سید کاشف رضا کا کچھوا ایک لا تنقیدی تجزیہ

اظہر حسین

سید کاشف رضا کا کچھوا ایک لا تنقیدی تجزیہ

 اردو ناول ایک سو پچاسویں جب کہ سید کاشف رضا کا ناول چار درویش اور ایک کچھوا (اشاعت: اکتوبر 2017) اپنی دوسری سال گرہ منا چکا ہے! اس ناول کا شمار حال میں شائع ہونے والے ان اردو ناولوں میں رہا ہے جنھیں ادبی حلقوں میں دیر تک زیرِ بحث رہنے کے مواقع میسر آئے۔ اس کی وجہ ناول کا کئی اعتبارات سے غیر معمولی ہونا ہو سکتی ہے۔

ناول کے غیر معمولی پن پر موضوعی، تکنیکی اور ہیئتی حوالوں سے دسیوں تحریرں نظر سے گزریں، اسی قدر لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کی ادبی تنظیموں کے تنقیدی اجلاسوں میں اس ناول پہ ہونے والے مباحث سننے اور ان کا حصہ بننے کا راقم کو موقع ملا۔ چُناں چِہ یہ تحریری و تقریری تنقیدات پڑھ، سن  چکنے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ کتاب کے کچھ گوشے ایسے ہیں جن پہ بات ہونا باقی ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ صرف انھی تَشنۂِ کام گوشوں پہ قلم آزمائی کی جائے۔

1۔ ما بعد جدید تنقید ایک بہت دل چسپ نکتہ کی جانب اشارا کرتی ہے:

فن پارے کی ہیئت، فن پارے کے مواد سے الگ نہیں، اور یہ کہ حقیقت __جیسی مارکسیوں کے نزدیک رہی ہے__صرف و محض جدلیاتی خطوط پر قایم و سالم نہیں۔ حقیقت ایک ہیئت ہے جو متن کے ذریعے تشکیل ہوتی ہے۔

اس ایک جملے کی معنوی جمالیات کو ذہن پہ طاری کرتے ہوے چار درویش اور ایک کچھوا کی اندرونی اور بیرونی ہیئتوں کو یاد کیجیے: ناول میں ناولاتی واقعے کا ایک بیان راوی کرتا ہے؛ یہ واقعہ ہو چکا، یا ہونے والا ہے۔ اسی واقعے کا دوسرا بیان کردار کے اپنے بیان کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

دو مختلف بیانوں سے ابہام کی ایک پھوار سی نکل کر پڑھنے والے پر گرنے لگتی ہے۔ یہ پھوار کچھ سچائیاں یا ایک سچائی کے چند مختلف زاویے تشکیل دیتی ہے۔ کچھ اور صفحوں کی پڑھائی کے بعد پڑھنے والا سہ رخی لطف پاتاہے۔

بیان کردہ واقعے کی تھوڑی اور تفصیل ملنے پر ابہام کے چھٹ جانے کی صورت میں دُہرائے گئے بیان سے محسوس ہونے والے  جھٹکے کی جمالیات کی صورت میں، اور ان دونوں غیر مَرئی قوتوں کے ملاپ سے متشکل ہونے والی حقیقت کی صورت میں۔

بلا شبہ یہ حقیقت ناولائے ہوئے متن کو خاص ہیئت، یا بے ہیئت یا نو ہیئت بخشنے ہی سے وُجود پذیر ہوئی، جس میں ناول نگار کی چالاکی او دانش مندی کو کافی دخل ہے۔ سید کاشف رضا، ایک چالاک اور عیار فکشن نویس ہیں!

2۔ متذکرہ بالا نکتہ کو یوں بھی تو سمجھا جا سکتا ہے:

آج کے انسان کی نفسیاتی و تہذیبی زندگی کی تخلیقی ترسیل کے لیے راست، یا سطح کی تکنیک کارگر نہیں ہو سکتی۔ ایسی تکنیک کے ترسیلی امکانات محدود ہوتے ہیں۔ گنجلک مسئلے کو سیدھی سطر بیان کرنے سے قاصر رہتی ہے؛ کوئی الجھن کسی حد تک بیان میں آبھی جائے تو بیان کردہ تفصیل جدید قاریِ ادب کی تشفی نہیں کر پاتی۔

