کنکریٹ والے لاہور میں جگنوؤں کی تلاش

جگنو کی تلاش
افتخار احمد

(افتخار احمد)

کیا آپ جانتے ہیں لاہور شہر میں آخری بار جگنوکب جگمائے تھے؟ یا پھر ہمارے شہر کے درختوں میں بسنے والے ہرے بھرے سرخ چونچ والے طوطے کہاں گم ہو گئے؟ اگر آپ سن 80 کی دہائی کے بعد ہونے واے لاہوریوں میں سی کسی سے یہ سوال کریں تو شاید وہ حیرانی سے آپ کی طرف دیکھیں۔ مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لاہور کے لارنس گارڈن میں گرمیوں کی راتوں میں ستاروں سے بھی زیادہ چمکدار جگنو چم چم کرتے تھے، کبھی دل زیادہ شرارت پر مائل ہوتے تو کچھ جگنوؤں کو ششیے کی بوتل میں بند کر کے انہیں لئے پھرتے۔

پھر لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی نے شاید جگنوؤں سے ان کا مسکن چھین لیا۔ گرمیوں کی راتوں میں جگمگ کرتے ہوئے جگنو مصنوعی روشنیوں کی نذر ہو گئے۔ اب تو شاید ہمارے دیہاتی علاقوں میں بھی جگنو نہیں رہے۔ یہ شہر وہ شہر تھا جہاں دن کا آغاز چڑیوں کی چہکار، کوئلوں کی کوہو، کوہو، فاختاؤں کی کوک اور طوطوں کی ٹولیوں کی آواز سے ہوتا تھا۔ گردونواح کے کھیتوں میں سبز گردن والے کبوتر بھی بہت تھے اور رائیونڈ ، شاہدرہ ، ملتان روڈ کے جو ہڑوں میں مرغابیاں بھی بسیرا کرتی تھیں۔

یہ کوئی اکبراعظم کے زمانے کی داستان بھی نہیں ہے، ابھی ایک دو دہائیاں قبل تک یہ طوطے شہر کے قدیم درختوں کی شاخوں پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ پھر جب وہ قدیم درخت جدید شہر کی ضروریات کی بھینٹ چڑھ گئے تو ان طوطوں نے بھی لاہور سے اپنا منہ موڑ لیا۔ اب آپ کو طوطے دیکھنے کے لئے چڑیا گھر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

یہ صرف طوطوں اور جگنوؤں کی ہی بات نہیں ہے، ہمارے شہر میں اب پھولوں کے گرد منڈلاتی رنگ برنگیاں تتلیاں بھی آلودگی کی وجہ سے ختم ہوتی جا رہی ہیں، صرف ایک دہائی پہلے تک لاہور میں کئی اقسام کی تتلیاں بکثرت پائی جاتی تھیں۔ اب نہ صرف ان کی تعداد لاکھوں سے گھٹ کر ہزاروں رہ گئی ہے، بلکہ ان کی بہت سی ایسی اقسام ہیں جو اب لاہور میں موجود نہیں۔ شاید بہت سے لوگوں کے لئے یہ ایک معمولی بات ہو لیکن میرے نزدیک یہ اس لئے بھی اہم مسئلہ ہے کہ یہ تمام تبدیلیاں ہمارے شہر کے ایکو سسٹم  (ecosystem) کی تباہی کے باعث ظہور پذیر ہو رہی ہیں میں شہروں میں ترقیاتی منصوبوں کے خلاف نہیں ہوں، میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ دنیا بھر میں شہروں میں انفراسٹرکچر کی آڑ میں شہر کے ایکو سسٹمز کو برباد کیا جا رہا ہے؟ ایسا نہیں ہے ۔۔۔ کیونکہ دنیا بھر میں جہاں شہریوں کی سہولیات کے لئے ترقیاتی کام کئے جاتے ہیں وہیں ان ترقیاتی کاموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی کیا جاتا ہے۔

لیکن لاہور میں پچھلے چند سالوں میں ہونے والے کام نے ماحولیاتی آلودگی میں صرف بے تحاشا اضافہ ہی کیا ہے۔ شہر بھر میں سالوں پرانے درخت کاٹ کر ان کی جگہ کنکریٹ کے جنگل بنا دئیے گئے ہیں۔ مگر ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور شہر کو سرسبز و شاداب بنانے کے لئے شارٹ ٹرم ، مڈٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

