سماجی علوم کے سائنس ہونے کے دعویٰ کا محاکمہ

علم معاشیات ایک مثال

author picture
ڈاکٹرعامر سعید

(پروفیسرعامر سعید)

سماجی علوم(social sciences) کی آفاقیت کے دعویٰ کے حوالے سے ایک تحقیقی مضمون (سوشل سائنسز کی آفاقیت: حقیقت یا سراب) راقم نے کچھ عرصہ پہلےaikrozan.com پر شائع کیا تھا، اس کو عمومی طور پرسنجیدہ علمی حلقوں میں سراہا گیا اور اُسے سماجی علوم کی اصل حقیقت کو تاریخی تناظر میں سمجھنے کی ایک مؤثر کوشش تسلیم کیا گیا۔ تاہم چند اہلِ علم کی طرف سےاس مضمون کے مندرجات کو تسلیم کرنے کے باوجوداصرار کیا گیا کہ سائنس ہی دنیا میں پائے جانے والے مسائل کا واحد حل ہے اور یہ کہ سماجی علوم کو پڑھنے اور تحقیق کرنے کے لئے وہی طریقے اپنائے جانے چاہیں جو قدرتی علوم جیسے فزکس، کیمسٹری، بیالوجی وغیرہ میں استعمال ہوتے ہیں۔
سو سالہ غلامی نے ہمارے بہت سے معاملات خلط ملط کردئے ہیں جن میں سب سے زیادہ اثرہمارے تشخص پر ہوا ہے۔ ہم کون ہیں ؟ ہمارے غلط اور صحیح کے پیمانے کیا ہیں؟ ہمارے مقاصد اور ترجیحات کیا ہیں؟ اس ذہنی الجھن نے ہمارے لئے بہت سے مسائل پیدا کردیے ہیں ۔ ہم اپنی سوچ اور فکر کے بارے میں بھی واضح نہیں کہ جو خیالات ہمارےموجودہ دور میں ہیں وہ کیااصل میں ہمارے ہی ہیں یا ان میں ہمارے آقاؤں کے دیے افکار درآئے ہیں۔ غلامانہ ذہنیت (جس میں آپ اپنے آقاؤں کی طرف سے دیے گئے اور نافذ کردہ علم کو حتمی اور بہتر گردانتے ہیں) کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے وہ آقاؤں کی طرف سے دی گئی سوچ کی غلام ہوتی ہے اور وہ غلامی پر نہ صرف راضی ہوتی ہے بلکہ اُس دی گئی سوچ کا دفاع بھی کرتی ہے۔ اس کا بس ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ آقاؤں کی زبانی اُس سوچ کے کمزور ہونے کا بیان ان تک پہنچایا جائے۔ ذیل میں جولی اے نیلسن جو کہ معاشیات کی پروفیسر،یونیورسٹی آف میسی چیوسٹس بوسٹن میں ڈیپارٹمنٹل چیئراور ٹفٹس یونیورسٹی کے ڈیویلپمنٹ اور اینوائرنمینٹل انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں کے ایک حالیہ شائع شدہ مضمون کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اصحابِ علم خود دیکھ لیں کہ دنیا کو سنوارنے کے دعوے دار قوم کے اپنے افراد اپنی ملکی اور عالمی پالیسیوں کے پیچھے پائے جانے والے علمِ معاشیات کے بارے میں کیا رائے دے رہے ہیں اور کس طرح اُس کے طریقوں، مفروضوں اور علم کی کمزوریاں بیان کررہے ہیں۔
ان کے مطابق علم معاشیات سائنس ہے ہی نہیں بس اُس پر زبردستی سائنس کا لبادہ اوڑھا کر اور سائنسی طریقے ٹھونس کر اُسے سائنس بنا دیا گیا ہے۔ یہی باتیں اگر کوئی دیسی محقق کہتا ہے تو اُسے کم علم، غیر ترقی یافتہ، دقیانوسی، موجودہ روایات سے نا آشنا اور جانے کیا کیا کہا جاتا ہے ۔ حالانکہ ایسی صورت میں طعنہ دینے والوں کا اپنے معاملات کی طرف نظر کرناایک صائب بات ہوگی۔ اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اگر قارئین راقم کا وہ مضمون بھی پڑھ لیں جس کا حوالہ بالائی سطروں میں دیا گیا ہے اور جو ایک روزن میں دو اقساط میں چھپا ہے اور ‘مطالعہ خاص’ کی سرخی کے تحت ویب سائٹ پر موجود ہے، تو وہ اُس تاریخی تناظر سے بھی مطلع ہوجائیں گے کہ جس کے تحت سماجی علوم کو سائنس کا لبادہ اوڑھایا گیا۔ لیجئے اب پروفیسر جولی کے مضمون کو پڑھیے۔

