اے فتوی گر: ‘کل ماتم بے قیمت ہو گا آج ان کی توقیر کرو’

(عامر رضا)

مرحوم ایدھی کے انتقال پر ہمارے ٹی وی چینلز نے‘‘ ڈھونڈو اگر ملکوں ملکوں’’ غزل بہت زیادہ نشر کی۔ ہر چینل نے ایدھی صاحب کی تصویر کے ساتھ کم وبیش یہی غزل بیک گروانڈ میوزک کے طور پر استعمال کی- یہ اور بات ہے کہ غزل کے شاعر اس کے موسیقار اور گلوکارہ کو کاپی رائٹ کا ایک روپیہ نہیں دیا گیا ہوگا۔ پیسے تو دور کی بات کسی نے موسیقار، شاعر اور گلوکارہ کا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔

ہمارے ہاں ہے روایت ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی مرتا ہے تو ہماری آہ و زاری اور مرثیہ خوانی بلندی پر پہنچ جاتی ہے۔ مرحوم کے اوصاف حمیدہ بیاں کئے جاتے ہیں۔ اسے ہر طبقہ کے لوگ ٹی وی پر نمودار ہو کر سلام پیش کرتے ہیں۔ این جی اوز ویجل کا اعلان کر دیتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں سیمینار منعقد کئیے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے لوگ وہ تمام سیلفیاں اور تصاویر ڈھونڈ نکالتے ہیں جو مرحوم کے ساتھ کھینچی ہوتی ہیں۔ دانشور حضرات ان کے فکر و فلسفہ کے نئے نئے پہلو نکالتے ہیں۔ اخبارات کے خاص ایڈیشن اور اس کے اردو بازار کی گلیوں میں کھلے چھوٹے موٹے چھاپہ خانہ جو کہ کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کرتے  ہوئے غیرملکی اور ملکی کتابوں کے سستے اور غیر معیاری ایڈیشن شائع کرتے ہیں، وہ بھی کمر کس کے میدان میں اتر آتے ہیں اور مرحوم کی  آپ  بیتیاں یا تو ڈھونڈ لیتے ہیں یا پھر وکی پیڈیا  اور اخبارات کے تراشوں کویکجا کر  آپ بیتی کی شکل دیکر شائع کر دیتے ہیں۔

لیکن افسوس کی بات  یہ ہے کہ  جو لوگ ہمارے رویوں  کی وجہ سے، اپنے خیالات اور حریت فکر کی پاداش میں موردِ لعن طعن ہوئے، ہرکس و نا کس جن کے منہ کو آیا، اور جن پر زندگی کا دائرہ اس قدر تنگ کر دیا کہ وہ جان بچانے کے لیے اس ملک سے ہجرت  کرنے سے ہی بن پڑی ، ان لوگوں کا نوحہ کسی نے نہیں لکھا۔ ان لوگوں  پر کسی نے اشاعت خاص نہیں نکالی، کوئی ٹرانسمیشن نہیں پیش کی۔ کبھی  یہ کوشش بھی نہیں کی گئی  کہ حریت فکر کے  دشمنوں نے  ان کے خلاف جو بیانیہ  گھڑا اس کو زائل ہی کیا جا سکے یا پھر کوئی دوسرا بیانیہ بھی پیش کیا جا سکے۔

سوچنے سمجھنے والوں پہ زمین اور زندگی کا  قا فیہ  تنگ کرنا ، جان لیوا حملے کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ رسم بھی پرانی ہے اور یہ ریت بھی نئی نہیں۔ پرانے ناموں  کو اگر یاد کریں تو ، قراۃ العین حیدر، کا نام  نظر آتا ہے۔ دوقومی نظریہ کے سرکاری مالشیوں کو لگتا تھا کہ آگ کا دریا  نظریہ پاکستان کے خلاف تھا اور وہ ناول کے  کچھ حصے  حذف کروانا چاہتے تھے، تو قرۃالعین نے یہاں  سے بھارت جانے میں عافیت سمجھی۔ اس کا مکمل احوال احمد عباسی کی آٹو بائیوگرافی میں پڑھا  جاسکتا ہے۔