اس کے با وُجود، سیدھی تکنیک کو ناول بدر کرنا محال ہے کہ اس سے ناولاتی تجربے کے سکڑنے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ چُناں چِہ کوئی ایسی صورت ہونی چاہیے جس سے راست بیانیے اور سطحی تکنیک کو نا پید ہونے کا خدشہ ہو، نہ غیر روایتی تکنیک کے استعمال سے پیدا ہونے والی ممکنہ الجھن کے پیٹ سے نکلنے والی بوریت کا اندیشہ۔

اردو ناول نویسی کے باب میں ایسی فن کاری کیوں کر دکھائی جائے؟

چار درویش اور ایک کچھوا کے مصنف نے اس سوال کا جواب دینے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ عمومی یا روایتی و آزمودہ تکنیک کو نئی ناولائی ہیئت کے خطوط میں گوندھ دیا ہے، اور اس طور سے گوندھ دیا ہے کہ روایتی تکنیک بھی ہر کہیں نظر آتی ہے اور تکنیکی الٹ پھیر کا احساس بھی جا بہ جا ہے۔

یوں ناول میں لائے ہوئے مادی حوالوں کا غیر واضح پن بھی لا موجود ہے اور حقیقت کی نئی نئی صورتیں بھی سامنے آنے میں کام یاب ہیں۔ اب ذرا ایک بار پھر ناول کے اندر تشریف لائیے: ناول میں کہانی ہے اور کردار کی زبانی ہے۔ کہانی کا بہاؤ فطری، معلومات کی ترسیل تخلیقی عمل سے گزری ہوئی اور زبان ناولاتی ہے۔ کردار نگاری کے لیے بیانِ محض کو بَہ رُوئے کار لانے کے بَہ جائے ماجرائی انداز کا استعمال بیانیے کو سطحی تکنیک سے کئی کئی اِنچ اوپر اٹھائے ہوئے ہے؛ مگر ہے یہ سطحی تکنیک ہی۔ سطحی تکنیک والا پارہ ختم شد۔

اب کہانی کا راوی ندی کی طرح بہتی ہوئی کہانی کے کنارے آ موجود ہوتا ہے اور سطحی تکنیک میں بیان کردہ حقائق کو اور رخ سے دُہراتا ہے۔ یہ دُہرائی فی نفسہ دُہرائی نہیں بَل کہ ایک نئی سَمت یا ایک نیا زاویہ ہے جہاں سے پہلے والا منظر ذرا دور سے، یا بہت قریب سے دکھایا جا رہا ہے۔

بَہ ظاہر سیدھا اور سہل دِکھنے اور سمجھ میں آنے والا معاملہ بَہ باطن پیچیدہ اور گنجلک ہے۔ کچھ بھی ہو، مرکزی بیانیے پر ایک اور طرح کے بیانیے نے مرکزی بیانیے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ناولائی متن میں ہلچل ناول کی قرات کو چار چاند بھلے ہی نہ لگائے متن کے معنوی دھاروں کو کثیر الابعادی ضرور بنا دیتی ہے۔

نتیجتاََ کہانی کے کرداروں کی نفسیات کے وہ پہلو جو اب تک قابلِ فہم اور منطقی طور سے منظم و مربوط دکھائی پڑتے تھے، چند قدم آگے، یا پیچھے ہٹ کر دیکھنے سے اور ہی طرح کی خصوصیات کے حامل دکھائی دینے لگتے ہیں۔

قدیم قصہ گوئی اور روایتی ناول نگاری میں الجھاؤ پہلے اور سلجھاؤ بعد میں آتا ہے۔ چار درویش اور ایک کچھوا میں سلجھاؤ سے الجھاؤ پھوٹتا ہے!

3. کیا ناقدِ ادب بیان کردہ نکات کی مثالیں دینے کا پا بند ہے؟ جی ہاں!