علمِ معاشیات ایک بہروپی سائنس ہے

زیادہ ترماہرینِ معاشیات علم معاشیات کو انسانی معاشرے کے ایک پہلو کو سمجھنے کا ایک علم سمجھنے کے بجائے اُسے فزکس کی طرح کاایک علم تصور کرتے ہیں۔ اس میں ہم مارکیٹ، قومی و عالمی تصورات و مظاہر کی تعاریف بظاہرآفاقی ‘اصولوں’، ‘قوانین’ اور’ قوتوں’ کی طرز پر کرتے ہیں۔ہم سخت ریاضیاتی ہونے اور معمول کی زندگی کے مسائل سے ہٹ کرتحقیق کرنے کو مقصدیت اور سخت معیار تصور کرتے ہیں۔ ہمارے خیال کے مطابق سماجی تحقیق ماہرینِ سماجیات کا کام ہے۔ معمول کی زندگی کے مسائل پر غور کرنا فلسفیوں کا کام ہے۔ اس وجہ سے معاشی تحقیق میں اخلاقیات کے دخول پر بحث انتہائی ناگزیر ہے۔
“اخلاقیات ہمارا مسئلہ نہیں ” کی عمارت میں ایک چھوٹی سی دراڑ2008 کے مالی بحران کے دوران آئی۔مثلاًمیڈیا کی خبروں اور ‘ان سائڈ جاب’ فلم نے معاشی تحقیق کے کئی کیسز کی نشاندہی کی جن میں تحقیق سرمایہ دار کے مفادات کو مدنظر رکھ کرکی گئی تھی۔ جب ان معاملات پر تھوڑا سا ہی غور کیا گیا تو اس سے توجہ پیسوں کے ذرائع کو سامنے لانے پر ہوگئی۔ اس سے بھی بڑے اخلاقی مسائل کو زیرِ غور لانا ابھی باقی ہے۔

پہلا اور سب سے اہم مسئلہ یہ کہ کس طرح یہ چند بنیادی معاشی قوانین تعلیمی اور عوامی بحث میں داخل ہوئے اور بعد میں بہت زیادہ نقصان کا باعث بنے۔ ماہرینِ معاشیات کیطرف سے آنے والے ان نظریات نے اس کنویں میں زہر گھول دیا ہے جس سے ہم اپنے ذاتی، اداراتی اور ملکی کردار اخذ کرتے ہیں۔ یہ دنیا میں انسانی زندگی پر تباہ کُن دور رس اثرات ڈال رہے ہیں۔ میرا دوسرا تنقیدی نقطہ جو معاشیات کا ایک اندرونی معاملہ ہے ، ہماری ‘سائنس’ کا بہروپی ہونا ہے۔

