محبت جرم نہیں

محبت جرم نہیں

(فارینہ الماس)

جرم سرزد کرنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود سے گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں ۔جنہیں اپنے گردوپیش پھیلے حالات،ماحول اور انسانوں سے حتی کی خود اپنے آپ سے بھی نفرت ہوتی ہے ۔ایسے لوگوں کی بددلی کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ وہ زندگی میں بہت کچھ کرنا ،بہت کچھ بدلنا اور بہت کچھ پانا چاہتے ہیں ۔لیکن جب انھیں بہت کچھ پانے ،کرنے اور بدلنے میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ اس معاشرے اوراسکے افراد کوقابل نفرت سمجھنے لگتے ہیں ۔جب نفرت کا یہ دائرہ خود ان کے اپنے وجود تک پھیل جاتا ہے تو پھر خود سے وابستہ ہر شے ،ہر واقعہ اور ہر شے قابل نفرت ہو جاتی ہے۔اک بھیانک قسم کی گھٹن اس انسان کے وجود میں پلنے لگتی ہے۔جو اس کے اندر ہر شے اور ہر انسان سے اکتاہٹ پیدا کر دیتی ہے۔ نتیجتاََ وہ جرم سرزد کرنے لگتا ہے۔وہ اس معاشرے کے خلاف اپنی نفرت اور گھٹن کا اظہار جرائم سے کرتا ہے۔پھر وہ کسی دوسرے کا قتل کرے یا اپنی ہی جان کا خاتمہ کر لے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔حتی کہ درندگی کی اس ڈگر پہ چلنے والے خود سے وابستہ خونی رشتوں کی خون ریزی کا بھی ارتکاب کرنے سے باز نہیں رہ پاتے۔

دانشوروں کا ماننا ہے کہ انسان کے لئے زندگی بسر کرنے کے دو راستے یا دو طریقے ہوتے ہیں ،ایک طریقے وہ ہے جسکی اساس خوف ہے۔مطلب fear oriented طریقہ ،جب کہ دوسرے طریقے کی بنیاد محبت ہے یعنی love oriented طریقہ۔ایک کا راستہ ظلم ،جبر ، نفرت ،دہشت اور وحشت کا راستہ ہے جب کہ دوسرا محبت،امن،برداشت اور افہام و تفہیم کی طرف جاتا ہے ۔پہلا راستہ زندگی میں ہی موت کو اپنانے کا راستہ ہے جب کہ بادی النظر زندگی کو زندہ دلی سے قبول کرنے اور بسر کرنے کا راستہ ہے ۔پہلا طریقہ اپنی ذمہ داریوں سے منہ پھیرنا سکھاتا ہے جب کہ دوسرا اپنی ذمہ داریوں کی احسن طریقے سے ادائیگی پر مائل کرتا ہے۔محبت تعمیر تو نفرت تخریب ،محبت توقیر ہے تو نفرت تذلیل ۔ایک بدلہ لینا جب کہ دوسرا برداشت کرنا سکھاتا ہے۔درحقیقت دونوں ہی راستے ایک دوسرے کے بر عکس اور متضاد ہیں۔fear oriented راستے پر چلنے والے لوگ وہ ہیں جو معاشرے میں منفی اقدار کو اپنائے ہوئے ہیں جن کی سوچ کبھی کسی معاملے کے مثبت نتائج کی طرف نہیں جا پاتی بلکہ وہ ہمیشہ ھر بات کے منفی پہلو کو زیر بحث رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی فعل کو سر انجام دینے سے پہلے اس کے منفی نتائج کو جواز بنا کر کچھ اچھا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ایسے لوگ نہ صرف منفی سوچ اپناتے ہیں بلکہ معاشرے میں منفی سوچ پھیلانے کی ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔منفی سوچ کے حامل لوگ زندگی میں محض ناکامیاں ہی سمیٹ پاتے ہیں۔

