قومی اہداف کی تکمیل کے لئے کیا ہمیں وژن کی ضرورت ہے یا وسائل کی؟

فارینہ الماس Farina Almas
فارینہ الماس

(فارینہ الماس)

وژن ایک ایسے تدبر یا بصیرت کا نام ہے جو کسی بھی مقصد کے حصول یا اس کی تکمیل کے لئے اصولوں اور تدابیر کی حکمت عملی کو تیار کرنے میں صرف ہوتی ہے۔وہ حکمت عملی جو ترقی یا کامیابی کو جانے والے راستے میں حائل کچھ سخت اہداف کے حصول کے لئے درکار، انسان کی تمام تر شعوری اور فکری کارکردگی کا تعین کرتی ہے ۔وژن کی کامیابی مقاصد کے تعین اور ان کی پختگی پر منحصر ہے ،ورنہ تمام تر کاوشیں محض اندھیرے کی ٹامک ٹوئیاں ہی ثابت ہوتی ہیں۔وژن کو بروئے کار لانے کے لئے ایک وژنری لیڈر اہم اور لازم ہے ،وہ لیڈر جو ایسی ٹیم تشکیل دے سکے جو اس کی تمام تر منصوبہ بندیوں کی تکمیل میں معاون ثابت ہو

۔ بزنس کی دنیا میں ہی آپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی کہ کم سرمایے سے کسی معمولی حیثیت کی حامل کمپنی کی داغ بیل ڈالی گئی ہو اور کچھ ہی سالوں کی محنت کے بعد اس کی کامیابی کے ڈنکے بجنے لگے ہوں ۔اگر ان کی ترقی کی کہانی کا نچوڑ نکالا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر کامیاب ہونے والی کمپنی سب سے پہلے اپنے اہداف مقرر کرتی ہے۔ پھر ان اہداف کو پانے کے لئے ایک وژن تشکیل دیا جاتا ہے ۔اسی وژن کے تحت کمپنی کے سبھی ملازمین کو ایک پیج پر مجتمع کیا جاتا ہے۔مالکان سے لے کر ہر شعبہ جات کے نگران حتیٰ کہ نچلی سطح کے ملازمین تک کو ایک مخصوص حکمت عملی سے واقف کار بنا یا جاتا ہے اور اس پر کاربند کیا جاتا۔ان کا کمپنی کے اصولوں اور نظریات پر کاربند ہونا اس پالیسی پر منحصر ہے کہ ملازمین کے باہمی تفاوت ، تنازعات و تفرقات کا خاتمہ کس طرح کیا جاتا ہے ۔انہیں اس مخصوص وژن کے حصول کے لئے درکار تمام تر کاوشوں کو بروئے کار لانے کے لئے کس طور متحرک کیا جاتا ہے۔الغرض اس وژن کا سراسر دارومدار اپنائی جانے والی حکمت عملی پر ہوتا ہے،جس میں ملازمین کی تنخواہوں سے لے کر وہ سب مراعات بھی شامل ہوتی ہیں جو ان کی حوصلہ افزائی کے لئے معاون ثابت ہوتی ہیں۔اس میں اپنی اور دوسری کمپنیوں کی غلطیوں سے سیکھنے اوردوسروں کی کامیابیوں کے گر تلاش کرنے کے علاوہ ملازمین سے ایسا رشتہ بنانا بھی شامل ہے جو ان کے اندر کمپنی کے لئے وہ جذبہ جگا سکے جو اس کی ترقی میں معاون و مددگار بن سکے ۔جو کمپنی کے اچھے مستقبل کے لئے ملازمین کو پر جوش رہنے اور اس کی اچھی کارکردگی کے لئے سوچنے پر آمادہ کر سکے۔یہ سب مل کر ادارے کی ایک ثقافت اور روایات تشکیل دیتے ہیں جو برس ہا برس اس ادارے کا طرہء امتیاز رہتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک وہ رہتی ہیں، ادارہ عروج کی طرف گامزن رہتا ہے جیسے ہی اس ثقافت اور روایات میں ذرہ برابر بھی جھول آجائے تو اسی نقطے سے تنزلی کا سفر شروع ہونے لگتا ہے۔

