرو کا اساسی تصور ایک حقیقی کردار الیگزینڈر شلکرک Alexander Selkirk سے لیا تھا جسے ایک بحری جہاز کے کپتان کی خباثت کے باعث ایک بے آباد ساحل پر اترنا پڑا اور ناچار زندہ رہنے کے لئے سخت جدوجہد کرنا پڑی۔ ڈیفو نے اپنے تخیل سے اس کردار کورابنسن کروسو کی شکل دے دی۔رابنسن کسی ایپک کا مہم جو نظر آتا ہے نہ گوشت پوست کا ہیرو، پھر بھی ڈھائی تین صدیوں سے بچے اور بڑے اسے اپنا ہیرو ہی گردانتے چلے آ رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو رابنسن اپنے بیانات میں کہیں بھی خود کو ہیرو کے طور پر نمایاں نہیں کرتا۔ وہ سرکش جانوروں کا سدِّباب کرنے کی جرأت پر شیخی نہیں بگھارتا بلکہ خوف و کرب کے ساتھ اپنے غیر جانبدارانہ جذبات کا معترف دکھائی دیتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ خود کو ایک عام طرح کا حساس آدمی گردانتا ہے اور خود کو ہیرو بننے کی متوقع خواہش سے بے نیا زظاہر کرتا ہے، پھر بھی اسے ملکیت، طاقت اور تفاخر کے حصول میں بڑی دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو جزیرے کا بادشاہ کہتا ہے۔ کروسو کی تاجرانہ جبلت گو کہ زندہ رہنے کی جبلت سے مشابہ نظر آتی ہے مگر اٹھائیس برسوں کی گم شدگی کے بعد جب وہ جزیرے سے کوچ کرنے لگتا ہے تو اس کے ہمراہ سونے کا ایک عمدہ ذخیرہ بھی ہوتا ہے۔ ڈیوڈ ڈیشز David Daiches) (نے اس حوالے سے بڑی مزیدار بات لکھی ہے کہ وہ ایک ایسا مدبر و متین تاجر ہے جو کسی مہم کو سر کرنے کے جوش میں سمندر کا رخ نہیں کرتا بلکہ کاروبار کے لئے سفر اختیار کرتا ہے لہٰذا بطلیت کے مقابلے میں مصلحت ہی وہ کلیدہے جو اس کے افعال و اعمال کی تفہیم میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ رابنسن کو اسی بنا پر انگریزی ادب کا پہلا prudential hero کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ جزیرے پر آنے کے بعد اپنی قدیم جبلت یعنی بربریت کی طرف رجوع نہیں کرتا اور ہر وقت خود پر ایک شعوری حالت جاری رکھتا ہے۔ اس حوالے سے اسے خود آگاہ ہیرو بھی کہا جا سکتا ہے۔

رابنسن کروسو کے ہیروانہ تصور پر غور کریں تو ذہن فی الفور ابنِ طفیل کے حئی ابنِ یقظان کی طرف جاتا ہے۔ ڈاکٹر نعیم احمد کے نزدیک تو اس کی حیثیت ایک چربے کی سی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’حئی ابن یقظان‘‘ کا ترجمہ’’رابنسن کروسو‘‘ کی آمد سے بہت پہلے شائع ہو چکا تھا لیکن کئی ایک مشابہتوں کے باوجود معنی و مقصد اور طریق کار کے لحاظ سے دونوں کرداروں میں خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ دونوں کردار تنہائی کی نفسیاتی و جذباتی جہات میں عمل آرا ہوتے ہیں لیکن حئی کا کردار فلسفیانہ ہے۔ وہ جستجو سے تجربے، تجربے سے ہنر، ہنر سے دریافت، دریافت سے تخلیق اور تخلیق سے خالق مطلق تک پہنچتا ہے۔ فکری و مشاہداتی قوّ ت احتیاجات کو جنم دیتی ہے تو وہ از خود کھانا پکانا، اوزار بنانا، کپڑے سینا، پودے اگانا، جانور پالنا اور شکار کرنا سیکھ جاتا ہے۔ اس کو دودھ پلانے والی ہرنی ضعیف اور مضمحل ہو جاتی ہے تو اسے حواس کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ جب وہ مر جاتی ہے تو وہ روح کے تصور سے آشنا ہوتا ہے۔ جب اس پر آگ کی قوّ ت آشکار ہوتی ہے تو وہ حرارت کی نوعیت پر غور کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کی جستجو اسے عناصر اربعہ تک لے جاتی ہے۔ وہ مادے کی اصلیت اور علت و معلول کے اسباب پر غور کرتا ہے اور موت کی حقیقت سے عبد و معبود کے تعلق کو پا لیتا ہے۔ رابنسن کروسو کا مسئلہ اپنی Survivalکے علاوہ وقت گزاری اور واپسی کا ہے جبکہ حئی کا ہر عمل اخذ و انکشاف پر منتج ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے ارتقا کی طرف بڑھتا ہے۔ رابنسن کروسو غیر آباد جزیرے سے سوسائٹی کی طرف آتا ہے جبکہ حئی مایوس ہو کر پھر غیر آباد جزیرے کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ یقظان کا کردار اس مردانہ یوٹوپیا کو پیش کرتا ہے جس میں نہ عورت ہے نہ سوسائٹی۔ اسے حکمت اور شریعت کے بیچ کا خلا بھی کہا جاسکتا ہے جسے پُر کرنے کا طریقہ نہیں بتایاگیا۔ بہرکیف حئی کا کردار اس فلسفے کا اعلامیہ ہے کہ بصیرت کے نور سے حق کا ادراک ممکن ہے۔ دونوں کرداروں کا موازنہ کریں تو عقلِ معاش اور عقلِ معاد کا فرق صاف نظر آئے گا۔

’’گلیورز ٹریولز‘‘ Gulliver’st Travels(۱۷۲۶ء) کا کبیری کردار گلیور(Gulliver)گو کہ متنوّع اور اجنبی سرزمینوں کی مہم جویانہ سنسنی خیز اور عجیب الہیئت سیاحت میں مشغول رہتا ہے اور بیان کی سطح پر ایک سحر انگیز اور نادرالوجود شخصیت بھی بن جاتا ہے مگر اپنے آخری تأثر میں انسانی اوصاف سے کبیدہ خاطر ہو جانے کے باعث ایک ہیرو کا ساتعزز حاصل نہیں کر پاتا۔گلیور ایسا ہیرو ہے جس کے سیّاحانہ تصور میں اختراع اور سوجھ بوجھ کا فقدان ہے۔ وہ ہومرکے اوڈیسس جیسے عظیم جنگجوؤں کی طرح بذلہ و فہم کی شاطرانہ چالوں کی بدولت خطرناک حالات سے نکلنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ اسے متعدد بار قیدی بنا لیا جاتا ہے مگر وہ اپنی تدبیر سے ایک مقام پر بھی رہائی حاصل نہیں کر پاتا۔ البتہ اس کے سفر میں خارجی طور پر ایک ہیروانہ جہت کا احساس ضرور ہوتا ہے۔

’’ٹام جونز‘‘ Tom Jones(۱۷۴۹ء) کا ہیرو ٹا(Tom) انگریزی فکشن کا شاید وہ پہلا ہیرو ہے جسے سطح سے تہہ تک مکمل طور پر قرین عقل کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ولدیت مشکوک ہے مگر فیاضانہ صحبت نے اسے حرام کار نہیں بننے دیا۔ وہ خوش شکل، تندرست اور مضبوط ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ مخلص اور نیک دل ہے مگر نسوانی جسموں کی بے پروا لذّت میں مشغول رہنے کا میلان اس کے نیک دلانہ احساسات پر حاوی رہتا ہے۔ ٹام جونز عام طور پر عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے۔ وہ اس وقت بھی ان کی خواہش کا احترام کرتا ہے جب وہ بہانہ بازی کے ساتھ ان کو اپنے ہالۂ ترغیب میں کھینچ رہا ہوتا ہے اور اس وقت بھی جب خود عورتیں اس کو رجھا کر اپنے بہکاوے کے جال میں پھانس رہی ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوفیا کی سچی محبت سمیت اس کے تمام تر معاشقوں کی پیشرفت عورتوں ہی سے ہوتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کے تحت ہنری فیلڈنگ اس کی سیاہ کاریوں کے لئے معافی کا راستہ نکال لیتا ہے۔ مولی سیگرم، مسز واٹرس اور لیڈی بیلسٹن کے ساتھ اس کے جسمانی تعلقات بھی اس کے کردار کو مسخ نہیں کر سکتے، اس لئے کہ اس کی ذات میں انسانیت اور کریم النفسی کا جوہر ہمیشہ موجود رہتا ہے اور بالآخر وہ اپنی اصل محبت کی طرف لوٹ آتا ہے۔ یہی وہ ناگزیر ثبوت ہے جسے عاشقانہ اصولوں سے وفاداری اور ہیرو کی اہم ترین صفت کا نام دیا جاتا ہے۔