یہی ناکامیاں انہیں نا صرف دوسروں کے لئے بلکہ خود اپنے لئے بھی خطرناک بنا دیتی ہیں ۔اپنے حقیقی رشتہ داروں کا قتل یا خود کشی کرنا اسکی بڑی مثالیں ہیں ۔اسی طرح دنیا کا ہر انتہا پسند خواہ اس کا تعلق کسی بھی معاشرت یا مذہب سے ہے اسی fear oriented راستے پر چل رہا ہے۔یہ لوگ وہ ہیں جنہیں سزا کا خوف لاحق ہے۔مرنے کے بعد کی سزا کا خوف دوسرے لفظوں میں اپنے انجام کا خوف ۔اور اسی خوف سے نکلنے کے لئے یہ اپنے تئیں نجات کا راستہ تلاش کر رہے ہیں ۔ان کی نجات ان کے نزدیک اپنے مذہب کی خدمت کرنے اور اسے پھیلانے میں ہے ۔بنیادی طور پر یہ ڈرے ہوئے یا پھر مرے ہوئے لوگ ہیں۔یہ کم ہمت اور ڈرپوک لوگ ہیں ان کا کوئی نظریہ یا کامل عقیدہ نہیں حتی کہ اپنے ہی مذہب کی کوئی جامع تشریح انہیں میسر نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہیں کچھ منفی عزائم کے حامل لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے اور انہیں باآسانی زندگی سے دور لے جاتے ہیں۔

محبت کا راستہ اس راستے سے بہت مختلف راستہ ہے ۔اس پر چلنے والے لوگ جرات مند اور نڈر لوگ ہیں ۔جنہیں اپنے انجام کی مطلق فکر نہیں لیکن وہ پر امید ہیں ۔جو ہر بات کے روشن اور وسیع پہلو کو زیر نظر رکھتے ہیں۔زندگی ان کے لئے بہت قیمتی اور نایاب ہوتی ہے۔وہ نا صرف اپنی ذات کو قابل محبت سمجھتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگی بھی ان کے لئے احترام کے قابل ہوتی ہے۔جو انسان زندگی کو قابل احترام سمجھتا ہے وہ اسے عطا کرنے والے سے بھی محبت کرتا ہے ۔وہ اس کائنات سے ،اسکے اجزاء سے،ہوا ،پانی،مٹی،درختوں ،پہاڑوں،پنچھیوں ،نظاروں سے محبت کرتا ہے۔وہ لمحہ موجود سے محبت کرتا ہے ۔اسی لیئے ماضی کی سنگدلیوں اور دلسوز حالات یا مستقبل کی آنے والی کٹھنائیوں کے خیالات میں خود کو غرق نہیں کرتا۔خود سے محبت کرنے والے کے لئے اپنی ذات اور اپنی خودداری اہم ہوتی ہے اسے اپنے مقاصد اور خواب بھی عزیز ہوتے ہیں۔وہ خود کو ٹوٹنے اور جھکنے نہیں دیتا۔وہ انا پرست ہوتا ہے۔

اس لئے مادے کے پیچھے بھاگنے کو اھمیت نہیں دیتا ۔وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتا جس سے اسے شرم ساری ہو۔اسکے لئے اسکا وجود اسکے خواب اور اسکے مقاصد اور ارادے مقدم ہوتے ہیں ۔وہ ان کے حصول کے لئے محنت کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔وہ خود اپنے آپ کو سنتا ہے اس لئے کبھی تنہا نہیں ہوتا۔وہ ویرانے میں بھی محفل سجانے کا ہنر جانتا ہے۔وہ موت سے بے نیاز ہوتا ہے جب کہ نفرت کرنے والے کے لئے ہر لمحہ ہی موت ہے۔الغرض محبت زندگی کو خواب دیتی ہے۔اجلی اجلی خواہشوں کے خواب۔خواب جو ٹھنڈی چاندنی پہنے ،دھنک کے رنگ اوڑھے،خوشبوؤں کے لمس سے لتھڑے ،ہمیں سجائے،سنوارے،مہکائے اور رنگین بنائے رکھتے ہیں۔محبت تعمیر کرتی ،تدبیر کرتی اور تسخیر کرتی ہے۔یہ بنجر آنکھوں کو خوابوں کی ہریاول دے کر انسان کو اعتماد ذات عطا کرتی ہے ۔انسان کی مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرتی ہے۔محبت ایک طاقتور جزبہ ہے جو وحشتوں اور سفاکیوں کو نگل لیتا ہے ۔لیکن دینا میں اور خصوصا ہمارے معاشرے میں سفاکیاں اور ظلمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ہر سو موت اندھا ناچ ناچ رہی ہے۔

