بغاوت : نئی جنسی تاریخ کی ابتدا

اعظم کمال

بغاوت

افسانہ از، اعظم کمال

بستر کی سلوٹیں ابھی تک موجود تھیں۔ سارہ (جو کہ کل رات تک مدھو کے پہلو میں جنسی تابع فرمانی کے مروجہ اصولوں اور قواعد کے مطابق رہی تھی) کی چال میں ایک بے مروتی تھی۔ مدھو جو ابھی تک رات والے سُرور میں تھا، نے تقریباً بند آنکھوں سے سارہ کو دیکھا۔

کچھ دیر  کے بعد ماڈرن لباس میں ملبوس سارہ اُس کے پاس آئی اور جانے کی اجازت مانگی۔

“کدھر جا رہی ہو؟”

“کدھر جارہی ہوں؟ تمہیں معلوم نہیں کہ آج 8 مارچ ہے۔ آج کے دن عورت تاریخ کے جبر اور جنسی تجربے کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔

مدھو نے بند آنکھوں  سے کہاـــــــــ اچھا! جاؤ! شام کو واپس جلدی آ جانا۔ ڈنر پر جانا ہے۔

رات کو دس بجے سارہ واپس لوٹتی ہے۔ مدھو اُس کا انتطار کر رہا ہوتا ہے۔ سارہ مدھو کو بستر پر لِٹاتی ہے۔ اپنے کپڑے اتارتے ہوئے وہ مدھو کو کہتی ہے: “آج میں نئی جنسی تاریخ کی ابتدا کر رہی ہوں۔”

مدھو ابھی اس کی بات کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا  کہ سارہ نے اس کو اپنے پورے زور سے کَس لیا۔ مدھو اس شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی تدبیر کر رہا تھا کہ ایک عجیب بات ہوئی۔

سارہ نے جنسی اشتہا کے لیے نہ تو مدھو کے ہونٹوں اور نہ ہی اس کے عُضوِ تناسل کی طرف رجوع کیا (صدیوں سے عورت کی جنسیت، خاص کر کے اس کی جنسی اشتہا کا مِحور و مرکز مرد کا عُضوِ تناسل ہی رہا ہے اور غالباً مرد کے عضوِ تناسل کا عورت کے جنسی اشتہا کا مرکز و سبب ہونا ہی مرد کو سیکس اور اس کی مختلف جہتوں میں ایک بر تری فراہم کرتا تھا۔)

مگر آج سارہ نے جو اس وقت تک جنسی طور پر چارج ہو چکی تھی، (اور مدھو اس بات کا اندازہ اس کی سانسوں کے ہیجان پر اس کے چہرے کی سلوٹوں اور آنکھوں کی سُرخیت سے لگا سکتا تھا) اپنی جنسی اشتہا کے لیے، سیکس کی روایت (اور معاہدہ جو صدیوں سے مردوں اور عورتوں کے درمیان رائج رہا ہے کہ عورت کی جنسی اشتہا کا مرکز مرد کا عضوِ تناسل ہو گا) سے ہٹ کر مدھو کی “پیشانی” کا استعمال کیا۔

مدھو کو سارہ کا یہ عمل جنسی تاریخ (ہمارا جسم، جنس اور جنسی تجربات تاریخ کے مرہونِ منت ہی تو ہیں) اگر آج (جس وقت وہ یہ بات سوچ رہا تھا) کسی بھی جنسی ایکٹ کی ابتدا لبوں کے بوسے سے ہو یا عورت اپنی جنسی اشتہا کی ابتدا اور دوام کے لیے مرد کے عضوِ تناسل کے ذریعے کرے تو یہ ایک مرد یا عورت کا انفرادی عمل نہیں ہے بَل کہ اس کے پیچھے صدیوں کی ایک تاریخ ہے) سے بے حرمتی لگا۔ اور اُس کو اس بات پر شدید غصہ آیا اور اُس کا پورا جسم اور اس کا عضوِ تناسل سارہ کی اس بے حرمتی، اس تاریخی رُو گردانی کے خلاف بغاوت میں اپنے اندر سمٹ گئے۔ سارہ نے لاکھ کوشش کی مگر مدھو کا جسم اور اس کا عضوِ تناسل اپنے آپ تک سکڑتے رہے۔  

سارہ کو بہ جائے اس کے کہ اپنی بے حرمتی کا احساس ہوتا، مدھو پر شدید غصہ اور گِھن آئی۔ اُس نے اپنی پوری توانائی کے ساتھ اس کو پیٹنا شروع کر دیا اور زور زور سے اُس پر چلّانے لگی، “سُور کی اولاد! تمہاری ماں صحیح کہتی تھی تم اپنے باپ کی نس ہو ڈنگر اور خود غرض۔” یہ کہتے ہوئے سارہ نے اس کے مُنھ پر تھوکا اور تقریباً بھاگتی ہوئی اس سے دور چلی گئی۔

