ادب اور ادبی رسائل

Aurangzebniyazifb
ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی

ادب اور ادبی رسائل

از، ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی

جبر اور مفاد کی فضا میں اعلا ادب تخلیق نہیں ہو سکتا۔ جبر کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کسی زمانے میں اردو ادب بھی ریاستی جبری پاپندیوں کا شکار تھا۔ سنسر بورڈ ہوتا تھا، افسانوں پر مقدمات بنتے تھے، رسالے بند ہوتے تھے اور نظموں پر شاعروں کو اُٹھا لیا جاتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔

ادب کے اندر وہ جوہر ہی باقی نہیں رہا تو جبر کیسا؟ ادب کی رہی سہی مزاحمتی طاقت سوشل میڈیا نے سلب کر لی اور ادیب ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اب ریاست اور اداروں کی نظر میں کسی بڑے ادیب کے پچاس صفحات کے ایک مضمون سے ٹویٹر ٹرینڈ اور کوکا کولا کا وہ اشتہار زیادہ طاقت کا حامل ہے جو چند منٹ میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

چُناں چِہ اب جبر نچلی سطح پر منتقل ہو گیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ادبی گروہوں، لابیوں اور سیاستی جماعتوں کے ادبی وِنگز نے ایک دوسرے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ ادیب کو ادب کے دائرہ تک، اور اس کے اندر مزید چھوٹے دائرے تک محدود کر دیا گیا ہے۔

ادھر ادیب نے اس دائرے سے باہر قدم نکالا، اُدھر دُشنام کے تیروں نے اس کی عمر بھر کی پونجی والی پوٹلی کو چھید چھید کر دیا۔

مستنصر حسین تارڑ اور ظفر اقبال جیسے مقبول اور سینئر ترین ادیبوں کا حال ہمارے سامنے ہے۔ ان حالات میں ادبی رسائل اور آزاد رائے رکھنے والے ادیبوں سے کچھ زیادہ کی توقع دیوانے کا خواب لگتی ہے۔ اگر چِہ بازارِ ادب میں دکانوں کی تعداد ہزاروں نہیں تو سیکڑوں میں ضرور ہے اور ہر طرف مندا ہی مندا ہے، لیکن پھر کچھ ایسے بھی ہیں جو خالص اور کھرا مال لے کے بیٹھے ہیں۔

خاکسار نے ایک زمانے میں سہ ماہی تضمین کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا تھا۔ ڈیکلریشن کے لیے سرکار کے حضور درخواست دی تو رسالے کا نام تین بار مسترد ہو گیا۔

کسی دوست کی سفارش لے کر رجسٹر تک رسائی ہوئی، متعلقہ اہل کار نے بتایا، بَل کہ دکھایا کہ صرف پنجاب میں مختلف زبانوں کے بارہ سو سے زاید رسالے اور اخبار نکلتے ہیں، یا نکلتے تھے۔

یہ 2007 سِنہ کی بات ہے۔ اب کی صورتِ حال کا علم نہیں۔ سب ادبی رسائل تک تو شاید کسی لائبریری اور ادارے کی رسائی بھی نہ ہو، لیکن جو رسائل ادب کے استاد اور طالبِ علم کی نظر سے با قاعدگی سے یا گاہے گاہے گزرتے ہیں، ان میں سے بھی چند ایک ہی ہیں جن کو پڑھ لینے کے بعد اپنے وقت کے ضیاع کا احساس نہیں ہوتا۔

 اردو میں اس وقت دو طرح کے رسائل ہیں: خالص تحقیقی رسائل، اور تخلیقی رسائل۔ یہ تفریق ہائر ایجوکیشن کمیشن نے علمی تحقیق کے معیار کو بلند کرنے کے لیے قائم کی ہے۔

لیکن بد قسمتی سے اس کا اُلٹا اثر ہوا ہے۔ تحقیقی رسائل یُونی ورسٹیوں کی ملکیت ہیں اور ان پر صدُورِ شعبہ کا اجارہ ہے۔ یہ بارٹر سسٹم کے تحت چلتے ہیں، یعنی ان میں زیادہ تعداد یونی ورسٹیوں کے اساتذہ کے مقالات کی ہوتی ہے (معیار جیسا بھی ہو)۔

