مسولینی، اقبال اور کراچی

مسولینی، اقبال اور کراچی

مسولینی، اقبال اور کراچی

(ملک تنویر احمد)

پاکستان کے بڑے شہر اس وقت آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ، شہری منصوبہ بندی کی کمیابی ، ناقص و ازکار رفتہ انفراسٹرکچراور شہری سہولتوں کے فقدان کے باعث جس تباہی و بربادی کا شکار ہوئے وہ ان شہروں میں انسانی زندگی کو درپیش مسائل میں روز افزوں اضافے سے آشکار ہے۔ شہر کراچی اس شکست و ریخت کی سب سے بڑی کلاسیک مثال ہے۔ اس شہر میں انسانی زندگی مسائل و مشکلات کے لامتناہی سلسلے کے تلے دب کر جس طرح پسی جا رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس شہر کا قدیم و تاریخی ورثہ، روایات، رسوم اور تہذیبی اثر و نفوذ دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھلتے جا رہے ہیں۔

کراچی کی تباہی و بربادی سے پہلے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور اٹلی کے فاشسٹ آمر مسولینی کا ملاقات کا ذکر ہو جائے۔ کراچی کے مسائل اور اقبال کی مسولینی سے ملاقات کا کوئی باہم ربط نہیں ہوسکتا۔ لیکن اقبال نے جو پتے کی بات مسولینی کو بتائی وہ کراچی کی موجودہ حالت زار پر منطبق ہوتی ہے۔ جب ڈاکٹر اقبال مسولینی سے ملے تو اثنائے گفتگو میں مسولینی نے ڈاکٹر سے اپنے ملک کی حالت کو سدھانے کے لئے مشورہ مانگا۔ ڈاکٹر صاحب نے مسولینی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہمارے پیغمبرؐ نے ایک ہدایت کی تھی کہ کہ جب مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی آبادی حد سے تجاوز کر جائے تو لوگ دوسرا شہر آباد کر لیں۔ ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ آنحضرت ؐ نے یہ ہدایت اس لئے کی تھی کہ اس کے پیچھے ایک گہری حکمت پوشیدہ ہے۔ وہ حکمت یہ تھی کہ جب کسی شہر کی آبادی ایک مقرر حد سے بڑھ جائے تو اس کی تہذیبی قوت و اثر کے عناصر کم ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کیا ہی اچھا ہو کہ کہ ہر شہر کی آبادی کی ایک خاص حد مقرر کر دی جائے۔ یہ سن کر مسولینی نے دونوں ہاتھ میز پر مارے اور چلا کر کہنے لگا ،’’واقعی یہ بہترین نظریہ ہے‘‘۔

ڈاکٹر علامہ اقبال کے بقول جب شہر کی آبادی ایک مقررہ حد سے تجاوز کر جائے تو اس کی تہذیبی قوت و اثر کے عناصر کم ہو جاتے ہیں یہ حقیقت زبان حال سے کراچی شہر کی حالت زار کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں کی بد حالی کا بھی پتا دیتی ہے۔ کراچی آج کنکریٹ کے جنگل میں الجھا ہوا ایک ایسا شہر بن چکا ہے جسے مسائلستان کا لقب دینے میں مبالغہ آرائی کا ذرا برابر بھی شائبہ نہیں ہو گا۔ شہر نگاراں، عروس البلاد، روشنیوں کا شہرجیسے دلنشیں و خوشنما القابات جوماضی میں اس شہر کے ماتھے کا جھومر تھے، اب ایک خوشگوار یاد سے زیادہ کا درجہ نہیں رکھتا۔ جو شہر ایک شاندار تہذیب کا حامل تھا جس میں رواداری، تحمل، برداشت اور اخوت کے ایسے نگینے جڑے تھے جن کی بدولت یہ شہر امن و آشتی کا حقیقی معنوں میں گہوارہ تھا اب انتہا پسندی، لسانیت اور لاقانونیت کے بھنور میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔

اس مضمون پرنظر کیجئے: قد عارف شفیق کا، اپنےتعصبات سمیت کراچی کا نمائندہ شاعر

مختلف مذہبی پس منظر کے افراد اس شہر میں باہمی طور پر پیوست تھے اور یہ اس مختصر آبادی پر مشتمل کراچی کا ہی خاصا تھا کہ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی اس شہر کی گلیوں کے باسی تھے۔ علم و ادب، فنون لطیفہ اور اس نوع کے دوسرے شعبہ جات کی ایسی قد آور ہستیاں اس شہر کی آبادی میں شامل تھیں جب اس کا بے ہنگم پھیلاؤ ابھی تک بحیرہ عرب کے ساحل سے لے کر ٹھٹھہ، حیدر آباد و بلوچستان کی حد بندیوں کے قریب نہ پہنچا تھا۔ ماضی کے شاندار ورثے کی امین وہ تاریخی عمارات پرانے شہر کے قلب میں ہر سو ایستادہ ہو کر اس شہر کے اصل خدوخال کا پتا دیتی تھیں جو بر طانوی راج میں ایک ساحلی شہر ہونے کے باعث یہاں پر تعمیر ہوئیں۔

ماضی میں یہ تاریخی عمارتیں دھوئیں اور آلودگی سے بوجھل ہوئی اس کثیف فضا اور ماحول سے بچی ہوئی تھیں تاوقتیکہ کہ بتدریج بڑھتی ہوئی آلودگی نے اس تاریخی ورثے کو بھی سیاہی مائل کر ڈالا۔ اب بندر روڈ پرانی تاریخی عمارتوں پر ان کھنڈرات کا گماں ہوتا ہے جس میں قصے کہانیوں کے جن بھوت اور چڑیلیں بسیرا کیا کرتی تھیں۔ اس شہر کی چوڑی چکلی سڑکیں جو روزانہ دھلتی تھیں اب قصہ پارینہ ہے، کیو نکہ اب تو دو کروڑ اور اگر میں مبالغہ آرائی سے کم نہیں لے رہا تو ڈھائی کروڑ سے زائد نفوس پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ وگرنہ آج کراچی میں سیاسی جماعتیں پانی کے مسئلے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کر رہی ہوتیں۔ جس شہر میں صفائی کا انتظام و انصرام ایک شاہکار کا درجہ رکھتا تھا، اب وہاں صفائی ایک نایاب جنس ہے جو شہر میں چار سو تعفن چھوڑتے کچرے کے ڈھیروں سے آشکار ہے۔ حد سے بڑھی ہوئی آبادی کے ہاتھوں تہذیبی و ثقافتی ورثے کو کھونے کی کلاسک مثال پاکستان میں کراچی ہے جو اب پورے ملک میں شناخت فقظ مسائل کی وجہ سے رکھتا ہے۔

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحب مضمون

اس شہر کا تہذیبی اثر و نفوذ اب یاد ماضی کی خوبصورت داستان تو ہے لیکن زمانہ حال میں اس کا سراغ لگانا ناممکن نہیں تو مشکل امر بہرحال ہے۔ کراچی کی تاریخ، ورثے اور تہذیب کے ساتھ ہم نے ایک سنگدلانہ اور بڑی حد تک سفاکانہ رویہ اپنایا جو زبان حال سے اس کا شکوہ کرتا ہے کہ کس طرح وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں کے ساتھ ساتھ اس شہر کے باسیوں نے بھی اسے زک پہنچائی۔ اب اس شہر کو ہم نے کنکریٹ کے جنگل میں تو بدل دیا ہے لیکن آنکھوں کو آسودگی و فرحت بخشنے والے سبزے اور درختوں سے اس کا کسی بانجھ عورت کی طرح دامن خالی ہے۔ کراچی کی آبادی جس بے ہنگم انداز سے بڑھتی جا رہی ہے اگلے دس پندرہ سالوں میں اس شہر میں رہنا دوبھر ہوتا چلا جائے گا۔

کراچی کا شاندار ماضی اسی صورت میں واپس لوٹ سکتا ہے جب شہر میں آبادی کے اس روز افزوں اضافے کو روکنے کے ساتھ ساتھ شہر ی منصوبہ بندی کی ایسی کاوشیں بروئے کار لائی جائیں جو نا صرف مربوط و دیرپا ہوں بلکہ انہیں وفاقی، صوبائی و شہری سطح پر اونر شپ حاصل ہو۔ پی پی پی کی سندھ حکومت اور ایم کیوایم پاکستان کی شہری حکومت اس شہر کے اقتدار پر قابض ہونے کی کھینچا تانی میں مصروف عمل ہیں۔ ماضی کی سیاسی تلخیوں کے ساتھ ساتھ آئندہ ہونے والے انتخابات میں اس شہر کے مینڈیٹ کو حاصل کرنے کی رسہ کشی میں ان دونوں جماعتوں کی جھولی میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کو چند سیٹیں گرجائیں لیکن اس آویزش میں شہر کراچی بربادی و تباہی کی ڈھلوان پر تیز ی سے لڑھکتا جا رہا ہے۔ لیکن اس شہر کے کرتا دھرتا ازمنہ قدیم کے لشکروں کی طرح شہروں پر قابض ہونے کی مہم جوئی کا شکار ہیں۔