ہیجانی سیاست کا انجام

ایک روزن لکھاری
خورشید ندیم، صاحبِ مضمون

ہیجانی سیاست کا انجام

(خورشید ندیم)

ہیجانی سیاست نے اب ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج ہم ‘پوسٹ ٹروتھ‘ عہد میں زندہ ہیں۔’پوسٹ ٹروتھ‘ کیا ہے؟ خود ساختہ تصورات کو اس چابک دستی سے پیش کر نا کہ لوگ انہیں سچ مان لیں۔ افسانے پر حقیقت کا گمان ہونے لگے۔یہ پوسٹ ٹروتھ ہے جس نے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلوایا اور ٹرمپ کو قصرِ صدارت تک پہنچایا۔

عمران خان نے اس ہیجانی سیاست کاآغاز کیا۔ 2014 ء میں ایک ریاستی ادارہ اس کی زد میں آیا۔2017 ء میںدوسرا۔آج اہلِ سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ ‘نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘۔رخشِ سیاست اب کسی کے قابو میں نہیں۔سب وقت کے جبر کا شکار ہیں۔عمران خان نے سیاسی عمل کواحتجاج کی راہ پر ڈالا۔’انصاف‘ کی طلب میں انہوں نے کبھی امپائر کی انگلی کی طرف دیکھا اور کبھی عدالتی ایوانوں کی طرف۔’انصاف‘ کا مطلب ان کی لغت میں واضح ہے:نوازشریف کے خلاف فیصلہ۔2014 ء میںانصاف کا یہ مفہوم قبولیتِ عامہ نہ حاصل کر سکا۔یہ عمران خان کا ‘پوسٹ ٹروتھ ہی ثابت ہوا۔’ایمپائر ‘ نے اپنا کام نکالا اور ایک طرف ہوگیا۔عمران نے صورت ِحال کا ادراک نہیں کیا اوراسی راستے پر چلتے رہے۔اب لگتا ہے کہ ہر طرف ہیجان کا غلبہ ہے۔دوسرے ریاستی ادارے بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔

عمران خان نے خود کو اس آگ میں جھونکا۔نوازشریف کو حالات نے دھکیل کر میدانِ کارزار میںلا کھڑا کیا۔بقا کی جبلت نے انہیں لڑنے پر آ مادہ کیا۔اب وہ اپنا مقدمہ عدالت ہی میں نہیں، عوام اور میڈیا میں بھی لڑیں گے۔پر ویز مشرف صاحب سمیت ہر سیاسی سوچ رکھنے والا جانتا ہے کہ اگلا الیکشن بھی ن لیگ کا ہے۔ان امکانات کو ن لیگ آسانی سے ضائع نہیں ہو نے دے گی۔’انصاف‘ کا تصوراب پوسٹ ٹروتھ کی نذر ہو چکا۔عمران خان کے مقابلے میں اب ایک تصورِ انصاف نوازشریف کا بھی ہے۔اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یوں انصاف کے عمل کو سیاسی تناظر سے الگ کرنا ممکن نہیں رہا۔شیخ رشید نے عمران خان کی ترجمانی کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عدالت سے قانون کا جنازہ نکلے گا یا نون کا ۔ ن لیگ کی طرف سے اب اس کا انٹی تھیسس سامنے آ چکا‘اس کے مطابق دونوں جنازے ایک ساتھ نکلیں گے۔

ہیجانی سیاست کایہی وہ انجام تھا جو نوشتہ ء دیوار تھا۔مکرر عرض ہے کہ ایک بہت بہتر متبادل عمران خان کے پاس مو جود تھا۔نوازشریف نے 2013 ء میں دوسری سیاسی جماعتوں سے محاذآرائی نہ کر نے کا فیصلہ کیا۔مو لانا فضل الرحمٰن کی تحریک کے باوجودخیبر پختون خوا میںتحریک انصاف کے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے۔چار سالوں میں کوئی ایک ایسی شہادت مو جود نہیں کہ وفاقی حکومت نے کے پی میں عدم استحکام پیدا کر نے کی کوشش کی ہو۔عمران خان اگر اس میں چھپے امکانات کو سمجھ پاتے تو مستقبل ان کا تھا۔ ان کو محض تین کام کر نے تھے۔خیبر پختون خوا کو مثالی صوبہ بنانا‘احتساب کے عمل کی شفافیت کے لیے پارلیمنٹ اور میڈیا کی مدد سے مہم اورانتخابی اصلاحات۔

ایک اور بات جو عمران خان کے حق میں تھی وہ ہے یکسانیت سے اکتاہٹ۔ شریف خاندان اتنے عرصے سے اقتدار میں تھا کہ اگر قوم کو رتی برابر بہتر متبادل مل جا تا تو وہ محض تبدیلی کی خواہش میں اسے خوش آمدید کہتی۔عمران خان نے یہ تینوں کام نہیں کیے۔انہوں نے منفی سیاست کا راستہ چنا۔وہ ہر ریاستی ادارے کی حرمت پامال کر تے رہے۔انہوں نے یہ تاثر قائم کیا کہ اس نظام سے کسی خیر کی توقع نہیں۔وقت کا جبر انہیں یہاں لے آیا کہ انہیں اسی نظام میں پناہ ملی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج وہ نظام کے وکیل ہیں اور نوازشریف ناقد۔ عمران خان نے بہتر متبادل ہو نے کا موقع بھی کھودیا۔اب وہ تبدیلی کی نہیں، انتقام اورہیجان کی آوازہیں۔