مدھو غصے کے عالم میں کانپ رہا تھا اور اس کے مُنھ سے جھاگ بہہ رہی تھی۔ اسے لگا کہ سارہ کی بے حرمتی نے اس (اور تمام مردوں) کی “وجودی مرکزیت” کو چھین لیا۔ وہ اس وقت تک جان چکا تھا کہ عورت نے جنسی بغاوت کی ابتدا کر دی ہے۔ مگر اسے اس بغاوت کی سمت اور شدت  کا ادراک ابھی تک نہیں ہوا تھا۔

ادھر سارہ ہانپتی کانپتی، احتجاج  کرتی عورتوں کے پاس پہنچی اور تقریباً چیختے ہوئے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا: “تم میں سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مردوں میں سے کچھ مرد ہمارے جسم اور جنسیت کی الگ اور منفرد شناخت کو تسلیم کرتے ہیں وہ یہ سمجھ لے کہ تمام مرد ہماری جنسیت کی انفرادیت کے خلاف متحد ہیں۔ ہم سب نے مدھو کی تحریریں پڑھی ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں ہماری الگ جنسی شناخت اور ان کے متعدد مظاہر کا حامی ہے، لیکن بستر میں اگر کوئی عورت اپنی جنسی اشتہا کے لیے اس کے عضوِ تناسل کے علاوہ کسی حصے کا انتخاب کرے گی تو وہ بالکل دوسرے مردوں کی طرح ردِ عمل دے گا۔ وہ بھی دوسرے مردوں کی طرح ایک جنسی بونا ہی نکلا۔”

عورتو! ہمارے جنسی اشتہا کی مرکزیت کے خلاف کوئی بھی فعل نہ صرف مرد کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے، بَل کہ یہ تاریخ کے خلاف بھی بغاوت ہے۔ اور اس کے لیے ہمیں (ہم میں سے ہر ایک کو ) قربانی دینا ہو گی۔ چاہے وہ ہماری جنسی اشتہا کی قربانی کیوں نہ ہو۔

زلیخا (وہ مدھو کی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے) ہمارا جنسی طور پر (اشتہا اور آرگیزم کے لیے) مرد میں مرکوز ہونا کسی سیاسی ادتیا، معاشی انحصاری یا مذہبی حکم کے تابع نہیں ہے، بَل کہ اس لیے ہے کہ ہم نے اپنے دوسرے پن (otherness) کا صحیح جنسی تجزیہ نہیں کیا ہے! یہی ہماری سب سے بڑی بُھول تھی اور اس کا مرد نے فائدہ اٹھایا ہے۔

زلیخا (جو ان میں سب سے بوڑھی تھی اور سب سے زیادہ تجربہ کار تھی) کہنے لگی، “دیکھو جب تک تم ان کو اپنے جنسی اشتہا کی مرکزیت سے محروم نہیں کر دیتی تم جنسی طور پر خود مختار نہیں ہو سکتی لیکن یہ مکمل جنسی خود مختاری کی طرف صرف پہلا قدم ہو گا۔

عورتو! (زلیخا پورے جوش سے خطاب کر رہی تھی) سیکس کے دوران سب سے اہم عمل آرگیزم کا ہے اور تم جانتی ہو سیکس کے دوران مرد اپنے آرگیزم کا بھر پُور اظہار کرتا ہے۔ آرگیزم کے اس اظہار نے سیکس میں مرد کو ایک نا قابل شکست بر تری دی ہوئی ہے اور جب تک ہم اس کے آرگیزم کی مرکزیت اور واحدانیت کو ختم نہیں کرتے، سیکس کے عمل میں بہ طور ایک جنسی نمائندہ کے ہم ہمیشہ مرد کے تابع رہیں گی۔

کچھ لمحوں کے توقف کے بعد زلیخا پھر گویا ہوئی! دنیا کی تمام عورتو! (یہ ایک عجیب سی بات ہو گی لیکن اس وقت جب زلیخا مرد کی جنسی حاکمیت اور انانیت کے خلاف تحریک کا بنیادی منشور بیان کر رہی تھی۔

