مادری زبان ایک ڈھکوسلا: ایک مکالمہ

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

شعبۂِ اُردو (وَٹس ایپ گروپ) میں حال ہی میں، مقامی زبانیں ایک حقیقت یا ڈھکوسلا، کے موضوع پر کیا گیا ایک مکالمہ۔ احباب کسی بھی رائے سے اتفاق یا اختلاف کر سکتے ہیں اور گفتگو کو آگے بھی بڑھا سکتے ہیں۔

پروفیسر خالد نذیر:

میں اپنا یہ مضمون بَہ طورِ مباحثہ  دوستوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں دوست اس حوالے سے اپنی رائے ضرور دیں گے۔

مادری زبان ایک ڈھکوسلا

از، خالد نذیر

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک اخبار میں اسفند یار ولی خان سیاسی رہنما خیبر پختون خوا کا بیان پڑھا تھا کہ جس میں اس نے کہا:

“میں چار ہزار سال سے پٹھان ہوں چودہ سو سال سے مسلمان ہوں اور ساٹھ سال سے پاکستانی ہوں تو پھرکیوں نا مجھے اپنے پٹھان ہونے پر فخر ہو،” اس سے ملتی جلتی بات غالباً قمر زمان کائرہ نے بھی اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہی تھی۔ میں اور میرا دوست جمشید ان کے اس بیان پر ہنستے ہوئے تجزیہ کرنے لگے کہ یار ان کا احساسِ تفاخر وہاں سے شروع کیوں نہیں ہوتا جب ان کے اجداد درختوں کے پتے جسم پر باندھتے تھے اور غاروں میں رہتے تھے۔

خیر بات آئی گئی ہو گئی اور ہم باتیں کرتے اور چائے پی کر رخصت ہو گئے۔ پھرکچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں کالج میں کرسی ڈال کر دھوپ لگوا رہا تھا اور میرے چند دوست بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے کہ اتنے میں میرے گھر سے فون آ گیا۔ میری بیوی مجھ سے کہنے لگی کہ آپ کے بچے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو میں ان سے باتیں کرنے لگا۔

میں اپنے بچوں کے ساتھ اردو زبان میں بات کر رہا تھا۔ بات ختم ہوئی تو میرا ایک پنجابی دوست مجھ سے کہنے لگا:

پا جی! تسی سرائیکی او نا تے فیر بچیاں نال اردو اچ گل کیوں کیتی اپنی مادری زبان سرائیکی وچ گل کردے۔

میں نے ہنستے ہوئے کہا:

سر وہ اس لیے کہ میں چاہتا ہوں وہ مجھ سے زیادہ اچھی اردو بولنا سیکھ جائیں اور بولیں۔ 

میرے ایک اور دوست جو سرائیکی بولنے والے ہیں تو انہوں نے مخصوص انداز سے کہا:

سر! اس طرح تو آپ کی اپنی زبان ختم ہو جائے گی اور آپ کا کلچر معدوم ہو جائے گا اور یوں آپ اپنی پہچان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ 

میں نے کہا:

جناب! نا جانے کیوں ہم ختم ہونے سے اتنا ڈرتے ہیں۔ زبان ختم ہوتی ہے تو ہو جانے دو، کلچر نے مرنا ہے تو مر جانے دو اور ویسے بھی ہر چیز نے ہمیشہ نہیں رہنا ہوتا۔ میرے نزدیک زبان اور کلچر متواتر اور مسلسل تبدیل ہونے والی چیزیں ہیں۔ میں ان دونوں کو ساکت اور جامد نہیں سمجھتا۔ اور ویسے بھی میں تبدیلی کو زندگی کا بنیادی عُنصر سمجھتا ہوں۔ او میرے پیارے بھائی! میرا مسئلہ پہچان کا نہیں ہے، بَل کہ ارتقاء کا ہے۔ 

وہ دونوں دوست مجھ پر ہنستے ہوئے چلے گئے مگر میں خود انسانی ارتقاء اور تاریخ میں کہیں کھو کر رہ گیا۔ میں سوچنے لگا آج سے ہزاروں سال پہلے کرّۂِ ارض پر بولی جانے والی زبانوں اور رہن سہن کے انداز کا نا جانے کیا انجام ہوا، کہاں گئیں وہ عظیم الشان تہذیبیں اور زبانیں کہ جن کو خدا سے ہم کلام ہونے کا دعویٰ تھا۔ میرے نزدیک قوم، قبیلہ، زبان اور جغرافیہ یہ سب مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ انسانوں میں اپنے مفادات کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور حل بھی ہو۔

یہ تقسیم ایک نا گزیر عمل ہے، مگر بد قسمتی ہے ہمارے ملک پاکستان میں اس تقسیم کی ترتیب غلط ہے یہاں سب سے پہلے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں وہ کس قوم سے ہیں؛ قوم سے مراد (کاسٹ) ہے پھر قبیلہ، زبان اور آخر میں جغرافیہ آتا ہے، یعنی کہ وہ پاکستانی ہیں۔

اگر اس ترتیب کو الٹ دیا جائے، یعنی پہلے پاکستانی پھر زبان اور بعد میں قبیلہ اور آخر میں قوم ہو جائے تو شاید ہم دنیا میں اپنی بڑی پہچان بنا سکیں ورنہ پھر وہی چھوٹی چھوٹی سی شناختیں بنی رہیں گی۔ اور تقسیم در تقسیم کے بعد ہمارے آقا ہم پر حکومت کرتے رہیں گے۔

مجھے ایک بات کی کبھی بھی سمجھ نہیں آئی کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں کہ جہاں ہر چیز چشمِ زدن میں تبدیل ہو جاتی ہے تو لوگ کیوں اور کس لیے معدوم، یا ختم ہو جانے سے ڈرتے ہیں۔

میرے نزدیک زبان اور کلچر کا بھی یہی معاملہ ہے مثلاً میں سمجھتا ہوں کہ اردو برِّ صغیر پاک و ہند کے علاقائی زبانوں کے اشتراک سے اور کچھ بیرونی زبانوں کی شمولیت کہ جس میں فارسی، عربی، انگریزی شامل ہے سے مل کر بنی ہے۔ چُناں چِہ اگر ہم اردو کو ہندوستان اور پاکستان کی مقامی زبانوں کا جدید ورژن کہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ اور جب ہم مختلف گھریلو استعمال کی چیزوں میں جدید ورژن استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر زبان اور کلچر میں کیوں نہیں۔

اگر ہم برِّ اعظم ایشیاء اور یورپ کی ترقی کا جائزہ زبانوں کو بنیاد بنا کر کریں تو میرا یہ خیال ہے ترقی کے اس فرق میں جہاں اور محرکات نے اہم کردار ادا کیا ہے وہاں زبان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ نے بَہ تدریج چھوٹی چھوٹی کئی زبانوں سے پیچھا چھڑا کر ایک زبان اپنا کر قومی یک جہتی کی تشکیل کو ممکن بنایا۔ اور یوں متعدد چھوٹی اکائیوں سے دامن بچا کر بڑی اکائی میں خود کو بدلا۔ کثرت سے وحدت کا سفر طے کیا۔

