سواد اعظم اور سواد اصغر کی دل آزاری کا تصور

سواد اعظم اور سواد اصغر کی دل آزاری کا تصور : کچھ سوادی سوادی تضادات

از، سیّد کاشف رضا

مکالماتِ فلاطوں میں استادِ عالم سقراط کا طریقئہ کار یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے نظریات و خیالات بیان کرنے کے بجائے زیادہ دلچسپی اس بات میں رکھتا تھا کہ اپنے روبرو موجود اپنے دوستوں کے کسی خیال میں موجود تضادات کی نشان دہی کر دے۔ آج میں اسی طرزِ استدلال سے کام لیتے ہوئے ایک ایسی دلیل پر بات کرنا چاہوں گا جو پاکستان میں مذہبی معاملات میں اختلاف رائے کے اظہار کے موقع پر بہت سننے میں آتی ہے۔ یہ دلیل یہ ہے کہ ’فلاں صاحب یا گروہ نے مسلمانوں کے ’سوادِ اعظم ‘کی دل آزاری کی ہے۔’سوادِاعظم‘ کی ترکیب کا مطلب ہے ’مسلمانوں کا غالب گروہ‘۔ اکثر کوئی شخص یا گروہ اس بنیاد پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور متشدد گروہ کے حامی سوشل میڈیا پر اس دلیل کا سہارا لے کر اس تشدد کا جواز پیش کرتے ہیں۔ جو فرقے مذہبی اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس دلیل کا بہ طور خاص نشانہ بنائے جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے دہلی کے ایک ہوٹل میں کشمیری رہ نما موجود تھے کہ وہاں ہندو انتہا پسندوں نے حملہ کر دیا اور ان کشمیری رہ نماؤں کو مارا پیٹا۔ رات کو اس پر بھارتی نیوز ٹی وی چینل، ٹائمز ناؤ کے ارناب گوسوامی نے پروگرام کیا اور کہا کہ یہ رہ نما خود پر ہونے والے تشدد کے خود ذمہ دار ہیں کیونکہ انھوں نے آزادی کا مطالبہ کر کے ہندوستانی عوام کی اکثریت کی دل آزاری کی تھی۔ ہندوستانی عوام کی غالب اکثریت چاہتی ہے کہ کشمیر بھارت ہی کا حصہ رہے۔ اگر کوئی کشمیری رہ نما آزادی کا نعرہ بھی لگائے تو اس اکثریت کی دل آزاری ہو جاتی ہے۔ اگر بھارت یہ کہے کہ کشمیریوں پر تشدد اس لیے جائز ہے کہ وہ بھارتی ’سوادِاعظم‘ کی دل آزاری کرتے ہیں تو کیا آپ یہ دلیل مان لیں گے؟

پچھلے دنوں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارت کا انتخاب جیت لیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ایک پاکستانی فوجی کے والد نے ٹرمپ پر تاک تاک کر حملے کیے۔ امریکی عوام کے ’سوادِاعظم‘ نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستانی فوجی کے والد نے امریکی ’سوادِاعظم‘ کی دل آزاری کی تو کیا آپ یہ دلیل مان لیں گے؟

یورپی جمہوریتیں لبرل ازم اور آزادی کے تصورات پر قائم ہیں۔ انھوں نے، کم از کم نظریاتی طور پر، یہ تسلیم کیا ہے کہ ہر شخص مساوی ہے۔ وہ دوسرے ملکوں سے آنے والے افراد کو بھی، کم و بیش، مساوی حیثیت دیتی ہیں۔ اگر کوئی شخص وہاں ایک خاص عرصہ گزار لے تو اسے اپنی شہریت بھی دے دیتی ہیں۔ تاہم یورپی ’سوادِاعظم‘ کو آزادی اور لبرل ازم کی اپنی روایات بھی بہت عزیز ہیں۔ دہشت گردی کے کئی واقعات میں مسلمان افراد ملوث نکلے ہیں۔ اس کے بعد اگر لمبی سی داڑھی والے کسی مرد یا طویل سے برقعے والی کسی خاتون کو دیکھ کر یورپی ’سوادِاعظم‘ کی دل آزاری ہو جائے تو کیا اس مسلمان مرد اور عورت پر تشدد آپ قبول کر لیں گے؟