کنویں میں زہر گھولنا

معاشیات کا پہلا کورس101 یہ تعلیم دیتا ہے کہ لوگوں کو اعمال عقلی اور ذاتی مفاد کے تابع ہوتے ہیں، یہ کہ کاروباری اداروں کا اولین مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے، اور قومی پالیسی کی کامیابی کا اصل مظہر بڑھتا ہوا فی کس GDP ہے۔یہ تعلیمات بڑی حد تک ہمارے مختلف معاملات اور فیصلوں کی بنیاد بن گئی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ،حالانکہ شروع میں یہ نظریات زندگی کے حقایق کو بیان کرنے کے لئے ہی وضع کئے گئے تھے، تاہم اب وہ بڑے پیمانے پہ لوگوں کے کردار اور اداروں کے ڈھانچوں کی تشکیل کررہے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک تحقیق کے مطابق، معاشیات کا 101 کورس لوگوں میں مفاد پرستی اُبھارتا ہے۔ معاشی انسان کا ماڈل جو اُسے مفاد پرست، عقلی، آزاد ، اپنے مفاد میں ہردم گرداں بتاتا ہےوہ’پہلی پوزیشن کی تلاش’ کومعاشی زندگی کا بہت معقول- بلکہ واحد معقول- رویہ دکھاتا ہے۔ میں معاشیات کی کلاس میں بچوں کے اخلاق سے مبرامفاد پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتی ہوں جو اس دلیل پہ مبنی ہے کہ اگر اُس نے حالات سے فائدہ نہ اُٹھایا تو کوئی دوسرا اُٹھا لے گا۔وہ ایسا کرتے ہوئے بالکل شرمندہ بھی نہیں ہوتے کیونکہ وہ اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ دنیا تو بس ایسے ہی چلتی ہےاور اسکے برعکس رویہ رکھنا حماقت ہے۔
‘کاروبارکا اصل کام منافع کوزیادہ سے بھی زیادہ بڑھانا ہے ‘ کی کہانی اس سے بھی زیادہ ہمارے عقلی کنویں میں سرایت کرچکی ہےجس سے، بظاہر ، ہم سب اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ یقیناً ہم یہاں ملٹن فرائڈمین کے مشہور مقولے کوبھی موجود پاتے ہیں کہ’ہمارے آزاد معاشرے کو اس سے کم ہی کوئی چیز نقصان پہنچاسکتی ہے کہ ہمارا کاروباری شخص سماجی ذمہ داری کو نبھانے کے بجائےاپنے کھاتہ داروں (shareholders)کے لئے ہر ممکنہ حد تک منافع کمانے میں جت جائے” ۔ یہ نظریہ کہ مالی منافع کمانا ہی کاروبار کاواحد مقصد ہے اب نہ صرف کاروباری اور عام میڈیا میں ہر وقت دہرایا جاتاہے بلکہ معاشیات اور مینیجیمنٹ میں ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ میں CEO اور عام ملازمین کی تنخواہوں میں بڑھتے ہوئے فرق کی بنیاد وہ معاشی تھیوری ہے کہ CEO کو مالی ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ وہ کھاتہ داروں کے مالی مفادات کا بہتر تحفظ کرسکے۔

