شہرہ آفاق مرثیہ نگار چنو لال دلگیر

شہرہ آفاق مرثیہ نگار چنو لال دلگیر

شہرہ آفاق مرثیہ نگار چنو لال دلگیر

شہرہ آفاق مرثیہ ”گھبراۓ گی زینب” ایک ہندو شاعر منشی چنو لال دلگیر نے لکھا ہے۔ منشی چنو لال دلگیر میر انیس سے بھی پہلے چار سو سترہ مرثیے لکھ چکے تھے۔ یوں تو مرثیہ ”گھبرائے گی زینب” لکھنو کی مجالس میں طویل عرصے تک پڑھا جاتا رہا، لیکن مرحوم ناصر جہاں کے منفرد انداز نے اِسے ایک نئی شکل عطا کی اور اب اُن کے فرزند نے بھی اپنے والد کے ہی انداز میں اس مرثیے کو پڑھا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ الله ناصر جہاں اور منشی چنو لال دلگیر کو امام حسین کے جوار میں مقام عطا فرمائے۔

چنو لال کے بھائی راجو لال بھی شہدا کربلا کے بارے میں بہت عزت اور گہرے جذبات رکھتے تھے۔ ٹھاکر گنج میں ان کا بنوایا گیا امام بارگاہ آج بھی ان کی اس وابستگی کی دلیل ہے۔

اپنے بھائی کی اہل بیت سے محبت دیکھ کر چنو لال نے واقعہ کربلا کی پوری تاریخ پڑھی اور امام حسین اور ان کے اصحاب کے جذبہ قربانی اور بہادری سے بہت متاثر ہوئے۔ چنو لال خود زبان میں لکنت کی وجہ سے اپنا کلام نہیں پڑھ سکتے تھے لیکن ان کا لکھا گیا کلام زبان زدِ عام ہو گیا۔ یہ اُن کی واقعہ کربلا سے سچی عقیدت کا مُنھ بولتا ثبوت ہے۔

چنو لال نے بطور شاعر رومانویت اور غزل لکھنے سے آغاز کیا لیکن مرثیہ نگاری شروع کرنے کے بعد انہوں نے غزل وغیرہ لکھنا چھوڑ دیا اور اپنی تمام لکھی ہوئی غزلیں موتی جھیل میں پھینک کر خود کو صرف مرثیہ لکھنے کے لیے مخصوص کر دیا۔

تاریخ میں یہ بات بھی موجود ہے کہ منشی چنو لال مشہور شاعر ناسخ کے شاگرد تھے اور مرزا فصیح اور میر خالق کے ہم عصر تھے۔ شاعر مصحفی نے ان کی تعریف میں یہ بات بھی بیان کی ہے کہ چنو لال کا تخلص ترب تھا۔ جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ چنو لال نےترب کا تخلص صرف اس وقت تک استعمال کیا جب تک وہ غزلیں لکھتے تھے۔ مرثیہ لکھتے ہوئے انہوں نے ہمیشہ دلگیر کا تخلص استعمال کیا۔


متعلقہ تحریر: کربلا کا زخم خوردہ استعارہ  از، سید نجم سبطین حسنی


مرثیہ نگاری کی وجہ سے چنو لال دلگیر کا نام اتنا مشہور ہوا کہ ایک بڑی تعداد میں لوگ یہ سمجھنے لگے کہ وہ مشور مرثیہ نگار مرزا دبیر کے استاد ہیں۔ گو کہ یہ بات تاریخی طور پر درست نہیں لیکن مرزا دبیر نے اس بات کے جواب میں کہا تھا کہ اگر دلگیر میرے استاد ہوتے تو یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہوتی۔

تاریخی شہادتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ چنو لال سترہ سو ستر سے اٹھارہ سو اڑتالیس تک زندہ رہے۔ وہ نواب سادات علی خان کے زمانے میں بھی زندہ رہے۔ اور نواب غازی الدین حیدر کی تاج پوشی کے بھی گواہ ہیں۔

شاہان اودھ میں اکبر حیدری نے نا صرف چنو لال دلگیر کی امام بارگاہوں کی تعمیر میں دل چسپی کی تعریف کی بل کہ ان کی جانب سے خوب صورت تعزیہ بنانے کو بھی سراہا۔

چنو لال کا ”مجموعہ مرثیہ مرزا دلگیر” لکھنو کے منشی ناول کشور پریس کی جانب سے شائع کیا گیا۔ منشی چنو لال کے فنِ مرثیہ نگاری پر عبور کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے

اکبر ہے نا قاسم ہے نا عباس دلاور
یہ میری رہائی تو ہے اب قید سے بد تر

اپنی زندگی کو مرثیہ نگاری اور اہلِ بیت کی محبت میں وقف کرنے والے چنی لال دلگیر کا ذکر علماء و ذاکرین سے شاذ و نادر ہی سننے کو ملتا ہے۔ جب کہ عوام الناس کی اکثریت بھی اس عظیم مرثیہ نگار سے نا واقف ہے۔ لہٰذا یہ تحریر ہماری جانب سے اِس عظیم ہندو محب اہلِ بیت کے بارے میں بنیادی اور مختصر معلومات سب تک پہنچانے کی ایک ادنی کاوش ہے۔

(بشکریہ: urdu.shafaqna.com)