قد عارف شفیق کا : اپنےتعصبات سمیت کراچی کا نمائندہ شاعر

قد عارف شفیق کا : اپنےتعصبات سمیت کراچی کا نمائندہ شاعر
عارف شفیق ،شاعر

قد عارف شفیق کا

(رفیع اللہ میاں)

وہ رمضان ہی کا مہینہ تھا جب عارف شفیق سے میری پہلی ملاقات‘ کوئی پندرہ سولہ برس قبل (اندازاً) فرید پبلشر کے کتاب میلے میں ابن آس کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ شاعری اور پیشے کے حوالے سے بات چل رہی تھی تو انھوں نے کہا کہ میرا تو کام ہی شاعری کرنا ہے، روز ایک غزل کہتا ہوں۔ ابھی امجد اسلام امجد نے جب یہ کہا کہ: ’’عارف شفیق ایک سوچنے‘ غور و تجزیہ اور سوال کرنے والے پر گو شاعر ہیں‘‘ تو ذہن کے پردے پر دو اور اہم نام روشن ہوئے جو زود گو اور نام ور ہیں۔ یعنی ظفر اقبال اور صابر ظفر۔ غزل میں ان تینوں کے لہجے اور فکر کے دائروں کی حدیں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ان کے ہاں جو اہم چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ یہ شاعری کو زندگی کا لازمی جز بناکر جیتے ہیں۔اچھے‘ اہم ترین اور بڑے شاعروں میں یہ بنیادی خوبی موجود رہی ہے۔

عارف شفیق وہ واحد شاعر ہیں جنھیں کراچی کا نمایندہ شاعر کہا جاسکتا ہے۔ میں رسا چغتائی‘ انور شعور‘ عباس رضوی‘ سحر انصاری جیسے اہم شاعروں کو نہیں بھولا ہوں لیکن میں جب بھی عارف شفیق کو ان سب کے سامنے رکھ کر دیکھتا ہوں تو دو ایک دوسرے سے بہت مختلف دائرے بنتے ہیں اور عارف شفیق اپنے فن کے ذریعے لوگوں سے جڑت کے سلسلے میں مجھے ان سے برتر مقام پر دکھائی دیتے ہیں۔ متحرک سیاسی زندگی گزارنے والے شاعروں کے ہاں تجربے کی ایک ایسی سطح ملتی ہے جو محض تصوری نہیں بلکہ عملی تصوری ہوتی ہے۔ عارف شفیق کی شاعری اسی سے عبارت ہے۔ سیاسی اور سماجی زندگی میں عام لوگوں اور ان کے دکھ درد سے بے حد قربت کی وجہ سے شاعر کا فن اتنی سادگی اختیار کرتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر گفتگو اور شاعری کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ عارف شفیق کے ہاں یہی معاملہ ملتا ہے۔

’’مرے کشکول میں ہیں چاند سورج‘‘ اپریل 2014 میں شایع ہوا ہے۔ اس مجموعے میں ان کا‘ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کی طرف توجہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن یہ تعلق ایک تارک الدنیا صوفی والا نہیں ہے بلکہ اس تعلق کے پردے میں بھی ایک عام آدمی کی عام ذہنی و قلبی سطح جھلکتی ہے۔ یہ سطح مجموعی طور پر ان کی شاعری کی سطح ہے جو ان کی عملی زندگی کی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مصنف کی موت نہ ہونے کے باوجود بعض اوقات لوگ خواہش کرتے ہیں کہ فن کو اس کے مصنف کی سیاسی‘ سماجی شناخت سے ہٹ کر دیکھا جائے۔ دوسری طرف ہم اپنے عملی رویوں میں اس چیز کو بہت گہرائی تک لے جاچکے ہیں کہ قبولیت کا دارومدار ہی سیاسی، سماجی شناخت پر ہے۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: مسولینی، اقبال اور کراچی