آپ اس بات کا اندازہ صرف برِّ صغیر پاک و ہند میں بولی جانے والی زبانوں کے گوشواروں کے مقابلے میں یورپی زبانوں کے گوشواروں سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کو متنوِّع زبانوں اور کلچر کی سر زمین کہا جاتا ہے اور اس کے بر عکس دنیا کے باقی خطوں نے آہستہ آہستہ یک سَاں زبان اور کلچر کو اپنانے کی روش کو اختیار کیا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سکیم یا سازش کے تحت دنیا کے چھوٹے لسانی گروہوں کو پروان چڑھا کر انہیں تقسیم کیا جاتا ہے تا کہ سام راجیت اپنے مذموم عزائم کو اپناتے ہوئے لوگوں کو اپنا غلام آسانی کے ساتھ بنا سکے اور حکومت کر سکے۔

یہاں میں ایک انتہائی سادہ اصول بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ کسی بھی زبان کا بنیادی مقصد ابلاغ ہوتا ہے اپنا مافی الضمیر دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ اور ذریعہ زبان فراہم کرتی اس کے علاوہ زبان کا کوئی کردار نہیں ہوتا اب ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہوچکے ہیں کہ جسے گلوبل ویلج کہا جاتا ہے یعنی دنیا اپنے ابلاغ کے معاملے میں جغرافیائی حدوں سے نکل کر باہر کی دنیا سے ہم کلام ہونے لگی ہے۔ جدید دور کا جو بھی انسان دنیا کے جتنے زیادہ انسانوں سے ہم کلام ہونے کی صلاحیت رکھے گا وہ اتنا ہی ایک بہتر پھر پُور زندگی گزار سکے گا۔ ورنہ کنویں کے مینڈک سے زیادہ سے اس کی کوئی حیثیت نہ ہو گی۔

ہمارے ہاں کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی کہ ہم نے مادری زبان اور کلچر کو عقیدت کے سنگھاسن پر بٹھا کر ایمان کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ماں بولی دھرتی ماتا کے فلسفے کے جیسے سمجھی جاتی ہے۔ تاریج گواہ ہے کہ جن اقوام نے دھرتی ماتا والے فلسفے کے مقابلے میں ہجرت کو اپنایا وہ فاتح اقوام کہلائے۔ یہاں ایک بات کی پھر وضاحت کرتا چلوں کہ لفظ ماں بولی کے ایک تو لفظی معنی ہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایسی زبان جو آپ اپنی ماں کی زبانی سنتے ہیں اور پھر ماں ہی سے پہلی بار سیکھتے ہیں اگر اماں ہی اپنی زبان تبدیل کر دے تو پھر وہی اس بچے کی زبان ہوگی ماں بولی کا ایک دوسرا معنی بَہ طورِ اصطلاح کے بولا جاتا ہے یعنی ایسی زبان کہ جس کا تعلق ایک خاص دھرتی اور جغرافیے کے اندر رہنے والے لوگوں کی زبان سے ہے، جو وہ بولتے ہیں۔

زبان کے حوالے سے ایک نظریہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ زبان ہر پچاس ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر اپنا لہجہ انداز بدل لیتی ہے۔ میرا خیال ہے یہ اعداد و شمار بہت پرانے ہیں اگر کوئی آج کے دور میں فاصلے کی اس حد پر زبان کی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لے تو شاید یہ اعداد و شمار اب دو تین سو کلومیٹر فاصلے تک پہنچ جائیں۔ مگر اس کُلیے پر وہ آباد کار اور ہجرت کرنے والی زبانیں اور کلچرز شامل نہیں ہوں گے جو مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے دوسرے علاقے میں آباد ہوئے۔

زبان کی بنیادی تعریف سے لے کر اس کے مقاصد تک کو اگر ہم سادہ ترین لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو تین اہم باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

  1. آوازوں اور علامتوں کا با معنی اظہار
  2. احساسات و جذبات کی ترجمانی
  3. حصول علم میں اضافہ

اب جہاں تک آوازوں اور علامتوں کے با معنی اظہار کی بات ہے تو دنیا کی تقریباً سبھی بڑی زبانیں اس بات کا دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ با معنی اظہار کی صلاحیت رکھتی ہیں اور حساسات و جذبات کی ترجمانی کے حوالے سے دنیا کی سبھی زبانوں کے ہاتھ کھڑے ہیں کہ ابھی تک انسان نے اپنا ایسا کوئی اظہار تخلیق نہیں کیا کہ جو انسان کے احساسات و جذبات کی دورست اور صحیح ترجمانی کر سکے؛ باقی رہی بات علم کے حصول کی تو اس کا دائرہ کم از کم پچاس ساٹھ کلومیٹر یا دو تین سو کلومیٹر تک کے فاصلے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ایک انسان نے اپنی ساری زندگی پچاس ساٹھ کلومیٹر  یا زیادہ سے زیادہ دو تین سو کلومیٹر کے دائرے میں رہ کر گزارنی ہے یا پھر اس نے اس حدود سے نکل کر بہت دور قومی یا بین الاقوامی سطح سے بھی آگے تک جانا ہے تو پھر فیصلہ اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ چُناں چِہ میں سمجھتا ہوں کہ ماں بولی محض ایک ڈھکوسلا ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی اور حیثیت نہیں ہے۔


آغازِ مکالمہ

علی رضا دانش:

ظفر لاشاری صاحب کے بَہ قول زبانیں قرآنی آیات کی طرح مقدس ہیں اور ماں بولی سے ہماری محبت بھی فطری ہے۔ لیکن آپ کی اس بات کی تائید کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قومی زبان کی ترقی ہی ہمارے اتحاد کا سبب بن سکتی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر مظہر:

جن مادری/علاقائی/مقامی زبانوں پر تبرّا کیا گیا ہے اور اسی قبیل کی یورپی زبانوں سے موازنہ کیا گیا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا ان زبانوں کے ادب کی گہرائی و گیرائی، معیار و مقدار کا موازنہ بھی اپنی زبانوں سے کر لیا جاتا۔ میرے خیال میں اگر ہم اپنی مقامی زبانوں کو اپنا سمجھتے ہوئے انہیں پروان چڑھاتے تو آج ہم مذکورہ دعوؤں میں حق بَہ جانب ہوتے۔ اردو ہمارے لیے اتنی ہی alien ہےجتنی English اجنبی۔