جب کہ تخلیقی رسائل سے مراد وہ رسائل ہیں جو انفرادی طور پر شایع کیے جاتے ہیں اور ان میں تحقیق و تنقید کے علاوہ تخلیقی اصناف بھی شامل ہوتی ہیں۔ اب کچھ ذکر ان ادبی رسائل کا۔


آپ کے ذوق کی نذر:

شخصیت نگاری صرف عیب جُوئی یا توصیف نگاری نہیں ہوتی: فسادِ خلق والی تحریریں از، کشور ناہید

علامہ اقبال کے کلام میں پنجابی کرداروں کا سوال ، پنجابی مسلمان اور حلقہ 120 کے نتائج  از، تنویر ملک


تحقیقی رسائل

بازیافت پاکستان میں اردو کی قدیم ترین درس گاہ اوری اَینٹل کالج کے شعبۂِ اردو کا تحقیقی مجلہ ہے۔ یہ رسالہ طویل عرصے تک اوری اَینٹل کالج کی علمی اور تحقیقی روایت کا امین رہا ہے۔

اردو کے قد آور محقق اور نقاد اساتذہ اس کے مدیر رہے ہیں۔ آخری بار ڈاکٹر تحسین فراقی کی ادارت میں راشدؔ، میرا جی اور حالیؔ پر خصوصی نمبر نکالے گئے۔ فراقی صاحب کے بعد یہ رسالہ بَہ یَک وقت چھتیس چھتیس طلباء کا بوجھ اُٹھاتا رہا۔

یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر ایچ ای سی نے اس اہم پرچے کو اپنے منظور شدہ جرائد کی فہرست سے خارج کر دیا۔ اوری اینٹل کالج نے اپنی تاریخ میں شاید ایسا دن پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ اب شعبۂِ اردو کے موجودہ صدر ڈاکٹر زاہد منیر عامر اس کی کھوئی ہوئی عزت بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

بنیاد ایک نجی تعلیمی ادارے لَمز، Lahore University of Management Sciences سے نکلتا ہے۔ اس کا تازہ شمارہ چند روز پہلے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی ادارت میں شایع ہوا ہے۔ تازہ شمارے کے مشمولات بالخصوص اس شمارے کا اداریہ بتاتا ہے کہ ڈاکٹر نیر اردو میں تحقیقی رسائل کی ایک نئی روایت کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اداریہ اردو دراسیات کے حوالے سے ہے۔ امید ہے کہ یہ رسالہ آگے چل کر اردو کی تخلیقی اصناف پر تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ اردو کے تاریخی، لسانی اور ثقافتی منطقوں کو بھی دریافت کرے گا۔

معیار بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد سے ڈاکٹر عزیز ابن الحسن کی ادارت میں شایع ہوتا ہے۔ یہ شش ماہی رسالہ ہے۔ دوسرے رسائل کی نسبت اس کا سائز اور حجم بھی زیادہ ہے۔ ڈاکٹر عزیز معیار کے معیار کو قائم رکھنے میں خلوصِ نیت سے کوشاں رہتے ہیں، اس لیے کام یاب ہیں۔

مخزن قائدِ اعظم لائبریری لاہور سے شایع ہوتا ہے۔ اس کے دورِ جدید کے پہلے مدیر ڈاکٹر وحید قریشی تھے۔ ان کی وفات کے بعد ادارت کی ذمے داری شہزاد احمد نے سنبھالی اور اب ڈاکٹر تحسین فراقی اس کے مدیر ہیں۔

ڈاکٹر وحید قریشی نے مخزن کے لیے جو معیار اور تحقیقی راہ متعین کی تھی، یہ اس پر کام یابی سے گام زَن ہے۔ مجلس ترقیِ ادب کا مجلہ صحیفہ بھی ڈاکٹر تحسین فراقی کی ادارت میں با قاعدگی سے شایع ہوتا ہے اور اپنے مخصوص تحقیقی مزاج کو بر قرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ دونوں رسائل تحقیقی ہیں لیکن ایچ ای سی کی فہرست میں شامل نہیں۔

 تخلیقی رسائل

دنیا زاد کی ترقی اور اعلا معیار مرحوم آصف فرخی کی ادب کے ساتھ بے لوث کمٹ-منٹ کا ثمر تھا۔ فرخی صاحب گزشتہ ماہ یہ فانی دنیا چھوڑ گئے۔ ان کی بعد ان کا دنیا زاد جاری رہتا ہے یا نہیں، جاری رہے گا تو اس کیا معیار کیا ہو گا؟ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

کراچی ہی سے مکالمہ مبین مرزا کی ادارت میں شایع ہو رہا ہے اور اپنے مخصوص مزاج کے ساتھ جاری ہے۔ لاہور سے سویرا کا 100 واں شمارہ محمد سلیم الرّحمان کی ادارت میں حال ہی میں شایع ہوا ہے۔ یہ اگلے وقتوں کی یادگار اور ادبی روایتوں کا امین ہے۔

سلیم صاحب کو ہند و پاک کے سب اہم لکھنے والوں کا قلمی تعاون حاصل ہے اور نئے لکھنے والے سویرا میں شایع ہونے کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔

اجمل کمال نے آج کے ذریعے اردو دنیا کو عالمی ادیبوں سے رُوشناس کرانے کے علاوہ کئی مقامی ادیبوں کو عالمی ہونے کے گمان میں بھی مبتلا کیا ہے۔ طویل وقفے کے بعد نصیر احمد ناصر نے تسطیر کو دوبارہ سے جاری کیا ہے، اور اب یہ پوری آن بان سے شایع ہوتا ہے۔

ممتاز احمد شیخ نے بہت کم عرصے میں لوح کو اعتبار اور انفراد دیا ہے۔ بڑی تقطیع کا یہ ضخیم پرچہ نقوش، فنون اور اوراق کی یاد دلاتا ہے۔

ادبیات اکادمی ادبیات کے زیرِ انتظام شایع ہوتا ہے۔ کل سے اس کے ناول نمبر کی دھوم ہے۔ تازہ شمارہ ابھی دیکھا نہیں لیکن گزشتہ شماروں کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ خاصے کی چیز ہو گا۔

پیلھوں ملتان سے ڈاکٹر انوار احمد کی ادارت میں شایع ہوتا ہے۔ یہ کبھی دو زبانوں، کبھی تین اور کبھی چار زبانوں کا بار اُٹھائے ہوتا ہے۔ خالد فیاض نے گجرات سے تناظر کے نام سے ایک ادبی رسالہ شروع کیا تھا، لیکن بہت عرصے سے اس کی کوئی خیر خبر نہیں آئی۔ تخلیق اور الحمرا بھی اپنی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کے علاوہ بھی بہت سے رسائل شایع ہوتے ہیں۔ جن میں سے کچھ تو مدیران کا شوقِ محض ہیں، لیکن قابلِ قدر ہیں کہ اس گئے گزرے زمانے میں خسارے کا سودا کیے بیٹھے ہیں۔ جب کہ کچھ مدیر صاحبان کی ادبی انویسٹ-مَنٹ ہیں، جن کے ذریعے وہ مختلف عہدے داروں، کانفرنسوں کے منتظمین، یونی ورسٹیوں کے صدورِ شعبہ اور میڈیا پرسنز کی خوشنودی حاصل کرنے میں کام یاب ٹھہرتے ہیں۔

نوٹ: یہ حتمی فہرست نہیں ہے۔ ممکن ہے کچھ اچھے رسائل کا نام رہ گیا ہو۔ آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ جو رسالے میرے علم میں ہیں اور میری نظر میں  معیاری ہیں، صرف ان کا ذکر کیا ہے۔