تشکیلِ حقیقت کا متذکرہ بالا سارا عمل (process) ہمارا ناول نگار، انکشاف (epiphany) اور ستم ظریفی (irony)، جو نئے مغربی ناولوں کا گہنہ ہے، کے استعمال سے سر انجام دیتا ہے۔ چار درویش اور ایک کچھوا کے بیانیے کی دلہن ان گہنوں سے خوب لدی پھندی ہے۔

انکشافات اور ستم ظریفی کی کارِ فرمائی ناول کے کرداروں، جاوید اور زرینہ، جاوید اور مشعال کے تعلقات کے درمیان فاصلوں کے بیان میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ آفتاب اقبال اور سلمیٰ کے رشتے میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔ بالا دا ویجی گاٹ کا کرداری بیانیہ اس گہنے کو پہن کر بھی سج سنور نہیں پاتا: فُدّی کی عزت کی حفاظت کو نکلنے والا فُدّی العقیدہ مُسلوں کے ہتھے چڑھ کر مارا جاتا ہے۔ (ایک ضمنی بات سنتے جائیے: ناول کے اکثر مرد کردار فُدّی العقیدہ مسلمان ہیں۔)

__سلمیٰ اور آفتاب اقبال کا محبتی تعلق ابھی اڑان بھرنے کو پَر تول رہا ہے کہ سلمیٰ پہ کھلتا ہے کہ آفتاب اقبال کی ماں کا مذہب کچھ اور ہے۔ تعلق کا پرندہ پر تولتا رہ جاتا ہے۔ خلیج دونوں کے بیچ بڑھتی معلوم پڑتی ہے۔

ایک دن آفتاب اقبال اسی مسئلے پہ سوچتے ہوئے ایک فقرہ دہرانے لگتے ہیں۔ اچانک ان پہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہی فقرہ انھوں نے اپنے والد کی ڈائری میں پڑھ رکھا ہے۔ وہ اپنی ڈائری میں یہ فقرہ لکھتے ہیں: تمہیں ایسا کیوں کرنا پڑا، امِّ سلمیٰ؟

__مشعال، ایک معروف ٹی وی اینکر بننے کے بعد بھی اپنے تیسرے درجے کی سوچ والے عاشق جاوید سے ملاقات کو راضی ہو جاتی ہے۔ وہ اس کے اندر کسی مَثبت تبدیلی کی خواہش لیے اس سے ملتی ہے۔ مگر اس کی حیرت اس دم دو چند ہو جاتی ہے جب وہ جاوید اقبال کو پہلے جیسا ہی چھچھورا، بے صبر اور سیکس کا بھوکا پاتی ہے۔

دوسری جانب، جاوید اقبال کے لیے بھی مشعال کا رویہ کسی انکشاف سے کم نہیں۔ دکھی اور مایوس وہ اپنی پرانی محبوبہ زرینہ کی جانب رجوع کرتا ہے۔ ادھر بھی ایک عدد انکشاف (epiphany) اس کا منتظر ہے۔ زرینہ اس پہ اپنے گھر اور دل کے دروازے بند کر دیتی ہے بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے۔

__بالا دا ویجی گاٹ نہیں جانتا کہ تحفظِ عِصمت کی خاطر اس سے سر زَد ہونے والا قتل اسے ویجی گاٹ مجاہدینِ اسلام کے ہاتھوں شہید کرا دے گا؛ حضرت بالاپھے دال شہید!

4.1_ناول کے انگریزی متن والے پارے بہتوں کو نہیں بھائے۔ جانے کیوں!

انگریزی متن کا پہلا پارہ مشعال اور جاوید کی موبائل فون پر چیٹنگ پر مشتمل ہے۔ یہ چیٹنگ جاوید اور مشعال کے کرداروں کو اکیسویں صدی کے لڑکا لڑکی کے ٹائپ کرداروں کا درجہ عطا کر دیتی ہے۔

پہلی سطح پر دونوں کے اپنے اپنے سچ، اپنے اپنے جھوٹ کھل کر سامنے آتے ہیں۔ دو پریمی جب موبائل فون پر گپ شپ کرتے ہیں، وہ بھی نصف شبی کے عالم میں جب شباب دوزخ بنا ہوتا ہے، اور جب امی کے جاگ جانے کا اندیشہ ایک طرف، اور ”وہ امی (کیہڑی امی؟) کا فون آگیا تھا“ کا حربہ دوسری طرف حقیقت میں باطل کی آمیزش کرتا ہے، تو اکیسویں صدی کے پریمیوں کی نفسیات تو عیاں ہونی ہوتی ہے۔

