متن اور بیانیہ معصوم نہیں ہوتے؟

Farrukh Nadeem

متن اور بیانیہ معصوم نہیں ہوتے؟

از، فرخ ندیم

قدیم زمانوں سے لے کر آج کے عہد تک بنی نوع انسان میں کچھ ایسا کہنے کی ضرورت یا خواہش ضرور محسوس کی جاتی رہی ہے جو عام حالات میں ممکن نہیں رہا۔ ثنوی نظام کی رو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عام حالات کے مقابلے میں کچھ خاص اور غیر معمولی حالات بھی ہیں جو سماجی نفسیات کے حوالے سے عام حالات سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عام حالات اور خاص حالات فطری دھارے نہیں بَل کہ دو مختلف زمانی و مکانی حالتیں (زمینی حقائق) ہیں جن میں انسان، اس کے تعلقات اور وہ جگہ جہاں یہ تعلقات تغیر پذیر ہوتے ہیں، کی تثلیث مکانی حالات و واقعات کے خد و خال وضع کرتی ہے۔

تنقیدی اور ثقافتی متون texts میں جہاں جہاں انسانوں اور افراد کے ساتھ ان کے پیشے بھی شامل ہوتے ہیں، مکانی حالت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسان، موچی، کلرک، بینک مینیجر، مزدور، افسر، بس ڈرائیور، طالب علم، سکول ماسٹر، مولوی، شدت پسند، سہولت کار، فدائی، پروفیسر، استانی، ورکنگ وومن، ہاؤس وائف، وزیر، مشیر، بیورو کریٹ، وائس چانسلر، وزیر اعلیٰ، جرنیل، گورنر، وزیرِ اعظم، ہیرو، ولن سب انسان ہیں لیکن یہ صفات اور شعبہ ہائے زندگی فطری ہیں نہ یہ شناختیں۔ کیوں کہ ان سب لسانی اکائیوں کی زمانی اور مکانی حالتیں سوشل کانسٹرکٹس یعنی سماج کی تعمیر کردہ ساختیں اور شناختیں ہیں۔

ان تمام ساختوں اور ان ساختوں کے ماحول میں موجود لسانی تشکیلات کا غیر ثقافتی مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اصولِ صف بندی یا اصولِ تجنیس ہمارے تنقیدی متون کا سر و کار نہیں۔ ادب، اور تنقید میں بھی عامیانہ رویہ اپنا کر انسان کی رہائش، آرائش اور آلائش کے سگنی فائنگ سسٹم (معنیاتی نظام) کو عمومیت کا شکار کرنا ادبی انصاف اور حقیقت نگاری سے رُو گردانی کے مترادف ہے۔ جب ہمارے معاشرے میں سب انسانوں کی سماجی تشکیلات سمتا وادی نہیں، یعنی کسی عقیدۂ مساواتِ انسانی Egalitarianism سے مشروط نہیں، تو ان کا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، ہنسی مذاق، بیانیہ، کلامیہ، مثالیں، جذبات و احساسات اور کسی خبر، واقعہ اور المیہ کی طرف ردِ عمل ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں۔

مذہب و مسلک، ذات پات، برادری اور رنگ و نسل، لسانی و جغرافیائی عصبیت کی موجودگی میں عام حالات کو ایک ہی مکان میں اور سے دیکھنے کا رواج تخلیقی عمومیت میں تشویش ناک حد تک وسعت کا سبب بنتا رہا ہے۔ عمل اور رد عمل، دونوں کی نوعیت کا تعلق زمین کے کسی ٹکرے جہاں انسان آباد ہیں اور ان کے حالات، کسی سپیس سے ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی معاشرتوں کی روز مریت معمولاتی نصابات سے مرتب ہوتی ہے۔ انسانی زندگیوں میں یہ معمولاتی تنوع سماجی، معاشی، ثقافتی، طبقاتی اور سیاسی صداقتوں کا عکاس اور ترجمان بھی ہے۔