تاہم نقصان کی انتہا یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ کاروباری ظلم اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی تفریق کے کئی نقاد بھی کاروبار سے متعلقہ معاشیات کے بنائے اصولوں کو رہنما سمجھتے ہیں۔ بدھ مت کے حوالے سے انصاف اور جاری رہنے والی ترقی کی اخلاقیات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈیوڈ لائے کہتا ہے “کاروباری ادارے قانونی طور پر اس طرز پرقائم کئے جاتے ہیں کہ ان کی بنیادی ذمہ داری ملازمین، گاہک، معاشرے کے دوسرے افراد، اور ارضی ماحول نہیں بلکہ اپنے مالکین کی طرف ہے، جن کا بنیادی مطمع نظر چند استثناؤں کے علاوہ کاروبار میں لگائے گئے پیسوں پر منافع کمانا ہی ہوتا ہے”۔ نتیجتاً متبادل معاشیات کے حوالے سے اکثر نظریات غیر حقیقی) (utopianیا اشتراکیت پر مبنی ہوتے ہیں جو عملی طور پر قابلِ عمل نہیں ہوتے۔
دائیں اور بائیں ، دونوں مکاتبِ فکرسے یہ پیغام سننے کو ملتا ہے کہ کاروبار فطرتی طور پر اخلاقیات اور اصولوں سے عاری معاملہ ہے۔اور یہ زہر کاروباری میدان سے ماورا بھی پھیلتا جاتا ہے۔مثلاًایک حالیہ مضمو ن کے مطابق “چاہیں ہم پسند کریں یا نہ، کالج اور یونیورسٹیاں کاروبار ہیں۔ وہ گاہکوں کو تعلیم بیچتے ہیں۔۔۔جہاں منافع پسند کاروبار اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتے ہیں وہاں غیر منافع پسند یونیورسٹیاں اپنے چندے اور آمدنی کو بڑھاتے ہیں۔۔۔”زہر ملکوں کے متعلقہ معاملات تک پھیل چکا ہے: اس معاشی اصول کہ وہی عمل کئے جائیں جو اپنی ذات کے لئے فائدہ مند ہوں، کو ملکی معاملات پر لاگو کرتے ہوئے، پوسنر اورویسباچ کہتے ہیں کہ عالمی ماحولیاتی’انصاف’غریب قوموں کو بھی لپیٹ میں لے لے گا، جو اس کے اثرات پہلےہی محسوس کررہے ہیں، چنانچہ وہ امیر قوموں کو پیسے دے رہے ہیں تاکہ وہ ماحولیات دوست اعمال کرنے کے نتیجے میں ہونے والے جی ڈی پی کے خسارے سے نپٹنے کے لئے انکی امداد کریں۔

یہ محدود، عملی طور پر ناکارہ اور اخلاقی طور پر دیوالیہ دعوے ،ہر ایسے شخص جو تھوڑی سی بھی سماجی سمجھ اور انسانیت کا خیال رکھتا ہو ، کومضحکہ خیر لگتے ہیں اور لگیں گے۔ لیکن اگر آپ اخلاقیات کو کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھ بھی دیں تب بھی معاشیات کے بنیادی اصول تصورِ دنیاکے عملی اور حسی تقاضوں پر پورا نہیں اُتر سکتے۔ ایک سنجیدہ اورماحول کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ایک معاشی نظام کوبہتر انداز میں کام کرنے کےلیے اخلاقیات، باہمی اعتماد اور دوسروں کا خیال رکھنے والے رویہ کی بہت ضرورت ہے۔ ایک موقع پرست، ذاتی مفاد پر مرتکز رویہ ایک مارکیٹ کے نظام کو صحیح انداز میں چلائے گا نہیں بلکہ اُسے تباہ کردے گا۔

