خوش کن موت ، البرٹ کامیو کا ایک اہم ناول

خوش کن موت
البرٹ کامیو

خوش کن موت ، البرٹ کامیو کا ایک اہم ناول

از، رفیق سندیلوی

البرٹ کامیو۱۷ نومبر ۱۹۱۳ء میں پیداہوا۔۱۹۵۷ء میں اسے ادب کا نوبل انعام ملا۔۱۴ جنوری

Reviewer: Rafiq Sandelvi
Reviewer: Rafiq sandelvi

1960ء میں وہ سڑک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ اس نے بہت کم عمر پائی۔صرف چھیالیس برس مگر ایک نظریہ ساز لکھاری کے طور پر اسے بے پناہ وقعت حاصل ہوئی اور اس کے فن اور فکروفلسفہ کے دُور رس اثرات کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔’’ متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں نظر آتی ہے۔’’اجنبی ‘‘ کی طرح کامیو کے ناول ’’ طاعون‘‘ کو بھی عالمی شہرت نصیب ہوئی۔اس کا ڈرامہ ’’ Coligula ‘‘ بھی بہت مشہور ہوا۔جس میں مقاصد کا تصادم دکھایا گیا تھا۔کامیو کی وفات کے بعد اس کے دو ناول منظرِ عام پر آئے ۔ایک تو ’’خوش کُن موت‘‘ تھا جو اس کی وفات کے گیارہ سال بعد شائع ہوا اور دوسرا اس کے نئے ناول کا غیرترمیم شدہ اور نامکمل مسودہ تھاجو’’ Le Premier Homme‘‘ یعنی ’’پہلا آدمی ‘‘کے عنوان سے ۱۹۹۴ء میں اس کی وفات کے ۳۴ سال بعد طبع ہوا۔

’’پہلا آدمی‘‘ میں باپ کی تلاش کے حوالے سے جڑوں کی تلاش یا انسانی وجود کے مبداء کی تلاش کو موضوع بنایاگیاہے، اس سے پہلے آدمی یا آدم کو یا اس بے نسل اور بے تاریخ عام آدمی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے جو بلا مقصد اس دنیا میں آگیا ہے۔خود کامیو کی ذات اس ناول میں کُھل کر سامنے آتی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایک بالکل مختلف ناول ہے اور اسے کامیو کی گزشتہ تحریروں سے نہیں پرکھا جا سکتا البتہ ’’ خوش کُن موت‘‘کا ایک موازنہ ’’اجنبی‘‘ کے ابتدائی خاکے کی تیاری کے طور پر کیا جاسکتا ہے۔’’اجنبی‘‘ ۳۷ ۔ ۱۹۳۶ء کے دوران مکمل ہوا جب کہ ’’خوش کُن موت‘‘ اس سے دو سال قبل لکھا گیا۔اس کی اشاعت بھی اسی لئے عمل میں آئی تاکہ دونوں ناولوں کے فرق سے کامیو کی ذہنی و فکری نشوونماآگاہی حاصل کی جاسکے۔ناقدین کا خیال ہے کہ ’’ خوش کُن موت‘‘ ایک کمزور اور ایک کم تر ناول ہے۔مگر ’’اجنبی‘‘ میں پیش کردہ نظریے کی تفہیم اس کی حیثیت کو تاریخی لحاظ سے ضروری اور اہم بنادیتی ہے۔
15682