عام حالات فطری نہیں بَل کہ معاشی، ثقافتی اور اقتصادی ہوتے ہیں۔ عصری تنقید میں یہ عام حالات بہت اہم لسانی ترکیب ہے جس کی معاشرتی تشکیل میں افراد کی ز بان، جسم، لباس، حرکیاتی نظام، نظریات، نشانات و علامات، سماجی و پیدا واری رشتے، مَیلانات و ترجیحات، مقاصد اور اظہاریوں کی آزادی اور حدود کا تعین شامل ہے۔

  • عام حالات میں ممکنات و امکانات کا سپیس کتنا ہے
  • ادیب اور قاری ایک ہی سپیس میں قرأت کے عمل سے جڑتے ہیں یا کہیں تفاوت اور اختلاف فاصلے پیدا کرتے ہیں
  • ثقافتی متن کس سانچے میں تیار ہوتا ہے اور اس سانچے کا نقشہ کیسے تیار ہوا
  • اس میں رعایت کس حد تک ہے وغیرہ

ایسے سوالات ہیں جن سے بشریات، نفسیات اور سماجیات کے ساتھ عصری ادبی تنقید بھی نبرد آزما ہے۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ ایک جگہ، خطے یا ریاست کی جغرافیائی حدود میں عام حالات و واقعات اور سماجی سر گرمیاں کنٹرولڈ بھی ہوتی ہیں اور آزاد بھی؟ کیا فرد یا سبجیکٹ کا ریاست سے تعلق غیر مشروط ہوتا ہے؟ سبجیکٹ جان دار بھی ہے، اور زبان دار بھی۔

یہیں سے نیچر اور کلچر میں فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ فرد کی جان تو نیچر کا معاملہ ہے لیکن اس کی زبان ثقافتی ہوتے ہوئے اسے ثقافت کا حصہ بناتی ہے۔ زبان اور یاد داشت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس لیے اس تعلق سے پیدا ہونے والی ذہن سازی طے کرتی ہے کہ کسی خاص معاشرے میں افراد کی محکومی اور آزادی کا تناسب کتنا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب خاص و عام (انسان) خاص اور عام تجربات سے گزرتے ہیں اور یہ تجربات ادیب خاص طور پر فکشن کے تخلیق کار کے فکری نظام کا حصہ بنتے ہیں تو (لا) شعوری طور پر آزادی کے مستحکم اور مضطرب نقوش متشکل ہوتے ہیں۔ فکشن کی تہوں میں ان نقوش کا تحرک موجود ہوتا ہے جس سے مکانی حالتیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔


متعلقہ: استعماری بیانیہ  از، معراج رعنا

درویش کی تنقید اور بیانیہ  از، فرخ ندیم

ما بعد جدیدیت، لبرل علوم اور ڈی کنسٹرکشن  از، ڈاکٹر صلاح الدین درویش


آج کی فکر کا اہم حصہ یہ بھی ہے کہ متن میں موجود مشہور لسانی ترکیب آزادئِ اظہار کی تعریف اور اس کا تعین کیا جائے اور تقابلی موازنہ کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ ایک خاص خطے کے ادبی (فکشنل) متون (آزادئِ اظہار کے تناظر میں) عالمی ادب کے مقابلے میں ارتقا کی کس سٹیج پر کھڑے ہیں۔ داستانوی ادب سے لے کر ما بعد جدیدیت دور تک کے تخلیق کاروں کا دائرۂِ اختیار کہاں تک ہے اور وہ کس حد تک قلم کے ضبط کا شکار (رہے) ہیں۔ ثقافتی ساختوں کا حصہ ہوتے ہوئے ہم سب جانتے ہیں کہ فریڈم آف سپیچ کا دائرۂِ کار ہر جگہ محدود ہے۔ اس کی بنیادی اور (لا) شعوری وجہ یہ ہے کہ سبھی انسانوں نے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر یا کسی بھی میدان سے ہو اپنے انفرادی اور سماجی سپیس سے دیکھنا، بولنا، سمجھنا اور لکھنا ہوتا ہے۔ یعنی سپیس اسمِ فعل کی وضاحت ہے جس میں کرنا، ہونا اور سہنا کی کُلی نامیات متشکل ہوتی ہے۔