زبانوں پر بات کرتے ہوئے مقامیت، مقامی ثقافت اور تہذیبی ثقافت کو نظر انداز کیسے کیا جاسکتا ہے؟ Colonialism کی عطا ہے کہ مقامیت کی نفی کی جائے، مقامی زبان و ادب کو کم تر سمجھا جائے اور اسی پونے دو سو سال کی مساعی کا نتیجہ ہے کہ آج سرائیکی سندھی اور پنجابی، علی ہٰذا القیاس زبانیں بہ یک جنبش قلم معتوب ٹھہریں کہ یہ ارباب اختیار و اقتدار کی زبانیں نہیں۔

مزید بَر آں sociolinguistics اور psycholinguistics کے سارے ضابطے موقوف و معطل ٹھہرے؛ diction, semantics, اور stylistics کے سُر تال کو محض زبان دانی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ابھی structuralism کا نوحہ پڑھنا باقی ہے۔

مقامی/مادری زبانیں کس اعتبار سے پس ماندہ زبانیں ہیں کہ ان کے ارتقائی یا بہتر ورژن جیسے اس مباحثے میں اردو سے تعبیر کیا گیا ہے کو اپنایا جائے؟

مقامی زبانیں کس اعتبار سے اغیار کی سازش قرار دی جا سکتی ہیں کہ اغیار سے برِّ صغیر کا پالا پندرہویں صدی عیسوی میں پڑا ہے؟

پروفیسر خالد نذیر:

مظہر بھائی، بھاری بھرکم علمی و ادبی اصلاحات سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اور ویسے بھی میں سمجھتا ہوں ثقیل اصطلاحات سے بات کو الجھایا تو جاسکتا ہے مگر سلجھایا نہیں جا سکتا۔ میری تمام قوم پرست اور مقامی یا مادری زبان کے حق میں اپنی رائے رکھنے والے دوستوں سے صرف اتنی التجا ہے کہ جذباتیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اٹھائے گئے سوالات کے مدلل جوابات دیں تا کہ اصل موضوع صحیح سَمت میں بڑھ سکے۔

مظہر صاحب! بات کسی بھی زبان کے پس ماندہ یا اعلٰی و ارفع ہونے کی نہیں ہے۔ اور نا ہی میں نے یہ لفظ پس ماندہ، اپنے مضمون میں استعمال کیا ہے، کیوں کہ اس لفظ کے استعمال سے میری اور آپ کی بات میں فرق آ جائے گا۔ اور ہم دونوں اصل موضوع سے دور ہو جائیں گے۔ تاہم اردو زبان کو میں نے ہندوستان کی مقامی زبانوں کا جدید ورژن کہا ہے تو اس بات کا ثبوت تاریخِ زبان و ادب کے مؤلفین اور مصنفین نے تقریباً اپنی تالیفات و تصنیفات میں دے دیا ہے۔

کم از کم اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مقامی زبانیں بولنے والے بھلے ایک دوسرے سے بات نہ کر سکتے ہوں مگر اردو میں گفتگو سے ایک دوسرے کو بات سمجھا ضرور سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اردو یہاں کی مقامی زبانوں کے  اشتراک سے مل کر بنی ہے اور سب سے بعد میں آئی ہے جب کہ باقی سبھی مقامی زبانیں اردو سے زیادہ قدیم ہیں۔

مظہر صاحب! بات سے بات اور سوال سے سوال پیدا کرنا بہت آسان ہے۔ میں آپ سے صرف اتنی بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا مقامی زبان سے زیادہ بہتر یہ نہیں ہو گا کہ ہم بَہ حیثیت ملک، قوم یا گلوبل ویلیج کے فرد کی حیثیت سے ایک ایسی زبان اختیار کریں کہ جس سے ہم دنیا کی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائیں۔

چلیں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہم پاکستان میں سبھی مقامی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے رہے ہیں، جو ایک اندازے کے مطابق تیس سے پینتیس کے لگ بھگ ہیں، اور پھر ہم ان تمام زبانوں میں لوگوں کو جدید علوم سے بھی آراستہ کریں گے۔

آپ ان تمام زبانوں میں لوگوں کو ڈاکٹر، انجینئر، بینکر بھی بنائیں گے اور ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کا علم بھی دیں گے۔ آپ خود بتائیں کہ مقامی زبان میں یہ علمی تحصیل کیسے اور کیوں کر ممکن ہو پائے گی؟

پروفیسر ڈاکٹر مظہر:

اگر آپ کا مؤقف درست ہے تو انگریزی سے بہتر کون سا متبادل ہو سکتا ہے؟ جس کی گرامر بھی آسان ہے اور اس پر باقی زبانوں کے اثرات بھی کم ہیں، دنیا کا معیاری ادب بھی موجود ہے اور ترقی یافتہ زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ اقوام کی زبان بھی ہے۔

پروفیسر خالد نذیر:

یہ بہت اچھا جواز فراہم کیا ہے آپ نے۔ راول پنڈی میں سروس کے دروان اکثر وہاں کے لوگ مجھ سے یہی بات کیا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہمیں اپنی مادری زبان کے علاوہ کوئی ثانوی زبان (second language) اختیار کرنا پڑتی ہے تو پھر انگریزی کیوں نہیں؟ اُردو کے بَہ جائے انگریزی زبان اختیار کرنے میں زیادہ فائدہ ہے۔

تو بھائی! اس سلسلے میں گزارش ہے کہ اردو زبان کا مزاج اور اس کا صوتیاتی نظام برِّ صغیر پاک و ہند کی تقریباً سبھی زبانوں سے ملتا جلتا ہے۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس زبان نے دوسری بڑی اہم بین الاقوامی زبانوں کی علمی اصطلاحات کو بھی اپنے مزاج اور انداز کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

ضیغم رضا:

سر خالد صاحب! آپ نے اشارتاً اس مختصر سی تحریر میں مذکورہ موضوع کے ہر پہلو پہ بات کی ہے اور میرے خیال میں یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ  نظریۂِ ضرورت کو ہر دور میں اولیت حاصل ہے۔ زبان بھی ہر دور میں زیادہ سے زیادہ غلبے کے لیے بَہ طورِ ہتھیار استعمال ہوئی ہے۔ آپ نے گلوبلائزیشن کی طرف اشارہ کیا تو میرے خیال میں مقامی و مادری زبان کا شاعر و ادیب اسی صورت میں باقی دنیا سے رابطہ استوار کر سکتا ہے کہ یا تو وہ اپنے افکار دوسری زبانوں میں منتقل کرے یا پھر اپنے تمام تر ارفع خیالات سمیت اپنی زبان تک محدود رہے۔ مثال کے لیے لاطینی امریکہ کے چھوٹے سے خطے سے دنیا کی دوسری زبانوں میں پڑھے جانے والے مارکیز کو دیکھ سکتے ہیں۔

رفعت عباس سرائیکی کے با کمال شاعر ہیں، مگر اب وہ بھی ترجمے کے ذریعے اردو میں آ رہے ہیں۔ اور سو کی ایک بات، یہ یہاں سب بکاؤ ہے۔ آپ کے پاس کتنا اچھا مال ہے یہ بات اہم نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خریداروں کو کیسے متوجُّہ کر سکتے ہیں!