بلکل ایسا ہی کسی قوم یا کسی ملک کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں کسی بھی قوم کو وقت کے گھمبیر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ سے ایک وژنری لیڈر کی ضرورت رہی۔ چین ہی کی مثال لیں،دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین کے بعد سب سے ذیادہ نقصان چین کا ہوا جس کے 13لاکھ فوجی اور ایک کروڑ سے ذیادہ شہری جنگ کا شکار بنے ۔جاپانیوں نے چین پر حملے کے بعد صرف چھ دنوں میں تین لاکھ شہریوں کا قتل عام کیا ۔بعد ازاں ایک طویل خانہ جنگی اور انگنت معاشی و معاشرتی مسائل نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ایسی بے دلی اور شدید مایوسی سے چین کا باہر نکلنا ناممکن تھا اگر اسے ماؤزے تنگ اور ہوجن تاؤ جیسے وژنری لیڈر میسر نہ ہو پاتے۔ 1949ء میں چین آزاد ہوا تو اس کی حالت انتہائی دگرگوں تھی۔ملک کی اکثریتی آبادی افیون کے نشے کا شکار تھی معیشت اور سماجیت انتہائی پستی کی راہ پر تھی ۔لیکن شدید قسم کی خانہ جنگی اور غربت و افلاس کا شکار چین جوآج معاشی طور پر دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے اس کی وجہ اس کے انقلابی رہنماؤں کی وہ خداداد بصیرت اورتدبر تھا جس نے اس کی ترقی کے سفر کو رکنے نہ دیا بلکہ پوری چینی قوم کو اس سفر میں ایک پیج پر لا کھڑا کیا ۔یہ معاشی اصلاحات کی اوپن ڈور پالیسی اور خود کفالت کو جاتے راستے کے لئے بنائی گئی ٹھوس منصوبہ بندی ہی تھی جس نے چین کی صنعتی اور زرعی ترقی میں معاونت کی ۔ماؤزے تنگ کی پالیسی کی داغ بیل اس کے اس وژن پر رکھی گئی کہ ’’ اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو گندم اگاؤ،دس سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو درخت اگاؤ اور اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنے کا ارمان ہے تو لوگوں کو تعلیم بھی دو اور اچھی تربیت بھی‘‘ ۔اپنے وژن کو پایہء تکمیل تک لے جانے کے لئے جرائت بھی درکار ہوتی ہے اور ایسی ہی جرائت اور ہمت کی ایک مثال اس واقعے سے ہی  مل جاتی ہے ۔1954 ء میں چین اور سوویت یونین کے مابین تنازعہ بڑھا تو امریکہ اور یورپ نے حتی الامکان کوشش کی کہ دونوں ملکوں کے تنازعات حل نہ ہو پائیں ۔سوویت یونین نے چین میں کام کرنے والے تمام فنی ماہرین انجنئیرز اور سائنسدانوں کو واپس بلا لیا اور اپنا ہر منصوبہ اور پروجیکٹ ختم کر دیا ۔ماؤزے تنگ نے گھبرانے یا مایوس ہونے کی بجائے اعلان کیا کہ ’’ہم اگلے دس برسوں میں اپنا ایٹمی پروگرام ہر صورت مکمل کر لیں گے اور 1964ء میں ہی اک کامیاب ایٹمی تجربہ کر کے دنیا کے لئے عزم و استقلال کی عظیم مثال قائم کریں گے‘‘۔ٹھیک دس سال بعد انتہائی نامساعد حالات اور پابندیوں کے باوجود چین نے خود کو ایٹمی طاقت ثابت کر دکھایا۔جو کہ ایک ناقابل یقین بات تھی۔