دماغ میں اگر تصورات صاف نہ ہوں تو سطح پر اس دورنگی کا ظہور ہوتا ہی ہے۔ عارف شفیق کی شاعری کا متن ایسے ٹریسز سے بھرا ہوا ہے کہ جس سے اس کے تناظر کے بارے میں خبرواضح طور پر مل جاتی ہے۔ متن کے تناظر میں شاعر/مصنف کا تناظر بھی مل جاتا ہے۔ ہم ابھی شخصیت پرستی سے نکلنے کی جرأت نہیں کرسکتے کیوں کہ ہمارا تمام سیاسی و سماجی ڈھانچا ہی اسی پر قائم ہے۔ مصنف کے سیاسی تناظر کو زیرگفتگو لائے بغیر اور اس پر سوال قائم کیے بغیر اس ’پرستی‘ سے نجات ممکن بھی نہیں ہے۔ یعنی ہم اگر چاہتے ہیں کہ متن پر گفتگو کرتے وقت مصنف کو زیر بحث نہ لایا جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مصنف کو زیر بحث لاکر اس پر کڑے سوال قائم کیے جائیں اور یوں اس کی شخصیت کو مرکز سے ہٹاکر متن کا تجزیہ کیا جائے۔ مرکز میں شخصیت کی موجودی کی وجہ سے متن پر آزادانہ گفتگو ممکن بھی نہیں رہتی کیوں کہ ہمارا اجتماعی مائنڈ سیٹ ایسے کسی عمل کو بزرگوں کی گستاخی پر محمول کرکے اسے رد کردیتا ہے۔

ایک روزن لکھاری
رفیع اللہ میاں، صاحب تحریر

عارف شفیق کی شاعری کو ایم کیو ایم کے ساتھ طویل سیاسی وابستگی سے جدا کرکے دیکھنا ایسا ہے جیسے اس شاعری کے متن کو اس کے تناظر سے جدا کیا جائے۔ جب اس تناظر کا تذکرہ ہوتا ہے تو کچھ لوگوں کا لہجہ معذرت خواہانہ کیوں ہوتا ہے؟ ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ فن کار کو بھی ایک عام آدمی کی طرح کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی نظریہ یا تحریک اختیار کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ تنقید تو متن کو اس کے تناظر کے ساتھ دیکھتی ہے اور ہمارے بیش تر ادبی متون کا اچھا خاصا تناظر مصنف کی ذات سے عبارت ہوا کرتا ہے۔ اگر تنقید متن، اس کے تناظر اور تناظر سے جڑے مصنف کو اپنے دائرہ کار میں لاتا ہے تو کسی کو معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔ شاعری میں عارف شفیق کی اتنی اہمیت بن چکی ہے کہ تناظر کو زیر بحث لانے سے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیوں کہ اس تناظر سے جتنے اثرات مرتب ہونے تھے وہ ان کی شاعری پر ہوچکے ہیں۔

اس تناظر کی وجہ سے ان کی شاعری میں جتنی زیادہ عملیت پیدا ہوئی ہے اتنی ہی زیادہ فکری طور پر یہ محدود بھی ہوئی ہے۔ عارف شفیق کراچی کی نمایندگی کرنے والے ایک بڑے شاعر ہیں۔ بڑے شاعروں کے بھی کچھ کم زور گوشے ہوتے ہیں جو تنقید کی زد میں آیا کرتے ہیں‘ یہ اَن ہونی بات نہیں ہے۔میں یہاں شہرۂ آفاق شاعر ٹی ایس ایلیٹ کی مثال دینا چاہتا ہوں‘ ان پر اپنی چند نظموں میں یہود دشمنی کے حوالے سے بہت سخت تنقید ہوئی اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔ عہد حاضر کے اہم ادبی نقاد ٹیری ایگلٹن نے ایلیٹ پر تنقید کا دفاع کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے کر (پروسپیکٹ میگزین میں کریگ رین کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے) کہا تھا کہ ’’ٹی ایس ایلیٹ کی بہ طور شاعر عظمت تمام شکوک سے ہٹ کر مستحکم ہوچکی ہے‘ تو نقاد آخر کیوں زن بیزاری اور یہود دشمنی کے تمام الزامات کے خلاف اس کے دفاع کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔‘‘