ٹام جونز سے پہلے فیلڈنگ نے ’’جوزف اینڈریوز‘‘ Joseph Andrews(۱۷۴۲ء) میں جوزف (Joseph)کو صالح ہیرو کے روپ میں پیش کیا تھا جواپنی عصمت کو داغدار نہیں ہونے دیتا۔ عورت کی عصمت کے مقابلے میں مرد کی عصمت کا یہ تصوّ رردعمل کے طور پر رچرڈسن (Rechardson) کے ناول ’’پامیلا ‘‘ (Pamela)سے آیا۔ جوزف اینڈریو ایسا ہیرو ہے جسے معنوی لحاظ سے پامیلا کا بھائی فرض کیا جا سکتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ رچرڈسن نے ظریفانہ انداز میں پامیلا کو اٹھارہویں صدی کے عیسوی اخلاق کے مطابق تشکیل دیا جو بہکاووں کے باوجود شادی تک اپنی دوشیزگی کو محفوظ رکھتی ہے اور بالآخر لارڈ کو اپنے قدموں میں جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے جبکہ فیلڈنگ نے جوزف اینڈریو کے کردار کو حقیقی نیکی کے اس تصور پر استوار کیا جو سماجی یا مذہبی خوف سے زیادہ آدمی کے اپنے جذبۂ باطن کا پابند ہوتا ہے۔ نیکی یا پاکیزگی کے ان دونوں تصورات کے برعکس ٹام جونز کا ہیروانہ تصور اس اعتبار سے کشش آور ہے کہ اس کی نیک صفتی کا تکملہ ظاہری عیبوں کے ایک طویل سلسلے سے گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔ نارتھ روپ فرائی (Northop Frye)کے بقول وہ ہیروؤں کی اس جماعت کا آدمی ہے جو ادب کے حقیقت پسندانہ دھارے سے جڑے ہوئے ہیں اور قاری کے ساتھ ان کی سطح ایسی مساویانہ ہوتی ہے کہ وہ ایک جیسی حدوں اور حماقتوں کی وجہ سے تکلیف جھیلتے ہیں۔

    ڈان کیہوٹے کی تقلید میں ابتدائے کار میں جو ناول لکھے گئے ان کے ہیرو رومانی یا مہماتی کرداروں کے زمرے میں آتے ہیں البتہ ٹام جونز اور جوزف اینڈریوز واقعاتی ہیرو ہیں اور حیات و کائنات کے عقلی و مادی تصورات سے منسلک ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ہیرو مہم برائے مہم کے تصور سے نکلنے کا عندیہ دیتے ہیں اور خارج سے آدمی کے داخل کی طرف بڑھتے ہیں البتہ اس صدی میں گوئٹے (Goethe)کا ’’ساروز آف ینگ ورتھر‘‘(Sorrows Of Young Werther)ایک واحد ناول ہے جس کا المیاتی ہیرو حد سے بڑھی ہوئی تصوریت کا زائیدہ سے اور عمل اور تخیل کی عدم مطابقت کا کرداری روپ ہے۔بنیادی طور پر ورتھر ایسا ہیرو ہے جس کے اضطرابِ وجود، عظمتِ کردار اور آرزوئے مرگ کی تفہیم خود کشی کے نفسیاتی تناظر میں بہتر طور پر ہو سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ورتھر کے انجام نے خود گوئٹے کو خود کشی کی طلب سے نجات کی راہ دکھائی تھی۔ میاں محمد افضل نے درست لکھا ہے کہ ورتھر کی شخصیت کے پردے میں مصنف کی اپنی شخصیت جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ورتھر کی خودکشی سے زندگی کے خلاف تحقیر و تنفر کا نہیں، المناکی کے نقطۂ عروج پر ایک بھیانک خواب کے ٹوٹنے یا رکے ہوئے وقت کے پھر سے رواں ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ جہاں ایک اہل دل کے جذبۂ ایثار یا ایک مثالی انسان کے درجۂ کمال کی توثیق ہوتی ہے، وہیں تقدیر کی بالادستی، حادثاتِ زمانہ کی حقیقت، اخلاق کے انحطاط اور زندگی سے کنارہ کشی کے انجام پر بھی یقین آنے لگتا ہے۔

اٹھارہویں صدی اور اس سے قبل کے ناولوں اور ناول نُما قصوں میں جزا اور سزا کا تصور ہیرو پر اس قدر حاوی تھا کہ اس کا کردار پہچان کے فطری عمل سے گزرنے کے بجائے اپنی ہی تمسیخ پر منتج ہوتا تھا مگر انیسویں صدی کے ناولوں کے ہیرو کردار کا ایک مکمل تصور رکھتے ہیں اور اپنے اعمال و افکار کے سفر میں بالآخر ایک علامت کی سطح حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انیسویں صدی کے ہیرو متوسط طبقے کے افراد ہیں۔ ان کی توجہ اپنی ذات اور ذات کے حوالے سے معاشرتی انکشافات پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ ہیرو فکری، جمالیاتی اور اخلاقی مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔ سوسائٹی کے ساتھ فرد کا رشتہ پروڈیوسر کا بھی ہوتا ہے اور پروڈکٹ کا بھی، لہٰذا انیسویں صدی کے وہ ناول جو حقیقت پسندی اور صنعتی فلاسفی کی   رو میں سوسائٹی اور فرد کا تصادم پیش کرتے ہیں، ان میں ہیرو کا کردارProblematic  character کی ساخت میں اپنی آزادی اور خود مختاری کے لئے جدوجہد کرتا نظر آتا ہے۔ ہیروانہ تصور کے اعتبار سے انیسویں صدی کے مغربی ناولوں کے ہیروؤں کے قضیوں میں تنوع پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر فرانسیسی ناولوں میں استاں دال (Stendhal)کے ریڈ اینڈ بلیک (Red And Black)(۱۸۳۰ء)، بالزاک (Balzac)کے اولڈ گوریو Old Goriot(۱۸۳۴ء)‘ وکٹر ہیوگو (Victor Hugo)کے لے مرزابلزLe Miserable(۱۸۶۲ء)‘ امریکی ناولوں میں نتھینئل ہاتھورن (Nathaniel Hawthorne)کے دی سکارلٹ لیٹرThe Scarlet Letter (۱۸۵۰ء)‘ ہرمن میلول Harman Melville) (کے موبی ڈِک Moby Dick(۱۸۵۱ء) کے ہیرو بطورِ مثال پیش کئے جا سکتے ہیں۔یہاں روسی ناولوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے جوترجمہ ہوکرمغربی ناولوں کی طرح مشہور ہوئے اور ان کے ہیرو مغرب کی ادبی فضا کا حصہ بن گئے ۔ان ناولوں میں دوستوئفسکی (Dostoevsky)کے کرائم اینڈ پنشمنٹCrime and Punishment (۱۸۶۶ء)‘ لیٹرز فرام دی انڈر گراؤنڈ Letters From Underground(۱۸۶۴ء) اور دی ایڈیٹ The Ediot (۶۹۔۱۸۶۸ء)اورلرمنتوف (Lermiontov)کے اے ہیرو آف آور ٹائمزA Hero Of Our Times (۱۸۴۰ء)‘ گوگول Gogolکے دیڈ سولزDead Souls (۱۸۴۲ء)‘ ترگنیف (Turgaenev)کے فادر اینڈ سنز Father and Sons(۱۸۶۲ء)، ٹالسٹائی) (Tolstaiکے وار اینڈ پیسWar and Peace (۷۲۔۱۸۶۵ء) اور ڈیٹھ آف ایوان ایلچ Death Of Ivan Ilychاور میکسم گورکی (Maxim Gorki)کے دی مدر The Mother (۱۹۰۶ء) کے ہیرو بھی بہت اہم ہیں۔ انگریزی ناولوں میں جین آسٹن (Jane Austen)کے پرائڈ اینڈ پریجوڈس Pride and Prejudice(۱۸۱۳ء)، ایملی برونٹے (Emily Bronte)کے ود رنگ ہائٹس Wuthering Heights(۱۸۴۷ء)، شارلٹ برونٹے (Charlote Bronte)کے جین آئرJane Eyre(۱۸۸۶ء)،چارلس ڈکنز (Charles Dickens)کے ڈیود کوپرفیلڈDavid Copperfield(۱۸۵۰ء) اوردی گریٹ ایکسپکٹیشنزThe Great Expectations (۱۸۶۰ء)تھامس ہارڈی (Thomos Hardy)کے میئر آف کیسٹربرج The Mayor of Casterbridge(۱۸۸۶ء) اور جوڈدی ابسکیور(The Jude Obscure) (۱۸۹۵ء) اور جوزف کونریڈ (Joseph Conrad) کے ہرٹ آف ڈارک نس Heart Of Darkness (۱۸۹۸ء) اور لارڈ جم Lord Jim(۱۹۰۰ء) کے ہیروؤں کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