اگر اداراتی سطح کی بات کریں تو زبان زدِ عام مقولہ کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانا کاروباری اصولوں اور دوسری قانونی و معاشی ضروریات کے مطابق ہے، دراصل جھوٹ ہے (سٹاؤٹ،2012)۔ جب اداروں کے قائدین بظاہر کچھ بڑھاتے نظر آئیں، تو عملی طور پر کھاتہ داروں کے لئے منافع عام حالات میں انکا مقصود نہیں ہوتا۔ ذاتی دولت یا/اور اُس کی بڑھوتی، بس بڑھوتی کے لئے، ایسے مقاصد ہیں جنہیں مفاد پرستانہ مقاصد کے تناظر میں فوقیت ملتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کہانی کاروبار کے دوسرے مثبت سماجی مقاصد کوبھی دھندلا دیتی ہے جنہیں بہت سے وسیع اور دور اندیشانہ نقطہ نظر رکھنے والے قائدین حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ ان میں مفید، صحتمند اشیاءمہیا کرنا؛ کام کرنے کے جگہوں کو اچھا بنانا؛ اگلی نسلوں کے لئے مناسب ماحول کو محفوظ رکھنا؛اور اختراعات کوپروان چڑھانا، شامل ہیں۔ غیر منافع پسند اداروں میں چند قائدین تو مفاد پرست کاروباری اصحاب کی طرح ہی عمل کرتے ہیں لیکن بہت سے دوسرے ،لوگوں کو تعلیم دینے، صحت بہتر بنانے، اور دوسری سماجی سہولیات فراہم کرنے پر اپنی کوششیں مرکوز کرتے ہیں۔ جہاں محدود سوچ پر مبنی قومی مفا د میں GDP شامل ہوسکتا ہے وہاں علاقائی طاقت کی خواہشات اور فخربھی تقریباً اتنے ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر دوربینی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو قومی مفادات میں ماحولیاتی تبدیلوں سے سنجیدگی سے نپٹنے کے لئے عالمی تعاون کا حصول ضرور شامل ہونا چاہیے۔کاروباری ادارے، غیر منافع پسند ادارے اور اقوام انسانوں کی سماجی برادریاں ہیں، جو اپنے اندرتمام ممکنہ پیچیدگیاں رکھتی ہیں۔انسانی اور اداراتی رویہ کی ایک درست اور متوازن سمجھ میں مناسب مفادپرستی، دوسروں کا مناسب خیال اور قدرتی ماحول کے مسائل کا احساس شامل ہیں جو میرے خیال میں ایک قائم و دائم مستقبل کے لئے بہترین موقع فراہم کر تے ہیں۔
تو پھر معاشی نظریات کے پاس اتنی قوت کیوں ہوتی ہے؟ایک وجہ تو یہ بیان کی جاسکتی ہے کہ ایسے نظریات چونکہ کئی امیر اور طاقتور گروہوں کے قلیل المدتی مفادات کو پورا کرتے ہیں چنانچہ انہیں تعلیمی نظام اور میڈیا کے ذریعے بھرپور مدد اور پھیلاؤ ملتا ہے۔تاہم اسکے علاوہ بھی ایک اہم وجہ ہے: یعنی معاشی نظریات کو’ سائنسی ‘غلاف میں ملفوف کرنا۔

ایک سخت/مضبوط سائنس بنا کر پیش کرنا

ایک اچھےسائنسی طریقہ کوایک منظم اور کھلے ذہن سے تحقیق کرنے کا عمل کہا جا سکتاہے۔ اس سے پہلے کہ نتائج کو درست تسلیم کیا جائے بہت احتیاط اور سمجھداری سےان کی اُن ثبوتوں سے مطابقت جانچنی چاہیے جو محققین کی وسیع اورمتنوع برادری نے مہیا کئے ہیں۔ماڈل اس طرح سے پیش کئے جانے چاہیں جیسے کہ و ہ حقیقت میں ہوں:ایسے آلات جنہیں انسانوں کے کچھ گروہوں نے کچھ مخصوص مسائل کے جانچنے کے لئے مفید پایا ہے۔

ان پیمانوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو علمِ معاشیات ایک بہروپی سائنس ہے ۔بنیادی ماڈلز، مفروضات اور طریقوں کے بارے میں وسیع النظر ہونے کے بجائے ہم نے ان میں محدود انتخاب کر لیا ہے اور پھر انہیں متفقہ اور مسلمہ قوانین کی حیثیت دے دی ہے۔ یہ ذاتی مفاد پرستی کو معاشرتی مفاد پر ترجیح ، ریاضیاتی تجزیہ کو بیانوی) (qualitativeتجزیہ پر فوقیت، اورعقلی تقاضوں کو احساساتی تقاضوں پر اہمیت دینے وغیرہ کے حوالے سے ایک واضح متشددانہ(Macho) تعصب ہے۔ہم اپنی درسی کتب میں ان تنگ نظر ماڈلوں کو ایک محدود آلہ کے بجائےایک الہامی علم کی طور پرپڑھاتے ہیں۔

سنجیدگی سے اپنے علم کی سچائی کو جانچنے کے بجائے، ہم اپنی عرصہ دراز سےپختہ عادتوں کے تحت علم کی پختگی (rigor) ریاضیاتی اور ایکانومیٹرکس کے ٹیسٹس سے ناپتے ہیں۔ بے ترتیب عناصرکو قابو میں رکھتے ہوئے کئے گئے ٹیسٹوں (Randomized Control Trials) کی حالیہ مشہوری کے بعد اس یقین کی تجدید سی ہو گئی ہے کہ مقصدیت پسِ منظر (context)یاخفیہ تعصب سے صرفِ نظرکرتے ہوئے، چند  فارمولوں کو اپنا کر حاصل کی جاسکتی ہے۔