یہ طوطے اور جگنو صرف خوبصورتی کی ہی علامت نہی تھے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ ہمارے ایکوسسٹم میں ایک بیلنس موجود ہے، کائنات کے نظام میں ہر چیز اور جاندار کی ایک خاص افادیت اور ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مشکل کھانے کو پکا نے کے لئے کئی مصالحوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن میں سے اگر کوئی کم ہو جائے تو کھانے کے ذائقے پر اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح جگنو، طوطے اور مینا صرف خوبصورتی ہی کے لئے ضروری نہیں ہیں بلکہ ان میں ہر ایک کی کوئی نہ کوئی خاص افادیت ہے۔ ان کی غیر موجودگی کے باعث ہم بہت سے ایسے فوائد سے محروم ہو رہے ہیں۔ آپ شہد کی مکھی کی ہی مثال لیجئے۔ ہمارے شہر میں شہد کی مکھیاں تقریبا نا پید ہو گئی ہیں۔ شہد کی مکھیاں عموما پھولوں اور پودوں کی پولی نیشن میں بھرپور کردار کرتی ہیں۔ ان کے بغیر یہ کام بہت مشکل ہو جاتا ہے، اگر ہمارے شہر میں مکھیاں نہ رہیں تو ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب پولی نیشن درست انداز میں نہ ہوپانے کے باعث پھول اور پودے ہر سال تعداد میں کم ہوتے جائیں۔

لاہور میں پرانے درختوں کو کاٹ کر جن نمائشی جھاڑیوں اور پودوں کا انتخاب کیا جا رہا ہے وہ ظاہری طور پر تو شاید ایک ماڈرن شہر کی ضروریات کو پورا کرتی ہوں لیکن ماحولیات کی سطح پر ان کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ یہ نہ تو خاطر خواہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور نہ ہی پرندوں کے لئے گھر بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ان چھوٹے قد کی جھاڑیوں کو پرانے درختوں کی جگہ لگایا جائے تو یہ مثبت کی بجائے منفی رجحان ہے۔ ہمارے ہاں پیپل ،کیکر، شیشم،املتاس، شہتوت جیسے سدا بہادردرختوں کی کمی نہیں ہے لکین نہ جانے کیوں ہم صحرائی پام اور نمائشی جھاڑیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ یہ درخت نہ تو خاطر خواہ سایہ فراہم کرتا ہے۔ مجھے شہر کی خوبصورتی کے لئے پھول یا جھاڑیاں لگانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ مگر اگر ہمیں ماحول کو محفوظ بنانا ہے تو تناور، سایہ دار، گھنے درخت کاٹ کر پام اور جھاڑیاں لگا کر ہم نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ ہماری آنے والے نسلوں کے ساتھ بھی زیادتی کر رہے ہیں۔ ہم پہلے ہی لاہور کنکریٹ کا جنگل بنا چکے ہیں، ایسے میں اگر ہم شہر میں موجود پرانے در

خت کاٹنے کے بعد نئے درخت نہیں لگاتے تو کیا ہم اگلی نسلوں کو چڑیاں اور کوے دیکھنے سے بھی محروم کر دینا چاہتے ہیں؟

(یہ مضمون ایک اور صورت میں روزنامہ جنگ پر شائع ہوا۔ ماخذی متن کا لنک یہ ہے۔ بشکریہ مصنف اور روزنامہ جنگ)

About افتخار احمد 9 Articles
افتخار احمد ملک کے معروف اور سینئر صحافی ہیں۔ ان دنوں جنگ اور جیو گروپ سے وابستہ ہیں۔ صحافت کے ساتھ مظاہر فطرت، پہاڑوں، درختوں، پودوں اور ان پر کھلنے والے پھولوں سے محبت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ماحولیات کو نا صرف مستقبل بلکہ حال کا بھی انتہائی اہم معاملہ سمجھتے ہیں۔ زندگی کو زندگی کی طرح جیتے ہیں۔