استعماری بیانیہ

ایک روزن لکھاری
معراج رعنا، صاحبِ مضمون

استعماری بیانیہ

(معراج رعنا) اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو
چھتر پتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی
کانپور، بھارت

عام رائے سے قطع نظر جب ہم تصورِ قوت کو متجسم کرتے ہیں تو اُس کی ایک مخصوص ہئیت اپنی تمام تر سیاسی،مذہبی اور لسانی برتری کے ساتھ نمایاں ہو جاتی ہے۔ جس طرح یہ بات ظاہر ہے کہ افراد کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں ٹھیک اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہونی چاہیے کہ قوت کی نمو اور اس کی ترویج کسی ادارے یا کسی نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ یعنی یہ کہ جب تک وہ تصور کسی مادی نظام سے اپنے رشتے کی توثیق (چاہے وہ رشتہ منفی ہو یا مثبت) نہیں کرتا تب تک اُس کی اہمیت عالمِ غیاب سے عالمِ حضور میں نہیں آتی۔ لہٰذا یہ بات سامنے آتی ہے کہ تصورِ قوت کی قدر و قیمت ہمیشہ اُس کی انجمادی حالت کی رہینِ منت ہوتی ہے، اور چونکہ انجمادی حالت خالص مادی نوعیت کی ہوتی ہے اس لیے وہ فکر اپنے سود و زیاں کے عناصر کو بہت دیر تک اپنے اندر پوشیدہ نہیں رکھ پاتی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اُس کی سب سے مضبوط ڈور اُس کے سود و زیاں کے سرے سے زیادہ مربوط ہوتی ہے۔ ارتباط کی یہی مضبوطی اُسے متحرک کرتی ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ اپنے معاشرتی اطراف سے ماورائے اطراف پھیلنے کا جواز خود مہیا کر لیتی ہے۔ اس نوع کے تصورِ قوت کی ماورائی شکل ہند برِ صغیر میں وسط اٹھارہویں صدی سے لے کر نصف انیسویں صدی تک دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی یہ کہ ۱۷۵۷سے لے کر ۱۸۵۸تک کا زمانہ برِ صغیر میں برطانوی تصورِ قوت کے پھیلاؤ کا وہ زمانہ ہے جہاں تمام شعبہ ہائے حیات میں تصادم کو مرکزیت حاصل تھی۔حاکم و محکوم کے مابین تصادم کے نتیجے میں ایک نئی سیاسی تہذیب معرضِ ظہور میں آئی جس نے نہ صرف یہ کہ پرانی سیاسی تہذیب کو پسِ پشت ڈال دیا بلکہ اُس نے بہت ساری حقیقتوں کو افسانوی رنگ بھی عطا کیا۔ مقامی تاریخ اور دیسی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنا برطانوی استعماریت کے نکاتِ کثیرہ کا ایک اہم نکتہ تھا جس کی حیثیت کسی سیاسی منشور سے کم نہ تھی۔

۱۸۰۰میں کلکتے میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کے تمام مستحن پہلو اپنی جگہ لیکن اس ضمن کی یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ یہیں سے استشراقی مطالعات کا ایک نیا paradigm ایک نئی نہج کی تشکیل بھی ہوئی جس نے بعد میں نو آبادیاتی نظام کے استحکام کو مزید مستحکم کیا۔ مشرقی تہذیب و تمدن کا مطالعہ حاکمانہ فکر کے زیرِ اثر ہونے کے نتیجے میں شعریات پر سیاست کا رنگ گہرا ہو گیا ۔ تاریخ سازی میں عصبیت اور گروہیت یا factionalism کو راہ ملی۔ مذہب کی نئی تعبیریں اور تفسیریں بیان کی گئیں۔ عقائد کو شکوک کے دائرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو برِ صغیر میں استعماری قوت کے پھیلاؤ کا آخری دور حد درجہ خطرناک تھا کہ یہیں سے جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ ذہنی اسیری کی بھی ابتدا ہوتی ہے۔ تاریخ کے وسیلے سے ثقافتی بیانیے کی تبدیلی کی جو نئی روش وسط اٹھارہویں صدی میں شروع ہوئی تھی وہ یہاں آکر اپنے اتمام واکمال کو پہنچ جاتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ بنی نوع انسان کی ابتدائی تاریخ میں ایسے بہت کم دور کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جہاں حاکم و محکوم کے بیچ کے رشتے مساوات کی بنیاد پر استوار نظر آتے ہوں۔ حاکم طبقے کی نفسیات میں برتری کا جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اُسے محکوم طبقات کی افضل سے افضل ترین قدریں بھی اسفل نظر آتی ہیں۔حاکم طبقے کا یہی نشۂ فضیلت اُسے”غیر” کی تہذیب و تمدن سے اُس کے افراد کے تمام انسلاکات بے معنی نظر آتے ہیں۔ نو آبادیاتی نظام کے مکمل استحکام کا سب سے نمایاں اثر تاریخ سازی کی علمی کدو کاوش پر مرتب ہوا۔

مہا بیانیہ یا meta-narrative کے تناظر میں آج جب ہم استعماری تاریخ اور اُس کے دعوؤں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سولہویں صدی سے پہلے ہماری کوئی تہذیبی تاریخ تھی اور نہ ہی کوئی علمی سرمایہ۔ گویا کوئی ایسا حوالہ موجود نہیں تھا جس سے ہمارے اکابرین کی اجتماعی زندگی کی ایک بھر پور شناخت متعین ہو سکے۔ استشراقی مطالعات کے وسیلے سے مستشرقین کا ایک ایسا گروہ سامنے آیا جس نے مشرقی تہذیب و تمدن کی شاندار وراثت میں پہلے تو متعدد شگاف کیے پھر اُن کی تشہیر کی اور آخر میں جو اُن کی مرمت کی تجویز بتائی وہ نو آبادیاتی نظام کی فضیلت کے آگے سر بہ سجود ہونے سے عبارت تھی۔

آپ کی دلچسپی کا ایک اور مضمون: تاریخ کیسے لکھی جاتی رہی، از حسن جعفر زیدی

اقتدار کی شعریات کا اُن پر اتنا غلبہ تھا کہ وہ یہ بھول گئے کہ تاریخ کی تبدیلی سے حقائق کی ناپیدی ممکن نہیں۔ یہ سچ ہے کہ۱۶۲۲ میں جہانگیر (۱۶۲۷۔۱۵۶۹) نے برطانیہ کے بادشاہ جیمس اول (۱۶۲۵۔۱۵۶۶) کو ایک خط لکھا تھا جس میں اُس نے اپنے محل کی آرائش کے لیے برطانوی نوادر کی استدعا کی تھی۔ جس کے نتیجے میں جیمس نے جہانگیر کے محل کو ٹھنڈا رکھنے کی تکنیک کاتحفہ بہم پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جیمس کا زمانہ اقتدار کے محدود ہونے کا زمانہ ہے۔ محدود اختیارات میں یہ ممکن نہیں کہ ہوا کو ٹھنڈا کرنے کا ایک بڑا تکنیکی منصوبہ جہانگیر کو منتقل کیا جاسکے۔ اس سلسلے کی دوسری حقیقت مورخہ Catherine Ella Blanchard Asher یوں بیان کرتی ہیں:

Furthermore, rather than an Anglicizing technology, air conditioning

was already an Indian art: the various palaces of Jahangir and his

family in several cities were outfitted with a sophisticated system

of cooling fountains and channels۔

Catherine Ella B.Asher, Architecture of Mughal India,

Page 79, Cambridge University Press.1992

یعنی یہ کہ ہوا کو ٹھنڈا کرنے کی تکنیک جو مختلف قدرتی اشیا کی مخلوطی حالت سے تیار کی جاتی تھی، وہ تکنیک اکبر کے زمانے سے مستعمل تھی۔ ایڈورڈ سعید نے بھی سولہویں صدی کے استعماری تعلقات کے تناظر میں تکنیک کی برآمدگی کا مقصد اُس کی برطانوی خود کاری بتائی ہے۔ مطلب یہ کہ بر آمد کی گئی تکنیک کی طرز پہ اشیاء یا goods کی تکمیل تھی جسے نوآبادیاتی خطوں میں فروخت کیا جاسکے۔