اسی طرح ترکی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ترکی کو شکست ،ناکامی اور تنہائی کے گڑھے سے نکالے والے مدبر کمال اتاترک کے نام سے کون واقف نہیں ۔جب ترکی کو ’’یورپ کا مرد بیمار‘‘ کا نام دیا گیا تو وہ اپنے ٹوٹتے حوصلوں سے ناکامی کے پاتال میں اترے ہوئے یہ گمان کئے بیٹھا تھا کہ شاید اب کبھی وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھ سکے گا ۔لیکن اتاترک کے اصلاحی ایجنڈے نے اس قوم کو بد ترین حالات میں بھی ایسا سنبھالا دیا جس کے بارے ہم جیسے ممالک محض سوچ ہی سکتے ہیں ۔اسی طرح طیب اردگان بھی ترکی کے لئے ایک ایسا لیڈر ثابت ہوا جس کی فکر اور تدبر نے اسے مسلم ممالک میں ایک کامیاب اور نمایاں ملک کی حیثیت دلوانے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔گذشتہ کئی سالوں سے انتخابات میں مسلسل کامیابی اور حالیہ انقلابی کاروائیوں میں اس کی عوامی سطح پر فتح اس بات کی غماز ہے کہ اس کا وژن اور اس کی فکر اس کے عوام کے وژن کے مطابق ہے۔یہ اس قوم کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ایک وژنری لیڈر ملا۔ گویا کسی بھی ملک کا نقشہ بدلنے اور اس میں دستیاب وسائل کی بازیابی اور کامیابی کے لئے ایک بھرپور وژن اور وژنری و مخلص قیادت کا میسر ہونا انتہائی ضروری ہے۔

جب آپ کسی خاص سوچ اور مقصد کو اپنا خواب بنا لیتے ہیں تو وسائل کی کمی بھی آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔درست سمت میں بروقت محنت ، وسائل کی کمی میں بھی ایک قوم کواس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ اپنے وسائل خود پیدا کر سکے ۔ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1937ء کے انتخابات مسلم لیگ کے لئے خفت و ہزیمت کا باعث بنے، اور ان میں مسلم لیگ کو بری طرح ناکامی اور محرومی کا منہ دیکھنا پڑا۔ناکامی کی وجہ کسی واضح حکمت عملی اور اک خاص وژن سے محرومی تھی ۔بعد ازاں برٹش حکومت اور ہندو قوم سے وابستہ پے درپے تعصباتی واقعات نے مسلم لیگ کو اس کی واضح پالیسی کے تعین میں مدد فراہم کی۔اور 23 مارچ 1940ء کا دن سیاسی بصیرت کے تحت کئے گئے اک اٹل فیصلے کا دن قرار پایا۔جس نے اس جماعت کو اک لائحہ عمل اپنانے اور اس کے تحت جدوجہد کرنے کی راہ عطا کی اور اس فکری اور قائد کے شخصی وسیلے کے سوا دیگر وسائل کی شدید کمی کے باوجود مسلمانوں کے لئے اپنی منزل کی طرف بڑھنا ممکن ہو گیا۔اس کا نتیجہ 45_46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی 85فیصد کامیابی کی صورت سامنے آیا۔اس وقت تک وژنری رہنما قائد اعظم محمد علی جناح قوم کو اپنے خاص وژن کے مطابق ایک پیج پر لانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔اور اسی درست سمت کی جدوجہد نے ٹھیک ایک سال بعد ہی مقصد میں کامیابی کا عندیہ بصورت پاکستان دیا۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے لئے سب سے اہم تھا اپنی منفرد شناخت کا قیام۔وہ شناخت جو اپنے مخصوص تاریخی اور فکری و تہذیبی پس منظر میں تشکیل دی جاتی ہے۔جو ہمارے معاشی ، سیاسی و ثقافتی اہداف کے حصول کی بنیاد بنتی ہے۔لیکن قابل افسوس امر رہا کہ ہم اپنی ایسی شناخت کا تعین ہی کرنے میں ناکام رہے۔جس کی وجہ قائد اعظم کی وفات کے بعد ان کے جیسی فکر و تدبر کے حامل کسی لیڈر کا میسر نہ آنا تھی۔

