بھارت کو ٹیگور کے خیالوں پر آخر کیوں نہیں سجایا جا سکتا

بھارت کو ٹیگور کے خیالوں پر آخر کیوں نہیں سجایا جا سکتا ، ایک کشمیری کا تصور ہندوستان
پروفیسر منوج کمار جھا

بھارت کو ٹیگور کے خیالوں پر آخر کیوں نہیں سجایا جا سکتا

از  پروفیسر منوج کمار جھا، دہلی اسکول آف سوشل ورک، دہلی یونیورسٹی، نیو دہلی

ترجمہ: ابواسامہ، اسسٹنٹ پروفیسر سوشل ورک، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، بھارت


ایک ایسے دور میں جب کوئی بھی غیر رضا مندی اور ہر قسم کی مزاحمت پر پہرہ ہو اور پہرے دار مستقل مضبوط ہوا دکھائی دے تو مخالفت کی زبان کو ایک نہیں کئی وکیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اپنے آپ کو وکیل  مانتے ہوئے، اپنے موکل کا وکالت نامہ تیار کرتے ہوئے آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اور ہاں! میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے اور نہ ہی آخری بار ایسا ہو رہا ہے۔  اس دور میں بھی لوگوں نے مخالفت اور مزاحمت پر حملہ کیا تھا اور اب بھی ویسا ہی ہوگا کیوں کہ جمہوریت میں عوام کی آواز انتخابی نتائج کے بعد رک نہیں جاتی ہے اور وہ آوازیں سوال پوچھنے اور سوال اٹھانے کے حق سے محروم نہیں ہو جاتی ہیں۔ اگر آج ہم اس جگہ تک پہنچے ہیں تو اس میں اتفاق کے ساتھ اختلاف رائے سے ہم اس مقام تک پہنچے ہیں اور اس سفر میں ہم خیال راگوں کے ساتھ اختلاف کے سروں نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔

زندہ لوگ اگر ہمیشہ سماج اور سرکار کی تعریف میں تعریفوں اور قصیدوں کا استعمال کریں گے تو سرکار اور وہ سماج بالکل ٹھہر جائےگا، کیوںکہ سرکار اور سماج دونوں کو چیلنجوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اختلاف اور نااتفاقی کے ذریعہ دونوں بہتر کرنے یا ہونے کا موقع دیتا ہے۔ اضطراب اور نا اتفاقی کی رمق اگر باقی نہ رہے تو سماج اور سرکار صرف خوبصورت خواب دیکھتا اور دکھاتا ہے اور ترقی کے راستے پر چلنے سے ہچکچاتا ہے۔

اگر گاندھی اور نہرو  بھی کانگریس میں ابھر رہےاضطراب کے لیے اتنے ہی غیر روادار ہوتے تو کیا آزادی کی جدوجہد اور کانگریس نے یہ منزلیں بھی حاصل کی ہوتیں؟  یاد کیجئے ا 1939 کی تری پورہ کانگریس کو، جب گاندھی اور سبھاش لگ بھگ آمنے سامنے بالکل متبادل اورباہمی مخالف تجویزوں کے ساتھ کھڑے تھے،  لیکن کسی بھی حلقہ نے ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا جو ان دنوں عام ہے۔

اااگر موجودہ حالات میں کچھ ایسی علامتیں ہیں جن کے لیے سماج کا  دھیان کھینچنا فوری طور پر ضروری ہے تو خاموش رہنا کیا ان علامتوں کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں۔ اگر اقتدار اور ذرائع میں حصہ داری کا سوال اہم ہے تو کیا ہم خاموشی کو اپنی زبان بنا لیں؟  اگر کسانوں میں مستقل بڑھتی خود کشی اور جنسی عدم برابری ہمارے سماج کو نگل رہی ہے تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ ہم نیا ہندوستان بنا چکے ہیں۔ اگر کچھ علاقوں میں لگاتار انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے تو اب اقتدار پر قابض لوگوں کی خواہش کے مطابق محاورے چنیں اور اسے ہی بنتے رہیں؟  امید یہ کی جاتی ہے کہ اندھوں کی بستی میں سرمے کی دکان سجا کر بیٹھ جائیں۔   بقول دشینت کمار، کیا ہم مان لیں کہ، ‘تیرا نظام ہے سل دے زبان شاعرکی’

