انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط اوّل)

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت

ترجمہ، نصیر احمد

(1971 میں نوم چومسکی اور فرانسیسی فلسفی میشل فُوکو کے ما بین مکالمے کے ٹرانسکرپٹ کا ترجمہ۔ افلاطون کی طرح دونوں ہی دانش کدہ فلسفی ہیں اور اسی کی طرح دونوں کے پاس اپنی بنیادی بات کے لیے سائنسی ثبوت نہیں ہیں۔ اس لیے  اسی کی طرح تکنیکی پیچیدگی اور ادبی تصنع کے وفور کی وجہ سے معاملات شاید دھندلا گئے ہیں۔)

قسط 1

ایلڈر: خواتین و حضرات، عالمی فلسفیوں کے پروجیکٹ کے تیسرے مباحثے میں خوش آمدید۔ آج ہمارے ساتھ کالج ڈی فرانس کے میشل فُوکو اور میساچُوسٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے نوم چومسکی موجود ہیں۔ دونوں فلسفی کچھ باتوں پر متفق ہیں اور کچھ باتوں میں اختلاف رکھتے ہیں۔ شاید دونوں فلسفی ان کوہ کنوں کی مانند ہیں جو ایک ہی  پہاڑ کی دو مختلف سَمتوں سے مختلف اوزاروں کی مدد سے سرنگ کھود رہے ہیں، یہ جانے بَہ غیر در حقیقت وہ ایک دوسرے ہی کی جانب یہ سرنگ کھود رہے ہیں۔

مگر دونوں نئی فکر کی مدد سے اور پورے خلوص سے فلسفے اور سیاست میں کوہ کنی میں مصروف ہیں۔ اور اس بات کا ثبوت ہے کہ آج ہم دونوں فلسفیوں سے ایک من موہنے سے مباحثے کی توقع رکھیں۔

اس لیے وقت ضائع کیے بَہ غیر میں ایک بنیادی اور مرکزی سوال سے مباحثے کا آغاز کرتا ہوں۔ انسانی فطرت کا سوال۔

تاریخ اور لسانیات سے لے کر نفسیات تک ہر قسم کے علوم کو اس بنیادی سوال کا سامنا ہے کہ کیا ہم محض بیرونی عوامل کی پیدا وار ہیں یا ہمارے تمام تر اختلافات کے با وُجود ہم میں کوئی ایسی چیز موجود ہے جسے ہم مشترکہ انسانی فطرت کہہ سکتے ہیں جس کے باعث ہم ایک دوسرے کو بَہ طورِ انسان پہچان لیتے ہیں۔

اس لیے میرا پہلا سوال مسٹر چومسکی آپ سے ہے کہ آپ انسانی فطرت کا تصور کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ کس حوالے سے  بِن سیکھے خیالات اور بِن سیکھے ڈھانچوں جیسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔ (٭اب انیٹ کا ترجمہ، اندرونی، جبلی اور الہامی بھی ہو سکتا ہے لیکن ہم نے ثقالت اور کنفیوژن سے گریز کرنے کے لیے سادہ ترجمے کو ترجیح دی ہے، مترجم) آپ لسانیات سے کون سے دلائل اخذ کر سکتے ہیں جو انسانی فطرت کے اس تصور کو ایک مرکزی مقام  عطا کرتے ہیں؟

چومسکی: میں ذرا تکنیکی طرز سے شروع کرتا ہوں۔

زبانوں کے کسی بھی طالب علم کا اس پکے سے تجربی سوال سے ٹاکرا ہو جاتا ہے۔ اس کا سامنا ایک وجود سے ہوتا ہے، یوں جانیے ایک میچور، بالغ  بولنے والے سے جس نے حیران کن صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں؛ اور یہ صلاحیتیں اس بولنے والے کو اپنی بات ایک خاص طریقے سے کہنے کے قابل بناتی ہیں، دوسروں کی بات سمجھنے کے قابل بناتی ہیں، اور جس طور پر وہ کہتا اور سمجھتا ہے اسے ہم ایک اعلیٰ تخلیقی طرز کہہ سکتے ہیں۔

یوں جانیے کہ یہ شخص اپنے معمول کی بات چیت میں جو کچھ بھی کہتا ہے، اس میں جدت ہوتی ہے، اور جو آپ سنتے ہیں، اس میں کچھ نیا ہوتا ہے، اور آپ کے تجربوں سے اس شخص کے کہے کی کوئی مشابہت ہی نہیں ہے۔ اور یہ اچانک سا کوئی نیا روَیّہ نہیں ہے۔ واضح طور پر اس نئے سے رویے کی آپ کی صورتِ حال کے مطابق وضاحت آسان نہیں ہے۔ اور اس رویے میں بہت ساری  وہ خصوصیات موجود ہیں، جسے میں تخلیق کاری کہتا ہوں۔

اب اس شخص نے ان پیچیدہ اور شد و مد سے بیان کردہ صلاحیتوں کا یہ گٹھا حاصل کر لیا ہے۔ اور صلاحیتوں کا یہ گٹھا یقینی طور پر کچھ خاص قسم کے لسانی تجربوں سے دو چار ہوا ہے۔ یعنی اس شخص کو اپنی زندگی میں معلومات بھی فراہم ہوئی ہیں، اس کے ایک زبان سے متعلق بَہ راہِ راست تجربے بھی ہیں۔

اس شخص کے پاس موجود معلومات کے بارے میں ہم تحقیق کر سکتے ہیں۔ اس تحقیق کے بعد ہمارا سامنا عاقلانہ طور پر واضح اور تفصیل سے کھنیچی ہوئی تصویر کی مانند ایک سائنسی مسئلے سے ہوتا ہے۔