کوئی بھی ما بعد جدید فکشن نگار ضرور چاہے گا کہ اس کے تخلیق کردہ کرداروں کا بھید قاری پر جہاں تک ممکن ہوکھل جائے، عجب طرح سے کھل جائے۔ بھیدوں کو کھولنے کے لیے راست بیانیہ، مثالیں، اسطوراتی تماشا، مکالمے، عوامل، رد عوامل اور کرداروں کے ذہنی احوال کو متن کرنے کا اسلوب اور انداز تو رواج پذیر رہا ہے مگر ایس ایم ایس، اوروہ بھی جوں کے توں رومن ارد اور انگریزی کے ملاپ کی صورت میں، زیادہ دل چسپ اور معنی خیز شکل ہے جو ہمارے ناول نگار نے بنائی اور سجائی۔

اس میسجنگ کو آج کے معاشرے میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان قبل اَز نکاح استوار کیے گئے تعلق کی عمومی روش کے طور پر لیں تو، جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے، جاوید اور مشعال ٹائپ کرداروں کا لبادہ اوڑھ لیں گے۔ کیا آج کا ہر کنوارا اور ہر کنواری آدھی رات کی خاموشیوں میں اپنے گرم بستر میں سَر دیے ناول ہی کے انگریزی متن والے پیغامات کو نہیں دہراتا/دہراتی؟ ان میں کتنا سچ، کتنا جھوٹ ہوتا ہے؟ ان پیغامات کے اثرات کسی جوڑے پر کتنے گہرے یا کتنے سطحی ہو سکتے ہیں؟

ان سے متشکّل ہونے والی حقیقت اس کے متوازی چلنے والی حقیقت سے کتنی دور، کتنی پاس ہو سکتی ہے؟ یہ، اور اسی نوع کے اور سوال ہیں جن کے جواب ناول کے آنے والے حصوں میں ایک، یا دوسری شکل میں نمُو دار ہوتے ہیں۔ ان جوابات سے ناول کے پلاٹ کا با لواسطہ یا بِلا واسطہ ربط تو ہے۔ ہے نا جناب نقاد؟

4.2_ ارشمیدس والے غیر ضروری باب (کچھ ناقدین کی نظر میں یہ باب فالتو (superfluous) ہے۔ یہ باب نہ ہوتا تو ناول کے بنیادی ڈھانچے پہ کوئی فرق نہ پڑتا، وہ کہتے ہیں۔) کا پارہ نمبر پانچ   ،سات، بارہ، چودہ اور پندرہ کا انگریزی متن پہلے باب کے متن سے زیادہ معنی خیز، رمز آلود اور تنازعہ انگیز خیال کیا جا سکتا ہے۔

پانچویں پارے میں کچھوا__ جو ناول کے بیانیے میں شیکسپیئر کے ڈرامائی عِفریت ایسا کردار ادا کرتا ہے، جو سب کچھ جاننے والا ہے، راز داں ہے، راوی سے زیادہ طاقت ور، کرداروں اور قاریوں سے زیادہ جرات مند، سچا لبرل اور حقیقت پسند ہے__بالا دی ویجی گاٹ کا تعارف کراتا ہے، پوری سچائی سے کراتا ہے۔ بالا حرامدا ہے۔ اس لیے اسے حرامدوں ہی کے ہتھے چڑھنا ہے، حرام کاری ہی کرنا ہے، حرام موت ہی مرنا ہے۔ اور ایک حرامدا عالمی سیاست کو کیسے تہ و بالا (بالا!) کر سکتا ہے اس نکتے کے عملی اظہار سے پہلے ہمیں کچھوے کے انگریزی متن سے ہی سے معلوم پڑتا ہے۔ یہ انگریزی متن اگر اردو میں ہوتا تو شاید بیان کی شدت قاری کے ذہن پر محسوس ہونے کے بَہ جائے کہیں اور محسوس ہوتی، کہیں اور!

انگریزی متن کا ساتواں پارا سب سے دل چسپ اور خواندنی ہے۔ یہاں کچھوا امکانات کا استعارہ بن گیا ہے۔ یہی وہ پارہ ہے جسے اگر اردو ناول کا قاری پڑھ اور سمجھ لے تو اسے کچھوے کا کردار فالتو یا اضافی نظر نہ آئے گا: کچھوے کا کردار بہتے ہوئے بیانیے میں آ کر بہاؤ میں رکاوٹ نہیں بَل کہ اس بہاؤ کو ایک نئی سمت، نیا امکان دینے کی وجہ بنتا ہے۔ یہ درست کہ وہ ابہام پیدا کرنے کا سبب بھی ہے، مگر پھر ابہام کے چشمے ہی سے تو امکان پھوٹتا ہے اور فکشنی امکانِ نو ہی فکشنی جمالیات کا پروردگار ہے، دیوتا ہے۔ کچھو ا دیوتا!