کسی بھی قوم کو اپنی ترقی کے لئے دور جدید میں جن ترقیاتی اہداف سے سروکار رہتا ہے ان میں غربت کا خاتمہ،صنفی مساوات،صحت،تعلیم،پانی،توانائی ،پائیدار اقتصادی ترقی ،مفید روزگار ،ماحولیاتی تبدیلیوں سے نپٹنا اور کرہء ارض اور اس کے قدرتی وسائل کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے ۔اس کے بڑے اہداف میں خارجہ پالیسی سے جڑے مسائل سے نپٹنا بھی ہے ۔بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی ایسا ہدف نہیں جسے ہم کامیابی سے عبور کر پائے ہوں ۔اپنے تین ہمسائیوں سے دشمنی اور سکیورٹی و تجارت سے محرومی نے ہمارا امیج بری طرح مجروح کر رکھا ہے۔دوسری طرف ناقص سکیورٹی اور دہشت گردی کی فضا نے باقی دنیا سے بھی ہماری تنہائی کا ماحول بنا رکھا ہے۔

نئی صدی کے آغاز سن 2000 میں اقوام متحدہ نے تاریخی’’ میلینئیم سمٹ‘‘میں عالمی ترقی کے لئے ہزاریہ اہداف مقرر کئے ان کے آٹھ بنیادی اہداف یہ تھے۔بنیادی تعلیم کا حصول،صنفی مساوات کا فروغ،خواتین کو با اختیار بنانا، شدید غربت کا خاتمہ،زچہ بچہ کی صحت میں بہتری،بیماریوں کی روک تھام ماحولیاتی استحکام ،عالمی ترقیاتی منصوبوں میں شراکت داری کا قیام وغیرہ۔اور 2015ء تک ان اہداف کو حاصل کر پانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔پاکستان کی ان اہداف کے حصول کی صورتحال کا عالم یہ ہے کہ ایک غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں تاحال 60فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔اور 50فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے ۔جس کی بنیادی وجوہات میں موئثر اقتصادی پالیسیوں کا عدم تسلسل اور امن و امان کا مسئلہ ہے۔اڑھائی کروڑ بچے تاحال اسکولوں سے باہر ہیں ۔قومی اسمبلی میں خواتین کو نشستیں مل تو گئی ہیں لیکن ان پر تشدد کے واقعات میں کمی کی بجائے پہلے سے بھی ذیادہ اضافہ ہوا ہے۔صحت کے معاملے میں ہسپتالوں کی ناقص کارکردگی کے علاوہ بیماریوں سے نپٹنے کی صورتحال ملاحظہ فرمائیں کہ ابھی تک ہمارا پولیو سے ہی چھٹکارہ پانا ہی ناممکن نظر آرہا ہے جب کہ یہ وہ بیماری ہے جس کے تدارک اور اخراجات کا تمام تر خرچ دوسروں کی ذمہ داری ہے ۔ملک کے بیرونی قرضے55 ارب ڈالر اور اندرونی قرضے 23 کھرب سے تجاوز کر چکے ہیں ۔اور ہم نے اپنے اہداف جو 2025ء کے وژن کے تحت مقرر کر رکھے ہیں ان کے حصول میں کامیابی کی کوئی راہ فی الحال سجھائی نہیں دے رہی۔

