واقعہ کربلا اور ہندو شعرا

picture of author
زمرد مغل

واقعہ کربلا اور ہندو شعرا

از، زمرد مغل

اردو زبان و ادب نے جس طرح واقہ کربلا کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ایسا فارسی اور عربی میں بھی نہیں ہو پایا۔ کربلا ایک لڑائی یا دو فریقوں کے درمیان حق و باطل کی جنگ کا نام نہیں ہے کربلا نام ہے زندگی کے کئی اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کا، سچائی کے ساتھ کھڑے ہونے کا اور اس کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی کی تیاری کی تربیت کا نام کربلا ہے۔ویسے تو اردو کی ہر صنف میں اس واقعہ کو شعرا نے اپنی تخلیق کا حصہ بنایا ہے اردو شاعری میں کربلا کے موضوع کو جتنی اہمیت دی گئی ہے اس کی مثال کسی دوسری زبان میں ملنا مشکل ہے۔ اردو ادب کی تاریخ اس سانحہ کے بغیر نامکمل ہے واقعہ کربلا نے اردو شاعری کو نہ صرف متاثر کیا ہے بل کہ اردو کی کئی اصناف تو واقعہ کربلا کے بغیر نا مکلمل ہیں۔ جن میں مرثیہ، سلام، نوحہ، اور منقبت نہایت ہی اہم ہیں۔

اردو میں کربلا کے موضوع پر نہ صرف مسلم شعرا نے خراج تحسین پیش کیا ہے بل کہ غیر مسلم شعرا کی خدمات کو بھی کسی طرح فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کی موجودہ صورت حال میں اور اب سے پچاس سو سال کی اردو میں بہت فرق آیا ہے۔ اردو اب کی طرح صرف مسلمانوں کی زبان نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ ایک مشترکہ کلچر کی زبان تھی جو ہندوستان کے باہمی اختلاط سے وجود میں آئی تھی۔ جسے ہندو، مسلمان سکھ اور عیسائی اپنی زبان سمجھتے تھے اور اسے بولنے اور اس زبان میں لکھنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔

ایک زمانے میں بغیر مذہب کئی لوگوں کی مادری زبان اردو ہی تھی، اور جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی وہ اس زبان کو پڑھنا چاہتے تھے۔ اب وہ صورت نہیں رہی مگر آج بھی اردو سیکولر زبان کا پرچم بلند کیے ہوئے ہے۔ اور آج بھی اردو ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ گویا اظہار کی زبان آج بھی اردو ہی ہے۔

اردو زبان و ادب میں مرثیہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ اس میں اس زمانے کی تاریخ و تہذیب وہاں کا رہن سہن وہاں کی آب و ہوا وہاں کی دکھ اور پریشانیوں کا اظہار جس طرح ہوتا ہے وہ کسی اور صنف میں ممکن نہیں۔ لکھنوی اور اودھی تہذیب کا جتنا مؤثر اظہار صنف مرثیہ میں ہوا ہے اس کی بھی مثال ملنا مثکل ہے۔

حضرت امام حسین کی قربانی اور کربلا میں پیش آنے والے واقعات نے نہ صرف مسلمانوں بل کہ غیر مسلم کو بھی اس رنج و الم شدت سے محسوس نہ کیا ہو اردو کی نثر ی اور شعری تخلیقات میں غم حسین کو اسی شدت کے ساتھ پیش کیا گیا جس کا وہ واقعہ حق رکھتا تھا۔ لیکن اردو شاعری نے جس طرح اس غم کو اپنے رگ و پے میں پیوست کیا کہ اردو کی کئی اصناف تو کربلا سے منسوب ہوکر رہ گئی اور اب مرثیہ کا ذکر آتے ہی غم حسین اور واقعہ کربلا آنکھوں کے سامنے آنے لگتا ہے۔ اردو نے اپنی ابتدا سے ہی غم حسین کو اپنا غم بنایا اور اسی لیے اردو میں ہر بڑے لکھنے والے نے اسے اپنی شاعری اور نثر کا موضوع بنایا۔

دکن، لکھنو اور دلی کے دبستان میں لکھا جانے والا ادب اس کی نادر و نایاب مثال ہے کہ کس طرح مجلس حسین ہمارے ادب کا ایک حاوی موضوع رہا ہے۔ اور کس طرح ہمارے ادیب و شاعر وں نے غم حسین کو محسوس کیا اور اسے اپنی تخلیق کا موضوع بنایا۔ بات ہو رہی تھی غیر مسلم شعرا کی جنہوں نے خانواداے رسول کی اس عظیم شہادت کو نہ صرف شدت کے ساتھ محسوس کیا بل کہ اسے اپنی تخلیق کا موضوع بھی بنایا۔

حسین کی قربانی صرف اسلام یا مسلمانوں کے لیے دی گئی قربانی نہیں تھی بل کہ یہ تو ایک آفاقی پیغام تھا جو حسین دے گئے کہ جب بھی حق و باطل میں جنگ ہو تو ہمیشہ حسین کی طرح حق کی سر بلندی کے لیے اپنی جان بھی نچھاور کرنی پڑے تو اس بھی گریز نہ کرو۔ یہ عالمی درس ہے جو درس گاہ حسین سے ساری انسانیت کوملا اور جب جب معرکۂ حق و باطل ہوگا حق کے طرف دار حسینی ہوں گے اور باطل کے طرف دار یزیدی۔ اس پیغام سے ہندو اور مسلمان شعرا نے فکری غذا حاصل کی اور اسے عام کرنے کی کوشش کی کہ ہندو اور مسلمانوں کے ساتھ کی کئی ہزار سالہ تاریخ ہے جسے آج ہم گنگا جمنی تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ ہندوستان میں امام بار گاہوں میں ہندو بھی اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے شریک ہوتے ہیں جیسا کہ اہل بیت کے ماننے والے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ میں سب سے زیادہ متاثر امام حسین سے ہوا ہوں۔ احمد سہیل اپنے ایک مضمون میں ذکر کرتے ہیں:

’’اہل ہند کی خانوادہ رسولﷺ سے عقیدت اور خاص طور پر شہید کربلا سے عشق و محبت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خود ہندو مذہب کی چند بہت قدیم ویدوں میں سرکار ختمی ﷺ اور ان کے والدین سے متعلق ان کے ناموں کے ساتھ پیشن گوئی موجود ہے۔ نیز حسینی برہمن بھی کربلا کے حوالے سے اپنی ایک تاریخی حیثیت کے دعویدار ہیں۔‘‘

اب کربلا اور شہادت امام حسین کے بارے میں ہندو شعرا کے کلام کے چند نمونے پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ حسین کا غم سارے جہان کا غم:

ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر
ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی
رام پرکاش ساحر
وہ دل جو خاک نہ ہو جس میں اہل بیت کا غم
وہ پوٹے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں
رائے بہادر بابو اتار دین
حسین ابن علی ہیں فرد یکتا
کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہو گا
دیا سر آپ نے رائے خدا میں
کیا دین نبی کو دین اپنا
جگر بندو علی و فاطمہ ہے
رسول اللہ کا پیارا نواسا
کیا آل نبی کو قتل صد حیف
مسلمانو کیا یہ ظلم کیسا
ولائے سبت پیغمبر ہے نعمت
یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا
سر کش پرشاد
انسانیت حسین ترے دم کے ساتھ ہے
ماتھر بھی اے حسین ترئے غم کے ساتھ ہے
یا
مسلمانو کا منشاء و عقیدت اور ہی کچھ ہے
مگر سبط نبی سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے

منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی