کائنات کا اگلا سیکنڈ اور ہم

کائنات کا اگلا سیکنڈ اور ہم

از، سید کاشف رضا

ملکوں، مذاہب اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی بات کرتے ہوئے ہم نہ زیادہ دور تک ماضی میں جاتے ہیں نہ زیادہ دور تک مستقبل میں۔ ہم میں سے زیادہ تر کا تناظر ہمارے مذہبی تصورات سے وابستہ ٹائم لائن تک محدود ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کوئی دو ہزار سال پہلے آئے تھے اور اس کے بعد یہودیت، مسیحیت اور اسلام کا فراہم کردہ تناظر ہمیں جلد ہی کسی قیامت کے دن سے ہم کنار کر دیتا ہے۔ قربِ قیامت کی نشانیاں جو ہماری مذہبی روایات میں بیان کی گئیں ان میں سے بیش تر نشانیاں ہمارے لوگ اوائلِ اسلام ہی سے دیکھنا شروع ہو گئے تھے، تاہم قیامت نہ آئی۔ سن ایک ہزار عیسوی اور پھر سن دو ہزار عیسوی میں بھی قیامت کا انتظار کیا گیا کیونکہ انسان کے بنائے ہوئے کیلنڈر میں ایک اہم ترین سال آ چکا تھا اور قیامت کے لیے یہ مناسب موقع تھا کہ وہ آ جاتی۔مگر اس نے اپنی آمد ملتوی ہی رکھی۔ دنیا میں یوم قیامت کے بارے میں تازہ ترین توقع سال اکیس دسمبر دو ہزار بارہ کے دن سے ظاہر کی گئی مگر یہ دن اس توقع پر پورا نہ اترا۔ کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔ زمینی مذاہب میں سے کچھ میں کائنات کے خاتمے کی تاریخ کافی دور بھی ہے۔ ہندو صنمیات میں کائنات کی عمر تین سو پندرہ کھرب سال بتائی گئی ہے۔ ہماری پچھلی نسلیں زمین یا کائنات کے اختتام کے لیے اتنا طویل انتظار کرنے کی عادی تو نہیں رہیں پھر بھی ہمارے لیے یہ مناسب ہے کہ ہم یہ بھی جان لیں کہ سائنس دان ہمارے مستقبل اور مستقبل بعید کے بارے میں کیا کہتے ہیں، تاکہ اگر قیامت میں کچھ تاخیر ہے تو ہمارے پاس کوئی متوازی پلان بھی موجود ہو۔

مستقبل کے لیے سائنس دانوں کے پاس جاتے ہی جو پہلی چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں کائنات کی عمر تیرہ ارب اسی کروڑ سال بتائی تھی تو ہمیں وہ بہت زیادہ لگی تھی، مگر وہ ہماری کائنات کے مستقبل کی عمر اس سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔ اس عمر کی گنتی میں اتنے زیادہ صفر لگتے ہیں کہ یہ گنتی ہزاروں کھرب سال سے آگے نکل جاتی ہے۔

لیکن ہمیں زیادہ دلچسپی صرف انسان سے ہے اس لیے آئیے کھربوں سال بعد کے مستقبل کی بات کرنے کے بجائے سو ڈیڑھ سو سال کے اندر واقع مستقبل کی بات کرتے ہیں۔ امریکی مفکر کارل سیگن نے جس کائناتی کیلنڈر کا ذکر کیا تھا اس کا ایک سال ہمارے چار سو سینتیس برسوں کے برابر ہے۔ ہم کائنات کے اگلے چار پانچ سیکنڈوں کے بجائے بس اگلے ایک سیکنڈ کی بات کر لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ سائنس دان اور مستقبلیات کے ماہرین اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

موجودہ صدی اپنے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سیلاب لائی ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جنیٹکس، نینو ٹیکنالوجی اور روبوٹکس کے شعبے ایسے ہیں جو مستقبل کی انسانی تاریخ میں اہم ترین عوامل ہوں گے۔ ابھی سے گلوبل گاؤں کہلانے والی دنیا میں یہ عوامل ایک ایسا انسانی معاشرہ تشکیل دیں گے جسے ٹرانس ہیومنزم کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی شکل ہم ابھی سے فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ طب کے شعبے میں بھی حیرت انگیز پیش رفت ہو رہی ہے۔ جلد ایسے چھوٹے مگر پیچیدہ آلات بنا لیے جائیں گے جنھیں انسانی جسم میں لگایا جا سکے گا اور جن کی مدد سے نہ صرف بیماریوں کی روک تھام کر کے انسانی عمر میں اضافہ کیا جا سکے گا بلکہ انسان کی پانچوں حسیات کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا جا سکے گا۔ ذرا سوچیے کہ جب ہماری سماعت، بصارت، شامہ، لامسہ اور ذائقہ جیسی حسیات تیز تر ہو جائیں گی تو ہم فطرت اور اس کے حسی لذائذ سے اور زیادہ حظ اٹھا سکیں گے۔ یہ حسیاتی جنت ہمیں کوئی مذہب نہیں بلکہ سائنس فراہم کرے گی۔