منافقتیں بڑھ رہی ہیں اسی لئے ہمارا معاشرہ اک کبھی نا ٹوٹنے والے جمود کا شکار ہو رہا ہے۔پرندے چہچہانا اور اپنے گیت گانابھول رہے ہیں،پھول مرجھا رہے ہیں،ستارے بجھ رہے ہیں ۔ہواؤں کی ٹھنڈک،بارش کی بوندوں کا سحر ختم ہو رہا ہے،کیوں کہ محبت ملک عدم سدھار رہی ہے۔ہم اپنی تشنہ کام حسرتوں،اپنی ناکامیوں ،ٹوٹے ہوئے خوابوں اور اپنی جھوٹی اناؤں کی تسکین اور تشفی کے لیئے محبت کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ہم نے محبت کی بجائے مادے کو اپنا مطمئع نظر بنا لیا ہے اسلئے ہمارے اندر لوبھ اور حرص اپنے پنجے گاڑتی جا رہی ہے۔محبت کرنے والے تخلیقی ہوتے ہیں لیکن اب ہم تخلیقی بھی نہیں رہے ہمارا احساس،ہمارے قول اور فعل سب پراگندا ہ ہو چکے ہیں۔ہم محروم محبت ،محبت کرنے والوں کا گوشت نوچ لیتے ہیں۔انہیں ان کے ناکردہ گناہ کی پاداش میں آگ میں جھونکنے سے بھی ہمارا دل نہیں دہلتا۔ہم آگ اور لہو کے کھیل تماشے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ہماری آنکھوں کویہ منظر بھانے لگے ہیں ۔ورنہ ایسا بھلا کبھی ہو سکتا تھا کہ ایک بھائی اپنی بہن،ایک باپ ، ایک ماں اپنی بیٹی کو اپنی آنکھوں کے سامنے جلا دے اور اس کی روح تک نا کانپے۔۔یہ کھیل اتنی آسانی سے تو ختم نہیں ہو گا ابھی تو ہمیں نفرتوں کے بوئے بیج کی فصل اور بھی کاٹنی ہے ابھی تو نفرتوں کی اور بھی کرامات دیکھنا باقی ہیں۔۔۔۔جب یہ فصل کاٹ چکیں گے تو معلوم ہو گا کہ اپنا کتنا نقصان کر بیٹھے ہیں۔کہ شاید برسوں تلک یہ نفرتوں کے کلر سے لتھڑی دھرتی پھر محبت کی کوئی فصل اگانے کے قابل رہے بھی یا نہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔

2 Comments

  1. First of all i am not agree with the cocept of love that love is creative while hate is destructive. Our society is not able to understand the crystal clear picture of true love. Any way if we try to see the scene of love behind the mirror then it is so harmfuĺ and destructive as compare to hate. First of all we have to decide how much love we have to supply the society, less or more. We have listen the english phrase that access of every thing is bad. Supply of access love has its own cosequences. While, on the contrary, less love creates depression and frustration in society. We can take the example of the child that if the patents love him/her too much, his attitude will be shattered and negative signs will appear greatly in his behaviour and action. On the other hand, if the parents have less concentration upon their child, he will be called deprived, ignored and frustrated. Same is the case with nation and society. So, we should have to prepare the nation or society to live between hate and love. Or we should erase the meaning of hate and love from its mind. We should replace these two words just with the clear concept of right and wrong. In this way, our socity may be reformed as we dream. Its my personel view, whether it is right or wrong.

  2. محترم ناصر محمود صاحب آپ کی منطق پہ ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ آپ نے محبت کا جیسا مطلب اخذ کیا ہے تو کہنا پڑتا ہے کہ،’’ یہ ذرا اونچے لیول کی بات ہے‘‘۔ آپ کے لیول پر آپ کی بات بالکل درست ہے۔

Comments are closed.