اردو شاعری کی ایک نئی صنف کا آغاز

ایک روزن لکھاری
ظفر سید، صاحب مضمون

اردو شاعری کی ایک نئی صنف کا آغاز

(ظفر سید)

کیا عشرہ گذشتہ 90 برس بعد اردو شاعری کو ایک نیا وسیلۂ اظہار دے رہا ہے؟

ادریس بابر کی اکثر باتیں کثیرمعنی اور تلازماتی ہوتی ہیں۔ اس لیے اسے سننے کے دو بہترین طریقے ہیں: یا تو آپ پورے انہماک سے سنیں تاکہ کوئی جہت رہ نہ جائے، یا پھر سنی ان سنی کر دیں۔

چنانچہ 2014 میں آئی ایٹ سیکٹر میں چائے کے ایک ڈھابے میں بیٹھے ہوئے جب ادریس بابر نے اعلان کیا کہ اس نے شاعری کی ایک دس سطری صنف ایجاد کی ہے جسے عشرے کا نام دیا ہے تو میں نے بھی دوسرے طریقے پر عمل کیا۔ لیکن کچھ دیر بعد چائے کی چسکیوں کے درمیان اس نے عشرہ سنانا شروع کیا تو چونک کر سننا پڑا۔

امیجز اس قدر جیتے جاگتے تھے کہ گویا نیشنل جیوگرافک میگزین سے تصویریں کاٹ کر ایک کولاج بنا لیا گیا ہو۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد ادریس لاہور چلا گیا لیکن اس کے عشرے میسج کے ذریعے یا پھر فیس بک پر دیکھنے کو ملتے رہے۔ انھیں دیکھ کر احساس ہوا کہ ادریس بظاہر دس سطروں کی تنگ دامنی میں بھی ایک نئی دنیا بسا لیتا ہے۔

اس کی ایک تکنیک تو یہ ہے کہ اس نے عشرے کو کسی ایک فارم تک محدود نہیں ہونے دیا۔ چنانچہ عشرہ منظوم اور مقفیٰ بھی ہو سکتا ہے، بلینک ورس بھی اور نثری بھی۔ پھر اس کی سطروں کی لمبائی بھی مقرر نہیں ہے۔

کسی بھی نئے کام کا ایک لازمی حصہ اس پر ہونے والے اعتراضات و الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ چنانچہ عشرے کو بھی اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ ادریس غزل کا بےحد عمدہ شاعر ہے۔ حال ہی میں جدید غزل کا ایک انتخاب چھپا تو اس میں ادریس کو سب سے اوپر رکھا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر عشرے کی ایحاد کے بعد بھی اسی شدت سے نکتہ چینی ہوئی۔

لیکن ادریس نے ایک نہ سنی اور اب یہ صورتِ حال ہے کہ ‘لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا’ کے مصداق اب ادریس کے علاوہ درجنوں نوجوان شعراء عشرے ہی کو اپنا بنیادی وسیلۂ اظہار بنا رہے ہیں۔

ادریس کے اکثر عشروں کے موضوعات واقعاتی ہوتے ہیں اور وہ روزمرہ واقعات سے تحریک پا کر عشرے لکھتے ہیں۔

اردو شاعری میں ایک عرصے سے واقعات سے بڑی حد تک گلوخلاصی حاصل کر لی گئی تھی اور واقعاتی شاعری کو کمتر شاعری سمجھا جاتا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ اقبال طرابلس کی جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتی لڑکی پر نظم لکھتے تھے یا پھر شبلی نعمانی یا مولانا ظفر علی خان کی نظمیں ملتی ہیں۔ اس کے بعد سے آزاد نظم چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر اس قدر اوپر اٹھتی چلی گئی کہ دنیا کے حالات و واقعات کہیں دور نیچے رہ گئے۔

اب کہیں سات آٹھ عشروں بعد عشرہ ایک ایسی صنف بن کر آیا ہے جو روزمرہ واقعات کو موضوع بنانے سے نہیں ہچکچاتا۔ مثلاً ایک عشرے میں دو نوجوانوں کے درمیان مکالمے کے ذریعے ادریس نے دکھایا ہے کہ کوئٹہ میں ہونے والی خونریزی کو دوسرے شہروں میں رہنے والے کس طرح دیکھتے ہیں:

کہاں ہے کوئٹہ، کیا ہے کوئٹہ

بم دھماکہ ہوا وہاں؟ نہ کرو!

ہاسٹل کا کرایہ چڑھ گیا ہے

اچھا، پہلے بھی ہوتے ہیں! کس وقت؟

حبس بارش سے اور بڑھ گیا ہے

بیسیوں لوگ مارے گئے؟ لو سنو!

چلتے ہیں تم نے چائے پی کہ نہیں

پہلے بھی مارے جاتے ہیں! اس وقت؟

فلم وہ ڈان لوڈ کی کہ نہیں

کیا وہاں ڈائیوو کا اڈا ہے

اوہو، تھری جی میں کوئی پھڈا ہے!