جس زمین پر ہم رہ رہے ہیں اس کی زندگی محدود ہے۔ اگر ہم نے خود اس زمین کو تباہ نہ کر لیا تب بھی یہ زمین بس چند کروڑ سال ہی زندہ رہ سکے گی۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر انسانی آبادکاری کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سن دو ہزار پچاس تک مریخ پر انسانی آبادکاری ممکنات میں داخل ہو جائے گی۔بائیسویں صدی میں چھوٹے سیاروں، سیارچوں اور نظامِ شمسی میں آوارہ بھٹکتے اجسام میں کان کنی شروع ہو جائے گی اور وہاں سے لوہا، کوبالٹ، مینگنیز، نکل، ایلومینئم جیسی دھاتیں نکالی جا سکیں گی جو ان اجسام یا پھر زمین پر بڑی بڑی تعمیرات کے کام آئیں گی۔ ان اجسام سے سونا اور چاندی بھی نکلنے کا امکان ہے جو زمین پر لائی گئی تو ایسا کرنے والے ملک کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ بے تیغ لڑنے والے سپاہیوں کو ڈرون سے نشانہ بنانے والی اقوام تب ہم سے کتنی آگے نکل چکی ہوں گی، یہ صرف سوچا ہی جا سکتا ہے۔

انسان زراعت کے دور میں داخل ہوا تو اس نے ایسے اوزار بنائے جو زمین پر فصلیں کاشت کرنے میں اس کی مدد کرنے لگے۔ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے لیے خوراک کی بڑھتی ہوئی ضرورت پوری کرنے میں ان اوزار نے مدد دی۔ صنعتی دور آیا تو یہی کام مشینوں نے کیا۔ آیندہ دور میں یہ کام مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں یا روبوٹ کریں گے۔ نوکری کا کلچر بھی تبدیل ہو جائے گا اور بہت سے ملازمین گھر بیٹھے دفتر کا کام کر سکیں گے۔ یوں انسان کو اضافی فراغت میسر آئے گی جسے وہ زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف کشید کرنے میں استعمال کر سکے گا۔ مگر یہ فراغت اور یہ آسائش انھی قوموں کو حاصل ہو گی جو جدید ترین علوم کے حصول سے شغف دکھائیں گے۔

یہ سب تو وہ ہے جو اس زمین پر اگلے ڈیڑھ سو برسوں میں ہونے جا رہا ہے۔ اگر ہم نے سائنسی اندازِ فکر نہ اپنایا اور ایک مخصوص
تناظر میں ہی زندگی بسر کرنے پر اصرار کرتے رہے تو ہم اپنی جگہ سے بہ مشکل اتنے آگے بڑھ پائیں گے کہ چین کی طرح مغربی ٹیکنالوجی کو کاپی پیسٹ کر لیں۔ انسان کی قیادت کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ انسان کے لیے ہر روز کوئی نیا راستہ، کوئی نئی آسائش تلاش کی جا رہی ہے۔ تلاش کے اس سفر کے قافلہ سالاروں میں پاکستان یا اسلامی دنیا کے بہت کم لوگ شامل ہیں۔ ہم اپنے گوڈو کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ہمارا ماضی دو ہزار سال پہلے شروع ہوتا ہے تو ہم اپنا مستقبل بھی بہت دور تک نہیں دیکھ پاتے۔ کیا ہم ہمیشہ دوسروں کے دست نگر ہی رہیں گے؟ ہم مغربی سائنس و ٹیکنالوجی کو بس کاپی پیسٹ کرنے کو اپنے علم کی معراج سمجھتے رہیں گے؟ اگر ہم ایسا نہیں کرنا چاہتے تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم کائنات اور زمین کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں اپنا تناظر تبدیل اور وسیع کریں۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔

1 Comment

Comments are closed.