میں معاشیات کی کئی عملی مثالیں دے کران تعصبات کی نشاندہی کرسکتی ہوں لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے صرف ایک پر ہی اکتفا کرتی ہوں۔ حالیہ عرصہ میں کئی علمی میدانوں، خاص طور پر بائیومیڈیکل اور نفسیات، میں ان خطرات کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہوا ہےکہ جس کے تحت شماریاتی اہمیت (statistical significance) کو استعمال کرکے نتائج کو معاشرے میں پھیلانے کا فیصلہ کیا جا تا ہے۔ null hypotheses کو p-valuesکی بنا پر رد  کرنے کو بہت عرصہ سے حسیاتی میدان میں سخت معیارکی تعریف سمجھا جاتا رہا ہے۔ تاہم جیسے کہ اب دکھایا جارہا ہے کہ اس جیسے سادہ سے، بیوقوفانہ اصولوں کی پیروی کرنا کسی مضمو ن کے لٹریچرمیں بہت شدید بگاڑ پیدا کرسکتے ہیں۔ اعداد و شمارکے سامپل میں فرق اور ماڈل کی خصوصیات جو کئی محقیقین کی نظر میں ہیں کی بنا پر p-hacking کو استعمال کرکے قابلِ شائع نتائج پیدا کرنے کا عمل زوروں پر ہے۔ حال ہی میں میں نے خطرات مول لینے کے مضمون پر معاشیاتی لٹریچرکا اعلی پیمانے کا تجزیہ (meta-analysis) کیا تو نہ صرف اُس میں اشاعتی تعصب (شماریاتی اہمیت کے حامل نتائج کو ترجیح دینا) جھلکتانظرآیا، بلکہ تصدیقی تعصب (ایسے نتائج کو ترجیح جو مصنف/محقق کے پہلے سے رکھے صنف کے بارے میں دقیانوسی خیالات کے مطابق ہوں) بھی عیاں تھا۔ اس سب کے باوجود مجھے اپنے معاشیات کے پیشے،اور اس سے بھی کم معاشیات کی تعلیم میں –دیانتداری اور اخلاقی طور پر- بہت ہی کم عملی اقدامات نظر آئے ہیں جو سخت معیار(rigor) کے بارے میں ہمارے انتہائی ناقص عقائد ہونے کے حوالے سے کئے جانے چاہیں تھے

تتمہ

ہم معیشت کی قابلیت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے – یعنی زندگی کی خوشیوں کو بڑھانے اور انکو قائم رکھنے – سے کمتر کر دیتے ہیں جب ہم اُسے ایسا میدان سمجھ لیتے ہیں جو اخلاق اور احساس سے عاری ہو ۔ اس نقصان کا زیادہ تر الزام ان معاشی عقائد کے سرپر ہے جنہیں دھوکہ سے سائنسی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور پھر تعلیم اور میڈیا کے ذریعے معاشرے میں عام کردیاجاتا ہے۔معاشیات کے علم میں اخلاقی پہلوؤں کو شامل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
نوٹ: اس مضمون کو لکھنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ انسانوں کے معاملات چلانے کے لئے ضروری علم نقائص سے پاک ہو تاکہ اُس سے بننے والی پالیسیاں انسان کے بہتری کا باعث ہوں۔ مثبت تنقید کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ موجودہ معاملات کی نشاندہی کی جائے تاکہ اُس میں بہتری لائی جائے۔ یہ نظریات اور افکار پر تنقیدہے کسی شخص پر ہرگز نہیں!

About ڈاکٹر عامر سعید 5 Articles
عامر سعید پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ ایڈمنسٹریٹو سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف اُترِخ، ہالینڈ سے انتظامی علوم و انصرام حکومت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