‘حالاتِ حاضرہ’پر لکھے گئے عشرے صرف تشویش اور درمندی سے لبریز نہیں ہیں بلکہ ان میں فنکارانہ چابکدستی بھی اسی شدت سے دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اوپر دیے گئے عشرے میں جس مہارت سے مکالمے juxtapose کیے گئے ہیں اسے پڑھ کر فلابیئر کی تکنیک یاد آتی ہے۔

 اردو شاعری کی ایک نئی صنف کا آغاز
ادریس بابر

جبری گمشدگی اور ریاستی جبر بےحد تکلیف دہ معاملہ ہے، لیکن ادریس اس پر ہلکے پھلکے لاپروایانہ انداز میں لکھتے ہیں جس سے مسئلہ اور ابھر کر سامنے آتا ہے:

میٹنگ

اس نے میٹنگ بلائی اور کہا

لوگ، دن رات کنٹرول میں ہیں

ٹیپ منہ پر لگائی اور کہا

سب بیانات کنٹرول میں ہیں

اس نے گولی چلائی اور کہا

سر جی، حالات کنٹرول میں ہیں

سب زمیں پر خدا کے نائب تھے

سب زمیں پر خدا کے نائب ہیں

وہ جو اپنی رضا سے مارے گئے۔۔

وہ جو اپنی خوشی سے غائب ہیں

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، عشرہ کسی قسم کی موضوعاتی جکڑبندی پر یقین نہیں رکھتا۔ اس میں زمین اور آسمان کے درمیان کوئی بھی امر زیرِ بحث آ سکتا ہے:

یہ کب سے دوزخ مشہور چلا آتا تھا

لوگ اس خطے کی بدصورتی پر عاشق تھے

جو بھی دیکھتا بھاگ کے دور چلا جاتا تھا

آخر ہمسایوں ماں جایوں کو رحم آیا

ایک نے بھیجے ٹینک تو دوسرا بم لے آیا

کیمپ لگائے امدادی ۔۔۔ لڑنا سکھلایا

جانگلیوں کو بندوقیں گھڑنا سکھلایا

گولیاں کھانا ۔۔۔ جیلوں میں سڑنا سکھلایا

ہر گز اس کی مدد سے منہ موڑیں گے

ہم کشمیر کو جنت بنا کے چھوڑیں گے

دل ڈھونڈتا ہے

ایک منظر جو کسی بھی آنکھ نے دیکھا نہ ہو

ایک دریا جس کے اندر کوئی بھی ڈوبا نہ ہو

ایک لمحہ جو رواں ہو اور کبھی گزرا نہ ہو

ایک دن جس دن سے پہلے رات کا سایہ نہ ہو

ایک چہرہ جس کے اوپر دوسرا چہرہ نہ ہو

ایک رستہ جو کسی بھی سمت کو جاتا نہ ہو

ایک نشہ جو چڑھا ہو اور کبھی اترا نہ ہو

ایک انساں جو اکیلا ہو مگر تنہا نہ ہو

ایک بستی جس کی گلیوں میں کوئی آیا نہ ہو

ایک دنیا جس میں کوئی بھی کہیں رہتا نہ ہو

ادریس بابر کا ایک رومانوی عشرہ نوجوانوں میں خاصا مقبول ہوا ہے اور وہ جہاں بھی جاتے ہیں ان سے فرمائش کی جاتی ہے کہ وہ اسے سنائیں۔

محبت == جدائی

ادهر گوری کو نیند پل بهر نہ آئی

بدن سے وچهوڑے کی کلکل چهڑائی

وہ سورج کی ٹکیا سے مل مل نہائی

نکهر کر نکل آئی ہلچل مچائی

خدا ہو نہ ہو گنگ ٹهیری خدائی

ادهر ریل گاڑی نے سیٹی بجائی

محبت==جدائی==محبت==جدائی

مسافر اسی دائرے میں رہے گا

وہ یہ جان کر اک سٹیشن پہ اترا

کہ وہ عمر بهر راستے میں رہے گا

اردو شاعری میں ریل کے بارے میں کم ہی لکھا گیا ہے۔ منیر نیازی کا درد بھرا شعر ذہن میں آتا ہے:

صبحِ کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر

ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو میں بھر گیا

ادریس نے اپنے عشرے میں اسی درمندی کو چھو لیا ہے۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں اردو شاعری میں کئی اصناف متعارف کروائی کی گئیں، جن میں سانیٹ، نظمِ معرا، آزاد نظم وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے صرف آزاد نظم ہی وقت کی وار سہہ سکی ہے۔ اس کے بعد 80 کی دہائی میں سفارت کارانہ بیساکھیوں کے سہارے ہائیکو متعارف ہوا اور اس صنف میں کتابیں چھپیں، لیکن جونہی بیساکھیاں ہٹیں، ہائیکو بھی دھڑام ہو گیا۔

فی الحال یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ عشرہ ان لمحاتی اصناف سے کس قدر مختلف ثابت ہو گا۔ البتہ جس تیزی سے نوجوان شاعروں نے عشرے کو قبول کر کے اس میں لکھنا شروع کیا ہے، اس سے اس نئی صنف کے اچھے مستقبل کی امید کی رکھی جا سکتی ہے۔


بشکریہ: مصنف اور بی بی سی اردو