میری مادری زبان سرائیکی ہے، جب کہ یزمان کالج کی اکثریت تعداد طالب علم پنجابی ہے۔ میں سرائیکی میں پڑھاؤں تو کتنی بات سمجھا پاؤں گا؟

پروفیسر نوید مہدی:

ہاں ضیغم، دیکھو یہ ہے نیچرل طریقہ۔ ایسی مجبوریاں خود ہی زبانوں کو رد و قبول کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

دیکھو اردو کا انتخاب خود بَہ خود ہو جائے گا نا جب ایک استاد جس کی مادری زبان سرائیکی ہے ایسے لڑکوں کو اپنی بات خاطر خواہ انداز سے نہیں سمجھا پا رہا جن کی مادری زبان پنجابی ہے۔ چار و نا چار وہ ایک ایسی زبان کی طرف رجوع محذوف ہو گا جو ان فریقین کے درمیان ابلاغ کا ذریعہ بنے۔

پروفیسر خالد نذیر:

شکریہ ضیغم، آپ نے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے اپنی بھر پُور رائے پیش کی۔

حافظ جمشید احمد:

بہت شان دار مضمون باندھا ہے خالد صاحب آپ نے۔ معذرت خواہ ہوں کہ میں نے لیٹ پڑھا اور مصروفیت کی وجہ سے جواب بھی نہ دے سکا۔ اس مضمون کے بہت سے نکات بہت با کمال ہیں۔ مادری زبان کی حمایت میں ہونے کے با وُجود میں آپ کے اٹھائے گئے بہت سے نکتوں سے متفق ہوں۔ اور خوشی بھی ہے کہ آپ نُکتہ چِیں سے نُکتہ داں ہو گئے۔

جناب پروفیسر خالد صاحب! میں قومی زبان کے حق اور مقامی بولیوں کے رَد میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں اور مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے نہایت مفصل، مدلل اور منطقی شواہد کی روشنی میں اپنی بات احباب کے سامنے رکھی۔

حضور یہ بات مسلم ہے کہ اُردو ہماری قومی زبان ہونے کی حیثیت سے وسیع تر مراسلت و مکالمے کی زبان ہے اور اس کی معارفت و اظہاریے کا دائرہ وسیع تر و وقیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو زبان قومی زبان کی حیثیت اختیار کرتی ہے اس کا کینوس از خود بڑا ہو جاتا ہے۔ چُناں چِہ اگر ہم آج قومی زبانوں کے ادب کا بَہ لحاظِ حجم مقامی زبانوں سے موازنہ کریں تو یقیناً قومی زبانیں قابلِ رشک حد تک بہت آگے نظر آتی ہیں۔

قومی زبان کی یہ عددی یا کمیتی بَر تری مقامی زبانوں کے رَد کی سند فراہم نہیں کرتی، بَل کہ مقامی زبانوں کا رتبہ اور بڑھا دیتی ہے۔ قومی زبان اپنی تشکیل میں ہمیشہ مقامی زبانوں کی ماہِیَّت، فکر اور ہیئت سے را میٹیریل لیتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ قومی زبان مقامی زبان کے پیٹ سے جنم لیتی ہے اور اصل میں مقامی زبان ہی قومی زبان کی سگی ماں ہے تو کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کریں گے؟

علاوہ اَزِیں قومی زبان طویل العمر نہیں ہوتی، جب کہ مقامی زبان کی عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ قومیں مرتی ہیں، اُن کی زبانیں بھی مر جاتی ہیں لیکن مقامیت نہیں مرتی اسی لیے مقامی زبانیں ہمیشہ نئی قومی زبانوں تشکیل کے لیے زندہ رہنی چاہییں۔

مادری زبانیں خود کو پہچاننے کا پہلا وسیلہ ہیں، جب کہ قومی زبانیں دوسروں کو جاننے کا ذریعہ ہیں۔ مادری زبان کے آئینے میں اپنی شکل صاف دیکھ سکنے والے ہی قومی زبان کے آئینے میں دوسروں کی تصویر دیکھ پاتے ہیں۔ مادری زبان کو چھوڑ کر ہم اپنی شناخت کا پہلا وسیلہ ختم کردیں گے تو قومی آئینے میں دوسروں کی تصویر صحیح دکھائی نہیں دے سکے گی۔

میرا خیال ہے کہ قومی زبان کو جنم دینے والی مقامی یا مادری زبانوں کو گھروں میں رائج کر کے ان کی قدر کی جانی چاہیے اور ان کو عزت دینی چاہیے۔ دوسری بات آپ نے قومی زبان کے ارتقاء کے حوالے سے کی۔

خالد صاحب! شناخت زمینی، اور ارتقاء زمانی مسئلہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ دونوں عوامل بَہ یَک وقت وقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔ شناخت کا سفر تھوڑا اور منزل قریب ہوتی ہے جب کہ ارتقاء کا سفر بہت لمبا ہوتا ہے۔ ایک ارتقائی سفر کے دوران شناخت اپنی منزل پانے کا عمل کئی بار دُہرا چکی ہوتی ہے۔

آپ کا استدلال یہ ہے کہ چُوں کہ اردو، ہماری قومی زبان، مقامی زبانوں کے ارتقا کی جدید شکل ہے تو ہمیں اس جدید ورژن کو اپنانے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے اور ہم پرانے ورثنز (مادری زبانوں) ہی پر مُصر کیوں ہے۔

خالد صاحب! ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں والی بات بالکل درست کہ اس سے انکاری کون ذی شعور ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ یہاں ایک چُوک کر گئے ہیں۔ اردو کو آپ نے ارتقاء کے مرحلے میں ڈال کر مقامی زبانوں کے اس میں ضم ہونے کا فتویٰ صادر فرما دیا۔ میرا خیال ہے کہ معاملہ ایسا نہیں۔

جس طرح ہر چیز اپنی ارتقاء کا سفر اپنے وُجود کے دائرے میں طے کرتی ہے اسی طرح زبانیں بھی (وہ چاہے قومی ہوں یا مقامی) اپنے اپنے دائرے میں اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہیں۔ قومی زبان کا درجہ حاصل کرنے والی زبانوں کا یہ سفر معروف ہوتا ہے، سو دِکھ جاتا ہے جب کہ مقامی زبانوں کا یہ سفر مجہول ہوتا ہے، سو نظر نہیں آتا۔

جہاں اردو نے ارتقاء کا طویل سفر طے کیا ہے وہاں مقامی زبانوں (سرائیکی اور پنجابی) نے بھی اپنے اپنے دائرے میں جدت اختیار کی ہے۔ کئی تحریکیں چلیں، کئی تنظیمیں بنیں، کئی ادبی دوست و متحارب گروپ مقامی زبانوں میں بنے جو ان مقامی زبانوں کے ارتقاء کی علامت ہیں۔