بڑے غلام علی نے بھی پاکستان سے جانے میں ہی عافیت سمجھی اور اس کے بعد سالوں تک ریڈیو پاکستان پرممنوع رہے۔ سردیوں کی ایک شام ریڈیو پاکستان کے سابق ڈی جی اور صحافی مرتضی سولنگی سے ملاقات ہوئی تو انہیں نے بتایا کہ جب انہوں نے چارج سنبھال تو  کہا کہ بڑے غلام علی خان صاحب کونشر کیاجائے تو جواب ملا کہ ان کو توممنوع  کیا گیا  تھا۔ جب انہوں نے نوٹیفیکیشن مانگا تو کوئی دستاویز نہ ملی ۔ انہوں نے استاد جی کا کلام ریڈیو سے نش کروایا ۔

اے حمید کی یاداشتوں میں کیفی اعظمی  کے بھی پاکستان آنے اور جانے کا ذکر ملتا ہے ۔ بنے بھائی مچھ جیل  سے رہا ہوئے تو انہوں بھی بھارت جا کر ہی سانس لی۔ فیض صاحب بھی جلا وطنی  کے عالم  میں پھرتے رہے۔ زیادہ دور کی  بات نہیں  چند سال پہلے لاہور کی سائیکالوجسٹ، نوشین ہاشمی  جو خواتین  کے حقوق کی جنگ لڑ رہی تھیں۔ ان کو حقوق سے روشناس کروانے کے لیے  ورکشاپس اور سیمنارز کا  اہتمام  کرتی تھیں- مسلسل  تشدد سہنے  والی خواتین کے  نفسیاتی  مسائل کو سلجھانے میں مدد کر رہیں تھیں ۔ ان کی  یہ  کوششیں  بھی ایک مخصوص طبقے  کو نہیں بھائیں- جان کی دھمکیاں  ملنے کے بعد انہیں بھی  ملک چھوڑ کر ہی عافیت ملی۔

ذرا تھوڑا  سا اور آگے آئیں  تو رضا رومی  کس کو یاد نہیں۔ جان لیوا حملے کے بعد انہیں  بھی ملک سے کوچ کرنا پڑا۔ اور حسین  حقانی صاحب تو ٹھہرے ہی’’ غدار’’۔ ان کو چینخ چینخ کر غدارای کا سرٹیفیکٹ  دینے والا  اینکر جو میمو گیٹ پر روز ایک پروگرام کیا  کرتا، پھر انہی عناصر کا شکار ہو گیا۔ اس چینل اور اس کے غداری کے تمغے باٹنے والے اینکر کے خلاف گلی کوچوں میں غدار ہونے  نعرے لگوائے گئے۔

لیکن یہ سلسلہ  رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب  بھی حریت  فکر  کی شمع جلانے والوں پر آوازیں کسی جا رہی ہیں اور یہ آوازیں  کسی مسجد کے منبر سے نہیں بلکہ میڈیا  اور خاص طور ٹی وی چینلوں سے اٹھائی جا رہی ہیں۔ ان  لوگوں  کے بلاگ ٹی وی سکرین پر دکھا کر کفر کے فتوے دئیے جا رہے ہیں۔ اور لوگوں کو ان کے قتل پر اکسایا جا رہا ہے۔ نیکی اور پارسائی  کے زعم  میں کچھ حضرات خدائی اختیارات  بھی اپنے ہاتھ میں لئے  پھرتے ہیں۔ اور یہ بھی نہیں جانتے  کہ جہان تازہ کی نمود کے لیے افکار تازہ کس قدر ضروری ہیں اور یہ ہو ہی نہیں  سکتا  کہ افکارِ تازہ معاشرے  -کے ٹھہرے  ہوئے جوہڑ میں ارتعاش  پیدا نہیں  کریں

کل ماتم بے قیمت ہو گا آج ان کی توقیر کرو

دیکھو خون جگرسے  کیا کیا لکھتے ہیں افسانے  لوگ

-اب عبیداللہ علیم کے بارے میں کیا لکھیں اور کیا شکوہ کریں، کیوں کہ یہاں تو بات کرنےپہ زبان کٹتی ہے