پروڈکشن کی آٹو مائزیشن : لبرل سائنس اور مارکسی ملائیت

aik rozan writer
شاداب مرتضٰی ، صاحبِ مضمون

پروڈکشن کی آٹو مائزیشن لبرل سائنس اور مارکسی ملائیت

(شاداب مرتضی)

مارکس ازم کو سرمایہ داری کے جن جن بھوتوں سے بڑا خطرہ ہے automization ان میں سے ایک ہے۔ تصور یہ ہے کہ آٹو مائزیشن سے تمام پروڈکشن مشینی ہوجائے گی۔ روبوٹ مزدوروں، کاریگروں اور محنت کشوں کی جگہ لے لیں گے. اس طرح مارکس ازم کا معاشی و سماجی انصاف کا سارا فلسفہ جس کی بنیاد مزدور طبقے کے مفادات کی ترجمانی پر کھڑی ہے وہ زمیں بوس جائے گا۔ آٹو مائزیشن پر ہمارے لبرلوں کے عبدالستار ایدھی، بل گیٹس، کے لیکچرز بھی بڑے مشہور ہو رہے ہیں۔

ہم مارکسسٹ مولوی اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں کہ محنت کش عوام کو سماجی و معاشی حقوق کے نام پر سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں کے خلاف بھڑکانے اور بہکانے کا ہمارا تو سارا دھندہ اس مصیبت کی وجہ سے چوپٹ ہو جائے گا۔ خیر، ان مخدوش حالات میں ان لوگوں سے جو اپنے سائنسی رجحان اور جدت پسندانہ روش کی وجہ سے مارکسی ملائیت کے جال میں پھنسنے سے بچ کر آٹومائزیشن کے عشق میں مبتلا ہوگئے ہیں ہمارے چند احمقانہ سوالات ہیں جو درجِ ذیل ہیں:

لوگ کام کرتے ہیں اور اس کی انہیں اجرت یا تنخواہ ملتی ہے جس سے وہ ضرورت کی مصنوعات خریدتے ہیں اور اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ جب ساری پروڈکشن روبوٹ کریں گے اور مزدور، کسان اور محنت کا دیگر کام کرنے والے بیروزگار ہو جائیں گے تو ان کے پاس وہ پیسہ کہاں سے آئے گا جس سے وہ ضرورت کی چیزیں خرید کر اپنی گزر بسر کریں گے؟ سرمایہ داروں کی صنعتی اور زرعی پروڈکشن کی سب سے بڑی خریدار خود محنت کش عوام ہوتی ہے۔ جب یہ بیروزگاری کے سبب کنگال ہو گی تو روبوٹوں کی پروڈکشن سے بننے والی مصنوعات خریدے گا کون؟

سرمایہ دار دولت کمانے کے لیے پروڈکشن کرواتے ہیں عوامی فلاح و بہبود کے لیے نہیں۔ ان کا منافع مزدور کی اجرت کی چوری اور مہنگے داموں اشیاء کو فروخت کرنے سے آتا ہے۔ روبوٹ کو اجرت یا تنخواہ کی ضرورت نہیں ہوگی اور پروڈکشن کے لیے مزدور کی ضروت نہیں ہو گی تو سرمایہ دار کا منافع کہاں سے آئے گا؟ جب منافع نہیں ملے گا تو سرمایہ دار پروڈکشن کیوں کریں گے؟

بہت معتبر اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں کہ پروڈکشن آٹومیٹک ہوگئی تو معاملہ صرف اس کی منصفانہ تقسیم کا رہ جائے گا۔ لیکن مصنوعات کی منصفانہ تقسیم رولے میں پڑ جائے گی اگر پیداواری مشینوں کے مالک (سرمایہ دار) اس پر راضی نہ ہوئے۔ ہمارا سوال ہے کہ کیا سرمایہ دار اس بات پر راضی ہوں گے کہ مصنوعات کو عوامی فلاح و بہبود کی خاطر مفت میں تقسیم کردیں؟ اگر یہ طبقہ اتنا ہی سخی حاتم ہوتا تو آج بھی اس کے لیے ایسا کرنا ناممکن نہیں کیونکہ سائنسی و تیکنیکی ترقی کی بدولت پیداوار ی صلاحیت اور پیداوار اس قدر بڑھی چکی ہے کہ تمام انسانوں کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے لیکن دنیا کی کثیر آبادی غربت، فاقہ کشی، بے گھری، ناخواندگی، بیماری جیسی سماجی لعنتوں کا شکار ہے اور دوسری جانب دولت چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹتی جارہی ہے۔

چنانچہ ہم جیسے مارکسی مولویوں کو تو یہ لگتا ہے کہ دولت کی ہوس پر قائم سرمایہ دارانہ نظام میں آٹومائزیشن سے پوری معیشت ہی ٹھپ ہو کر رہ جائے گی۔ لبرل سرمایہ دارانہ پیداواری نظام میں آٹو مائزیشن کے سبب بیروزگاری میں ویسے بھی شدید اضافہ ہوچکا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ پیداواری صلاحیت میں بہتری سے اوقاتِ کار اور محنت کی شدت میں کمی آتی۔

اس صورتحال سے بچنے کے لیے بل گیٹس کی فاضلانہ تجویز یہ ہے کہ روبوٹوں پر ٹیکس لگا کر اس رقم کو عوامی فلاحی کاموں میں استعمال کیا جائے۔ وہ خود دنیا کے امیر ترین انسانوں (سرمایہ داروں) میں شمار ہوتے ہیں اس لیے وہ اس ذہنی عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں کہ گویا ٹیکس چوری کے بادشاہ سرمایہ داروں نے عوامی فلاح کے پہلے ہی سے عظیم ریکارڈ بنا رکھے ہیں جو وہ اب ایمانداری سے ٹیکس ادا کر کے عوام کو فلاح پہنچائیں گے۔

ہماری مفلس فکر تو بس یہی سوچ سکتی ہے کہ جب ساری پروڈکشن مشین کرے گی اور سرمایہ دار کا منافع ختم ہو جائے گا تو وہ ٹیکس ادا کرنے کی رقم کہاں سے لائے گا؟ پیسہ درختوں پر تو اگتا نہیں۔ ہم چونکہ مارکسی مولوی ہیں اس لیے سائنس فکر ہمیں چھو کر بھی نہیں گزری سو ہمارا خیال تو یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں آٹومیشن طبقات کو ختم کرنے کا نہیں بلکہ مزدوروں اور محنت کش عوام کے استحصال کو شدید تر کرنے کا باعث ہے۔

پروڈکشن کی آٹو میشن کے حقیقی فوائد تبھی حاصل ہو سکیں گے جب پیداوار کے ذرائع اور اس کی تقسیم پر سرمایہ دار طبقے کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو گا اور انہیں سماجی ملکیت بنالیا جائے گا یعنی جب انسانی معاشرہ سوشلزم اور کمیونزم پر استوار ہو گا۔