ہر انسان کو (سماجی مکان میں) سہولیات اور مراعات و مقاصد اور خوابوں کی تعبیر کی خاطر اپنے سپیس کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے سپیس سے دیکھے جانے کی نظریاتی روایت دوسرے کے سپیس کے اقلیتائے minoritizing، دوسرائے otherising یا غیرائے جانے کا سبب بن جاتی ہے۔

یوں آزادئِ اظہار کا بیانیہ خواہ اس کا تعلق ادب و ثقافت کی کسی بھی صنف سے ہو، نظریاتی اور سیاسی عمل نظر آتا ہے۔ یہاں، قارئین کی خدمت میں عرض پیش کی جاتی ہے کہ لفظ نظریہ اور نظریاتی کو پورے سیاق و سباق اور عصری تناظر میں رکھ کر سمجھا جائے۔ بظاہر انسان دوست نظر آنے والی نظریاتی تخلیق ممکن ہے ایسی سیاست سے آلودہ ہو جو انسانی سوچ کو نظریاتی تضادات کا شکار کر دے۔ اور بظاہر ادب برائے ادب کا فلک شگاف نعرہ اصلاً اور عملاً ذہن ساز فیکٹری ہو جہاں سے ایسا متن تخلیق ہوتا ہو جو دوسروں کی نفی کا پرچاریہ propaganda ہو۔

اس طرح بظاہر خالص ادب کی لبادے میں پُر کشش نیٹ ورکنگ ساخت کر دی جاتی ہے جو غیر محسوس انداز میں قارئین کی شریانوں میں اتار دی جاتی ہے اور انہی ساختوں کا اثر بعد ازاں عام قارئین کا تصورِ ادب ٹھہرتا ہے۔ ادب اور سیاست یا ادبی سیاست جیسی تراکیب ہمارے ذہنوں کو نا گوار گزرتی ہیں۔ انہی تراکیب کا نو آبادیاتی ڈسکورس سے انسلاک ہو تو درست سمجھی جاتی ہے، لیکن اگر اسے مقامی آئیڈیالوجی کے تناظر میں دیکھا جائے تو غیر معقول تو جیہات پیش کی جاتی ہیں۔ یعنی ایڈورڈ سعید نے جو ثنوی نظام بنایا وہ مقامی مفکر کے لیے خاص کشش رکھتا ہے، لیکن خود مقامیت جن تضادات کا شکار ہے اسے نظر انداز ہی نہیں کیا جاتا بَل کہ تھیوریوں کی تمام اشکال کو غیر ضروری سمجھ کر رد کیا جاتا ہے۔

ہماری اجتماعی ذہن سازی کا تقاضا (مغرب سے) یک سَر مختلف ہے۔ سماج کے مقبول بیانیوں میں جہاں ادبی متون کی آفاقیت، حرمت، آقائیت اور حقانیت کی ترویج کی جاتی ہے وہیں ادب اور اس کے تخلیقی عمل کے پسِ پردہ ادیب کی اسطورہ سازی mythologising بھی کی جاتی ہے۔ جس سے مروج نظریات اور عام حالات کی جمودی ساختوں کو غیر مشروط ہم آہنگی نصیب ہوتی ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ ہم مِتھ شکنی کے عہد سے گزر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ طاقت اور سرمایے کے گٹھ جوڑ سے نئے اساطیر myths بھی ہمیشہ سے جنم لیتے رہتے ہیں جن کی رمز کشائی demystification سے تعبیرِ نو کا سفر جاری ہے۔ طاقت کے مراکز اور چھوٹے بڑے مِتھ ساز کار خانوں کو آخر ایک دن مِتھ شکن احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغرب کا مکین اپنی کھوج، تحقیقی اور تنقیدی مکالمے میں جس طرح کی آزادی کا لطف لے رہا ہے وہ ہماری پہنچ سے بہت دور (رکھ دی گئی ) ہے۔