آج کی دنیا ایک دوسرے سے بہت قریب آ چکی ہے۔ کوئی گروہ ایک ملک میں ’سوادِاعظم‘ کی حیثیت رکھتا ہے تو وہی گروہ دوسرے ملک میں ’سوادِ اصغر‘ کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں ’سوادِ اصغر‘ کا خیال نہیں رکھتے، اس پر ’سوادِاعظم‘ کی دل آزاری کا الزام لگا کر اس کے خلاف نفرت اور تشدد کو روا سمجھتے ہیں تو ہمیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ ایسے ملکوں میں اپنے مذہبی گروہ کے حق میں رواداری کی توقع رکھیں جواس دوسرے ملک میں ’سوادِ اصغر‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسے بھی ملاحظہ کیجیے: پاکستان ، بھارت اور مغربی کلچر : درپیش چیلنجز اور نئے “ہم” تشکیل دینے کی ضرورت

مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہمارے اپنے ملک میں اگر کوئی ’لبرل‘ یا فرقہ وارانہ اقلیت کا رکن مذہبی معاملات سے جڑی کسی اختلافی رائے کا اظہار کرتا ہے تو ہمارے ’سوادِاعظم‘ کی دل آزاری ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ایسی ہی دل آزاری یورپ اور امریکا میں موجود ہمارے ’سوادِاصغر‘ کی ہو جائے تو وہ بھی ہم دل پر لے لیتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم سوادِاعظم کی دل آزاری کو برا سمجھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ یورپ، امریکا اور ہندوستان میں موجود مسلمانوں سے صاف کہہ دیں کہ اگر وہاں کی اکثریت ان کی کسی بات سے دل آزاری محسوس کرے تو ان سے پھینٹی شینٹی کھا لیا کریں۔

مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم اپنے ’سوادِاعظم‘ کی دل آزاری پر تو سیخ پا ہو جاتے ہیں لیکن دوسرے ادیان کے بنیادی عقائد کا مضحکہ اڑانے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ طالبان نے بدھا کے مجسمے گرا دیے کیونکہ ان کے مطابق اسلام میں بتوں کو توڑنے کا حکم تھا۔ کیا اس عمل سے بدھ مت کے ’سوادِاعظم‘ کی دل آزاری نہیں ہوئی ہو گی؟ ذاکر نائیک صاحب ہندوؤں کا مضحکہ اڑاتے ہیں کہ وہ کیسے کیسے خداؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ کیا اس سے ’ہندو سوادِاعظم‘ کی دل آزاری نہیں ہوتی ہو گی؟ مغربی جمہوریتوں نے جن مسلمانوں کو اپنا شہری بنا کر انھیں ووٹ کا حق دیا، وہی شہری ان ملکوں میں اپنے کسی فرقے کی شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ کریں تو کیا ’مغربی سوادِاعظم‘ کی دل آزاری نہیں ہوتی ہو گی؟

مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم نے خود اپنے ملک میں ’سوادِ اصغر‘ کی دل آزاری کو بالکل ایک معمول کا معاملہ سمجھ رکھا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندو اور مسیحی تو پاکستان کے مستقبل سے متعلق کسی گرما گرم بحث میں نظر ہی نہیں آتے۔ کیا کبھی کسی نے یہ بات محسوس کی؟ اگر محسوس کی تو اس کی وجہ معلوم ہے آپ کو؟ وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ہندوؤں اور مسیحیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان میں بیانیے کی بحث میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ اگر وہ بحث کریں گے تو فوراً ان کی اوقات یاد دلا دی جائے گی۔ بات یہیں تک نہیں رہتی۔ اگر یہ بحث کوئی ایسے صاحب کر رہے ہوں جو اپنے نام سے کسی فرقہ وارانہ اقلیت کے رکن لگتے ہیں تو انھیں جھٹ اس فرقہ وارانہ گروہ سے منسلک قرار دے کر چودہ سو سالہ تاریخ میں اس گروہ سے منسوب تمام گناہ اس کے نام تھوپ دیے جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دوسری عالمی جنگ سے پہلے یورپ کے ہر یہودی کو ’یہودا‘ کے اس جرم کا ذمہ دار قرار دے دیا جاتا تھا کہ اس نے مقامی رومی گورنر سے یسوع مسیح کی شکایت لگائی تھی۔

مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہمیں یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ مغربی جمہوریتوں میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کا کوئی مسلمان ملک بہ آسانی کسی دوسرے ملک کے مسلمان شہری کو اپنے ملک کا شہری نہیں بناتا۔ اپنے شہریوں کے مساوی بنیادی حقوق عطا کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ ہم گوگل سرچ کر کے یہ بھی نہیں دیکھ پاتے کہ جتنے ’مظالم‘ یورپ اور امریکا میں مسلمانوں پر کیے جا رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ مظالم تو ہم خود اپنے ملکوں میں اپنے حریف فرقوں اور ’سوادِ اصغر‘ کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ اگر مغربی ملکوں میں مسلمانوں پر مظالم انھی مسلمانوں پر ہمارے اپنے مسلمانوں کے مظالم سے بڑھ بھی جائیں تب بھی ہمیں تو چاہیے کہ پوری دنیا کے لیے نمونہ بن کر دکھائیں۔ گھر میں تربیت کے وقت کیا مائیں بچوں کو یہ سکھاتی ہیں کہ فلاں شخص غنڈہ ہے اس لیے تم بھی غنڈے بنو؟ ایک زیادتی اور سو زیادتیاں برابر نہیں ہوتیں۔ مغربی ملکوں میں ظلم و ستم کے اسکیل کا موازنہ ہمارے ملکوں میں ہونے والے ظلم و ستم کے اسکیل سے بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ بس نیک نیتی سے گوگل پر سرچ کرنے کا سوال ہے۔

مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ جدید جمہوریت کی بنیاد اختلافِ رائے پر ہے۔ پہلے ایک اختلافی نکتہ جنم لیتا ہے اور پھر مختلف لوگ اس کے حامی بن کر اس کے حق میں رائے عامہ کو ہم وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے اس نکتے کو ’سوادِ اصغر‘ قبول کرتا ہے اور کبھی کبھی یہی نکتہ ’سوادِاعظم‘ کی رائے بن جاتا ہے۔ اگر رائے کو شروع میں ہی ’سوادِ اعظم کی دل آزاری ‘ کہہ کر دبا دیا جائے گا تو نئے نکات پر نئی رائے کیسے سامنے آئے گی؟

مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ قیام پاکستان سے پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ غیر منقسم ہندوستان میں ہندو اکثریت کی وجہ سے اسلام خطرے میں ہے۔ ہم اکثریتی مذہبی گروہ سے شاکی رہتے تھے۔ پھر ہم نے پاکستان بنا لیا جہاں اسلام کسی اکثریتی گروہ سے عددی حوالے سے دبنے سے محفوظ رہ گیا۔ پھر بھی ہمارا ’سوادِاعظم‘ باربار خطرے میں کیوں پڑ جاتا ہے؟ یعنی کوئی پاکستان میں ہمارے ’سوادِاعظم‘ کی دل آزاری نہ کرے اور کوئی مسلم اقلیتی ملکوں میں ہمارے ’سوادِ اصغر‘ کی بھی دل آزاری نہ کرے؟ یعنی چت بھی میرا، پٹ بھی میرا؟

جدید دنیا میں تو ایسا نہیں چلے گا۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