جارج بیلے کی کہانی اور ایدھی صاحب

اکرام اللہ ملک

فلپ وین ڈورین سٹرین کی کہانی “The Greatest Gift”کو 1946ء میں فرینک کیپرا نے its-a-wonderful-life-getting-a-sequelایک شاہکار فلم کے روپ میں ”Its a wonderful Life”کے نام سے پردہ سکرین پہ پیش کیااور یہ فلم آج بھی امریکہ کی بننے والی سو بہترین فلموں میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ فلم کی کہانی جارج بیلے نامی ایک کردار کے گرد گھومتی ہے جو کہ اپنے باپ کی اچانک موت کے بعداس کے بنک بیلے بلڈنگ اینڈ لون کو کامیابی سے چلاتا ہے اور بیڈفورڈ نامی قصبے کی زیادہ تر آبادی کو اپنے گھرتعمیر کرنے کے لیے آسان اقساط پر قرضہ دیتا ہے۔
غیر محسوس انداز میں وہ بیڈ فورڈ کی آبادی کے بہت بڑے حصے کی زندگیوں میں ایک خوشگوار تبدیلی لے آتا ہے۔ اس کا اندازہ اُسے تب ہوتا ہے جب اپنے کاروباری حریف ہنری ایف پورٹرکی ایک چال کی وجہ سے 1945ء کرسمس کی شام کو دیوالیہ پن اور مالی غبن کے الزام کے خوف کی وجہ سے خودکشی کرنے جاتا ہے اور وہاں اُس کی ملاقات کلارنس نامی فرشتے سے ہوتی ہے جو خاص طور پہ اس کی مدد کے لیے آیاہوتا ہے۔تاہم پریشان حال جارج بیلے کو اس بات پر بالکل یقین نہیں آتاکہ کلارنس ایک فرشتہ ہے اور اس کی مدد کے لیے آیا ہے۔
جارج کلارنس کے ساتھ دورانِ گفتگو انتہائی مایوسی سے اپنے پید ا نہ ہونے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ جس سے کلارنس کو اُس کی مدد کرنے کا اچھوتا خیال آتا ہے اور کلارنس اسے بیڈفورڈ قصبے کا اور باسیوں کی زندگی کا نظارہ کرواتا ہے جو کہ جارج کے پیدا نہ ہونے سے بہت ہی خستہ اور پریشانیوں سے گھری ہوتی ہے۔یہ منظر دیکھ کر جارج کو اپنی زندگی اور اس کی خوبصورتی کا ادراک ہوتا ہے اور وہ خودکشی کرنے کا ارادہ ترک کر کے حالات کا سامنا کرنے کا قصد کرتا ہے۔
8 جولائی کو عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعدسے یہ کہانی باربار میرے ذہن میں گھوم رہی تھی اوراسی کشمکش میں دوبارہ یہ فلم لگائی تا کہ کہانی کا مزہ لیا جائے کہ فلم دیکھتے دیکھتے میری آنکھ لگ گئی اورخواب میں ایک شخص سے ملاقات ہو تی ہے ، شکل جانی پہچانی لگی ،پوچھنے پر بولا میں فرشتہ ہوں اور میرا نام ہے کلارنس اے ون ۔یہ سنتے ہی میرے منہ سے فوراً نکلا وہی جارج بیلے والا حفاظتی فرشتہ کلارنس ۔ اس نے جواب دیاکہ ہاں با لکل وہی ۔ بس اب میری ترقی ہو گئی ہے اور میں اب اے ون فرشتہ بن گیا ہوں۔ میری حالت دیکھ کے کلارنس نے کہا کہ میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں۔
تھوڑے سوچنے کے بعد میں نے کہا کہ ہمارے ہاں بھی ایک فرشتہ تھا ۔ کچھ دن پہلے فوت ہو گیا۔
کلارنس:تمہارے ہاں مجھے انسان کم نظر آرہے ہیں تم فرشتے کی بات کررہے ہو۔
سوال: (میں تھوڑا شرمندہ ہو کے ) اب ہماری قوم میں بحث چلی ہے کہ وہ جنت میں جائیں گئے یا جہنم میں۔
کلارنس :ہنس کے فرشتے تو جنت ہی جاتے ہیں۔
سوال:آپ دیکھا دو پھر مجھے ۔۔۔!
کلا رنس :نہیں یہ میرے اختیا ر میں نہیں۔
سوال:یہ تو نا انصافی ہے۔ جارج کی تو آپ نے بہت مدد کی تھی۔
کلارنس: وہ اور معاملہ تھا۔
سوال: نہیں خدا گوروں کے زیادہ قریب ہے ۔
کلارنس:اچھا بابا کرتا ہوں مدد، لیکن آگے کا معاملہ نہیں جارج کی طرح پیچھے لے جا سکتاہوں۔ اس بندے کا نام بتاؤ۔
میں نے فوراًعبدالستارایدھی کا نام لے دیا ۔تو کلارنس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اچھا تو ان کی بات کررہے ہو جس پر میں اس سے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں انہیں۔ ؟
کلارنس: اس بات کو چھوڑو، یہ بتاؤ کہ ایدھی کے بغیر کتنی دنیا دیکھنی ہے۔
میں: میں نے پوچھا آپ کتنی دیکھا سکتاہیں۔
کلارنس: اس وقت کیوں کہ میں ڈیوٹی پر نہیں ہوں ۔ صر ف ایک سال ہی دیکھا سکتاہوں۔