ظاہر ہے کوئی بھی ترقی پسند سماج چاہے گا کہ سماج کی اندرونی الجھنوں، تضادوں اور اس کے مختلف مسائل پر لگاتار بحث و مباحثہ ہوتا رہے۔ کئی سالوں سے ہم یہ بھی سنتے آ رہے ہیں کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے، لیکن میری اس کہاوت سے تھوڑی الگ سوچ ہے۔ میرا ماننا ہے کہ زیادہ تر ادب وہ ہے جو سماج کو آئینہ دکھاتا ہے کیوںکہ آئینے میں کچھ حصے دکھتے ہیں، چھپی ہوئی چیزیں آئینے کی زد میں نہیں آتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جب ہم موجودہ پس منظر میں اختلاف کے سروں کی وکالت کر رہے ہیں تو تھوڑا ادب اور تھوڑی تاریخ کے اوراق کو بھی پلٹ کر دیکھیں تاکہ سند رہے اور یہ بھی پتہ رہے کہ اختلاف یا مزاحمت کے دھاروں نے سماج، ادب اور تاریخ کو زرخیز ہی کیا ہے۔

آج کے وہ لوگ جنہیں ہر قسم کے اختلاف سے اختلاف ہے، انہیں تحریک آزادی کے مجاہدوں کے خطوط کو ایک بار ضرور پڑھ لینا چاہئے، چاہے وہ مہاتما اور نہرو کے درمیان کی خط و کتابت ہو یا نہرو اور پٹیل کے بیچ کی نا اتفاقیاں۔ انہیں تب یقین ہوگا کہ ملک یا سماج اور ان کے بیچ عالمانہ فکر اور بحث ایک جیسی نہیں ہو سکتی ہیں۔ اگر سماج اور ملک میں زبردست عدم برابری ہو توکیا ایک صحت مند اور زندہ معاشرہ اپنی نظریں پھیرکر یہ کہنے لگے کہ موسم ہے عاشقانہ! یا اگر ذات پات کی نا موزونیت اور سوچ ہمارے ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو تو کیا وندے ماترم کے نقلی شور میں اس دور کا ڈائیلاگ روہت ویملا اور تہذیب کے نام اس کے خود کشی کے خط کو بھول جائے اور ایک ساتھ بولے  آل از ویل!

اگر مذہبی جنون عام عوام کے سروکاروں اور اس کے مقدمات کو حاشیہ پر دھکیل رہا ہو تو آج کے دور میں اقبال’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’ بنا ڈسکلیمر کے نہیں کہہ سکتے۔ کیا آج کی امّا گولڈ مین اسی آزادی کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہے کہ ‘اگر یہ میری انقلاب ہے تو میں اس کی رہنمائی نہیں کرسکتی۔’ کوئی بھی سماج یا ملک بالکل ایک جیسا نہیں ہوتا اور ایک جیسے سماج کا تصور بیسویں صدی کی آغوش میں ہی ختم کیا جا چکاتھا۔ تنوع اور رنگا رنگی سماج زرخیز کرتی ہیں مگر نہ جانے کیوں ہم اسے بالکل بھول کر الٹے پاؤں کے سفر پر نکل چکے ہیں: مثلا اگر اختلاف اور نا اتفاقی کے تئیں ایسا ہی جذبہ رہا ہوتا تو ہمارے کبیر کا کیا ہوتا کیوںکہ کبیرکی باتیں اس دور کے تمام طرح کے پنڈتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھیں۔