سو یہ بات طے ہے کہ قومی زبان کے متوازی مقامی زبان بھی ارتقائی عمل سے گزرتی ہے۔ اس پر بھی تغیر کا گہرا رنگ ضرور چڑھتا ہے۔ سو مقامی زبان کو ترویج دینا میرے نزدیک عقیدت نہیں بَل کہ ضرورت کے زُمرے میں آتا ہے۔

پروفیسر خالد نذیر:

مکرم پروفیسر جمشید احمد صاحب! آپ نے انتہائی شان دار، علمی طریقے سے ایک بھر پُور متوازن تحریر سے مسئلہ کی نوعیت اور اس کے حل کو پیش کیا ہے کہ جس کی داد دیے بَہ غیر اگر میں کچھ کہوں تو بڑی زیادتی ہو گی۔آپ کی رائے میں جو بات قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے:

مادری زبانیں خود کو پہچاننے کا پہلا وسیلہ ہیں، جب کہ قومی زبانیں دوسروں کو جاننے کا ذریعہ ہیں۔ مادری زبان کے آئینے میں اپنی شکل صاف دیکھ سکنے والے ہی قومی زبان کے آئینے میں دوسروں کی تصویر دیکھ پاتے ہیں۔

میرے دوست! میں نے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ مقامی، علاقائی، یا مادری زبان سے محبت رکھنے والوں کا شاید سب سے بڑا مسئلہ ہی پہچان یا شناخت کا ہوتا ہے۔ مگر آپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خود زندگی کو اپنی پہچان سے زیادہ ارتقاء سے غرض ہوتی ہے اور ایک با شعور انسان کا مسئلہ بھی شاید شناخت سے زیادہ ارتقاء کا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ قوموں کے درمیان بھی یہی فرق ہے۔ ترقی پذیر ممالک اپنی شناخت تلاش کرتی پھر رہی ہیں جب کہ ترقی یافتہ اقوام یا ملک ارتقاء کے نظریے پر گام زَن ہیں۔

میں ایک بار پھر کہوں گا کہ علاقائی یا مادری زبان سے تعلق بھی شاید عقیدے سے محبت جیسا ہوتا ہے کہ جس سے جان چھڑانا مشکل ہوتا ہے۔ گرو جنیش نے کہا تھا:

تبدیلی موت کے جیسے ہوتی ہے

اور ہم سب تبدیل ہونے سے ڈرتے ہیں۔ میں اگر درج بالا آپ کی دی گئی رائے کو سامنے کھ کر بات کروں کہ پہلے اپنی شناخت کرنے والا ہی دوسروں کو پہچان پاتا ہے، تو میرے دوست! انسان کی اصل پہچان ہی کوئی دوسرا انسان کرواتا ہے۔ میں اس لیے ہوں کہ تُو ہے۔ یعنی میں کی اصل پہچان تُو کرواتا ہے؛ تصوف اور صوفیّت کی زبان میں اس نظریے کو مَن و تُو کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر مظہر:

حضرت خالد صاحب!  پیچیدہ اصطلاحات سے مسئلے کو گمبِھیر مت کیجیے۔ جمشید صاحب نے کمال سادگی و مہارت سے سلجھایا ہے۔

ڈاکٹر عبیداللہ سکھیرا:

نوید مہدی کی فرمائش کی تعمیل میں خالد نذیر صاحب کو اتنا خُوب صورت مضمون پیش کرنے پر مبارک باد، جس کے ہر ہر پیراگراف پر مُتَنَوِّع پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے۔

 لیکن مجھے مضمون کی وہ لائنز بہت اپیل کر گئیں جن میں زبان اور کلچر کو مسلسل اور متواتر تبدیل ہونے والی قرار دیا گیا ہے۔

بلا شبہ خالقِ کائنات نے ہر شے کو اُس کے موجود ماحول کے ساتھ کلی مطابقت سے اپنی ابتدائی شکل میں پیدا کیا اور پھر اُسے ارتقاء کی سیڑھی کا راستہ دِکھا دیا۔ جس کے زیرِ اثر ہر شئے  اپنے ہر لحظہ تبدیل ہوتے ماحول اور اُس کے تقاضوں کے زیرِ اثر اپنی بہتر سے بہترین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اور یہی تبدیلی اُس کی حیات کی ضامن بھی ہے۔ اگر کوئی شئے یا نوع وغیرہ، اِس تبدیلی کے عمل کے آگے مزاحمت کرے تو عہدِ نو کے تقاضوں سے ہار کر وہ شئے ختم ہو جائے گی۔ زبان اور کلچر،بھی نوعی ارتقاء کے survival of the fittest اِس ٭قانون کے آگے بے بس ہیں۔ (٭نوٹ: چارلز ڈارون کی تھیئری ہے، اسے قانون کہنا شاید سائنسی مکالمے کی زبان میں محتاط بیانی نا ہو، مدیر ایک روزن)

زبان ہو یا کلچر، ہر دو کے لیے صدیوں کی دانش، تجربہ اور عمل زیادہ سے زیادہ مفید، کار آمد ثابت ہوتا ہے اور اُسے refine کرتا جاتا ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظر زبان یا کلچرمیں آنے والی تبدیل کو خوش آمدید کہا جائے اور قدامت پسندی پر اصرار نہ کیا جائے۔ انگریزی کہاوت، change is always good کا بھی شاید یہی مفہوم بنتا ہے۔ تبدیلی کے اِس متواتر اور تیز  عمل کو دیکھ کر ہی مرزا بیدل نے تھا:

با ہر مژہ برہم زدن، ایں خلق جدید است

مجھے ہر پلک جھپک میں یہ کائنات نئی ملتی ہے۔

یقیناً دینِ اسلام میں وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیشِ نظر ہی اجتہاد، قیاس وغیرہ کا راستہ کھلا رکھا گیا۔

لِہٰذا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ماں بولی کبھی ختم نہیں ہوتی، بَل کہ ارتقائی عمل سے گزر اپنی جون بدلتی رہتی ہے جس سے وہ زیادہ شستہ، مفید  اور کار آمد ہو جاتی ہے۔ تہذیبیں اور زبانیں تب مرتی ہیں جب وہ بدلتے ہوئے وقت اور اُس کے تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور اپنی افادیت کھو بیٹھیں۔ یونی اور معدوم ہو جاتی، کیوں کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

ڈاکٹر مظہر صاحب نے درست اشارہ فرمایا کہ نو آباد کاروں کے حربوں میں سے یہ بھی ایک مؤثر حربہ رہا ہے کہ استعمار زدہ اقوام کے لسانی، قومی، علاقائی اور مذہبی تفرقوں کو غیر محسوس طریقے سے ہوا دے کر اُن میں انتشار اور افتراق کی کیفیت پیدا کرتے تھے اور مزے سے حکومت کرتے تھے۔