میری رائے میں عارف شفیق کی سیاسی جدوجہد اور ان کی شاعری میں کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ اس تعلق سے خوبیاں بھی جنم لیتی ہیں اور خامیاں بھی۔ کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ عارف شفیق میں اس نے بہ طور انسان تعصب نہیں پایا۔ اگر ان کی شاعری میں اس کے ٹریسز ملتے ہیں تو تنقید کا نشانہ بنیں گے اور اس کے بے جا دفاع کی ضرورت نہیں ہے۔ ’مرے کشکول میں ہیں چاند سورج‘ ہی کی ایک غزل میں انھوں نے پختونوں کو اسی طرح ہدف بنایا ہے جس طرح ایلیٹ نے یہودیوں کو بنایا۔ یہ غزل مزدوری کے لیے آنے والوں کو ایک ولن کے طور پر پیش کرتی ہے۔ صفحہ ننانوے کی اس غزل کے یہ اشعار ملاحظہ کریں:

پھر مرے شہر پہ قبضہ جمانے آئے تھے
تجھے جو قائد ملت ہرانے آئے تھے
انھی نے شہر کا امن و اماں بھی لوٹ لیا
جو میرے شہر میں دولت کمانے آئے تھے
یہ کہہ رہے ہیں کہ ہتھیار ان کا زیور ہے
انھیں خبر نہیں کس کو ڈرانے آئے تھے
نہتے لوگوں پہ جو گولیاں چلاتے ہیں
یہاں وہ گاؤں سے ویگن چلانے آئے تھے
یہ اپنے اپنے علاقوں سے بھاگ کر عارف
کراچی شہر میں کیا گل کھلانے آئے تھے

ہم میں سے ہر شخص اپنے مذہبی، لسانی یا سیاسی تعصبات کے ساتھ جیتا ہے۔ جب ان تعصبات کا اظہار ہوتا ہے تو اظہار کی نوعیت کے مطابق اس پر تنقید و توصیف کا اطلاق ہوتا رہتا ہے۔ عارف شفیق کی شاعری کو کسی بھی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شاعری اپنا مقام بناچکی ہے۔ اس پر ہونے والی تنقید اس کے جوہر کو منکشف کرنے میں معاون ہوتی رہے گی۔ ’’مرے کشکول میں ہیں چاند سورج‘‘ سے کچھ انتخاب کیا ہے‘ جو قارئین کے ذوق کے لیے پیش ہے۔ یہ انتخاب کرتے ہوئے میں نے ان اشعار سے صرف نظر کیا ہے جو خدا سے ان کے تعلق کے اظہار پر مبنی ہیں۔

اک فتویٰ پھر آیا ہے یہ غاروں سے
کافر کہہ کر مجھ کو مارا جاسکتا ہے

ساری دنیا ہے آشنا مجھ سے
اجنبی اپنے خاندان میں ہوں
ایک کردار ہوں لہو میں تر
ہر قبیلے کی داستان میں ہوں

ظلم کی اس کے مذمت کی جائے
کم سے کم اتنی ہی جرأت کی جائے
دربدری آج یہی کہتی ہے
اپنی دھرتی سے نہ ہجرت کی جائے

دشمنی میں تجھ سے اے اُردو زباں
چھین لیں گے یہ مری پہچان بھی
رات جب چھاپا پڑا تھا میرے گھر
رو رہا تھا میر کا دیوان بھی

آنسو پونچھے، دکھ بانٹے انسانوں کے
میں نے بھی تو ساری عمر عبادت کی
زخمی پرندہ شاخ پہ تنہا بیٹھا تھا
ہم دونوں نے ساری رات تلاوت کی

رزق اور موت اس کے ہاتھ میں ہے
تو مجھے کون سی سزا دے گا
ایک آنسو بھی میرے بچے کا
ذہن میں آگ سی لگادے گا

آنکھوں میں جاگ اٹھے ہیں تنہا شجر کے دکھ
گلدان میں جو پھول سجے دیکھتا ہوں میں

حق مار کر ہمارا سکندر بنا تھا وہ
خود کو جو کہہ رہا تھا مقدر کا آدمی
کیسے بھلا بچے گا وہ لفظوں کے تیر سے
ہر وار روک سکتا ہے خنجر کا آدمی

میری کتابیں اور قلم کچھ سوچ رہے تھے
بندوقوں نے چھاپا مارا میرے گھر پر
موم کی صورت خود ہی پگھل جائے گا اک دن
لفظ محبت لکھ دے تو دل کے پتھر پر

کسی کی آنکھ سے آنسو بھی پونچھ لیتا کبھی
غرور کرتا ہے جو شخص اپنے سجدوں پر

مرے دکھوں کو یہ سمجھے نہ شاعری کو مری
یہاں کے لوگوں کا احساس بھی تجارتی ہے
وہی ہیں لفظ پرانے جو لکھ رہے ہیں سب
معانی ان میں مری شاعری اتارتی ہے

اکثر سب کو رستہ دینے والے لوگ
میری طرح سے خود پیچھے رہ جاتے ہیں
زندہ رہنے کی اک اندھی خواہش میں
اپنی قبروں پر کتبے لکھواتے ہیں

مجھ پہ پابندیاں لگیں ہیں کیوں
اپنے ہی گھر میں آنے جانے پر
شہر سارا ہی ہوگیا روپوش
کوئی ملتا نہیں ٹھکانے پر

ہمارے ہاتھ میں ہتھیار دے کر
ہماری قبر کھودی جارہی ہے
یقیں اب ہوگیا میں سچ ہوں عارف
جبھی دنیا مجھے جھٹلا رہی ہے

ملی ہو جو کسی کا گھر جلا کر
لگادو آگ ایسی روشنی کو
کراچی شہر کے لوگوں نے عارف
مجھے سمجھا نہ میری شاعری کو

سولی پہ چڑھا کر مرے چاند اور مرے سورج
اب شہر میں مٹی کے دیے بانٹ رہا ہے

پھر یہ ہوا کہ کوئی سبق یاد کب ہوا
آتا تھا میں بھی دیر سے اکثر کلاس میں
ایسا نہ ہو وہ خود کو سمجھنے لگے خدا
اتنا بھی جھکنا ٹھیک نہیں التماس میں

وہاں ہر چیز تھی اک جنس وفا تھی نایاب
خاک ڈال آیا ترے شہر کے بازاروں پر

جب کوئی اہم فیصلہ کرنا
اپنے بچوں سے مشورہ کرنا
میں نے سیکھا ہے اپنے بچوں سے
سچ کا اظہار برملا کرنا

آگیا دور جہالت لوٹ کر
فیصلے ہونے لگے شمشیر سے
سننے والے بھی ہوا دیتے ہیں جب
آگ لگ جاتی ہے اک تقریر سے

اک دم کب کیا بدلا ہے سب رفتہ رفتہ بدلے گا
وقت تمھارا ہوجائے گا لمحوں کو تبدیل کرو

یہ ملک ہم نے بنایا ہمی سنواریں گے
ہمیشہ تم نے تو غدار ہی کہا ہم کو
ہم اس کے بیٹے ہیں سارا وطن ہمارا ہے
کراچی شہر میں کیوں قید کردیا ہم کو

وقت کرتا ہے خود فیصلہ ایک دن
اب ہمیں وقت کا فیصلہ چاہیے
چند سکے نہ دے ہم کو خیرات میں
اپنی محنت کا پورا صلہ چاہیے

اس شاہ کو غنی و سخی کیسے مان لوں
دیتا ہے میرا حق بھی جو احسان کی طرح
عارف وہ فیصلے کی گھڑی بھی عجیب تھی
دل کو سنبھالنا پڑا میزان کی طرح