اسی طرح ایک انگریزی فوجی افیسر Stuart نے انیسویں صدی کے اوائل میں سلسلے وار مضامین لکھے تھے جو کلکتے سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ٹیلیگراف میں چھپے تھے۔ اس سلسلے کا ایک اہم مضمون ۱۸۰۹میں شائع ہوا تھا جس میں اسٹو وارٹ نے ہندوستان کیے نسائی حسنِ لباس کے متعلق لکھا تھاکہ نو آبادیاتی ہند کی یورپی خواتین اپنے معاصر یورپی لباس کی جگہ ساڑھی پہننا زیادہ پسند کرتی تھیں کہ یہ اُن کے نزدیک زیادہ پُر کشش لباس تھا۔

ٹھیک اسی طرح ایڈورڈ سعید تا عمر اس بات پر قائم رہے کہ یورپ نے پوری دنیا کو مغرب و مشرق جیسے دو حصوں میں منقسم کر رکھا ہے۔ استغراب و استشراق کے زمرے میں ایک کو متمدن اور دوسرے کو غیر متمدن سمجھا گیا۔ استغراب (occidentalism) کے حوالے سے یورپی خود کو استشراق کے مقابلے میں اشرف النسل سمجھتے تھے۔ اور اسی نظریے کی رو سے وہ استعماریت کا جواز پیش کرتے تھے۔ اس لیے انھوں نے کہا کہ یہ ان کا فرض تھا کہ وہ غیر متمدن دنیا کو متمدن بنائیں۔

ناقدین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس وقت اور گہرا ہوگیا جب استشراق سے متعلق مذکورہ صفات کو تعمیم سے متصف کر دیاگیا، اور پھر یورپ کے لوگ اس کا اظہار اپنے ادب پاروں اور مصادرِ اعلامیہ کے وسیلے سے کرنے لگے۔ نتیجے کے طور پر ان کے اس عمل سے مغربی ذہن میں مشرق کی کچھ ایسی شبیہیں خلق ہوئیں جو کسی بھی اعتبار س مستحسن نہیں تھیں۔

چلیے اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ بات ما ن لی جائے کہ یہ ایک متحرک قسم کا رویہ تھا جس کے مطالعے کی ابتدا ما بعدِ نو آبادیاتی عہد میں ہوئی تو پھر ان تحریروں کا کیا کیا جائے جو نوآبادیاتی عہد میں لکھی گئیں اور جس کا مطالعہ بھی مابعدِنو آبادیاتی عہد میں کیا جارہا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ مشرق کی تاریخ ، تہذیب، ثقافت ،سیاسی اور مذہبی قدروں کو مسخ کرنے کی روایت نوآبادیاتی عہدکا ایک ایسا سچا واقعہ ہے جس پر جھوٹ کی بڑی بڑی داستانیں گھڑی گئیں۔ مستشرقین کی تاریخی عصبیت اور ان کے سفر ناموں کی غلط بیانی قرۃ العین حیدر کے مندرجہ ذیل اقتباس سے پوری طرح واضح ہوجاتی ہے:

“تم جھوٹ بولتے ہو صاحب۔ ہمارے نوابوں کے یہاں بد انتظامی نہیں تھی۔ میں  کایستھ ہوں۔میرے پرکھ صدیوں سے مرشدآباد میں حکومت کا انتظام کرتے آئے ہیں۔میں آج بوڑھی گنگا کے کنارے اس جھونپڑی میں رہ رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے اپنی خوشحالی کے ساتھ ساتھ اپنے ہوش و حواس بھی کھو دیے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم جھوٹ بکتے ہو۔اور جب رادھے چرن غصے سے کانپنے لگے تو ان کو کلکٹر کے چپراسیوں نے کمرے سے باہر دھکیل دیاتھا، اس روز کمرے میں ایک انگریز مشنری بھی موجود تھا جو اپنا سفر نامہ لکھ رہا تھا اور یہ مکالمے سننے کے بعد اس نے قلم بند کیا تھا”بنگال کا ہندو مسلمان نوابوں سے نفرت کرتا ہے۔مسلمان ہندوؤں کے خون کے پیاسے ہیں۔اس ملک میں کوئی اتحاد نہیں۔ در اصل اسے ایک ملک کہنا ہی نہیں چاہئیے۔ یہ بہت سی اقوام کا مجموعہ ہے۔ جس میں ہندو مسلمان ہمیشہ آپس میں دست بگریباں رہتے ہیں۔یہ دونوں کبھی اکھٹے نہیں ہوسکتے”

“آگ کا دریا” قرۃ العین حیدر، ص ۔ ۸۱۶، ایجوکیشنل بک ہاؤس ۱۹۸۹

کوئی کچھ بھی کہے لیکن یہ سچائی اپنی جگہ ثابت ہے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مغربی فن کاروں اور ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں اسلام اور مسلمانوں کی نہایت غلط تصویریں پیش کی تھیں۔ ان کایہ کارنامہ آج بھی مغرب و مشرق کے درمیان اختلاف کا سبب بنا ہوا ہے۔ لہذا سعید اور ان کے جیسے دوسرے دانشوروں نے جب انیسویں صدی کے ادب پاروں کا ناقدانہ مطالعہ شروع کیا تو ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان کے اس طریقِ کار سے مغرب و مشرق کے درمیان کی خلیج مزید گہری ہوگی۔

معترضین یہ بھول جاتے ہیں کہ انیسویں صدی کے مغربی مصنفین اور فن کاروں نے مشرق اور اسلام کو مغربی عینک سے دیکھنے اور ان کا مغربی مذاہب سے تقابل کرنے کی غلط شروعات کی تھیں جو کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں تھی کیوں کہ اس کے پسِ پشت ان کی بد نیتی کار فرما تھی۔ مغربی مستشرقین کے ذریعے پیش کیے گئے فنونِ لطیفہ خصوصا لوحات (paintings) کی مثال سے بھی استعماری عصبیت نمایاں ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان تصویروں سے اسلامی اقدار کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے کہ اس زمانے کی اکثر تصویروں میں حرم کے شہوت انگیز مناظر دکھائے گئے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ تصویر اس وقت بنائی گئی جب مغربی دنیا کا عربوں سے جزوی تعلق یا تو تجارتی یا عسکری سطح پر قائم تھا۔ اس ضمن میں Louis-Robert de Cuvillon کی تصویر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مستشرقین کے زیادہ تر افعال سیاست زدہ تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی اعتقاد کو درست تسلیم نہیں کرتے تھے۔ خود نو آبادیاتی ہندستان کی تصویروں میں اکثر ہندستانی عورتوں کو طوائف یا انگریزی میم کی خادمہ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ جب کہ جنوری ۱۸۸۸کے برطانوی اخبار  The Sentinelنے یہ لکھا تھا کہ بمبئی(Bombay) کے بدنام علاقے میں زیادہ تر یورپی خواتین بحیثیت رعیت کے موجود تھیں اور جو مقامی طوائفوں سے (کہیں) زیادہ جری اور بے شرم تھیں۔ اخبار کے الفاظ ہیں:

In Bombay’s red-light area were tenanted by European

women, more bold and shameless than native prostitutes

Woman and Empire, Indrani Sen, Page 15, Orient Longman. 2002

چونکہ استعماری بیانیے کی بافت میں جگہ جگہ تعصبانہ عناصر موجود ہیں اس لیے اُن کے مطالعۂ محض سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ اُنھیں ردِ تشکیلی قرات کے حوالے سے سمجھا جائے۔ ممکن ہے کہ اسی سے حقیقت کی وہ دنیا ظہور میں آئے جو استعماری بیانیے کی تہ میں دبی ہوئی ہے۔