ناول پیٹر س مرسو کی کہانی سُناتا ہے۔ورکنگ کلاس کا ایک آدمی جو کہ خوشی کے حصول میں ناکام ہوجاتا ہے۔وہ بے معنی کام کی جدّوجہد میں سارادن گزارتا ہے۔اس کی ملاقات ایک مالدار اپاہج رونالڈ زیگریو سے ہوتی ہے جو مرسو کو بتاتا ہے کہ وہ کبھی دولت کے بغیر خوش نہیں ہو سکتا۔دولت خوشیاں نہیں دیتی مگر یہ وقت خرید سکتی ہے اور وقت خوشیوں کا امکان پیدا کرتا ہے۔مرسو زیگریو کو مار دیتا ہے اور اس کی تمام رقم کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔یہاں سے مرسو خوشیوں کے لئے اپنی تلاش کا آغاز کرتا ہے۔وہ سفر اختیار کرتا ہے لیکن ناکام رہتا ہے۔وہ تین نوجوان عورتوں کے ساتھ رہتا ہے لیکن یہاں بھی ناکامی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔آخرکار وہ تنہائی میں زندگی بسر کرتا ہے۔وہ اپنی خواہش اور اپنے ارادے کو خوشی کے حصول کے لئے وقف کردیتا ہے۔اسے خوشی کے ایک درجے تک رسائی حاصل ہوتی ہے مگر اس کا عرصہ بہت محدود اور مختصر ہوتا ہے۔بالآخر وہ بیمار پڑجاتاہے اوراپنی آنکھوں میں موت کی خوش کُن چمک لئے مرجاتاہے۔

’’اجنبی‘‘ اور ’’خوش کُن موت ‘‘ میں ایک قدر مشترک تو یہ ہے کہ دونوں کے مرکزی کرداروں یاہیروؤں کے ناموں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔’’خوش کُن موت ‘‘کا ہیرو پیٹرس مرسو ہے جب کہ ’’اجنبی‘‘ کا ہیرو اس نام کے پہلے جز کے بغیر ہے یعنی صرف ’’مرسو‘‘ہے۔فضاء کے اعتبار سے دونوں ناولوں کا پہلا حصہ بالکل ایک جیسا ہے۔الجیریا کی ورکنگ کلاس کی روزمرّہ زندگی اور اس کی مخصوص سماجی حدیں۔لیکن ’’خوش کُن موت ‘‘ کا دوسرا حصہ مختلف ہے اور اس میں روز مرّہ کی روایتی اور رسمی زندگی کی تنسیخ دکھائی گئی ہے۔یہاں کامیو خوشیوں میں مفہوم ومعنی تلاش کرتا ہے۔اہمبات یہ ہے کہ اس نے ادبیت یعنی نہیلزم سے بچنے کی کوشش کی ہے۔’’ اجنبی‘‘میں معنویت کی تلاش دکھائی گئی ہے حتّیٰ کہ موت میں بھی اسے ڈھونڈا گیا ہے۔

دونوں ناول قتل کے واقعے سے روبہ عمل آتے ہیں۔یہ بات چھپائے نہیں چھپتی کہ مقصدیت کے فرق کے باوجود یہ دونوں قتل اپنے ارتکاب میں ایک خاص نوع کی بے حسی اور لاتعلقی کے حامل ہیں۔ہیجان انگیزی اس میں کہیں بھی نہیں ہے۔زیگریو کا قتل ایک مقصد رکھتا ہے۔یہ پیٹرس مرسو کی زندگی میں خوشی لانے کی ایک لازمی حالت سے عبارت ہے‘جب کہ مرسو کے ہاتھوں عرب کی موت معنویت کی تلاش کے لئے وضع کردہ کسی منصوبے سے انسلاک نہیں رکھتی اور کسی سمت میں رہنائی مہیّا نہیں کرتی۔قتل خالی الذہنی کی حالت میں اس لئے عمل میں آتا ہے کہ مرسو کو دھوپ چُبھ رہی تھی البتہ یہ قتل مرسو کو اس معنی خیز موت کی طرف لے جاتا ہے۔جو حکومت یا ریاست کے ہاتھوں خود اس کا مقدر بننے والی ہے۔