اسے بھی ملاحظہ کیجئے: جے آئی ٹی اور کچھ پریشان کن معاملات

اس منفی سیاست نے عمران خان کو نقصان پہنچایا۔انہوں نے اپنی ساکھ کو اس کا ایندھن بنا دیا۔یہی نہیں انہوں نے بعض مقتدر اداروں کو بالواسطہ اس سیاست میں گھسیٹا اور ان کو سیاسی عمل میں فریق بنا دیا۔پہلے انہوں نے یہ تاثر قائم کیا کہ اگر عدالتیں نوازشریف کے حق میں فیصلہ دیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بکی ہوئی ہیں۔اب اسی دلیل کو ن لیگ استعمال کر رہی ہے کہ عدالت نوازشریف کے خلاف فیصلہ دے تواس کا مطلب اس کا تعصب ہے۔نقصان کس کا ہوا؟ ظاہر ہے عدلیہ کا۔2014 ء کے دھرنے کا نقصان کس کو ہوا؟ ظاہر ہے فوج کو۔جاوید ہاشمی سے لے کر تحریکِ انصاف کے رہنمامصطفیٰ کھر تک یہ کہتے ہیں کہ دھرنے میں ہمیں استعمال کیا گیا۔

اس کے بر خلاف اگر سیاست مثبت اسلوب میں آگے بڑھتی تو اداروں کی حرمت متاثر ہو تی نہ سیاسی و سماجی عمل۔آج قوم سوچ رہی ہے کہ اس ہیجانی سیاست نے قوم کو کیا دیا؟آج ہمارے دامن میں اگر کچھ ہے تو وہ مثبت اقدامات کا نتیجہ تھا یا منفی سیاست کا؟عمران خان کا مقدمہ یہ ہے کہ اگر وہ کرپشن کے خلاف بلندآہنگ نہ ہوتے تو ریاستی ادارے متحرک نہ ہوتے۔گویا ان کے خیال میں یہ عوامی دباؤ ہے جو عدالتوں کو متاثر کرتا ہے۔اس مقدمے کو اگر مان لیا جا ئے تو کیا اس سے عدالتی عمل مشکوک نہیں ہو جا تا؟

کیااس کا مطلب یہ ہے کہ جج حضرات کمرہ عدالت میں دیے گئے دلائل سے نہیں،عدالت کے باہر اٹھنے والے شور سے متاثر ہوتے ہیں؟دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس ہیجانی سیاست نے قوم کا جتنا وقت اور توانائیاں بر باد کیں،اس نے ملک کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
اس وقت دکھائی یہ دیتا ہے کہ تمام ریاستی اور سیاسی ادارے ہیجانی کیفیت میں ہیں۔بحیثیت قوم ہمارا ایجنڈا تبدیل ہو چکا ہے۔ملک کو درپیش اصل مسائل کی طرف کسی کی نظر نہیں۔ حکومت، میڈیا، سیاسی جماعتیں ،کسی فورم پر یہ مسائل زیرِ بحث نہیں۔افغانستان ہماری سر حدوں پر ایک نئی درد سری پیدا ہو گئی ہے۔بھارت اس کے علاوہ ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں اضطراب ہے اور ہم اس کی زد میں ہیں۔معیشت سنبھل سکتی ہے اگر سیاسی استحکام ہو مگر ہم اس کے درپے ہیں۔ جو چند مثبت تبدیلیں آئی تھیں،ہم نے ان کی بھی قدر ناشنا سی کی۔

لیڈر کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ دور بین ہو تا ہے۔ اسے اندازہ ہو تا کہ اس کے اقدام کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتا جس سے معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں اور وہ غیر متعلق ہو جا ئے۔اگر وہ ملک و قوم کے مفاد کو دیکھے توترجیحات کا تعین کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ہیجانی یا پوسٹ ٹروتھ سیاست سے بعض وقتی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیںلیکن اس کے نتیجے میں دوررس تبدیلی نہیں آ سکتی۔’بریگزٹ‘ اور ٹرمپ کے تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی۔ بر طانیہ کو یورپی یونین سے نکلنے کا کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ امریکہ کی پالیسی میں بھی کوئی جوہری تبدیلی نہیں آ سکی۔

مزید یہ کہ عمران خان نے ا س فطری اصول کو نظر انداز کیا کہ ہر تھیسس کا ایک اینٹی تھیسس بھی ہوتا ہے۔ وہ اینٹی تھیسس اب سامنے آ چکا۔ یہ اب بقا کا معرکہ ہے۔اگر مثبت سیاست کی جاتی تویہ ارتقا ہوتا جس سے ہمیں اطمینا ن ہو تا کہ پاکستان نے مثبت سمت میںپیش قدمی کی ہے۔ ہیجانی سیاست نے سیاسی عمل کو دوسرا رخ دے دیاہے۔ حکومت کو دیوار کے ساتھ لگانے کو شش آخری مرحلے میں ہے‘ سیاسی مفاہمت کے امکانات ختم ہو چکے ۔ریاستی اداروں کے پاس بھی معلوم ہو تاہے کہ اب فریق بنے بغیر چارہ نہیں۔ ہیجانی سیاست سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی۔ سیاست کا گھوڑا سر پٹ دوڑ رہا ہے۔اس کی باگ وہی کھینچ سکے گا جو اس میدان کا شاہ سوار ہوگا۔


بشکریہ: روزنامہ دنیا