دنیا کی تمام عورتیں احتجاج کی حالت میں تھیں اور اسے سن رہی تھیں۔ عورتوں کی بغاوت اور اُن کا مرد کے خلاف احتجاج زمان و مکاں کی تمام قیود سے بالا تھا) ہمیں مرد کی جنسی حاکمیت اور انانیت کے خلاف متعدد محاذوں پر کام کرنا ہو گا۔ اور میں اپنے تجربے کی بنیاد پر درجِ ذیل باتوں کی نشان دہی کرتی ہوں (جیسے جیسے زلیخا مختلف امور کی نشان دہی کر رہی تھی تمام عورتیں مِن و عَن اس کو نافذ کرتی جا رہی تھیں۔)

مرد نے تاریخی طور پر ہماری عمر، خوب صورتی، رنگ اور جسم کی بناوٹ پر ہمارا (عورتوں کی اکثریت) کا استحصال کیا ہے۔ یعنی مرد نے ہمیشہ نا قابلِ بیان حد تک کم تعداد میں کم عمر، خوب صورت اور جسمانی اعتبار سے اچھی اٹھان والی عورتوں کو جنسی عمل کے مرکزی تجربے میں شریک کیا اور لا تعداد عورتوں کو جنسی کم تری سے دو چار کیا ہے۔ اس استحصال کا سر چشمہ کیوں کہ ہم خود عورتیں ہیں اس لیے آج سے ہم سب عورتیں ہم عمر ہوں گی اور ہماری جنسی اٹھان بھی ایک جیسی ہو گی (کچھ بحث مباحثہ کے بعد عمر 30سال اور قد 5 فٹ  9 انچ مقرر ہوا۔)

(جُوں ہی زلیخا نے اپنی بات مکمل کی اور اپنا گلا سہلانے لگی، تمام عورتیں خود بہ خود اپنی آفاقی مرضی کے تابع ہم عمر اور ہم شکل ہو گئیں، زلیخا جو 70 سال کی تھی اور سارہ جو 25 سال کی تھی اب دونوں 30 سال کی، بالکل ایک شکل کی ہو گئیں۔)

جب تک ہمارا جنسی تجربہ اور آرگیزم انفرادی رہے گا ہم خود ایک دوسرے کے خلاف جنسی حسد کا شکار رہیں گی اور مرد ہمارے ہم عمر اور ہم شکل ہونے کے با وجود ہمارے جنسی حسد کی بنیاد پر ہمارا استحصال کرتا رہے گا۔ اس لیے آج سے ہم میں سے ہر ایک جنسی تجربے اور آرگیزم کی نوعیت اجتماعی ہو گی۔ یعنی آج سے ہر عورت ہر دوسری عورت کے جنسی تجربے، اس کی دل فریبی اور سکون میں برابر کی شریک ہو گی (اس اعلان کے ساتھ تمام دنیا کی عورتیں ایک ایسے جنسی حوالے میں پِرو دی گئیں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی شریکِ کار بھی تھی اور معاون بھی۔) اس کے بعد تمام عورتوں نے اپنے آپ کو بے لباس کیا۔

عین اس وقت جب باہر سڑک پر عورتوں نے مرد کی جنسی بَر تَری کے خلاف ایکا کر لیا تھا، مدھو ایک مخمصے سے دو چار تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سارہ کو ریجیکٹ کر کے مرد کے عورت کے خلاف جنسی استحصال اور جنسی مرکزیت کو تقویت دی تھی اور یہ احساس اس کے لیے جان لیوا تھا وہ اس کے لیے ہر طرح کا کفارہ ادا کرنے کو تیار تھا۔

ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ نیچے جائے اور سارہ سے اپنے کیے کی معافی مانگے کہ دس بے لباس عورتیں اوپری منزل پر آ گئیں (کیوں کہ وہ تمام ہم عمر اور ہم شکل تھیں تو مدھو اس بات کا اندازہ نہ لگا سکا کہ ان میں سے سارہ کون ہے؟) ان تمام نے مل کر مدھو کو بے لباس کیا اور پھر ان میں سے ایک اس کے ساتھ ہم بستر ہوئی۔

مدھو کو معلوم تھا کہ اُس کمرے میں سب عورتوں کے ساتھ دنیا کی تمام عورتیں اس وقت اس کے ساتھ جنسی عمل میں شریک ہیں۔ عورتوں کی اس جنسی ایکتا نے اس قدر سرشار کیا کہ وہ اپنا آرگیزم بھول گیا۔ کچھ لمحوں بعد تمام عورتیں ایک ہی وقت میں وہاں سے چلی گئیں اور مدھو جو کہ عورتوں کے جنسی ایکتا کی سرشاری میں بد مست ہو چکا تھا، کو یقین ہو گیا تھا کہ اس کے ساتھ دنیا کے تمام مرد جنسی طور پر بانجھ ہو چکے ہیں اور عورت تاریخ کے جبر سے آزاد ہو چکی ہے۔