شاعری میں ’عشرہ‘کی حقیقت

ایک روزن لکھاری
رفیع اللہ میاں، صاحب تحریر

شاعری میں ’عشرہ‘کی حقیقت

(رفیع اللہ میاں)

جب میں کوئی مضمون لکھتا ہوں تو میرے لیے سب سے مشکل کام یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ کا ہزار بار کا دہرایا ہوا پھر سے دہرانے بیٹھ جاؤں۔ اگر میں آپ کو یہ بتانے بیٹھ جاؤں کہ شاعری کیا ہے‘ تو اس سے کیا فرق پڑے گا کہ میں شاعری کو کیسے دیکھتا ہوں۔ شاعری جیسی ہے‘ ویسی ہی رہتی ہے اور آپ شاعری کو جیسا سمجھتے ہیں‘ ویسا ہی سمجھتے رہتے ہیں۔
لیکن چند (یا بہت سی) باتیں ایسی ہیں جو مخصوص تعریفات سے ہٹ کر ہوتی ہیں اور ان کا دہرایا جانا بہت ضروری ہوتا ہے کیوں کہ ہم انھیں بہ آسانی بھولنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور انھیں بھول کر کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ کوئی معاملہ درست طور پر اس وقت ہماری سمجھ میں آتا ہے جب ہم اسے درست سمت میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہم اپنی اس کوشش میں ناکام ہوں یا کام یابی کی شرح کم رہے‘ لیکن ہم آخر کار درست سمت میں آگے بڑھتے رہنا سیکھ جاتے ہیں۔
اس وقت ہمارے سامنے شاعری کے سلسلے کا ایک معاملہ درپیش ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شاعری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم زبان کا فن کارانہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک عام سی بات ہے لیکن یہ اس وقت بہت خاص بات ہوجاتی ہے جب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ زبان کا فن کارانہ استعمال ہوتا کیسے ہے۔ شاعر اس عام اور خاص بات کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ فنون میں شاعر کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ زبان کی‘ جس پر زندگی کے پورے تحرک کا انحصار ہے‘ کارکردگی کے حوالے سے ہمیشہ دوسروں سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ اپنی اس حسیت کو زندہ رکھنے کے لیے وہ اپنے ذہن کی کارکردگی کو پروان چڑھاتا رہتا ہے تاکہ اس کی حسیت شعور کی سطح پر آکر بالغ ہوتی رہے۔ نوزائیدہ حسیت خواہ زبان کے حوالے سے ہو یا شاعری کے حوالے سے‘ ایسے معاملات میں الجھتی ہے جن کی ہیئتی تشکیل سے وہ مکمل طور پر ناواقف ہوتی ہے۔ نوزائیدہ حسیت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ناواقفی کو اپنے لیے طرہ امتیاز بناکر خالص تکنیکی معاملات میں اس کا استعمال شروع کردیتی ہے۔ زبان اور فن کے تکنیکی معاملات کا تعلق حسیت سے نہیں بلکہ شعور سے ہوتا ہے۔ ذہن کی کارکردگی بڑھائے جانے کے بعد ہی حسیت شعور کی سطح پر آکر بالغ ہوتی ہے اور تکنیکی معاملات کو سمجھنا شروع کرتی ہے۔
یہ معاملہ شاعری میں ایک ایسی صنف کے دخول کا ہے جس پر اگر سنجیدہ گفتگو کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنجیدہ گفتگو کا متقاضی معاملہ نہیں تھا۔ جس طرح شاعری کے اندر کے تمام اجزا زبان کے سنجیدہ استعمال پر مبنی ہوتے ہیں‘ اسی طرح شاعری کے باہر کے معاملات مثلاً اس کی صنف وغیرہ بھی۔ شاعری کی تمام اصناف ایک خاص ہیئت میں اپنی الگ مستقل پہچان رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر رباعی اپنی تکنیکی تفصیل کے ساتھ ایک مستقل صنف ہے‘ اگر ہم اس میں محض ایک مصرع اور ملادیں تو یہ مخمس نہیں بنتی۔ کیوں کہ پانچ مصرعوں پر مشتمل مخمس بننے کے لیے تکنیکی تفصیلات رباعی کی تکنیکی تفصیلات سے یک سر مختلف ہیں۔ اردو شاعری کی مختلف اصناف دو ڈھائی (کچھ اس سے زائد) صدیوں سے رائج ہیں یعنی ان میں صدیوں کا شعور سمایا ہوا ہے‘ جو تاریخ میں سفر کرتے ہوئے آج کے شاعر کو بھی مستفید کرتا ہے۔ کیا اس تاریخی شعور کی نفی کرتے ہوئے شاعری کے کسی ٹکڑے کو محض اس وجہ سے کہ اس کی لائنوں کی تعداد مخصوص ہے‘ اس عدد کی رعایت سے الگ صنف قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا ایک شاعر کا شعور ایک عام آدمی کے شعور سے بلند سطح پر جاکر دو مختلف اکائیوں کے درمیان ایک واضح امتیازی لکیر کھینچنے پر قادر نہیں ہوتا؟ تیسرا اور آخری سوال یہ ہے کہ اگر دس سطروں کی نظم کو عربی اسمِ ظرفِ زمان ’عشرہ‘ بہ طور نام دیا جاسکتا ہے تو گیارہ اور بارہ سطروں پر مشتمل نظم کو اسی طرح عربی اسمیاتِ ظرفِ زمان دینے سے اصناف کا یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا؟ کیوں کہ دس، گیارہ اور بارہ سطری نظموں کے درمیان امتیاز محض اس کی عدد پر مبنی ہے۔ آپ چاہیں تو لاکھوں اصناف اپنے نام کے ساتھ بنالیں۔ رباعی اسم نکرہ اور مخمس صفت ذاتی ہے۔ رباعی کا معنٰی ہے چار اجزا والا اور مخمس کا پانچ کونوں والا۔ اب عشرہ کو بھی دیکھیں یعنی دس برس یا دس برسوں کا مجموعہ۔ یہ زبان کے حوالے سے حساسیت کا معاملہ ہے‘ اس کے بغیر اس قسم کی بھیانک لسانی و معنوی غلطیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
دس سطروں تک (بغیر کسی تکنیکی تفصیل) محدود نظم کے لیے جو جواز پیش کیا جاسکتا ہے وہ اس کے اندر نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے باہر سے بہ طور امداد حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ جواز ہے نثری نظم کا رواج پانا۔ نثری نظم کے داخلی اور خارجی جواز پر اب اتنی وقیع مباحث ہوچکی ہیں کہ مزید ان کا دہرایا جانا وقت کا ضیاع ہے۔ اچھے اور نام ور عصری شعرا نے اس پر اتنا کام کرلیا ہے کہ اردو ادب کے دائرے میں اس کی ہیئت‘ تکنیک اور داخلی عناصر سے کسی کی عدم واقفیت خود اس کی جہالت کو طشت از بام کرتی ہے۔ ’عشرہ‘ کے مضحکہ خیز اور نہایت غیر متعلقہ عنوان کے جواز کے لیے نثری نظم کی آڑ لینا غیر دانش مندی کا ثبوت ہوگا۔ نثری نظم کی طرف متوجہ ہونے والے ابتدائی شعرا شعور کی ایک بلند سطح پر موجود لوگ تھے۔ وہ ہیئت، تکنیک اور داخلی عناصر کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور نثری نظم کی صنف میں ان چیزوں کو دیکھتے تھے اور اسی لیے اسے قبول بھی کیا۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ ’عشرہ‘ کو متعارف کرانے والے شاعر ادریس بابر اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
’’عشرہ …. دس لائنوں پر مبنی شاعری کا نام ہے جس کے لیے کسی مخصوص صنف یا ہیئت، فارم یا رِدھم کی قید نہیں۔ ایک عشرہ غزلیہ بھی ہو سکتا ہے نظمیہ بھی۔ قصیدہ ہو کہ ہجو، واسوخت ہو یا شہرآشوب ہو، بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘
یہ شاعری کی ایک ’صنف‘ کا تعارف پیش کیا گیا ہے ایک شاعر کی طرف سے جو زبان کے حوالے سے ہمیشہ حساس سمجھا جاتا ہے۔ میں نے حسیت کی شعور کی سطح پر آنے کی بات کی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شعور حسیت کو زبان کی صورت برتنے کے لیے منطق کو اولین سطح پر رکھتا ہے۔ اب اس تعارف کے اندر غیر منطقی سوچ ملاحظہ کریں جو بھیانک تضاد کو جنم دیتا ہے۔ ’عشرہ دس لائنوں پر مبنی شاعری کا نام ہے‘ یہاں تک ایک حتمی صنف کا تعین کرلیا گیا ہے جو اگرچہ اب تک صرف عنوان کی حد تک ہے‘ تاہم فوراً بعد یہ کہا گیا ہے کہ اس کے لیے ’کسی مخصوص صنف یا ہیئت، فارم یا رِدھم کی قید نہیں۔‘ کیا شاعر کو یہ بنیادی بات نہیں معلوم کہ شاعری کا کوئی ’نام‘ نہیں ہوتا بلکہ ’صنف‘ اس کی الگ پہچان کراتی ہے۔ غزل یا نظم نام نہیں اصناف ہیں‘ نام صنف کے اندر خود بہ خود موجود ہوتا ہے۔ چناں چہ یہ کہنا کہ عشرہ دس لائنوں پر مبنی شاعری کا نام ہے اور اس کے لیے مخصوص صنف یا ہیئت کی قید نہیں‘ زبان کی کارکردگی سے عدم واقفیت کا اظہار ہے۔ کسی ’مخصوص شاعری‘ کو دس لائنوں کی قید دینا دراصل نہ صرف صنف شمار کرانا ہوتا ہے بلکہ واضح ہیئت دینا بھی ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ صنف شماری اور واضح ہیئت محض عددی امتیاز تک محدود ہے اور باقی کسی فنی و تکنیکی خوبی سے خالی ہے۔ اگر یہ عروض سے آزاد ہے تو نثری نظم ہے‘ عروض پر مبنی ہے تو آزاد نظم ہے‘ پانچ اشعار پر مبنی ہے تو غزل ہے۔ فنی و تکنیکی معاملات اتنے واضح ہونے کے باوجود بھی اگر کسی کو فرق نہیں پڑتا تو اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایک نظم محض دس لائنوں پر مشتمل ہے‘ اسے عشرہ کہہ کر الگ صنف قرار دینا، ذہنی افلاس کی نشان دہی کرتا ہے۔