یہ مسئلہ  ایک فرق کا مسئلہ ہے، مقدار میں محدود اور معیار میں پست معلومات جو اس بچے کو فراہم کی گئی ہیں، لیکن یہ معلومات ایک احسن طریقے سے بیان کی گئی ہیں، ان میں ایک عمدہ نظام موجود ہے، اور ایک شان دار طرز پر ان کی تنظیم کی گئی ہے جو اس بچے نے ان محدود  اور پست معیار کی معلومات سے اخذ کر لی ہیں۔ یہاں ایک فرق پیدا ہوتا ہے جس کا حساب کتاب نہیں ہو پاتا۔

اس کے علاوہ ہم یہ بات بھی نوٹِس کرتے ہیں کہ  ایک زبان بولنے والے رنگ بہ رنگے تجربوں کے حامل رنگ بہ رنگے  افراد ایسے نظام ہائے گفتگو اخذ کر لیتے ہیں جو ان افراد کے گفتگو کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اپنے مختلف تجربوں کے با وُجود دو انگریزی بولنے والے ایک ہم آہنگ نظام گفتگو طے کر لیتے ہیں۔ ہم آہنگ اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کی زیادہ تر گفتگو کی تفہیم کر لیتے ہیں۔

علاوہ ازِیں، یہ بات بھی  توجُّہ طلب ہے کہ ہم نوٹِس کرتے ہیں، زبانوں کی ایک کثیر تعداد میں، در اصل ان تمام زبانوں میں جن کو سٹڈی کیا گیا ہے نظام ہائے گفتگو کی توجہ طلب حدود ہیں،جو ان مختلف تجربوں کے ذریعے نمُو دار ہوتی ہیں جن سے یہ زبانیں بولنے والے گزرتے ہیں۔

اس قابلِ ذکر واقعےکی ایک ہی ممکنہ توضیح ہے جو مجھے ایک سکیمی طرز میں بیان کرنی پڑے گی۔ اس واقعے کی وجہ سے ہمیں یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ ایک فرد زبان کی سکیمی ساخت کی ترتیب میں بہت زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔ اور شاید یہ فرد اس علمی مواد کی ترتیب میں بھی اتنا ہی مضبوط کرتا ادا کرتا ہے جو یہ فرد اپنے بکھرے ہوئے اور محدود تجربوں کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔

ایک فرد جو زبان جانتا ہے اس نے یہ علم اپنے تجربوں  کو ایک واضح اور تفصیلی طور پر دانستہ ترتیب کی گئی سکیم میں ڈھالنے کے بعد حاصل کیا ہوتا ہے اور یہی سکیم اسے اس علم کے بارے میں آگاہ کرتی ہے جس سے اس کا سامنا ہوتا ہے۔

اس بات کو اگر ہم ڈھیلے ڈھالے طریقے سے کہیں تو بات یوں بنتی ہے۔ ایک بچے کو پہلے سے موجود علم کے ذریعے شروعات کرنی پڑتی ہیں۔ یقینی طور پر اس بچے کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ ڈَچ، انگریزی یا فرانسیسی زبان سن رہا ہے لیکن بہ ہر حال یہ بچہ اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ وہ ایک محدود اور واضح قسم کی انسانی زبان کے ذریعے اپنے علم کا آغاز کر رہا ہوتا ہے جو اسے بہت ہی کم تبدیلیوں سے آشنا کرتی ہے۔

چُوں کہ یہ بچہ ایک بہت ہی منظم اور پا بند قسم کے بنیادی ڈھانچے سے سیکھنے کا آغاز کرتا ہے اس لیے اس ڈھانچے کی موجودگی اسے اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ اپنی بکھری ہوئی اور کٹی پھٹی معلومات کو  منظم علم کی شکل دے سکے۔

اس بات میں میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا  کہ اس نظامِ علم کے اجزاء، جس علم کو میں ان سیکھا یا جبلّی علم کہتا ہوں جو یہ بچہ زبان سیکھنے کے لیے کام میں لاتا ہے، بیان کرنے کے لیے ہمیں یقین کی کئی منزلیں طے کرنے پڑیں گی۔ اور ہمیں اس نظام کی وضاحت کے لیے کافی محنت کرنی پڑے گی جو کہ بچے  کے ذہن میں علم کے حصول کے دوران موجود ہوتا ہے۔

اگر آپ پسند کریں تو میں یہ دعویٰ کرنا چاہوں گا کہ یہ جبلی علم اور یہ دانستہ مرتب سکیم جو جزوی معلومات کی بنیاد پر پیچیدہ اور گنجلک علم کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے، انسانی فطرت کا بنیادی جزو ہے۔

میں اسے انسانی فطرت کا بنیادی جزو اس کردار کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو زبان ادا کرتی ہے، نہ صرف ابلاغ میں بَل کہ اظہارِ فکر اور بات چیت میں بھی۔ اور میرا خیال ہے کہ زبان یہ کردار انسانی تفہیم، انسانی رویوں اور انسانی ذہانت میں بھی یہ کردار ادا کرتی ہے۔

اچھا جی، یہ ان سیکھے تنظیمی اصول، سکیموں کا اجتماع، یہ گٹھڑی، ہمارے دانش ورانہ، سماجی اور انفرادی رویے کی رہ نُما ہوتی ہے اور جب میں انسانی فطرت کے تصورات کا ذکر کرتا ہوں تو میری مراد یہی گٹھڑی ہی ہوتی ہے۔

(اس کے بعد فُوکو اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ جو اگلی قسط میں پیش کیا جائے گا۔)