اردو ہندو تنازع بھی در اصل نو آباد کاروں کا پیدا کردہ تھا جسے شروع میں لسانی تفرقہ بنا کر برِّ صغیر کے لوگوں میں انتشار پیدا کیا اور بعد میں اردو کو مسلمانوں کی زبان اور ہندی کو ہندوؤں کی زبان قرار دے کر مذہبی تفرقے کی ایسی منافرت پیدا کر دی جو آج تک بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ورنہ انگریزوں سے قبل یہ دونوں قومیں کئی سو سال پُر امن رہ رہی تھی۔

میں خالد صاحب کے اِس مؤقف کی بھی بھر پُور تائید کرتا ہوں کہ اردو ہندوستان اور پاکستان کی مقامی زبانوں کا جدید ورژن ہے۔ لہٰذا ہم سب کے حق میں یہی بہتر ہے مفتیانِ لسانیات سے اِسی زبان (اردو) پر  ماں بولی کا فتویٰ لگوا کر قومی تکجہتی کی تشکیل کو ممکن بنا لیا جائے۔

عربی فارسی اور مقامی زبانوں کے گہرے اثرات کی حامل اِس زبان میں مقامی زبانوں، بالخصوص سرائیکی اور پنجابی کے اُن الفاظ کی آمیزش جاری رکھنی چاہیے جو مانوس ہیں، رواں ہیں اور خفیف اللسان بھی ہیں تا کہ اِس زبان پر مقامی اور مادری رنگ مزید گہرا نظر آئے۔

اردو کی افادیت کو بڑھانے کے لیے اِس کے تاریخی، سائنسی اور ادبی  علمی سرمائے میں اضافے کی کوششیں جاری رکھنی چاہیں۔ یوں انگریزی پر انحصار کا بھی کم سے کم ہو سکتا ہے۔

پروفیسر خالد نذیر:

واہ واہ بہت خوب، لا جواب اور خوب صورت جواب آپ کے ایک ایک پیراگراف پر دل جھوم جھوم سا گیا ہے۔ اپنے مضمون کے آغاز ہی میں آپ نے ارتقاء کے حوالے سے جو پیراگراف لکھا ہے یقین کریں میرے نظریۂِ ارتقاء کے تصور کو ایک نئی جہت اور نئی فکر سی دے دی ہے۔ میں نے مضمون کو تقریباً دس گیارہ مرتبہ پڑھا ہے، اور ہر دفعہ آپ کے لیے دل سے دعا نکلی ہے۔ اللہ پاک آپ کے علم اور مقام و مرتبہ میں خوب صورت اضافہ فرمائے آمین۔

پروفیسر ڈاکٹر مظہر:

حضور عبید اللہ صاحب! مقامی زبانوں کے نفسیاتی پہلوؤں پر بھی آپ کی ماہرانہ رائے درکار ہے۔ امید ہے کہ آپ اس حوالے سے بھی قیمتی وقت عطا کریں گے۔

پروفیسر خالد نذیر:

مظہر بھائی بہت خوب صورت سوال ہے۔ اور ڈاکٹر عبیداللہ سے میری بھی انتہائی گزارش ہے اس سوال پر بھی اپنی رائے سے ضرور مستفید کریں۔

پروفیسر نوید مہدی:

قبلہ بھٹی صاحب! آپ کا مضمون پڑھنے کا مجھے اب شرف حاصل ہوا ہے…   ماشاءاللہ … اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ پاکستان میں جو زبانوں کی کھچڑی پکی ہوئی ہے اس بارے میں صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کا جغرافیائی محلِّ وقوع اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہاں قومیتوں پر فرق بھی اسی لیے نظر آتا ہے کہ یہاں قوموں کی رنگا رنگی دیکھنے کو ملتی ہے اور واقعی میں یہ لوگ سوائے کلمۂِ طیبہ کے، کسی بھی معیار پر آپ کو ایک قوم کسی صورت نظر نہ آئیں گے۔

آپ کے جن نکات سے متفق ہوں ان سے قطع نظر، کچھ معروضات پیش کرنے کی اجازت کا طالب ہوں۔ ڈاکٹر صاحبان کی اجازت کے ساتھ!

آپ نے فرمایا:

بد قسمتی ہے ہمارے ملک پاکستان میں اس تقسیم کی ترتیب غلط ہے۔ یہاں سب سے پہلے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں وہ کس قوم سے ہیں۔ قوم سے مراد (caste) ہے، پھر قبیلہ، زبان اور آخر میں جغرافیہ آتا ہے، یعنی کہ وہ پاکستانی ہیں۔ اگر اس ترتیب کو الٹ دیا جائے، یعنی پہلے پاکستانی پھر زبان اور بعد میں قبیلہ اور آخر میں قوم ہو جائے تو شاید ہم دنیا میں اپنی بڑی پہچان بنا سکیں، ورنہ پھر وہی چھوٹی چھوٹی سی شناختیں بنی رہے گیں۔ اور تقسیم در تقسیم کے بعد ہمارے آقا ہم پر حکومت کرتے رہیں گے۔

قبلہ! اس ضمن میں عرض ہے کہ دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں تقریباً ہر ملک (چند بہت بڑے ممالک کو چھوڑ کر) ایک جیسے جغرافیائی خد و خال رکھنے والے علاقوں پر مشتمل نظر آتا اور اس وجہ سے وہاں ایک قوم بھی دکھائی دیتی ہے۔ قومی لا شعور کے بننے میں جغرافیے کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ان ملکوں کی جغرافیائی وحدت قدرتی طور پر ان افراد کو ایک قوم میں ڈھالنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

اب اگر پاکستانی نقشے پر غور کریں تو آپ کو مشرق سے مغربی سرحد اور شمال سے جنوبی سرحد تک مختلف جغرافیائی علاقوں کے سلسلے ملیں گے جہاں قوموں آباد ہیں۔ سرائیکی (فکری و ذہنی طور پر) اس لیے سرائیکی ہے کہ وہ روہی کا باسی ہے۔ پٹھان (فکری و ذہنی مجموعی طور پر) اس لیے پٹھان ہے کہ وہ پہاڑوں کا رہنے والا ہے۔ ایسے ہی ہر علاقے میں رہنے والوں کی سرشت وہاں کی آب و ہوا اور خغرافیہ بناتے ہیں۔ جب پاکستان میں آپ کو اس قدر بو قلمونی ملتی ہے، جغرافیائی سطح پر تو لازم ہے کہ افراد کے گروہ مختلف سوچ اور ذہنی اپروچ کے مالک ہوں گے۔ اسے آپ خوبی سمجھیں، یا (میری طرح) پیدائشی نَقص، لیکن یہ ایک اہم وجہ ہے جس کی بَہ دولت کبھی بھی خیبر پختون خوا کا رہنے والا پنجاب کے رہائشیوں کو دل کے اتنا قریب نہیں کر سکے گا جتنا ہنزہ یا چترال کے رہنے والے ہوں گے۔ نہ ہی ایک پنجابی مکران کے رہنے والوں کو اتنا اپنا سمجھ سکے گا جتنا وہ سندھ میں رہنے والوں سے اپنائیت کا اظہار کرے گا۔ الغرض ہم میں کسی طور بھی قومیت کا وہ جذبہ یا وہ پریکٹس دیکھ پانا یا ابھارنا نا ممکنات میں سے نہ سہی، بہت مشکل ضرور ہے۔

شاید اسی نکتے کو سمجھ کر یہاں کلمے کے نام پر ہمیشہ مختلف گروہوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی۔

حافظ جمشید احمد:

نوید صاحب! جو آپ نے بیان فرمایا یہ خالد صاحب کے مضمون کے ایک جزوی حصے کا جواب ہے۔ لیکن میرا خیال ہے خالد صاحب نے کسی اور نکتے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہاں بات کسی اور طرف نکل گئی ہے۔

پروفیسر نوید مہدی:

 جی اس طرف بھی آ رہا ہوں۔ بَہ تدریج آگے بڑھوں گا۔

خالد صاحب نے مزید فرمایا:

اب ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں کہ جسے گلوبل ویلج کہا جاتا ہے، یعنی دنیا اپنے ابلاغ کے معاملے میں جغرافیائی حدوں سے نکل کر باہر کی دنیا سے ہم کلام ہونے لگی ہے۔ جدید دور کا جو بھی انسان دنیا کے جتنے زیادہ انسانوں سے ہم کلام ہونے کی صلاحیت رکھے گا وہ اتنا ہی ایک بہتر پھر پُور زندگی گزار سکے گا۔ ورنہ کنویں کے مینڈک سے زیادہ سے اس کی کوئی حیثیت نہ ہو گی۔ اب جہاں تک آوازوں اور علامتوں کے با معنی اظہار کی بات ہے تو دنیا کی تقریباً سبھی بڑی زبانیں اس بات کا دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ با معنی اظہار کی صلاحیت رکھتی ہیں اور حساسات و جذبات کی ترجمانی کے حوالے سے دنیا کی سبھی زبانوں کے ہاتھ کھڑے ہیں کہ ابھی تک انسان نے اپنا ایسا کوئی اظہار تخلیق نہیں کیا کہ جو انسان کے احساسات و جذبات کی درست اور صحیح ترجمانی کر سکے؛ باقی رہی بات علم کے حصول کی تو اس کا دائرہ کم از کم پچاس ساٹھ کلومیٹر یا دو تین سو کلومیٹر تک کے فاصلے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ایک انسان نے اپنی ساری زندگی پچاس ساٹھ کلومیٹر یا زیادہ سے زیادہ دو تین سو کلومیٹر کے دائرے میں رہ کر گزارنی ہے یا پھر اس نے اس حدود سے نکل کر بہت دور قومی یا بین الاقوامی سطح سے بھی آگے تک جانا ہے تو پھر فیصلہ اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔

سر خالد صاحب! زبانوں کے ارتقاء یا ان کی ساخت کو شاید بیرونی عوامل سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ یا کم سے کم میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ زبانیں ایک قدرتی پیٹرن سے چلتی ہیں اور عروج و زوال کی منازل طے کرتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ کچھ شاعر ملے اور زبان کو ہر شخص کی زبان پر جاری کر دیا جیسے اردو کے حوالے سے میر تقی میر، یا ولی دکنی کو پڑھاتے ہوئے ہمیں بتایا جاتا ہے۔

نہ ہی زبانیں بیرونی طاقت بَہ یک جنبشِ قلم ختم کی جا سکتی ہیں جیسے غلط فہمی فارسی کے ہندوستان سے خاتمے کے بارے میں ہمیں پڑھائی جاتی ہے۔ یہ ایک سلو ریٹ کا پراسیس ہے جس میں صدیاں لگتی ہیں اور یہ خود کار نظام ہے۔

آپ جتنی کوشش کر لیں کسی زبان کو بچانے کی، اگر اس میں داخلی طور پر دم خم باقی نہیں رہا تو وہ مر کے رہے گی۔ آپ زمین آسمان ایک کر دیں کسی زبان کو مٹانے کے لیے لیکن اگر وہ زرخیز ہے تو نہیں مٹ سکے گی۔ تو میں اس لیے زبانوں کے بارے میں پریشان نہیں ہوا کرتا۔ کم از کم اس حوالے سے ہر گز نہیں کہ اردو کو پروان چڑھایا جائے اور دیگر زبانیں مفقود کر دی جائیں۔ نہیں ایسی شدت پسندی تو کبھی نہیں آئی۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

جس زبان میں جان ہوگی، آگے بڑھے گی۔ ورنہ کچلی جائے گی۔ جو زمانے کے اثرات کو قبول کر کے خود کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہو گی (اردو کی طرح) وہ دلوں پر راج کرے گی۔ جس زبان کو لوگ اپنے ملک… (یہاں سے چند لفظ جنس بے زار لسانی روہے کی وجہ سے حذف کیے گئے،جملے کو البتہ رواں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے: مدیر ایک روزن) تک محدود کر لیں گے وہ کچھ ہی عرصے میں معدوم ہو جائے گی، یا ہونے والی ہو گی (بعض مقامی زبانوں کی طرح)۔

خیر آپ کبھی بھی جبراً، یا عمداً یہ کام نہیں کر سکتے کہ مختلف زبانیں بولنے والوں کو ایک ہی زبان کا پا بند کر دیں۔ یہ غیر فطری ہو گا۔ دوسری (فی الحال نسبتاً چھوٹی) زبانوں کو بھی پرورش پانے اور پھلنے پھولنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک دور میں (پندرہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی عیسوی تک) اردو کو میسر رہا۔

آپ نے غور کیا تین چار سے انڈین فلمز کے گانوں میں پنجابی الفاظ کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ دس سال تک آپ کو پنجابی آمیز اردو سننے کو ملے گی۔ صرف اسماء کی حد تک نہیں، نحوی سطح پر بھی۔ ایسا ہی انگریزی کے ساتھ ہے۔ چھوٹی زبانیں ہمیشہ بڑی زبانوں کو آہستہ آہستہ نگل لیا کرتی ہیں، دیمک کی طرح چاٹ جایا کرتی ہیں۔ سو ہم زبانوں پر اثر انداز نہیں ہو سکیں گے۔

سر آپ مزید فرماتے ہیں:

چُناں چِہ میں سمجھتا ہوں کہ ماں بولی محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی اور حیثیت نہیں ہے۔

معذرت کے ساتھ! مجھے شدید اختلاف ہے آپ کے اس جملے سے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ مادری زبانوں پر ہونے والی سیاست، لسانی تعصبات اور پاکستان کی بَہ طور ایک قوم ترقی میں مادری زبانوں کو رکاوٹ سمجھ کر اس قدر خفا ہیں۔

لیکن قبلہ آپ یک سَر مادری زبانیں ختم نہیں کر سکتے، البتہ آہستہ آہستہ قومی مفاد کے لیے غیر محسوس طور پر خود ہی آپ دیکھیں گے کہ لوگ اردو کی طرف چل پڑے ہیں۔ 1950 کے مقابلے میں آج کئی گنا زیادہ تعداد ہے ایسی ماؤں کی جو اپنے بچوں کی اردو میں پرورش کرنے پر خصوصی توجُّہ دیتی ہیں۔ آپ ذرا وقت دیں۔ آپ نے یورپ کی مثال دی انھیں بھی صدیاں لگی ہیں زبانوں کی کثرت کو وحدت کی طرف لانے میں۔ آپ کے تو ابھی صرف بہتر سال ہوئے ہیں۔ ڈھکوسلا کسی صورت بھی نہیں۔ آپ کی قوم تشکیلی دور سے گزر رہی ہے۔

آپ اپنے گھر میں ہی دیکھ لیں۔ آپ کی اور آپ کے بہن بھائیوں اور اس جنریشن کی مادری زبان سرائیکی تھی کہ پرورش اس میں ہوئی۔ لیکن کیا آپ کے بچوں، آپ کے بہن بھائیوں کے بچوں اور اس جنریشن کی زبان بھی آپ سرائیکی دیکھ رہے ہیں؟ نہیں سر ایسا نہیں ہے۔ خوب سے خوب تر کا سفر جاری ہے۔

جب یہ نسل والدین میں تبدیل ہو گی تو یہ اپنی نئی پود کو انگریزی کی طرف لائے گی۔ سو سال یا ڈیڑھ سو سال بعد بہت فرق پڑ چکا ہو گا اور مقامی زبانیں بولنے والے شاید اِنڈینجرڈ سپی شِیز میں شمار ہو رہے ہوں گے یا اِکسٹِنکٹ ہو چکے ہوں گے۔

مسئلہ اس لیے خطر ناک ہو جاتا ہے کہ ہم اردو کو رابطے کی واحد زبان بنانے کے چکر میں مقامی زبانوں کا (ان کے شان دار لٹریچر سمیت) گلا گھونٹنا چاہتے ہیں جو کسی صورت بھی درست سوچ نہیں۔ آپ اپنی زبان کو ضرور ترقی دیں مگر دوسری زبانوں کو قتل کر کے نہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ گاؤں کے سارے بندے مارنے چل نکلے ہیں، خالد صاحب اپنے بچے کو چودھری بنانے کے واسطے۔

بھٹی صاحب نے مزید فرمایا:

میں آپ سے صرف اتنی بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا مقامی زبان سے زیادہ بہتر یہ نہیں ہو گا کہ ہم بَہ حیثیتِ ملک قوم اور گلوبل ویلیج کے فرد کی حیثیت سے ایک ایسی زبان اختیار کریں کہ جس سے ہم دنیا کی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائیں۔

قبلہ یہ کوششیں تو صدیوں سے جاری ہیں۔ مقامی زبانوں سے اردو کا بننا اور اب ماؤں کا بچوں کے انگریزی ذخیرۂِ الفاظ میں بڑھوتری کے طریقوں پر عمل کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہ عمل چلتا رہے گا کیوں کہ سب مانتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہے لیکن جتنی شدت اور تیز رفتاری سے آپ مطالبہ کر رہے ہیں وہ غیر فطری ہو جائے گی۔

پروفیسر شازیہ نصیب سومرو:

بہت خوب صورت اچھا اور مدلل انداز ہے سر نوید مہدی صاحب بہت شکریہ۔

مگر سوال یہ بھی ہو سکتے ہیں:

  1. کیا زبان کی ترویج میں صوتی آہنگ بھی کردار ادا کرتا ہے؟
  2. لہجہ اور اُس کے اثرات بھی رنگ آمیزی کرتے ہیں؟

حافظ جمشید احمد:

نوید آپ نے خالد صاحب کے مضمون کے مجموعی اجزاء کا بالترتیب تجزیہ کیا اور اپنی رائے دی۔ بہت عمدہ باتیں کیں پڑھ کر دل خوش ہوا۔ اب میں اپنی چند معروضات پیش کر کے اپنے تئیں بحث کو سمیٹتا ہوں۔

میرے خیال میں انسان کے تین بنیادی مسائل ہیں:

  1. شناخت
  2. رابطہ
  3. جاننا

مادری زبان آدمی کی ذاتی شناخت کا مرحلہ طے کرتی ہے۔ قومی زبان وسیع رابطے کی اساس فراہم کرتی ہے؛ اور بین الاقوامی زبان وسیع پیمانے پر جاننے کا ذریعہ بنتی ہے۔

ایسی کوشش تو کی جا رہی ہے کہ مادری زبان چھوڑ کر قومی زبان کو قبول کر لیا جائے۔ بَل کہ اس سے ایک قدم آگے بھی کوشش جاری ہے کہ قومی زبان سے آگے بین الاقوامی زبان کو اختیار کر لیا جائے، لیکن اس طرح کی کوششیں کبھی بھی کام یابی سے ہم کنار نہیں ہو سکیں۔

اگر مقامی زبان کو چھوڑیں گے تو شناخت کا سفر ادھورا رہ جائے گا۔ شناخت نہ ہو گی تو وسیع تر رابطے کا سفر کیسے طے ہو گا؟ وسیع تر سطح پر جاننے کا علمی مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔

ان تینوں معاملات کو مرحلہ وار چلنا چاہیے جس کے لیے ضروری ہے کہ مقامی زبان، قومی زبان اور بالآخر بین الاقوامی زبان کی مرحلہ وار ترویج کی جائے۔

وما علینا الا البلاغ

پروفیسر خالد نذیر:

میں ان تمام صاحبان کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے علاقائی، قومی اور بین الاقوامی زبان کی اہمیت اور ان کی شناخت و ارتقاء کے حوالے سے مباحثہ میں بھر پُور شرکت کی اور اپنا اپنا حصہ شامل کیا۔

محترم ڈاکٹر عبیداللہ

محترم ڈاکٹر مظہر حسین

محترم پروفیسر جمشید احمد

محترم پروفیسر شازیہ نصیب سومرو

محترم پروفیسر نوید مہدی

 اپنے چھوٹے بھائی

محترم ضیغم رضا صاحب کا ممنون ہوں کہ ایک عرصے سے رکی ہوئی گروپ کی علمی فضا کو بیدار کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر مظہر:

ماشاء اللہ بہت ہی کم عرصے میں ایک بھرپُور مباحثہ پایۂِ تکمیل تک پہنچانے پر ہم گروپ کے تمام اراکین کو تہنیت پیش کرتے ہیں اور فورم کے بہترین استعمال کرنے کے لیے اور ایک عمدہ تحقیقی مقالہ پیش کرنے، وسیع القلبی سے احباب کو سننے پر پروفیسر خالد کو خصوصی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