ناول کے باقی ماندہ انگریزی متون سے بھی متذکرہ بالا  کام ہی لیا گیا ہے۔

5. سید کاشف رضا نے اپنے شعری مجموعے محبت کا محل وقوع کے آخر میں اپنی شاعری کے باب میں اپنی رائے (منشور) دیتے ہوئے لکھا ہے:

منفرد شخص کی زبان بھی منفرد ہوتی ہے۔ بل کہ یوں کہیے کہ اس کی زبان میں جو عناصر اس زبان کے عمومی عناصر سے منفرد ہوتے ہیں وہی اس کی شخصیت کی انفرادیت کا مظہر اور اس انفرادیت کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ہر وہ شخص جو اپنی شخصیت کو الگ شناخت کرکے علاحدہ سے تعمیر کررہا ہے اس کی زبان میں ایسے nuances ہوتے ہیں جو خود اس کی ذات سے مخصوص ہوتے ہیں۔اس لیے شاعر رائج زبان میں لکھتے ہوے بھی لاشعوری طور پر اس میں اپنے انفرادی nuances پروتا چلا جاتا ہے… یہ سب مل کر اس کی مخصوص دل چسپیوں کا اظہار کرتے ہیں جن سے اس کی شخصیت کی انفرادیت تشکیل پاتی ہے۔

 شاعری کے باب میں لکھے ہوئے ان خیالات کی روشنی میں چار درویش اور ایک کچھوا کو پڑھنے سے ناول، ناول کی تکنیک، ہیئت اور خود ناول نگار کی انفرادیت کو سمجھنے میں سہولت تلاش کی جا سکتی ہے۔

ان خیالات کی روشنی کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ناول کے کئی ایک فالتو دکھنے والے صفحے ناولی کہانی کے نا گزیر حصے لگیں گے۔

6. اردو کا ناول نگار خود آگاہ اور منطق پسند ہونے لگا ہے۔ وہ ناول کی موضوعی اور ہیتنی تنظیم و تنویر، عقیدے، نظریے، یا کسی خا ص فکر و فلسفہ کو سامنے رکھ کر کرنے کے بَہ جائے تہذیبی تجربے اور تکنیکی ڈھانچے پر استوار کرنے لگا ہے۔

اسے سمجھ آنے لگی ہے کہ ناولاتی دنیا تواریخ اور شاعری کے کہیں بیچ ایسی جگہ (space) آباد ہے جہاں ساری مخلوق خود شناسی کی فضا میں سانس لیتی ہے۔ جہاں boldness سارے میں گھومتی ہے۔ جہاں تخیل کے آگے کوئی نظریہ روڑے اٹکانے کی جرات نہیں کرتا۔ جہاں ضروری، غیر ضروری اور غیر ضروری ضروری ہو سکنے پہ قادر ہے۔ جہاں ایک تخلیقی مہم بے خطر آگ میں کودنے کو تیار ہے؛ یہ جان کر کہ کوئی ما وَرائی طاقت اسے بچانے آنے کو تیار نہیں اور اسے مُنھ پہ مسکان رکھے جل کر بھسم ہو جانا اور اس کی خاک کو سائنسی اصولوں کے بر خلاف پُر از توانائی باقی رہنا ہے__پہلے سے زیادہ زرخیزی کی حامل توانائی۔

اردو کا ناول نگار ایسی خود آگاہیوں تک پہنچ رہا ہے! کون سا اردو ناول نگار؟ حبس، وبا اور العاصفہ والا حسن منظر، حَسن کی صورت حال اور بے افسانہ والا مرزا اطہر بیگ، مٹی آدم کھاتی ہے والا حمید شاہد، جندر والا اختر رضا سلیمی، بھید والا محمد عاصم بٹ، ٹبا، شہر مدفون اور زینہ والا خالد فتح محمد اور کچھوے والا ناول نگار۔

از، اظہر حسین