درست کہ ہماری کچھ مشرقی اور تہذیبی روایات ہیں لیکن ان (میں سے کچھ) روایات سے کس قسم کے مکانات spaces جنم لے رہے ہیں کہ ثقافتی اور نصابی فضا بارودی ہوئی پڑی ہے۔ ہیبت ناک مانسٹرز کی تخلیق بھی انہی نام نہاد تہذیبی ساختوں کی پرچار کا ردِ عمل ہیں۔ عام طور پر جن خلاؤں کو تہذیب (دانستہ یا نا دانستہ) نظر انداز کرتی ہے، وہیں سے مانسٹرز پیدا ہوتے ہیں اور اپنی طاقت کا اعلان کرتے ہیں۔

تہذیبوں کے ٹکراؤ کو ماننے والے تہذیبوں میں مکالمہ پریقین نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے مغربی تنقید کی طرف شک اور خوف دونوں طرح کے نفسیاتی رویے سامنے آ رہے ہیں۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ دور دراز کے تصادم تو نظر آ جاتے ہیں، لیکن اپنی معاشرت کے باطنی ٹکراؤ نظر انداز کر دیے جاتے ہیں اور داخلی عِفریت Frankstein کو معصومیت اور سادگی جیسی سیاسی لسانیات سے منسوب کر کے عام معافی کا اعلان کردیا جاتا ہے۔

اگر مجھے در اصل کہنے کی اجازت دے دی جائے تو در اصل تہذیب کی تعریف ہی سیاست کا شکار نظر آتی ہے۔ اس تعریف میں سب سے پہلا نقص تو اس کی ساختوں میں طبقات اور طبقاتی نفسیات کا فطری ہونا ہے اور فطرائے naturalising جانا ہے۔ بجائے اس کے کہ اس داخلی تصادم کا سائنسی اور ساختیاتی مطالعہ کیا جائے، ایک ہی لاٹھی سے ہانک کر مکالمہ کے اختتام کا اعلان کر دیا جاتا ہے، اور دعائے خیر کرا دی جاتی ہے۔

ادبی، تنقیدی اور ثقافتی تھیوری سے خوف (میری نظر میں تھیورو فوبیا) ہمیں ایسے سپیس میں ٹھونستا چلا جا رہا ہے جہاں سانس لینے کو غنیمت جانا جاتا ہے اور مقبول بیانیوں کی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے تا کہ ترقی یافتہ اقوام کی کام یابیوں سے مکالمہ مشکل ہو جائے۔ تھیوری کا سادہ سا مطلب یہ کہ ثقافتی اور ادبی متون کو تھیورائز کرنا یعنی ایسی تنقید لکھنا جو فلسفیانہ انداز سے ادبی فن پارے اور اس کی مبادیات کو پرکھے اور اس کی نظریاتی اساس کو واضح کرے۔ کیا یہ انداز مشرقی یا مقامی نہیں ہو سکتا؟ کیا کسی مغربی مفکر نے مقامی ماڈل ساخت کرنے سے روکا ہے؟ کیا مشرقی یا مقامی طرز تنقید میں جمالیاتی مکان خاص نظریاتی اینٹوں سے ہی تعمیر ہوتا رہے گا؟