’’اجنبی‘‘ منظم ساخت کا ایک بہترین ناول ہے جس میں معنویت اور بے معنویت کا طاقتور مقدمہ پیش کیا گیا ہے۔دوسری طرف ’’خوش کُن موت‘‘ کے ایک فائق حصے میں دولت کو ایک مشروط لازمیت کے طور پر دکھایا گیا ہے۔زیگریو کے قتل کے بعد مرسو پہلے پراگ اور پھر ویاناجاتاہے۔حالانکہ اس کے حالات ابتر تھے۔وہ کسمپرسی اور مفلسی کی زندگی گزار رہا تھا۔تو پھر اس نے یہ سفر کیوں کیا۔دراصل اس کی قسمت اچھی تھی۔ زیگریو کی چرائی ہوئی رقم اس کے کام آئی اور اس کے اقدامِ قتل کوزیگریو کی خودکُشی پر محمول کرلیا گیا۔۔۔چند مہینوں کے بعد وہ الجیریا میں ایک شاندار گھر خریدتا ہے، اس گھر سے سمندر کا نظارہ کرتا ہے اور کسی حد تک آسودہ زندگی گزارتا ہے۔اس ناول میں زیگریو کے قتل کے داخلی حصے میں ایک الجھاؤ ہے۔

ایسے لگتا ہے کہ زیگریو نے خود ہی مرسو کو اپنے قتل کی تجویز دی تھی تاکہ مرسو ان سب خوشیوں سے لُطف اندوز ہولے۔جنہیں وہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔لیکن زیگریو کی یہ سوچ انسانی فکر کے منافی ہے۔اور مرسو کی سوچ بھی کہ وہ ڈرامائی طور پر اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور صریحاً اور خالصتاً لالچ کی بنیاد پر زیگریو کو قتل کر دیتا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالے سے کامیو کی تحریر مبہم ہے۔البتہ اس سفر میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ویانا جانے کے بعد مرسو کوخیال آتا ہے کہ اس نے ایک بار بھی زیگریو کے بارے میں نہیں سوچا،وہی زیگریوجسے اس نے قتل کردیا تھا۔اس پر فراموشی کی قوت طاری رہی۔حیرت ہوتی ہے کہ کامیو نے مرسو کی زبانی اس قوت کو معصومیت سے موسوم کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ قوت صرف بچوں میں ہوتی ہے یا مفکروں میں یاپھر بہت ہی معصوم لوگوں میں۔مرسو اپنی اس قوت کا احساس کر کے خوش ہوتا ہے۔گویا زیگریو کے قتل کا ذرا سا ملال بھی اس کے دل پر نہیں تھا۔’’اجنبی ‘‘ میں عرب کے قتل میں بھی مرسو کا ارادہ یا اختیار کارفرما نہیں تھا گویا اس کی جبّلت نے میکانکی طور پر اسے قتل کی راہ سُجھائے تھی۔یاد کیجئے کہ ’’اجنبی‘‘پر لکھتے ہوئے محمد حسن عسکری نے بیگانگی یا بہ الفاظِ دیگر ہوا پرستی اور لامعقولیت کے اس رویّے پر کس قدر بھرپُور تنقید کی تھی۔