فرض کیجیے آج کے ماحول میں اگر انہلیشن آف کاسٹ شائع کی جاتی تو کس قسم کے تاثرات ہوتے۔ پرائم ٹائم میں اس پر کس نکتہ نظر سے اقتدار کے متولیوں کے ذریعہ بحث و مباحثے منعقد کیے جاتے۔ کیا بابا صاحب امبیدکر کا بھی ڈی این اے تجزیہ ہوتا؟  تلسی رام مردہیا میں لکھ گئے، ‘ایک ہندو بدعقیدگی کے مطابق کسی بھی گاؤں جنوب سے ہی کوئی آفت یا بلا آتی ہے اس لیے گاؤں کے جنوب میں دلتوں کو بسایا جاتا تھا۔ اس لیے میرے جیسے سبھی لوگ ہمارے گاؤں میں ان مہاماریوں اور ناگہانی صورت حال کا پہلا شکار ہونے کے لیے ہی جنوب کی دلت بستی میں پیدا ہوئے تھے۔ اگر آج ان سطروں کو عوامی مباحثے میں روہت ویملا کے خودکشی کے خط کے پس منظر میں لایا جائے تو ناراضگی اور غصے سے بھرے تاثرات کی پیشن گوئی بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

جب 1947میں تقسیم کے سائے میں ملک آزاد ہوا تو اس آزادی پر سوال اٹھانے والے لوگوں، کارکنان اور ادیبوں پر کوئی سوال نہیں اٹھا۔  منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ نامی ایک ‘پاگل ‘ کے کردار سے تقسیم کی لکیر پر ہی سوال اٹھا دیا اور فیض نے صبح آزادی میں کہا کہ، یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر، وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔’

بھارت کو ٹیگور کے خیالوں پر آخر کیوں نہیں سجایا جا سکتا
ٹیگور

گزشتہ دنوں دہلی یونیورسٹی کی طالبہ نے کہا کہ ‘میرے والد کو جنگ نے مارا ہے،  پاکستان نے نہیں۔’ ہم سبھی گواہ ہیں کتنا ہائے توبہ مچا،  بڑے بڑے لوگوں نے اس کی سمجھ سے لے کر اس کی حب الوطنی پر سوال اٹھانا شروع کر دیا۔ جنگ اور جنگ کی سیاسی معیشت لوگوں کو گاندھی کے خیالات کے ساتھ ہوارڈ زن کو پڑھنا چاہیے۔ اس سے بھی بات نہ بنے تو گلیری جی کی کہانی پر بنی فلم ‘اس نے کہا تھا’ میں فلمائے گئے ترقی پسند شاعراور انقلابی مخدوم محی الدین کی ان لائنوں پر غور کریں :

جانے والے سپاہی سے پوچھو وہ کہاں جا رہا ہے

کون دکھیا ہے جو گا رہی ہے

بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے

لاش جلنے کی بو آرہی ہے

زندگی چلا رہی ہے

اضطراب اور اختلاف کے اس افسانے میں گرو دیو ٹیگور کو بھی لیا جائے۔ کیا آج کی قوم پرستی کی بحث ٹیگور کی قومیت سے متعلق خیالات کو اپنے اندر سمو پائے گا۔  خاص طور پہلی جنگ عظیم کے پس منظر میں انہوں نے قومیت کی ہم عصری سمجھ پر سنجیدہ تنقید کی۔  ان کا ماننا تھا کہ نہ صرف یورپ کے ملک بلکہ ہندوستان میں بھی قومیت کا اظہار غصے سے بھرے مردانہ تیور کا ہے۔ ظاہر ہے گاندھی اور نہرو ان کے ذاتی خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے لیکن ان نا اتفاقی کو جرم نہیں بنایا گیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس ملک کا تصور ٹیگور کے خیالوں کے مطابق کریں کہ جہاں دل اور فکر کی پرواز پر پہرہ نہ ہو اور جہاں سر کو  ڈر سے جھکانا  نہ پڑے؟