ہمارے ہی نہیں، کسی بھی کلچر میں متن کی طرف وجدانی رومانس کا رویہ مقبول بیانیہ کی حیثیت رکھتا ہے جس پر سوال اٹھانا عوامی نا گواری کا باعث بنتا ہے۔ ادبی تھیوری سے خوف کا ایک سبب مروج لسانی و ثقافتی تشکیلات کی حقانیت کی شکست ہے۔ اس طے شدہ یک طرفہ ذہن سازی سے متنی سیاست جاری رہتی ہے اور یک طرفہ صدق سازی truth making کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔

مقامیت میں مفاہیم کی تشریحات کی گنجائش مشکوک حد تک پاپولر کلامیوں سے مشروط رہی ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ مقامی تعبیرات فکری بحران کا شکار ہیں جس کی وجہ سے، عام طور پر، متن کے نامیاتی رشتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایسی جمود پسند روایت میں نہ تو ارتقا ممکن ہے اور نہ ہی مغربی علمی روایت سے مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔

آج کے عہد میں ثقافتی تنقید اس لیے بھی اہم محسوس ہوتی ہے کہ اس میں متن، سیاق اور تناظر کی تثلیث کو مد نظر رکھنے سے ادبی متون کو اسطورہ سازی کے عمل سے نہ صرف بچایا جا سکتا ہے بَل کہ تخلیقی ثقافت کا سائنسی مطالعہ بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ کسی جگہ، تخیل اور کلام میں ربط تلاش کر کے مکانی مسائل کی جان کاری کی جا سکتی ہے۔ تھیوری کے تمام مکاتبِ فکرکا مطالعہ ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ ادبی متون کی تعبیر و تشریح کے لیے محض جمالیاتی ہونا ضروری نہیں، کیوں کہ، ادب، زندگی کے جمالیاتی اور اسلوبیاتی محاسن کی ترجمانی کے علاوہ نقشہ ساز، مکان ساز اور ذہن ساز بھی ہے، ایک ہی سطح پر کسی نظریہ کے تابع بھی اور کسی حد تک آزاد بھی ہے۔ اس کے متون ایک ایسی ممکناتی اور امکاناتی کائنات بھی ہیں جو مقبول اصطلاح عام حالات کی ثقافتی سیاست، جذبات و احساسات کی نفسیاتی الجھنوں، پیچیدگیوں اور آئیڈل ازم کی فتح یا شکست سے کشید کی گئی ہوتی ہے۔

یہ متون ان عام حالات کی نظریاتی شکلوں سے جنگ کر کے یا اس کی ٹھوس ثقافتی تحریمات سے آنکھیں چار کیے بغیر بھی حاصل کیے گئے ہوتے ہیں۔ یوں ادب ایک ایسے سپیس کی تلاش میں رہتا ہے جہاں مکالمہ بھی ہے اور جس میں منظر، پس منظر اور پیش منظر کی تثلیث متشکل ہوتی ہے اور تخلیق کار کی موضوعیت بھی جو اس سپیس کی تصویر کشی سے سوچ کے نئے در واکرتی ہے۔

ادب اور تنقید میں انسانی جذبات و احساسات کو (انسانی) جِلد، شناخت، موضوعیت subjectivity، اور ثقافت سے الگ دیکھنے کی روایت جن اوراق پر لکھی گئی تھی وہ اپنے وقت میں کم اہم یا کم دل چسپ نہیں تھے نہ ہی موجودہ عہد میں ان کی شہرت با لکل ختم ہوئی ہے۔ لیکن مغرب ہو یا مشرق، زمانہ اور اس کے ذرائع پیدا وار بدلتے ہیں تو سوچ کا سپیس بدلتا ہے اور تصورات کی کشش بھی بدل جاتی ہے۔ ادبی تھیوری کا ظہور ایسے ہی ہے جیسے دنیا میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی جامعات میں قدیم و جدید متون کو اَز سَر نو دیکھنے کا سلسلہ چل نکلا۔ بنیادی طور پر یہ فکری رو متنی اورسوشل سپیسز (مکانات) کی آگہی کا سفر ہے۔