کلارنس: لو پھر۔۔۔
جو کلارنس نے دیکھایا وہ بہت حیران کن تھا۔جو یا د رہا آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اگر ایدھی دنیا میں نہ آئے ہوتے اور نہ ہی ایدھی فاؤنڈیشن ہوتی تو صرف 2015ء میں ساڑھے چار ہزار لاوارث لاشیں سڑکوں پر ، ویرانوں میں، جو ہڑوں میں ، گٹروں میں پڑی ہوتیں جن کوایدھی فاؤنڈیشن نے با عزت طریقے سے دفنایا۔ان میں ڈھائی ہزار لاشے اُن ’’حرامیوں ‘‘کے تھے جن کو ایدھی جیسے ’’کافر ‘‘کا جھولا نصیب نہ ہوسکا او ر کسی کوڑے کے ڈھیر سے ملے۔
سات ہزار کے قریب’’ لبرل ‘‘ نہیں ’ معذرت ’دیسی لبرلز ‘‘کی باتوں میں آنے والی ’’فاحشہ‘‘ عورتوں نے ’’ہلکے پھلکے تشدد ‘‘یا کسی اور وجہ سے گھر چھوڑنے کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کے شیلٹر ہاؤ سز میں پناہ لی۔جبکہ پندرہ سو کے قریب ذہنی مریضوں کو ایدھی فاؤنڈیشن اور بلقیس ایدھی ہومز میں پناہ دی گئی جن کے لیے پاکستان میں سرکاری ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تقریباًتین سو کے قریب ایسے بچوں کو دوبارہ اپنے گھروں میں پہنچایا گیا جو کسی چھوٹی موٹی وجہ گھر سے بھاگے ہوئے اور بعد میں گم ہو گے۔
میں نے دیکھا صرف کراچی میں ایمرجنسی میں سوا تین لاکھ لوگوں کو ایدھی ایمبولینس کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔جبکہ چار ہزار کے قریب منشیات کے عادی افراد کا مفت علاج کر کے انہیں ملک کا باعزت شہری بنا یا گیا۔ اب اس کا اندازہ لگانا تو مشکل نہیں کہ اگر گھر کا ایک فرد اس لعنت میں پڑ جائے تو کس طرح پورا کنبہ تباہ ہو جاتا ہے۔ اسی کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے مختلف میٹرنٹی ہومز میں آٹھ ہزار کے قریب فری ڈلیوریز کی گئیں۔ موجودہ دور میں کراچی جیسے شہر میں غریب آدمی کے لیے پیدا ہونا بھی مشکل ہے اور مرنا اور بھی مہنگاپڑتاہے۔
کراچی میں ایدھی کی ڈسپنسریوں میں باون ہزار کے قریب مفت علاج کیاگیاجبکہ بیالیس ڈوبی ہوئی لاشیں نکال کے اُن کے ورثا کے حوالے کی گئی تا کہ ان کے ورثا آخری دیدار ہی کر سکیں۔ پورے ملک میں موجود ایدھی فاؤنڈیشن کے دستر خوانوں پر چھ لاکھ بھوکوں کو باعزت طریقے سے کھانا کھلایا گیا۔( اب یہ لوگ جو بھوک سے مر رہے تھے ۔ ان کو ایدھی صا حب نے بچایا ہے اس لیے اب باقی کی زندگی میں جو بھی صغیرہ کبیرہ گناہ ان سے سرزد ہوں گے ان کا عذاب یقیناایدھی کے سر ہو گا۔ ایک مفتی صاحب کا فقہی نکتہ)۔ علاوہ ازیں ہزاروں معذوروں کو بیساکھیاں، لیٹرین چیئرزوغیرہ جیسی ’’ غیر ضروری ‘‘ چیزیں دی گئیں۔ اور تو اور ایدھی فاؤنڈیشن میں معذور کتوں اور گدھوں، بلیوں کا علاج بھی کیا گیا۔
دیکھا تو اور بہت کچھ لیکن یاداشت کے رہ گیا بیان کردیا۔
یہ تو ایک سال تھا اگر 1951ء سے دیکھا جائے تو ایدھی نے لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کومثبت انداز میں تبدیل کیا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن ایک انسانی ادارہ ہے اس میں کئی خامیاں ہو سکتی ہیں ، بہتری کی ہزاروں جگہ ہوں گی۔ لیکن اس کی خدمات کو یکسر فراموش نہ کریں۔ پاکستان میں انسانی خدمات کا بانی ادارہ ہونے کے ناطے ایدھی فاؤنڈیشن نے اتنے سالوں ریاستی اداروں کے خلا کو پورا کرکے پو ری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ خدارااس کو بے جا مذہبی ، فرقہ وارانہ اور سازشی نظریات کے تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں۔
نوٹ:اس تحریر کے لیے اعدادوشمار ایدھی فاؤنڈیشن کی آفیشل ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں۔

 

1 Comment

  1. اچھی تحریر ہے ، لیکن ڈر ہے کہ الحاد کا فتوی نہ ٹھوک دیا جائے

Comments are closed.