’’ کامیو کے اس ناول میں انسان مشین بن چُکا ہے۔اب نہ تو اس کی عقل کام کرتی ہے نہ جذبات ۔ البتہ انسانیت کی آخری نشانی جبّلت رہ گئی ہے اور وہ بھی میکانکی طور پر عمل کرتی ہے۔جس میں نہ تو انسانی ارادے کو دخل ہے نہ اختیار کو۔ناول کے مرکزی کردار سے ایک قتل سرزد ہوجاتاہے کیوں کہ دھوپ تیز ہے اور اس کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔یہ شخص ہزار اجنبی اور بیگانہ سہی لیکن دوسرے انسانوں کے درمیان رہنے پر مجبور ہے۔یہ لوگ بھی اپنی میکانکی عادتوں کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہیں جنھیں معاشرتی،اخلاقی یا انسانی اقدار کہتے ہیں لہٰذاقاتل کو جیل میں ڈال دیتے ہیں ۔قاتل مشین تو بن چکا ہے لیکن مرنے کو راضی نہیں ۔چھپکلی بھاگ گئی ، کٹی ہوئی دُم ابھی پھڑک رہی ہے۔صدیوں کے انسانی ترکے میں سے چند تصورات ابھی باقی ہیں جو قتل کرتے وقت اسے یاد نہیں آئے تھے۔لیکن اپنے اوپر مصیبت پڑی تواس کی کھوپڑی میں کلبلانے لگے۔۔۔مثلاً عقل ، جذبہ ، عدل۔جیل کی کوٹھڑی میں اس پر یہ تجلّی ہوتی ہے کہ زندگی اور کائنات نہ تو عقل کو تسکین دیتی ہے نہ جذبے کو۔خصوصاً انسانی تمناؤں کو تو ذرا بھی پورا نہیں کرتی، لہٰذا کائنات عبث اور باطل ہے‘‘۔
کامیو کے اس فلسفے کی جھلک ’’خوش کُن موت‘‘میں بھی دکھائی دیتی ہے۔’’اجنبی‘‘اور ’’خوش کُن موت‘‘کے دونوں ہیروؤں کی بہت سی عادات اور رویّے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ’’اجنبی‘‘میں مرسو نے ماں کی تجہیزوتکفین پر آنسو نہیں بہائے تھے اور یُوں اس نے معاشرتی سطح پر انحراف اور لاتعلقی کا مظاہرہ کیا تھا۔یہی صورت ’’خوش کُن موت‘‘میں بھی نظر آتی ہے۔پیٹرس مرسو نے اپنی ماں کے جنازے میں بغیر کسی غم کے جذبے کے بہترین لباس زیب تن کیا تھا۔کفن دفن کے وقت بھی وہ پُرسکون رہا البتہ جنازے میں وہ لوگوں کی بہت کم شرکت پر تعجب کا اظہار ضرور کرتا رہا۔دونوں ناولوں میں محبوبہ سے محبت کے واضح اظہار اور اسے تسلیم کرنے کے معاملے میں بھی کامیو کے خیالات یکساں ہیں ۔ ’’خوش کُن موت‘‘میں کامیو کا تعلق پانچ مختلف عورتوں سے دکھایا گیا ہے۔مارتھا، روز، کیلری ،کیتھرین اور لُوسی۔یہ پانچوں کی پانچوں عورتیں نامکمل اور غیر تسّلی بخش کردار ہیں ۔مارتھا کے ساتھ مرسو کاجنسی تعلق کسی حد تک واضح ہے۔

لیکن مرسو ہر وقت شہوانی دباؤ کی زد پر بھی نہیں رہتا ۔اس حوالے سے پتہ بھی نہیں چلتا کہ قتل سے پہلے کے دَور میں مرسو کا باقی چار عورتوں سے لُطف کا کیا رشتہ تھا۔ناول میں فنی سطح پر اس طرح کے مسائل موجود ہیں ۔فلسفیانہ سطح پر دیکھیں تو کامیو نطشے کے فلسفے سے گہرائی کے ساتھ متاثر تھا۔غور کیجئے تو مرسو نے زیگریو کے دلائل کو تسلیم کر لیا تھا کہ دولت خوشی خرید سکتی ہے‘ ان معنوں میں کہ وہ وقت پر تصرف حاصل کرلیتی ہے اور یہی وقت خوشی کا میش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔یُوں لگتا ہے کہ یہ تھیم کامیو نے شعوری طور پر چُنا تھا۔اس بیان کے تضاد میں کہ دولت خوشی نہیں خرید سکتی۔اس ناول کی اہم بات یہ ہے کہ پیٹرس مرسو بذاتِ خود اس خواہش یا اس ارادے سے معانقہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو خوشی کی طرف جاتا ہے۔کامیو خوشی کی مخصوص یا حاصل شدہ کیفیتوں اور حالتوں کی بات نہیں کر رہا۔اس کا خیال ہے کہ عورت، آرٹ اور کامیابی محض ترغیبات ، پھندے اور جال ہیں۔اصل چیز وہ خواہش اور وہ ارادہ ہے جو انسان کو خوشی کی طرف لے جاتا ہے۔نطشے نے Will To Powerکا فلسفہ دیا تھا۔کامیو نے اسی تناظر میں ’’اجنبی ‘‘ میں Will To Meaningfulness کانکتہ پیش کیا جب کہ ’’خوش کُن موت‘‘میں وہ Will To Happiness کی بات کررہا ہے۔مرسو کی یہ گفتگو سُنیے جس کا تخاطب کیتھرین کی طرف ہے:

’’تم یہ سوچنے میں غلطی پر ہو کہ تمہیں انتخاب کرنا ہے۔تمہیں وہ کرنا ہے جوتم کرنا چاہتی ہو۔اور یہ کہ خوشی کی کوئی شرطیں ہوتی ہیں۔جو بات اہم ہے، وہ یہ ہے کہ خوش رہنے کی خواہش ہونی چاہئے۔ہر وقت شعوری طور پر خوشی کی تلاش۔باقی سب باتیں مثلاً عورت، فن اور کامیابی کچھ بھی نہیں سوائے بہانے کے زندگی ایک کینوس ہے جو ہمارے نقش ونگار کی منتظر ہے۔میرے لئے جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ خوشی کا بھی ایک معیار ہونا چاہیئے۔میں یہ خوشی صرف ایک جدوجہد کے بعد حاصل کرسکتا ہوں۔یہ سوال کہ کیا میں خوش ہوں اس کا جواب میرے پاس یہ ہے کہ اگر مجھے اپنی زندگی دوبارہ گزارنی ہو یا اس کا موقع ملے تو میں اپنی دوسری زندگی بالکل اسی طرح گزاروں گاجیسے اب تک کی گزری ہے‘‘۔

غور کیجئے تو کامیو کا یہ ناول ’نطشین تھیم ‘کے زیرِاثر اپنی ایک فکر پیش کرتا ہے۔موت تک ، خوشی کی طرف ایک جدوجہد۔جس طرح شادی اور کامیابی کی مبارک باد وصول کی جاتی ہے، کیا اسی طرح موت کی مبارک باد وصول کی جا سکتی ہے؟کیا ایک خوش کُن موت ممکن ہے؟یہی اس ناول کا مرکزی خیال ہے اور یہی وہ سوال ہے جس کا جواب اس ناول میں فراہم کیا گیا ہے۔کامیو کے کردار پیٹرس مرسو نے خوشی کی تلاش کے لئے تنہائی کاتجربہ کیا، مجلسی زندگی گزاری۔جوگی بن کر سفر میں مبتلا رہا۔بالآخر اس نے اپنے طور پر خوشی کو پا لیا حتّیٰ کہ اپنی موت میں بھی اسے برقرار رکھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’خوش کُن موت‘‘ ایک کمزور ناول ہے مگر اس کی یہ حیثیت کیاکم ہے اس کا مواد مسالہ’’اجنبی‘‘کی تعمیروتشکیل میں بھی استعمال ہوا۔

کامیو کا یہ ناول فرانسیسی زبان میں طبع ہواتھا۔جس کا انگریزی ترجمہ مغرب کی دنیا کے ایک اہم مترجم رچرڈ ہارورڈ نے کیا۔ڈاکٹر فریداللہ صدیقی نے اسی انگریزی ترجمے کو اُردو میں ’’موت کی خوشی‘‘کے عنوان سے منتقلکیا ہے۔مگر یہ ترجمہ عنوان سے لے کر آخری صفحے تک متعدد غلطیوں سے بھرا ہوا ہے۔