ایسا بھی نہیں کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے ۔پاکستان کے اکثر علاقے معدنیات کی دولت سے مالامال ہیں۔ڈاکٹر ثمر مبارک کا کہنا ہے کہ ’’بلوچستان کے علاقے ریکوڈک کی سونے و تانبے کی کانوں کے ایک چھوٹے سے حصے ای۔ایل 5 میں ہی 270ارب ڈالر کی مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔‘‘ایک اندازے کے مطابق ریکوڈک اور سینڈک کی کانوں سے پیداوار کے بعد محض تین سال کے اندر پاکستان اس قابل ہو سکتا ہے کہ اپنے تمام تر بیرونی قرضے اتار سکے۔ تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر میں کل ذخائر کا تقریباً 175بلین ٹن حصہ موجود ہے۔جو دنیا بھر میں بھورے کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔پاکستان کے پاس زمینی اور افرادی قوت ،جنگلات کی قدرتی جگہیں ،حیوانات کے بھرپور وسائل موجود ہیں ۔یہاں دریا،سمندر،صحرا ،اچھے موسم ،اور زرخیز میدان سبھی کچھ موجود ہیں ۔بلوچستان کے ساحلوں پر موجود گوادر بندرگاہ خلیج فارس ،بحر ہند اور خلیج بنگال کی تمام بندر گاہوں سے ذیادہ گہری ہے ۔پاکستان کو عطا ہوئے قدرت کے بے شمار وسائل کا ذکر شروع کرو تو شاید ان وسائل کو بیان کرتے کرتے لفظوں کی طوالت کو سمیٹنا مشکل ہو جائے۔لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آج بھی ایسی جدید ٹیکنالوجی اور بہتر افرادی قوت سے محروم ہیں جو ان وسائل کو دستیاب کر سکے اور جو کچھ خوش قسمتی سے دستیاب ہے وہ سیاستدانوں کی کرپشن کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ہمارے پاس وسائل ہونے کے باوجود ہماری ترجیحات درست نہیں جس کی بڑی وجہ اعلیٰ اذہان اور اعلیٰ حکمت عملی کی کمی ہے۔ہم تاحال اپنے نظریاتی تشخص اور قومی اہداف کے حوالے سے تہی دامن ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے وسائل بھی ہمارے مسائل کو نپٹانے سے عاری ہیں ۔بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ھمیں تو اپنے مسائل کا ادراک بھی اس وقت ہوتا ہے جب وہ مسائل ہماری شہہ رگ میں اپنے نوکیلے دانت گاڑ چکے ہوتے ہیں۔ہمیں تو شاید کسی وژنری لیڈر کی کبھی ضرورت کا خیال بھی نہیں آیا ۔ ملک کا دانشور طبقہ عوام کو اس ضرورت کا شعور دینے کی بجائے ایسی علمی بحث میں الجھا ہوا ہے جس کا تمام تر مطمعہء نظر محض ایک نظریہ ہے ۔وہ نظریہ جو اس مملکت کی تشکیل کا باعث بنا۔یعنی ’’نظریہء پاکستان ‘‘ ۔محض فرضی اور سنے سنائے مفروضے جس سے محض تضحیک و تحقیر کی فضا ہی جنم لے رہی ہے اور ہم مذید باہمی تفاوات و تضادات کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ہم پہلے سے بھی ذیادہ علمی و تہذیبی بحران کا شکار ہیں ۔ایسی یکجا ثقافت سے محروم جو ہمیں ہمارے ہونے اور ایک ہونے کا احساس دے سکے ۔ہمارا جدید عصری تقاضوں سے فاصلہ اور بھی گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔جو شاید آئندہ بھی کئی دہائیوں تک سمٹتا نظر نہیں آرہا۔شاید کتنی ہی مدت تک ہمیں انہی اندھیروں میں بھٹکنا ہے جو سیاسی و تہذیبی دور اندیشی اور بصیرت سے عاری حکمرانوں نے پھیلا رکھے ہیں۔

1 Comment

  1. بہت تفصیل سے موضوع کو پھیلا یا اور خوبصورتی سے سمیٹا. بہت خوب

Comments are closed.